شہباز شریف 14 اگست کو معاشی بحالی کے منصوبے کا اعلان کیوں نہ کرسکے؟  

image

پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے 14 اگست کو ملکی معیشت کی بحالی کے پروگرام کا اعلان کرنا تھا اور اس مقصد کے لیے قوم سے خطاب کی تیاریاں کی جا رہی تھیں۔وزیراعظم کے خطاب کا ابتدائی مسودہ تک تیار کیا جا چکا تھا، تاہم اچانک نہ صرف یہ کہ شہباز شریف کا قوم سے خطاب ملتوی ہوگیا بلکہ جس معاشی منصوبے کا اعلان کرنا تھا وہ بھی ختم کرنا پڑ گیا ہے۔اس حوالے سے ذرائع نے اردو نیوز کو بتایا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے چند ماہ قبل اپنی کچن کابینہ کے ساتھ معیشت کی بحالی اور مستقبل کے معاشی ایجنڈے کے حوالے سے صلاح مشورہ کیا۔

کابینہ میں شامل اُن کے پُرانے ساتھیوں نے انہیں برطانوی معیشت دان پروفیسر سٹیفن ڈرکن کی خدمات حاصل کرنے کا مشورہ دیا۔وزیراعظم کی ہدایات پر پروفیسر سٹیفن ڈرکن کی خدمات حاصل کی گئیں جنہوں نے کئی ماہ کی محنت سے ایک معاشی پروگرام تیار کیا۔تاہم ذرائع نے بتایا کہ یہ پروگرام جب تیار ہو کر مختلف وزارتوں میں اِن پُٹ کے لیے بھیجا گیا تو وزارت خزانہ، وزارت تجارت اور ایف بی آر نے اس معاشی پروگرام پر شدید تحفظات کا اظہار کر دیا۔وزارت خزانہ کے حکام نے بتایا کہ یہ معاشی پروگرام حکومتی وسائل، ریوینیو اور برآمدات میں اضافے سمیت کئی ایک شعبوں کا احاطہ کر رہا تھا لیکن اس میں عوامی ریلیف نام کی کوئی چیز موجود نہیں تھی۔اس وجہ سے اہم وزارتوں نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہ پروگرام پیش کر دیا گیا تو لوگ بجٹ کو بھول جائیں گے کیونکہ اس میں تجویز کیے گئے اقدامات اس سے بھی زیادہ سخت ہیں۔ سٹیفن ڈرکن پالیسی کیا ہے؟ یہ پروگرام وزیراعظم کی تشکیل دی گئی ایک ٹاسک فورس کے ذریعے تیار کیا گیا تھا۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر آف اکنامک پالیسی سٹیفن ڈرکن بھی اس میں شامل تھے۔اس پروگرام کے تحت تیار کیے گئے منصوبے کا مقصد اقتصادی لبرلائزیشن پر توجہ دینا ہے۔ حکومت کی طرف سے کسی بھی شعبے کو سبسڈی ختم کرنے اور مقامی پروڈیوسرز کو عالمی معیار کے برابر لانا شامل ہے۔  اس کے ساتھ ساتھ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو سنبھالنے کے لیے درآمدات پر کوئی پابندی نہیں ہوگی جبکہ برآمدات میں اضافہ کرنے پر توجہ دی جائے گی۔پالیسی میں درآمدی محصولات، جیسے اضافی کسٹم ڈیوٹی، ریگولیٹری ڈیوٹی اور برآمدی ڈیوٹی کو پاکستان کی سست برآمدی ترقی کے بنیادی اسباب میں سے ایک قرار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے ریوینیو بڑھانے کے کئی ایک طریقے بھی تجویز کیے ہیں۔

نواز شریف نے شہباز شریف کو اعلان کرنے سے روکتے ہوئے لاہور میں پارٹی اجلاس طلب کیا (فائل فوٹو: اے ایف پی)

حکام کے مطابق اس پوری پالیسی میں ملکی معیشت کی بہتری کے اقدمات تو تجویز کیے گئے تھے لیکن اس میں عوامی مفاد کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔ذرائع کے مطابق شہباز شریف اس مسودے سے اتنے متاثر ہوئے تھے کہ انہوں نے اس کا نام بھی سٹیفن ڈرکن پالیسی رکھنے کی تجویز دے دی تھی۔   شہباز شریف معاشی بحالی کے پروگرام کا اعلان کیوں نہ کر سکے؟ 

اس حوالے سے ذرائع نے اردو نیوز کو بتایا ہے کہ مختلف وزارتوں نے جب اس منصوبے کے حوالے سے اپنے اعتراضات وزیراعظم کے سامنے رکھے اور انہیں بتایا کہ کم و بیش اسی طرح کی پالیسی کی منظوری عمران خان نے اپنی حکومت کے خاتمے سے چند دن پہلے دی تھی جسے پی ڈی ایم حکومت نے ختم کیا تھا۔’اس لیے یہ پالیسی اس وقت عوامی مفاد میں نہیں ہے اور اس پر نہ صرف سیاسی جماعتیں ردعمل دیں گے بلکہ عوامی بالخصوص کاروباری طبقات کی جانب سے بھی احتجاج کا خدشہ ہے۔‘ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نے ان تحفظات کو سنا لیکن ان پر توجہ نہیں دی جس کے بعد 12 یا 13 اگست کو ان وزارتوں کے اعلٰی حکام نے سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے صدر نواز شریف کو ساری صورت حال سے آگاہ کیا۔ جس پر نواز شریف نے انہیں اعلان کرنے سے روکتے ہوئے لاہور میں پارٹی رہنماؤں کا اجلاس طلب کیا۔اس اجلاس کے دوران ہی اس پالیسی پر تحفظات کا جائزہ لیا گیا اور ان تحفظات کو درست مانتے ہوئے پی ڈی ایم کے دور حکومت میں معیشت بحالی کے پروگرام جس میں 22 وزارتوں کا عمل دخل تھا کو نئے سرے سے اس پر غور کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

