قد بڑھانے کے لیے کروائی گئی ٹانگوں کی سرجری جو ایک ’خوفناک تجربہ‘ ثابت ہوئی

یہ سنہ 2016 کی بات ہے جب 49 سالہ ایلین کی قد بڑھانے کے لیے پانچ مرتبہ سرجری ہوئی اور تین ہڈیوں کے گرافٹس ہوئے۔ اس میں ان کی زندگی بھر کی کمائی لگ گئی اور وہ اپنے سرجن کے خلاف قانونی کارروائی کرنے پر مجبور ہوگئيں۔

(انتباہ: اس کہانی میں ایسی تفصیلات ہیں جو قارئین کے لیے پریشان کن ہو سکتی ہیں۔)

ایلین فو کی ٹانگوں پر جامنی رنگ کے بڑے بڑے نشان ہیں اور یہ ان کے ٹانگوں کی لمبائی میں اضافے کے لیے کروائی گئی سرجریکی نشانی ہیں جو کہ ان کے لیے ایک خوفناک تجربہ ثابت ہوا تھا۔

یہ سنہ 2016 کی بات ہے جب 49 سالہ ایلین کی قد بڑھانے کے لیے پانچ مرتبہ سرجری ہوئی اور تین ہڈیوں کے گرافٹس ہوئے۔ اس میں ان کی زندگی بھر کی کمائی لگ گئی اور وہ اپنے سرجن کے خلاف قانونی کارروائی کرنے پر مجبور ہوگئيں۔

لیکن یہ مقدمہ جولائی میں ڈاکٹر کو بغیر کسی سزا کے نمٹا دیا گیا لیکن ڈاکٹر کو ایک خطیر رقم ادا کرنی پڑی۔

سرجری کے بعد کی تکالیف میں ایک مرتبہ ان کی ٹانگمیں موجود لوہے کا ایک کیل ان کی ہڈی میں گھس گیا، جبکہایک بار انھیں یوں لگنے لگا کہ ان کی ٹانگ کو ’اندر سے بھنا جا رہا ہے‘ یعنی انھیں اپنی ٹانگوں میں شدید جلن کا احساس ہونے لگا۔

ایلین کہتی ہیں کہ ’میری زندگی آگ پر چلنے کی آزمائش کی طرح تھی لیکن میں بچ گئی۔‘

ایلین کا علاج کرنے والے ڈاکٹر نے کسی بھی قسم کی لاپرواہی برتنے کی تردید کی اور کہا کہ کچھ پیچیدگیوں کے بارے میں ایلین کو پہلے سے آگاہ کر دیا گیا تھا اور کچھ مسائل ان کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہیں۔

ایلین کو ہمیشہ ہی اپنے قد سے شکایت تھی۔

وہ کہتی ہیں کہ ’12 سال کی عمر تک میں اپنی عمر کی زیادہ تر لڑکیوں سے لمبی تھی، لیکن 14 سال کی عمر میں میں اچانک سب سے چھوٹی نظر آنے لگی۔ وقت گزرنے کے ساتھ مجھ پر دراز قد ہونے کا جنون سوار ہو گیا۔ قد کا مطلب بہتر اور زیادہ خوبصورت ہونا ہے۔ مجھے یہ احساس ہونے لگا کہ لمبے لوگوں کے لیے زیادہ مواقع ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ بالغ ہونے کے بعد ان میں دراز قد ہونے کا جنون مزید بڑھ گیا۔

ایلین کا خیال ہے کہ انھیں باڈی ڈسمورفیا تھا۔ یہ ایک ایسی ذہنی حالت ہے جس میں کوئی شخص اپنی ظاہری شکل کے بارے میں فکر مند ہو جاتا ہے، اس سے قطع نظر کہ دوسرے لوگ اسے کیسے دیکھتے ہیں۔ اس ذہنی کیفیت کا اثر بہت تباہ کن ہو سکتا ہے۔

قد بڑھانے کی سرجری پر مضمون

جب ایلین 25 سال کی ہوئیں تو انھوں نے ایک چینی کلینک کے بارے میں ایک مضمون پڑھا جس میں ٹانگوں کو لمبا کرانے کے لیے لوگوں کیسرجری کے بارے میں لکھا گیا تھا۔

