جاسوس سیٹیلائٹس کی دوڑ: ’انڈیا اب بھی چین سے ایک دہائی پیچھے ہے‘

رواں ماہ کے آغاز میں جاسوس سیٹیلائٹ سے بنائی گئی چند ایسی تصاویر منظرِ عام پر آئیں جن میں چین لداخ کے علاقے میں انڈیا کے ساتھ متصل ’لائن آف ایکچوئل کنٹرول‘ کے قریب واقع پینگونگ سو جھیل کے کنارے ہتھیاروں، ایندھن اور بکتر بند گاڑیوں کو محفوظ رکھنے کے لیے زیرِ زمین بنکرز تعمیر کر رہا ہے۔ مختلف ممالک کی جانب سے خلا میں بھیجی جانے والے جاسوس سیٹیلائٹس وسیع پیمانے پر اہم معلومات اکھٹی کرنے کے ساتھ ساتھ ایک اہم دفاعی ہتھیار بن چکے ہیں۔
جاسوسی، انڈیا، چین
Getty Images

جب آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہیں اس وقت بھی آپ کے اوپر خلا میں درجنوں سیٹلائٹس (مصنوعی سیّارے) موجود ہیں تاکہ وہ آپ کے احباب کا رابطہ آپ سے کروا سکیں، آپ کو آپ کی منزل تک کا راستہ بتا سکیں یا موسم کی معلومات آپ تک پہنچا سکیں۔

لیکن خلا میں ایسی بھی سیٹلائٹس موجود ہیں جن کا اصل مقصد جاسوسی کرنا ہے اور یہ ملک کی داخلی و خارجی سکیورٹی اور سرحدوں کے اردگرد ہونے والی نقل و حرکت کی گہری نگرانی کر رہی ہیں۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے ممالک میں خلا کی طرف جاسوس سیٹیلائٹس بھیجنے کی ایک دوڑ لگی ہوئی ہے۔ یہ سیٹلائٹس نہ صرف حریف ممالک کی فوجوں پر نظر رکھتے ہیں بلکہ وہاں اہم شخصیات کی نقل و حرکت اور گفتگو کو بھی انٹرسیپٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

رواں ماہ کے آغاز میں جاسوس سیٹیلائٹ سے بنائی گئی کچھ تصاویر بھی منظرِ عام پر آئیں جس سے معلوم ہوا کہ چین لداخ کے علاقے میں انڈیا کے ساتھ متصل ’لائن آف ایکچوئل کنٹرول‘ کے قریب واقع پینگونگ سو جھیل کے کنارے ہتھیاروں، ایندھن اور بکتر بند گاڑیوں کو محفوظ رکھنے کے لیے زیرِ زمین بنکرز تعمیر کر رہا ہے۔

یہ وہ علاقہ ہے جہاں چینی اور انڈین فوج کا گلوان کے علاقے میں سنہ 2020 میں تصادم ہوا تھا۔ اس علاقے میں اب بھی چین اور انڈیا کی فوجیں تعینات ہیں۔

جاسوس سیٹلائٹ سے لی گئی تصاویر تاخیر سے منظرِعام پر آئیں اور اس لیے یہ انڈیا کے لیے دفاعی اعتبار سے زیادہ مفید ثابت نہیں ہوئیں۔

جاسوسی، انڈیا، چین
Getty Images
انڈیا کی بنائی گئی سپیس شٹل ’پُشپک‘

تاہم اس بات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مختلف ممالک کی جانب سے خلا میں بھیجی جانے والے جاسوس سیٹیلائٹس وسیع پیمانے پر اہم معلومات اکھٹی کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ایک اہم دفاعی ہتھیار بن چکے ہیں۔

حالیہ مہینوں میں نگرانی کرنے والے سیٹلائٹس سے حاصل کردہ تصاویر کے سبب چین کی زیر تعمیر جوہری آبدوز، کراچی کی بندرگاہ پر چین کے جنگی جہاز کا پڑاؤ اور انڈیا کی تیسری جوہری آبدوز کی بحریہ میں ممکنہ شمولیت جیسی اہم معلومات منظرِ عام پر آئی ہیں۔

