گوجرانوالہ کے سکول میں کینٹین والے پر بچیوں کے ریپ کا الزام: ’بیٹی نے چیخ کر کہا کہ میرے قریب نہیں آنا مجھے ڈر لگتا ہے‘

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے وسطی شہر گوجرانوالہ میں پولیس نے ایک ایسے شخص کو گرفتار کیا ہے جس پر سرکاری سکول میں زیر تعلیم متعدد کمسن بچیوں کا ریپ کرنے اور ان کی ویڈیوز بنانے کا الزام ہے۔
Getty Images
Getty Images

’میرے پاؤں تلے سے اس وقت زمین نکل گئی جب میں کام سے واپس آیا اور اپنی بیٹی کے سر پر ہاتھ پھیرا تو اس نے اونچی آواز میں چیخ ماری اور والدہ کے ساتھ لپٹ کر رونے لگی اور ساتھ یہ کہنے لگی کہ میرے قریب نہیں آنا مجھے ڈر لگتا ہے۔‘

یہ الفاظ روزانہ اجرت کی بنیاد پر کام کرنے والے ایک شخص (جن کا نام ظاہر نہیں کیا جارہا) کے ہیں جن کی 13 سال کی بیٹی ایک سرکاری سکول میں چوتھی جماعت کی طالبہ ہیں۔

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے وسطی شہر گوجرانوالہ میں پولیس نے ایک ایسے شخص کو گرفتار کیا ہے جس پر سکول میں زیر تعلیم متعدد کمسن بچیوں کا ریپ کرنے اور ان کی ویڈیوز بنانے کا الزام ہے۔

سینٹرل پولیس آفیسر (سی پی او) گوجرانوالہ کا کہنا ہے کہ تین بچیوں سے ریپ کی تصدیق ہوئی جبکہ دو کے ساتھ ریپ کی کوشش کی گئی۔

سی پی او گوجرانوالہ رانا ایاز سلیم کے مطابق اس حوالے سے مقدمات درج کر لیے گئے ہیں اور مرکزی ملزم کو گرفتار کر کے اس کا موبائل، نازیبا تصاویر اور ویڈیوز بھی برآمد کر لی گئی ہیں۔

سی پی او کا کہنا تھا کہ تمام تر شواہد جمع کر کے لیبارٹری بھجوائے جا رہے ہیں اور کیس کی میرٹ پر تفتیش کر کے ملزم کو سزا دلوائی جائے گی۔

’ملزم دھمکی دیتا کہ ویڈیو سوشل میڈیا پر شیئر کر دے گا‘

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے متاثرہ بچی کے باپ کا کہنا تھا کہ بچی کی ذہنی حالت دیکھ کر تمام گھر والے گھبرا گئے اور ان کی اہلیہ اپنی بیٹی کو ایک الگ کمرے میں لے گئیں اور اس سے اس کی ذہنی حالت کے بارے میں پوچھا کہ وہ ایسا برتاؤ کیوں کر رہی ہے۔

متاثرہ بچی کے والد کے مطابق بچی نے پہلے تو کچھ نہیں بتایا پھر جب اس کی والدہ نے اسے اعتماد میں لیا تو اس نے بتایا کہ جس سکول میں وہ تعلیم حاصل کرتی ہیں، وہاں کینٹین چلانے والے شخص نے متعدد بار مختلف حیلے بہانوں سے انھیں بلا کر ریپ کیا۔

متاثرہ بچی کے والد کا کہنا تھا کہ ان کی بیٹی نے بتایا کہ ’ملزم یہ بھی دھمکی دیتا تھا کہ اس نے ریپ کے دوران بچی کی جو ویڈیو بنائی، وہ اسے سوشل میڈیا پر شیئر کردے گا۔‘

بچی کے والد کا کہنا تھا کہ ان کی بیٹی نے بتایا کہ ملزم ان کی ٹیچر کا شوہر ہے۔

انھوں نے بتایا کہ یہ سکول گوجرانوالہ کے علاقے تھڑی سانسی کے محلہ سلیم پورہ میں واقع ہے اور پانچ مرلے کے ایک مکان میں ہے، جس کے اوپر والے حصے میں سکول جبکہ نیچے والے حصے میں ملزم اپنی فیملی کے ساتھ رہتا ہے۔

بچی کے والد نے بتایا کہ ملزم کے تین بچے ہیں اور اس کی بڑی بیٹی کی عمر 14 سال ہے اور وہ ان کی بیٹی کی کلاس میں ہی پڑھتی ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ ملزم اپنی فیملی کے ساتھ گذشتہ 15 سال سے اس علاقے میں رہ رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

