بی وائے ڈی کا چین سے باہر عالمی پھیلاؤ کا منصوبہ پاکستانی آٹو سیکٹر کی قسمت پلٹ سکے گا؟

دنیا بھر میں الیکٹرک گاڑیاں فروخت کرنے والی چینی کمپنی بی وائے ڈی کے پاکستان میں برانڈ لانچ کے ساتھ جہاں ایک طرف اس کا عالمی نیٹ ورک مضبوط ہوتا نظر آ رہا ہے تو وہیں پاکستان کے آٹو سیکٹر کے لیے نئے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔
بی وائے ڈی
Getty Images

دنیا بھر میں الیکٹرک گاڑیاں فروخت کرنے والی چینی کمپنی بی وائے ڈی کے پاکستان میں برانڈ لانچ کے ساتھ جہاں ایک طرف اس کا عالمی نیٹ ورک مضبوط ہوتا نظر آ رہا ہے تو وہیں پاکستان کے آٹو سیکٹر کے لیے نئے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔

پاکستان میں بی وائے ڈی کے لوکل پارٹنرز ’ہب کو‘ کا کہنا ہے کہ کراچی میں اس کا نیا مینوفیکرچنگ پلانٹ سنہ 2026 تک آپریشنل ہو جائے گا۔

اگرچہ ان کا منصوبہ ہے کہ ’اگلے پانچ برس میں ہر تیسرا پاکستانی بی وائے ڈی کار کا مالک ہو‘ تاہم مبصرین کی رائے میں تاحال جو گاڑیاں شو کیس کی گئی ہیں انھیں دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ کمپنی پاکستان میں ’ایلیٹ طبقے‘ کے لیے ’پریمیئم ایس یو ویز‘ اور الیکٹرک کاریں بنانا چاہتی ہے۔

کمپنی کی طرف سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ بی وائے ڈی کے ذریعے پاکستان الیکٹرک گاڑیوں کا ’ایکسپورٹ ہب‘ بن سکتا ہے۔

یہ بات دراصل حال ہی میں کمپنی کے چین سے باہر پھیلاؤ کو بھی ظاہر کرتی ہے۔

بی وائے ڈی نے سنہ 2026 کے اواخر تک ایک ارب ڈالر کی لاگت سے ترکی میں بھی ایک مینوفیکچرنگ پلانٹ قائم کرنے کا اعلان کر رکھا ہے جہاں ’سالانہ ڈیڑھ لاکھ‘ تک گاڑیاں بنائی جائیں گی۔

ترکی میں بننے والی بی وائے ڈی کی گاڑیوں پر وہ اضافی ٹیرف اور امپورٹ لاگو نہیں ہو گی جو یورپی یونین نے چینی گاڑیوں پر عائد کر رکھی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ترکی یورپی یونین کے کسٹمز یونین کا حصہ ہے۔ جبکہ مئی میں امریکہ نے بھی چینی گاڑیوں پر ٹیرف بڑھائے تھے۔

یہ بات اس چیز کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ بی وائے ڈی نے یورپی اور امریکی سختیوں سے بچنے کے لیے چین کے باہر اپنی پیداور بڑھانے کی ٹھان لی ہے۔

گذشتہ سال کے اواخر میں بی وائے ڈی نے یورپی یونین کی ریاست ہنگری میں بھی پلانٹ بنانے کا اعلان کیا تھا۔یہ یورپ میں بی وائے ڈی کی گاڑیاں بنانے والی پہلی فیکٹری ہو گی اور ہنگری کو امید ہے کہ اس سے ہزاروں نوکریاں پیدا ہوں گی۔

اب تک بی وائے ڈی کا تھائی لینڈ میں قائم کردہ ای وی پلانٹ آپریشنل ہوچکا ہے جس کی سالانہ ڈیڑھ لاکھ گاڑیاں بنانے کی صلاحیت ہے اور اس سے 10 ہزار نوکریاں پیدا ہونے کا امکان ہے۔

کمپنی کی طرف سے میکسیکو میں بھی ایک پلانٹ قائم کرنے کی بات چیت چل رہی ہے۔

بی وائے ڈی
Getty Images
پاکستان میں بی وائے ڈی کا برانڈ لانچ

بی وائے ڈی کا پاکستان میں کیا منصوبہ ہے؟

بی وائے ڈی نے پاکستان میں میگا موٹرز کے ساتھ اشتراک کیا ہے جو پاکستان میں توانائی کی بڑی کمپنیوں میں سے ایک ہب پاور کا حصہ ہے۔