انڈیا اور چین کے درمیان سرحدی کشیدگی کوئی نئی بات نہیں کیونکہ دونوں ممالک کی فوجیں کئی مرتبہ سرحدی علاقوں میں ایک دوسرے کے آمنے سامنے آ چکی ہیں۔

لیکن دونوں ممالک کے تعلقات میں برسوں سے جاری کشیدگی اب زمین سے اُٹھ کر خلا کی طرف بڑھتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے دونوں ممالک خلا میں جاسوس سیٹلائٹ بھیجنے کی ایک دوڑ میں لگے ہوئے ہیں۔

سیٹیلائٹ کی دوڑ میں چین انڈیا سے کتنا بہتر ہے؟

انڈین بحریہ کے ساتھ ماضی میں سیٹلائٹ کمیونیکیشن اور انٹیلی جنس پر کام کرنے والے ریٹائرڈ کموڈور ملند کلشریشٹھا کہتے ہیں کہ ’اگر تعداد اور حجم کی بات کی جائے تو انڈیا اب بھی چین سے ایک دہائی سے زیادہ پیچھے ہے۔‘

تاہم ان کا کہنا ہے کہ ’جہاں تک سیٹلائٹ خلا میں بھیجنے کے لیے لانچ گاڑیوں کا تعلق ہے، ہم چین کے برابر ہیں۔ لیکن مثلا اگر انسان کو خلا میں بھجینے کی بات ہو تو ہم ابھی بھی بہت پیچھے ہیں۔ ہماری سیٹلائٹس کی تعداد چین کے مقابلے میں بہت کم ہے۔‘

’اس شعبے میں چین پہلے ہی ایک سپر پاور ہے، ہمیں ابھی کافی کام کرنا ہے۔‘

گذشتہ چند برسوں میں چین اور امریکہ خلائی میدان میں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں۔ چین اس مقابلے میں شاید امریکہ سے تو نہ جیت سکا ہو لیکن ایک بات واضح ہے کہ وہ خلا میں جاسوس سیٹلائٹس بھیجنے میں کم از کم اپنے پڑوسی ممالک پر سبقت رکھتا ہے۔

امریکی دفاعی انٹیلی جنس ایجنسی نے 2022 میں ایک تحقیقاتی رپورٹ شائع کی تھی جس کے مطابق دنیا کا تقریباً نصف ’آئی آر ایس‘ سسٹم چینی افواج کی ملکیت ہے۔

’آئی آر ایس‘ انٹیلی جنس کی زبان میں استعمال ہونے والی اصطلاح ہے۔ اس سسٹم کے تحت ممالک اپنے حریفوں کی نہ صرف نگرانی کرتے ہیں بلکہ انٹیلی جنس بھی اکھٹی کرتے ہیں۔

اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ چین کی ’یہ سیٹلائٹس پیپلز لبریشن آرمی کو کوریا اور اس کے آس پاس کے علاقوں بشمول تائیوان، بحر ہند اور بحیرہ جنوبی چین سمیت ممکنہ اہم مقامات کی نگرانی کرنے کے قابل بناتے ہیں۔‘

لندن میں واقع آئی آئی ایس ایس نامی تھنک ٹینک کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق تعداد کے لحاظ سے چین کے پاس اب خلا میں کم از کم 245 دفاعی اور جاسوس سیٹلائٹس ہیں، جبکہ انڈیا کے پاس محض 26 ایسی سیٹلائٹس ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ’انٹیلی جنس، سرویلینس اور ریکنیسزینس‘ (آئی آر ایس) کے لیے چین کی 92 جاسوس سیٹلائٹس خلا میں موجود ہیں۔

انڈیا کے پاس موجود ان سیٹلائٹس کی تعداد صرف 15 ہیں۔

چین کے پاس ایسی 81 سیٹلائٹس موجود ہیں جو الیکٹرانک انٹیلی جنس اور برقی سگنل کو ٹریس کرنے کی صلاحیتیں رکھتی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق انڈیا کے پاس ان دو کاموں کے لیے صرف ایک سیٹلائٹ خلا میں موجود ہے۔