BBC
BBC

ایف آئی آر میں کیا کہا گیا؟

گوجرانوالہ کے تھانہ صدر میں کمسن بچیوں کو ریپ کا نشانہ بنانے کے پانچ مقدمات درج کیے گئے ہیں۔

اگرچہ یہ پانچوں مقدمات الگ الگ افراد کی مدعیت میں درج کیے گئے ہیں لیکن ایف آئی ار کا متن تقریباً ایک جیسا ہے جس میں ملزم پر کمسن بچیوں کا ریپ کرنے اور ان کی مبینہ ویڈیوز بنانے کا الزام ہے۔

اس مقدمے کے تفتیشی افسر وقاص نے بی بی سی کو بتایا کہ ملزم کے قبضے سے دو موبائل برآمد کیے گئے ہیں جس میں کمسن بچیوں کی نازیبا ویڈیوز موجود ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ ملزم کے زیر استعمال موبائل کو فرانزک کے لیے لیبارٹری بھجوا دیا گیا۔ انھوں نے مزید بتایا کہ ملزم کو متعلقہ عدالت میں پیش کر کے اس کا جسمانی ریمانڈ حاصل کیا جائے گا۔

تفتیشی افسر کے مطابق ابتدائی تفتیش کے دوران ملزم نے بتایا کہ ’ان کمسن بچیوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنانے میں ان کی اہلیہ کا بھی ہاتھ ہے‘ تاہم تفتیشی افسر کا کہنا تھا کہ ابھی تک ملزم کی اہلیہ کو حراست میں نہیں لیا گیا۔

’بچیاں ڈری ہوئی تھیں اور کوئی آواز نہیں اٹھا رہا تھا‘

مقامی صحافی راجہ حبیب بتاتے ہیں کہ ان کی معلومات کے مطابق یہ گذشتہ دو سے تین سال سے ملزم بچیوں کو ریپ کا نشانہ بنا رہا تھا لیکن بچیاں اس سے ڈری ہوئی تھیں اور کوئی اس کے خلاف آواز نہیں اٹھا رہا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ حالیہ چند دنوں میں اس سکول میں زیر تعلیم طالبات نے جرات کا مظاہرہ کیا اور والدین کو اس بارے میں آگاہ کیا۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے راجہ حبیب کا کہنا تھا کہ جس علاقے میں یہ وقوعہ ہوا وہاں کے کچھ مکینوں نے مقامی میڈیا کے نمائندوں کو بتایا تھا کہ اس سکول میں کچھ مشکوک حرکتیں ہو رہی ہیں لیکن ناکافی ثبوتوں کے باعث کوئی کارروائی نہیں ہو پا رہی۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ سرکاری نہیں بلکہ نیم سرکاری سکول ہے اور یہ نان فارمل ایجوکیشن سسٹم کے تحت چلایا جا رہا ہے اور صوبائی یا ضلعی حکومت ایسے سکولوں کی کچھ مالی معاونت کرتی ہے۔

دوسری جانب چائلڈ پروٹیکشن بیورو کے اعلی حکام کو متاثرہ بچیوں کے والدین سے رابطہ کرنے اور انھیں قانونی معاونت فراہم کرنے کے لیے ہدایات جاری کر دی گئی ہیں۔

گوجرانوالہ کی ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسر فوزیہ زریں نے بی بی سی کو بتایا کہ متاثرہ پانچ بچیوں میں سے تین اس سکول میں رجسٹرڈ ہیں جبکہ دو بچیوں کے بارے میں معلوم نہیں کیونکہ ان کی انرولمنٹ اس سکول میں نہیں ہوئی تھی۔

انھوں نے کہا کہ نان فارمل ایجوکیشن سکول ایسی جگہوں پر کھولے جاتے ہیں جہاں پر محروم طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد اکثریت میں رہتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ اس سکول کو سلیم پورہ میں قائم ہوئے سات سال کا عرصہ ہو چکا ہے۔

ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسر فوزیہ زریں کا کہنا تھا کہ بچیوں کے ساتھ ریپ کا واقعہ سامنے آنے کے بعد محکمہ تعلیم کے ڈائریکٹر جنرل نے ایک کمیٹی بنائی ہے جو جلد ہی اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔

انھوں نے کہا کہ واقعے کے بعد اس سکول کی ایک خاتون ٹیچر کا بیان بھی ریکارڈ کیا گیا اور اس ٹیچر نے بتایا کہ بدھ کے روز سکول بند ہونے کے بعد وہ گھر گئی تھیں اور ان کی موجودگی میں ایسا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.