اس تحریر میں ٹانگوں کی لمبائی بڑھانے کے علاج کے طور پر قرون وسطی کے پاؤں کے پنجروں اور اس سے ہونے والے انفیکشن کے بارے میں تفصیلی معلومات فراہم کی گئی تھی۔ اگرچہ یہ کسی کے لیے بھی کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں تھا لیکن ایلین کی اس میں دلچسپی بڑھنے لگی۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں جانتی ہوں کہ لوگ اس پر سوال اٹھائیں گے لیکن جب آپ باڈی ڈسمورفیا کا شکار ہوتے ہیں تو اس بات کا کوئی منطقی جواب نہیں ہوتا کہ آپ کو اپنا جسم اتنا برا کیوں لگتا ہے۔‘

اس واقعے کے 16 سال بعد ایلین کو لندن میں ایک پرائیویٹ کلینک کا علم ہوا جہاں اس قسم کی سرجری کی جاتی تھی۔

یہاں ہڈیوں کو لمبا کرنے کے ماہر آرتھوپیڈک سرجن ژاں مارک گیوشے یہ خدمات انجامدے رہے تھے اور انھوں نے اس کے لیے اپنا گیوشے نیل نامی آلہ بھی ایجاد کیا تھا۔

وہ یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ اس معلومات نے ان میں خوشی کی لہر بھر دی۔ ’یہ بہت خوشی کا لمحہ تھا کیونکہ سرجری لندن میں ہی ہو سکتی تھی اور میں گھر پر رہ کر ہی صحت یاب ہو سکتی تھی۔‘

ڈاکٹر گیوشے اس میں آنے والی پیچیدگیوں کے بارے میں واضح تھے،جن میں اعصاب کو پہنچنے والے نقصان، خون کے جمنے، ہڈیوں کے دوبارہ بڑھ کر جڑنے میں ناکامی وغیرہ۔

لیکن میں نے اپنے طور پر کافی تحقیق کر رکھی تھی اور یہ کہ میں ایک بہت مہنگے ڈاکٹر کے پاس جا رہی تھی اس لیے مجھے ان سے بہت زیادہ توقعات تھیں۔ میرا خواب پانچ فٹ دو انچ کے قد سے بڑھ کر پانچ فٹ پانچ انچ کے قد کا ہونا تھا۔‘

ایک کروڑ روپے کی سرجری

بالآخر 25 جولائی کو 50,000 پاؤنڈ (تقریباً پونے دو کروڑ پاکستانی روپے) کی لاگت سے ان کی سرجری ہوئی اور اس سے انھیں یہ توقع تھی کہ یہ ان کی زندگی بدل دے گی۔

ٹانگوں کو لمبا کرنے کی طبی سہولت نسبتاً زیادہ عام نہیں ہے لیکن یہ دنیا کے کئی نجی ہسپتالوں میں دستیاب ہے اور اس کی قیمت 30 لاکھ روپے سے لے کر تین کروڑ روپے تک ہوسکتی ہے۔

ایلین بتاتی ہیں کہ ’جب میں نے سرجری کے بعد آنکھیں کھولیں تو میں بہت خوش تھی اور ایسا لگا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ مجھے کوئی درد نہیں تھا لیکن 90 منٹ کے بعد میری ٹانگوں میں ناقابل برداشت درد ہونے لگا ایسا محسوس ہونے لگا جیسے میری ٹانگیں اندر سے جل رہی ہیں۔ اس پہلی رات میں صبح چھ بجے تک چیختی رہی اور چیختی ہوئی حالت میں سو گئی۔‘

اس طرح کی سرجری میں تھوڑا درد ہوتا ہے کیونکہ ٹانگ کی ہڈی کو دو حصوں میں توڑ دیا جاتا ہے اور ان کے درمیان دھات کا ایک راڈ ڈال دیا جاتا ہے۔

اس دھات کے راڈ کو آہستہ آہستہ ٹوٹی ہڈی کے دو حصوں کے درمیان طے شدہ لمبائی تک بڑھایا جاتا ہے تاکہ مریض کا قد بڑھ جائے۔