چین نے دفاعی اعتبار سے دنیا کی وہ طاقت ہے جو کہ خلائی سائنس میں تیزی سے ترقی کر رہا ہے، لیکن امریکہ آج بھی مصنوعی سیارے خلا میں بھیجنے کے حوالے سے دنیا کی سب سے بڑی سُپرپاور ہے۔

لیکن یقینی طور پر چین اپنے 50 سال پرانے ماضی سے بہت آگے جا چکا ہے، جب مبینہ طور پر چینی رہنما ماو زے تنگ نے خلا میں امریکی اور روسی کامیابیوں کا ذکر کرتے ہوئے تھا کہ ’چین تو خلا میں آلو بھی نہیں بھیج سکتا ہے۔‘

لیکن آج نہ صرف چین کے پاس خلائی سیٹلائٹس موجود ہیں بلکہ اس نے اینٹی سیٹلائٹ میزائل بھی بنا لیا ہے جس کا اس نے 2007 میں کامیاب تجربہ کیا تھا۔

کموڈور کلشریستھا کہتے ہیں کہ ’خلائی نگرانی کسی بھی ملک کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے، یہ کام امن کے دوران بھی ہوتا ہے۔ اس میں ہر ایک چیز کی نگرانی ہوتی ہے اور اس سے چھپنا بہت مشکل ہے۔‘

لیکن چین کے عروج کا مطلب یہ بھی ہے کہ اب خطے میں خلا میں جاسوس سیٹلائٹس بھیجنے کی ایک دوڑ شروع ہو گئی ہے۔

جاسوسی، انڈیا، چین
Getty Images
چین کے پاس اب خلا میں کم از کم 245 دفاعی اور جاسوس سیٹلائٹس ہیں

سیٹلائٹس بنانے والی ’نینو ایویونکس‘ نامی نجی کمپنی کی ایک رپورٹ کے مطابق 21ویں صدی کے آغاز میں صرف 14 ممالک کے پاس سیٹلائٹس تھیں، لیکن گذشتہ دو دہائیوں کے دوران 91 ملکوں نے خلا میں سیٹلائٹس بھیجی ہیں، جن میں کئی سیٹلائٹس کا کام صرف جاسوسی کرنا ہے۔

اس خطے میں چین کے قریب واقع ممالک میں سے جاپان کے پاس 11، سنگاپور کے پاس ایک، تائیوان کے پاس ایک، تھائی لینڈ کے پاس دو اور ویتنام کے پاس ایک جاسوس سیٹلائٹ موجود ہے۔

اس کے علاوہ انڈیا کے ہمسایہ ممالک بنگلہ دیش اور پاکستان نے بھی چین اور فرانس کی مدد سے خلا میں جاسوس سیٹلائٹس بھیجی ہیں۔

گذشتہ برس نومبر میں شمالی کوریا نے بھی ایک جاسوس سیٹلائٹ خلا میں بھیجی تھی اور دعویٰ کیا تھا کہ اس نے امریکہ اور جنوبی کوریا کے اہم مقامات کی تصاویر حاصل کی ہیں۔

یہ جاسوس سیٹلائٹس خلا سے قدرت کے مانند ہر جگہ پر ہر وقت نظر رکھ رہے ہیں۔

مثال کے طور پر میزائل حملے کے لیے اس کے ہدف کے مقام کا درست تعین کرنا انتہائی اہم ہوتا ہے، لیکن اس کام کو سرانجام دینے کے لیے 24 گھنٹے ہوائی جہازوں، ڈرون طیاروں یا زمینی ٹریکنگ سسٹم کا استعمال بہت ہی مشکل ہے۔

لیکن خلا میں موجود جاسوس سیٹلائٹس کے سبب یہ کام بھی اب کافی حد تک آسان ہو گیا ہے۔

جاسوسی، انڈیا، چین
Getty Images
چین کا سمارٹ سکائی نیٹ راکٹ

چین کے خلا میں غلبے پر انڈیا کو کیا خطرہ ہے؟

چین اور انڈیا کے درمیان سرحدی تنازع دہائیوں پر محیط ہے۔ چین نے زمینی سرحد کے ساتھ ساتھ اپنے دفاعی وسائل کا رُخ بحرہ ہند کی طرف بھی موڑ دیا ہے جو کہ انڈیا، جنوب مشرقی ایشیا اور باقی دنیا کے درمیان سمندری تجارت پر منحصر ممالک کے لیے باعثِ تشویش ہے۔