ہب پاور کے سربراہ کامران کمال کا کہنا ہے کہ ابتدائی طور پر پاکستان میں بی وائے ڈی کا برانڈ لانچ اور لوکل پارٹنرشپ کا اعلان کیا گیا ہے جس کے بعد 2024 کے اواخر میں اِن گاڑیوں کی فروخت شروع ہو جائے گی۔ ان کے مطابق بُکنگ اور ڈیلیوری کی تفصیلات اگلے مرحلے میں ظاہر کی جائیں گی۔

بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے وہ بتاتے ہیں کہ بی وائے ڈی کے پاس گاڑیوں کی ایک وسیع رینج ہے جس میں عالمی سطح پر دو درجن سے زیادہ گاڑیاں فروخت کی جا رہی ہیں مگر ان کے مطابق پاکستان میں ابھی بی وائے ڈی کے تین ماڈلز اوٹو تھری، سیل اور سیلیون سِکس شوکیس کیے گئے ہیں۔ ’جہاں تک فائنل پراڈکٹس اور قیمتوں کا تعلق ہے تو اس کے لیے ایک مشاورتی عمل ہوگا۔‘

کامران کمال بتاتے ہیں کہ ایک بڑی سرمایہ کاری کے ذریعے کراچی میں بی وائے ڈی کی نیو انرجی وہیکلز کی تیاری کے لیے ایک پلانٹ تعمیر کیا جا رہا ہے جو 2026 تک آپریشنل ہوجائے گا۔

ابتدائی طور پر بی وائے ڈی کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں تین فلیگ شپ سٹورز بنانے کا بھی ارادہ رکھتا ہے جبکہ پہلے تین برس میں 20 سے 25 ڈیلرشپس قائم کی جائیں گی۔

کامران کمال کا خیال ہے کہ پاکستان کو نیو انرجی وہیکلز کا ’ایکسپورٹ ہب‘ بنایا جا سکتا ہے۔ ’بی وائے ڈی نے اشتراک کے لیے انڈیا کی بجائے پاکستان کا انتخاب کیا اور اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اس موقع سے فائدہ اٹھائیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ اس موقع سے نوکریاں پیدا ہوں گی، معاشی پیداوار بڑھے گی اور اس سے لوگوں کی صلاحیتوں میں اضافہ ہو گا۔

پاکستان کے لیے ’ایکسپورٹ ہب‘ بننے کا موقع

اگرچہ یہ امکان ہے کہ شو کیس کی گئی یہی تینوں گاڑیاں پاکستان میں باقاعدہ لانچ کر کے فروخت کی جائیں تاہم ہب کو کے سربراہ کامران زور دیتے ہیں کہ پاکستانی مارکیٹ سے متعلق طویل مدتی منصوبوں میں صارفین کی قوت خرید کو مدنظر رکھنا بہت ضروری ہوگا۔

وہ بتاتے ہیں کہ بی وائے ڈی سنہ 2030 تک دنیا کی سب سے بڑی گاڑیوں کی کمپنی بننا چاہتی ہے۔

’ہم پاکستان میں قوت خرید کو ضرور دیکھیں گے۔ ایک برانڈ کے لیے پریمیئم ہونے کے ساتھ ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کی پہنچ میں ہو۔‘

ہب پاور کے سربراہ نے بتایا کہ چینی کمپنیاں الیکٹرک گاڑیوں میں بہت آگے ہیں جبکہ مستقبل میں پلگ اِن ہائبرڈ اور ہائبرڈ گاڑیوں کی طرف رجحان بھی پیدا ہو سکتا ہے لیکن سب سے اہم چیز ایک ایسے معیار تک پہنچنا ہے جو لوگوں کی پہنچ میں ہو۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ہر بندہ چاہتا ہے کہ میں اپنی بہترین پراڈکٹ شو کیس کروں، جو بہت مہنگی نہ ہوں لیکن پھر بھی وہ میری بھرپور صلاحیت بھی ظاہر کرتی ہوں۔

’ہمارا طویل مدتی منصوبہ ہے کہ اگلے پانچ برس میں ہر تیسرا پاکستانی شہری بی وائے ڈی کی گاڑی کا مالک ہو۔ یہ اس کے بغیر کیسے ممکن ہو گا کیونکہ پاکستان کوئی بہت زیادہ امیر ملک تو نہیں۔‘

اس موضوع پر بات کرتے ہوئے انھوں نے پاکستان میں گاڑیوں کے پارٹس کی درآمد پر اضافی ڈیوٹی کا حوالہ دیا اور کہا کہ فی الحال ملک میں پلگ اِن ہائبرڈ گاڑیوں کے لیے ڈیوٹی سٹرکچر اتنا موزوں نہیں۔