عام طور پر ہڈیوں کے یہ دونوں حصے دوبارہ جڑ جاتے ہیں اور ان کے درمیان خالی جگہ کو بھر دیتے ہیں۔ اس کا آپریشن بہت پیچیدہ ہوتا ہے اور یہ تو بس اس کی ابتدا ہے۔

برٹش آرتھوپیڈک ایسوسی ایشن کے سابق سربراہ پروفیسر ہمیش سمپسن خبردار کرتے ہیں کہ ’مکمل صحت یابی کے لیے اس عمل میں دو سے تین ماہ لگتے ہیں لیکن آپ پوری طرح سے کام کرنے کے لائق ہوں اس کے لیے مزید دو گنا زیادہ وقت لگتا ہے۔ زیادہ تر لوگوں کے لیے اس میں ایک سال لگ جاتا ہے۔‘

شدید درد

سرجری کا مرحلہ ختم ہو چکا تھا اور اب ان کے ٹانگوں کی لمبائی بڑھانے کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ دن میں کئی بار انھیں اپنے پاؤں کو ٹھیک کرنے کے لیے تکلیف دہ مشقیں کرنی پڑتی تھیں۔ لیکن اس کے بعد جو ہوا وہ بہت تکلیف دہ اور تباہ کن تھا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے اپنی بائیں ٹانگ میں شدید درد ہو رہا تھا۔ اور پھر ایک رات میں بستر پر کروٹ لے رہی تھی تو مجھے اندر سے کٹ کٹ کی آواز آئی، اور پھر ناقابل برداشت درد شروع ہو گیا۔‘

اگلے دن ایلین کا سکین کیا گیا اور انھیں جو خدشہتھا وہ درست ثابت ہوا۔ ان کے بائیں پاؤں میں ڈالی گئی کیل فیمر یعنی جسم کی سب سے مضبوط ہڈی کو چھید کر باہر نکل آئی تھی۔

ایلین پریشان ہو گئیں لیکن ڈاکٹر گیوشے نے انھیں یقین دلایا اور ان کی حوصلہ افزائی کی۔

’انھوں نے کہا کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے، ہمیں زخم کے ٹھیک ہونے کا انتظار کرنا چاہیے اور ہم اسے دوبارہ کریں گے۔‘

لیکن اس دوران ایلین کی دائیں ٹانگ کو لمبا کرنے کا علاج جاری رہا اور بائیں ٹانگ کی سرجری کی تاریخ طے ہوئی۔

انھیں اس بات کا بخوبی علم تھا اس آپریشن پر اضافی رقم خرچ ہو گی، لیکن وہ خوش تھیں کہ کام ہو جائے گا۔

ستمبر تک ان کی دائیں ٹانگ سات سینٹی میٹر کے ہدف تک بڑھ چکی تھی۔ لیکن سب کچھ ٹھیک نہیں تھا۔ ان کے بائیں اور دائيں پاؤں کے درمیان آ جانے والا فرق مسائل پیدا کر رہا تھا اور اس سے ان کی ریڑھ کی ہڈی میں خم آنے لگا تھا اور انھیں اس میں مسلسل درد رہنے لگا۔

ایک اور آپریشن

چھ ہفتے بعد ایک سکین سے پتہ چلا کہ ان کی دائیں ٹانگ کی ہڈیوں نے بڑھ کر جڑنا بند کر دیا تھا۔ ان کی ٹانگ میں فیمر کیح ہڈی کے دو حصے دھات کے راڈ سے جڑے ہوئے تھے۔

جب ایلین ڈاکٹر سے ملیں تو انھوں نے میلان کے ایک کلینک میں ایک اور آپریشن کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ میلان کے اس کلینک میں بھی پریکٹس کر رہے تھے۔ اپریل 2017 میں ڈاکٹر نے ایلین کی بائیں ٹانگ کو بڑا کرنے کے لیے سرجری کی۔ اس دوران ہڈیوں کی نشوونما کو تیز کرنے کے لیے دائیں ٹانگ میں بون میرو کا انجکشن لگایا گیا۔

آپریشن کے بعد جب ایلین بیدار ہوئی تو انھیں مزید بری خبر ملی۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ڈاکٹر گیوشے نے مجھے بتایا کہ جب وہ کیل نکال رہے تھے تو وہ ٹوٹ گئی۔ اُن کے پاس ایک دوسرے مریض کا کیل تھا جسے انھوں نے میرے پاؤں میں ڈال دیا۔‘ اس کے ساتھ انھوں نے بتایا کہ اس پر مزید خرچ آئے گا۔