آرگنائزیشن فار ریسرچ آن چائینا اینڈ ایشیا سے جُڑے تجزیہ کار راہُل کرن ریڈی کا کہنا ہے کہ ’اس کے مضمرات کافی خوفناک ہیں، خاص طور چین کے سیٹلائٹس کی تعداد کے لحاظ سے۔ ان کے پاس کافی زیادہ سیٹلائٹس ہیں جو کہ انھیں سرحد پر چیزوں کی واضح تصویر فراہم کر سکتی ہیں۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ ’لیکن چین اور انڈیا میں اس شعبے کے فرق کو ختم کرنا پہلے سے کہیں زیادہ آسان ہوگیا ہے۔‘

یہ بات حالیہ برسوں میں انڈیا کی چین سے مقابلے کی کوششوں سے ظاہر ہوتی ہے۔ سنہ 2009 میں انڈیا نے اپنی پہلی جاسوس سیٹلائٹ خلا میں بھیجی تھی اور اب یہ تعداد بڑھ کر 15 تک پہنچ گئی ہے۔

انڈیا نے اعلان کیا ہے کہ اگلے پانچ برسوں میں وہ مزید 50 سیٹلائٹس خلا میں بھیجے گا۔

اس سال فروری میں ایک دفاعی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انڈیا کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل انیل چوہان نے کہا تھا کہ حکومت اگلے چند برسوں میں 250 ارب روپے کے دفاعی ٹھیکے دے گی۔

لیکن انڈیا کی فضائی صنعت پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ یہ کوئی آسان کام نہیں ہوگا کیونکہ انڈیا کی پیداواری صلاحیت (مینوفیکچرنگ بیس) ابھی بھی چھوٹی ہے۔

راہُل کرن ریڈی کہتے ہیں کہ ’ہمارے پاس ٹیکنالوجی موجود ہے اور انڈیا کے پاس سیٹلائٹ لانچ کرنے اور لانچنگ مشینیں بنانے کا تجربہ بھی ہے۔ لیکن چین کے مقابلے کے لیے ہمیں پیداوار، سپلائی اور سائنسی قوت کو بھی بڑھانے کی ضرورت ہوگی۔‘

جنرل چوہان نے اُس کانفرنس میں مزید کہا تھا کہ انڈین فوج نے نجی شعبے کے ساتھ پہلے ہی پانچ دفاعی معاہدوں پر دستخط کیے ہیں اور مزید چار معاہدوں کی تیاری کی جا رہی ہے۔

انھوں نے کہا تھا کہ ’یہ نجی صنعت کے لیے اس موقع کو استعمال کرنے کا صحیح وقت ہے۔‘

’ہماری قیادت نے ملک کے لیے بڑے اہداف کا تعین کیا ہے، ہماری قوت میں بہتری لانے سے لے کر خلائی تحقیق تک۔‘

انڈیا اپنے ’میڈ اِن انڈیا‘ سکیم کے تحت گھریلو دفاعی صنعت کی توسیع کی کوشش کر رہا ہے، لیکن اسے ابھی بھی بجٹ، ٹیلنٹ، بیوروکریسی اور درآمدی ضوابط جیسے چیلنجوں کا سامنا ہے۔

انڈیا کی خلائی ایجنسی ’اِسرو‘ کے سابق سائنسدان ایس چندر شیکر کے مطابق انڈیا کے برعکس چین نے امریکی اجزاء کے بغیر سیٹلائٹس کو خلا میں پہنچانے میں کامیابی حاصل کی ہے، جس کی وجہ سے وہ بین الاقوامی پابندیوں جیسے چیلنجز سے دور رہنے میں کامیاب رہا ہے۔

جاسوس مصنوعی سیارے دنیا کے لیے نئے نہیں ہیں، لیکن ان سیٹلائٹس کے نئے ورژنز کی صلاحیتوں میں کافی بہتری آئی ہے۔