یہاں یہ قابل ذکر ہے کہ بی وائے ڈی فی الحال پاکستان میں نیو انرجی وہیکلز یعنی الیکٹرک اور ہائبرڈ گاڑیاں لانا چاہتی ہے مگر ملک میں گاڑیوں کی موجودہ صنعت پیداوار کے اعتبار سے سست روی کا شکار ہے۔

ٹاپ لائن سکیورٹیز کے ڈپٹی ہیڈ آف ریسرچ سنی کامران کا کہنا ہے کہ یہ گاڑیاں روایتی کاروں سے مہنگی ہوتی ہیں تو ایسے میں ڈیڑھ، دو کروڑ کا پرائس رینج امیر طبقے کو ٹارگٹ کرے گا۔

پاکستان میں ای وی پالیسی کے تحت آغاز میں کمپنی کی چین میں تیار کردہ 100 امپورٹڈ گاڑیاں (سی بی یوز) آئیں گی اور ان کی ٹیسٹنگ و فروخت کے بعد دو سال میں اسمبلی پلانٹ لگانا لازم ہو گا۔

سنی کامران بی بی سی کو بتاتے ہیں کہ چونکہ کمپنی کی ایک عالمی امیج ہے، اس لیے ابتدائی طور پر ممکن ہے کہ زیادہ قیمتوں کے باوجود اس کی طلب میں زیادہ ہو۔

مگر صورتحال تب زیادہ واضح ہوگی جب کمپنی بُکنگ شروع کرے گی اور سی بی یو یونٹس کے ریویوز بھی یہ طے کریں گے کہ آیا کمپنی رینج، قیمت، ڈیلیوری جیسی چیزوں پر اپنے وعدے پورے کرتی ہے۔

کمپنی کو چارجنگ سٹیشنز اور انفراسٹرکچر کی قلت کا بھی سامنا رہے گا جس پر کام ہونا ابھی باقی ہے۔

پاکستان میں اگر گاڑیوں کی خرید و فروخت کے اعداد و شمار پر نظر دوڑائی جائے تو چھوٹی اور سستی کاریں زیادہ بِکتی ہیں اور گاڑی خریدنے کے فیصلے میں شاید فیچرز سے زیادہ قوت خرید معنی رکھتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ آٹو سیکٹر کے ماہر مشہود علی خان کے بقول پاکستان میں سالانہ محض 35 سے 40 ہزار ایس یو ویز سمیت مہنگی کاروں کی ’ایلیٹ‘ مارکیٹ ہے جس کا مڈل کلاس سے کوئی لینا دینا نہیں۔

تاہم اگر چین میں گاڑیوں کی خرید و فروخت کے حوالے سے بی وائے ڈی کو دیکھا جائے تو کم قیمتوں کے اعتبار سے اسے کافی پذیرائی ملتی ہے۔

تھرڈ بریج کی تجزیہ کار روزلی شن نے روئٹرز کو بتایا تھا کہ چین میں وہ گاڑیاں جن کی قیمت 21 ہزار ڈالر (تقریباً 58 لاکھ 51 ہزار پاکستانی روپے) سے کم ہے، ان میں بی وائے ڈی کے پاس ’پرائسنگ پاور‘ ہے، یعنی قیمت پر اس سے جیتنا مشکل ہوتا ہے کیونکہ یہ ’گلاس اور ٹائروں کو چھوڑ کر قریب تمام پرزے خود ہی بناتی ہے۔‘

مگر پاکستان کو آٹو پالیسیز میں رد و بدل اور معاشی بحران جیسی مشکلات کا سامنا رہتا ہے جس سے مشہور علی خان کے مطابق گاڑیوں کی مقامی صنعت پنپ نہیں پاتی۔

وہ کہتے ہیں کہ موجودہ حالات میں قوت خرید میں کمی کے علاوہ کار لیزنگ کے راستے بھی تنگ ہوئے ہیں مگر انھیں امید ہے کہ جیسے جاپانی کمپنیوں نے تھائی لینڈ اور انڈونیشیا سمیت کچھ دوسرے ملکوں کو ایکسپورٹ ہب بنایا ویسے ہی چینی کمپنیاں اس کام کے لیے پاکستان کے وسائل استعمال کر سکتی ہیں۔

ان کی رائے میں یہ پاکستان کے لیے اچھا موقع ہوسکتا ہے، بشرطیہ کہ اس حوالے سے درست پالیسیاں مرتب کی جاتی ہیں۔

مگر اس کے لیے ٹیکنالوجی کی منتقلی ایک بڑا سوال ہے۔ مشہود کہتے ہیں کہ ملک میں گاڑیوں کے اسمبلرز کا معیار اور کارکردگی میں بہتری اسی صورت ممکن ہوسکتی ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.