اس پروگرام میں سٹیفن ڈرکن کی تیار کی گئی پالیسی یا پروگرام سے بھی قابل عمل تجاویز شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔اس حوالے سے نواز شریف نے جمعہ کو اپنی پریس کانفرنس میں بھی کہا کہ ’میں نے شہباز شریف سے بھی کہا ہے کہ وہ معیشت کی بہتری اور عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے اقدامات اٹھائیں۔‘ معاشی بحالی کا پروگرام، نواز شریف کا ایک بار پھر اسحاق ڈار پر اعتماد جس وقت نواز شریف کی زیرصدارت لاہور میں اجلاس ہو رہا تھا اور اس میں ’ہوم گرون اکنامکس‘ منصوبے پر نئے سرے سے غور کرنے پر اتفاق ہوا تو نواز شریف نے اسی وقت ایک اعلٰی سطح کی کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا جو نئی پالیسی تیار کرے گی۔

یہ اجلاس ختم ہونے سے قبل ہی اس کمیٹی کا نوٹیفیکیشن بھی جاری کر دیا گیا تھا۔معاشی پالیسی کی تشکیل کے حوالے سے اس کمیٹی کی سربراہی نائب وزیراعظم اسحاق ڈار کو سونپی گئی ہے۔

اردو نیوز کو دستیاب وزارت خزانہ کی جانب سے جاری کیے گئے نوٹیفکیشن کے مطابق کمیٹی میں وزیر منصوبہ بندی، وزیر خزانہ، وزیر اقتصادی امور، وزیر اطلاعات و نشریات، وزیر مملکت ریوینیو اور توانائی اور ایس آئی ایف سی کے قومی کوآرڈینیڑز شامل ہیں۔کمیٹی کے ٹی او آرز میں کہا گیا ہے کہ ’کمیٹی پروفیسر سٹیفن ڈرکن کے تیارکردہ معاشی پلان کے مسودے اور پی ڈی ایم دور حکومت میں وزارت منصوبہ بندی کے تیارکردہ سیکٹورل پلان کا جائزہ لے گی۔ کمیٹی شراکت داروں سے بھی مشاورت کرے گی۔‘

نواز شریف نے معاشی پالیسی کی تشکیل کے حوالے سے قائم کمیٹی کی سربراہی اسحاق ڈار کو سونپ دی (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ٹی او آرز کے مطابق ’کمیٹی یقینی بنائے گی کہ ڈرافٹ پلان جامع، ہم آہنگ اور تضادات سے پاک ہو۔ کمیٹی یقینی بنائے گی کہ سیکٹورل پلان مقامی تیارکردہ معاشی ترقیاتی پلان سے ہم آہنگ ہے۔‘کمیٹی کے نوٹیفیکیشن میں واضح کیا گیا ہے کہ سٹیفن ڈرکن اس پالیسی پر مشاورت کے لیے دستیاب رہیں گے۔ وزارت منصوبہ بندی کا سیکٹورل پلان، فائیو ایز فریم ورک کیا ہیں؟ مختلف وزارتوں اور مسلم لیگ ن کی قیادت کی جانب سے جہاں پروفیسر سٹیفن ڈرکن کے تیار کیے گئے معاشی منصوبے کے اعلان کو روکا ہے وہیں ان کے تیار کیے گئے مسودے کے ساتھ وزارت منصوبہ بندی کی جانب سے 2023-2022 میں تیار کیے گئے سیکٹورل پلان یعنی فائیو ایز فریم ورک کا موازنہ کرنے اور انہیں ملا کر ایک جامع منصوبہ تیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔وزارت منصوبہ بندی نے وفاقی وزیر احسن اقبال کی سربراہی میں فائیو ایز فریم ورک مرتب کیا تھا جسے نیشنل اکنامک کونسل نے منظور کیا تھا۔فائیو ایز فریم ورک میں ایکسپورٹ، انرجی، ایکویٹی، ای پاکستان اور انوائرمنٹ کے شعبے شامل ہیں۔یعنی اس منصوبے کے تحت پاکستان کی برآمدات میں اضافے، توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے اور ان کی پیداواری لاگت میں کمی کے ساتھ ساتھ پاکستانی مصنوعات کی بہترین برانڈنگ تجویز کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ای پاکستان پالیسی کے تحت ڈیجیٹلائزیشن اور ٹیکنالوجی کے فروغ اور عالمی معاہدوں کی روشنی میں ماحولیات میں بہتری کے لیے اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔


News Source   News Source Text

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.