مثال کے طور پر یہ حقیقی وقت میں کافی چھوٹی اشیا کی تصاویر لے سکتے ہیں، دوسرے ممالک اور اپنے فوجیوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھ سکتے ہیں اور اپنی دلچسپی کے حساب سے برقی سگنلز کو ٹریس کر سکتے ہیں۔

جاسوسی، انڈیا، چین
Getty Images
چین اور انڈیا کے درمیان سرحدی تنازع دہائیوں پر محیط ہے

چین اور انڈیا کے سیٹیلائٹس کا موازنہ

چین کی بات کی جائے تو ’یاؤگون فیملی‘ کی سیٹلائٹس اس کے پاس موجود ہیں جو کہ جاسوسی کی اعتبار سے انتہائی اہمیت کی حامل ہیں، جس میں تازہ ترین نام ’یاؤگون 42‘ کا ہے۔

چینی حکام کا اصرار ہے کہ اس کا اسعمال تجربات، زمینی سروے، فصلوں کی پیداوار کے تخمینے اور آفات کی نگرانی کے لیے کیا جاتا ہے، لیکن کئی ماہرین نے نشاندہی کی ہے کہ یہ عالمی سطح پر جاسوسی کرنے کا چین کا ایک فوجی پروگرام ہے۔

امریکہ میں مقیم ’سینٹر فار سٹریٹیجک انڈ انٹرنیشنل سٹڈیز‘ نامی تھنک ٹینک کے نائب صدر کلیٹن سَوپ کہتے ہیں کہ اگر یاؤگون لفظ کا چینی زبان سے ترجمہ کیا جائے تو اس کے لفظی معنی ہی ’ریموٹ سینسنگ‘ (یعنی ایک فاصلے پر واقع شے سے آنے والی تابکاری سے اس کی خصوصیات کا پتہ لگانا اور اس کی نگرانی کرنا) ہے۔‘

اس کے مقابلے میں انڈیا کے پاس ’ریسیٹ‘ سیٹلائٹ ہے جسے پہلی بار 2009 میں سرحد پر دراندازی کا پتا لگانے کے لیے بھیجا گیا تھا۔ سرکاری طور پر کہا گیا تھا کہ اس سیٹلائٹ کو بھیجنے کا مقصد قدرتی آفات اور زمین کے مشاہدہ کرنا تھا۔

حکومتیں اکثر سیٹلائٹس کو دونوں شہری اور دفائی ضروریات کے لیے استعمال کرتی ہیں لیکن اس کے اصل مقصد کو ظاہر نہیں کرتی ہیں۔

’ری سیٹ‘ انڈیا کی پہلی سیٹلائٹ ہے جسے زمین کا مشاہدہ کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔

لداخ کی پینگونگ سو جھیل کے شمالی ساحل پر نجی سیٹلائٹ کے ذریعے لی گئی تصاویر اور ان کی مدد سے نئے چینی بنکرز کی نشاندہی اس بات پر بھی روشنی ڈالتے ہیں کہ جنگی حکمت عملی کس طرح بدل رہی ہے اور کس طرح سے وہ سیٹلائٹس سے لاحق خطرات کا مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

زمین پر نظر آنے والی مناسب جسامت کی کسی بھی چیز کو نہ صرف حکومتی سیٹلائٹس بلکہ ’گوگل‘ جیسی کمپنیوں کے نجی سیٹلائٹس بھی دیکھ سکتی ہیں۔ ان سے بچنا ہر ملک کی فوج اور دفاعی تنصیبات کے لیے ایک اہم چیلنج ہے۔

کلشریشٹھ کہتے ہیں کہ لڑائی کی بہترین تصویر حاصل کرنے کے لیے سیٹلائٹ سے بہتر کوئی چیز نہیں ہے۔

انڈیا کے خفیہ سیٹلائٹ نظام کا حوالہ دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ’ہمارے قدموں کے نشان ہمارے ارد گرد اور ہماری دلچسپی کے دیگر مقامات پر بھی موجود ہیں۔ لیکن انڈیا کو اس شعبے میں ابھی مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.