تین دن گزرنے کے بعد اگرچہ ایلین حرکت کرنے سے قاصر تھی لیکن وہ جلد از جلد لندن میں اپنے گھر پہنچنا چاہتی تھیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ڈاکٹر گیوشے کے ساتھ ان کی تلخی بڑھ گئی اور گرمیوں تک ایسا لگا کہ ان کے درمیان ڈاکٹر اور مریض کا رشتہ ٹوٹ گیا۔

اب ایلین کو پتا نہیں تھا کہ وہ کیا کریں اور مدد کے لیے کس کے پاس جائیں۔ لیکن پھر جولائی 2017 میں انھوں نے نیشنل ہیلتھ سروس (این ایچ ایس) میں ماہر آرتھوپیڈک سرجن سے مشورہ کیا۔

این ایچ ایس میں سرجن نے انھیں بتایا کہ یہ کوئی چھوٹا سا سفر نہیں بلکہ اس میں انھیں پوری طرح سے صحتیاب ہونے میں پانچ سال لگیں گے۔

ذہنی اور جسمانی اذیت سے نبرد آزما

ایلین کا کہنا ہے کہ پہلی سرجری کو آٹھ سال ہو چکے ہیں اور وہ ابھی تک ٹانگوں کی لمبائی بڑھانے کے علاج سے ہونے والی جسمانی اور ذہنی اذیت سے صحت یاب ہونے کی کوشش کر رہی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ انھیں جسمانی کاموں میں بہت سے مسائل آتے ہیں اور وہ پوسٹ ٹرامیٹک سٹریس ڈس آرڈر (پی ٹی ایس ڈی) کا شکار ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ ’سنہ 2017 سے 2020 تک میں دنیا سے چھپی رہی۔ میں اکیلی، بے روزگار، ایک ایک پائی کو محتاج ایک اپاہج تھی۔‘

لیکن ان کی چار سالہ قانونی جنگ گذشتہ جولائی میں اس وقت ختم ہوئی جب ڈاکٹر گیوشے نے کوئی ذمہ داری قبول کیے بغیر انھیں ایک خطیر رقم ادا کر کے کیس کو نمٹانے پر رضامندی ظاہر کی۔

سرجن کے وکیل نے اپنے مؤکل کی طرف سے کسی قسم کی لاپرواہی کی تردید کی اورعدالت کو بتایا کہ فریکچر اور ہڈی کی نشوونما میں تاخیر بدقسمتی تھی۔ انھوں نے ایلین پر کیل کو حد سے زیادہ بڑھانے کی کوشش کرنے اور اسے بتائے بغیر ڈپریشن کی دوا لینے کا الزام لگایا۔ انھوں نے کہا کہ سرجری سے قبل مریض کو اس میں مضمر تمام پیچیدگیوں سے آگاہ کر دیا گيا تھا۔

اس کے علاوہ یہ بھی کہا گیا کہ ایلین نے فزیوتھراپی اور دیگر مشقوں کے لیے ڈاکٹر گیوشے کی تجاویز پر عمل کرنے سے مسلسل انکار کیا۔

ایلین نے ان تمام دعوؤں کی تردید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اینٹی ڈپریسنٹ ادویات کا اس بیماری سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

ایلین کا خیال تھا کہ وہ بڑی رقم خرچ کرنے کے بعد محفوظ رہے گی لیکن مالی مسائل کے علاوہ انھیں دیگر مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے اپنی زندگی کے بہترین سال گنوا دیے۔ میں جانتی ہوں کہ لوگ یہ سننا پسند کریں گے کہ مجھے اس پر پچھتاوا ہے۔ لیکن اگر آج کوئی مجھ سے پوچھے کہ کیا اگر آپ یہ معلوم ہوتا کہ آپ کے ساتھ یہ سب کچھ ہوگا تو کیا اس کے باوجود بھی آپ یہ سرجری کرواتیں؟ میں یقین سے کہتی کہ بالکل نہیں، آپ کا بہت بہت شکریہ۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.