زرد پتوں کا بن ، معاشرے کے بدصورت رویوں کا عکاس، ایسے ڈرامے وقت کی اہم ضرورت

image

ڈرامہ زرد پتوں کا بن ، معاشرے کے بدصورت رویوں کا عکاس ہے، ایسے ڈرامے وقت کی اہم ضرورت ہیں۔

ڈرامہ دیکھنے اور پسند کرنے والوں نے ہم ٹی وی سے پیش کئے جانے والے کتنی گرہیں اب باقی ہیں، سمی اور اڈاری جیسے ڈرامے نہ دیکھے ہوں یہ تو ہو ہی نہیں سکتا۔یہ وہ ڈرامے ہیں جو عوام کو تفریح کی فراہمی کیساتھ ان کی اصلاح بھی کرتے ہیں اور ہم ٹی وی غالباً پاکستان کی تفریحی صنعت کا وہ واحد ادارہ ہے جو تفریح کیساتھ ایڈوٹیمنٹ کی فراہمی میں بھی مصروف عمل ہے۔

”ایڈوٹینمنٹ” ایجوکیشن اور انٹرٹینمنٹ کی ایک مرکب اصطلاح ہے جو جس کا مطلب ہے ایسی سرگرمیاں، پروگرامز یا مواد جو تعلیم اور تفریح دونوں کو یکجا کرتے ہیں، اس کا مقصد لوگوں کو تفریح کے ذریعے سکھانا ہے تاکہ سیکھنے کا عمل مزید دلچسپ اور یادگار بن سکے۔مثال کے طور پر تعلیمی کارٹون، ویڈیو گیمز یا دستاویزی فلمیں جو معلومات کیساتھ ساتھ تفریح بھی فراہم کرتی ہیں، ایڈوٹینمنٹ کی عمدہ مثالیں ہیں۔

اس وقت ہم ٹی وی سے پیش کیا جانے والا ڈرامہ ”زرد پتوں کا بن“ بھی اس کی ایک عمدہ مثال ہے جسے مصطفی آفریدی نے تحریرکیا ہے، سیف حسن نے ہدایات دی ہیں جبکہ یہ مومنہ درید پروڈکشنز اور کشف فاؤنڈیشن کی مشترکہ پیش کش ہے۔

نادیہ خان کو بلال عباس کی اداکاری پر تنقید کرنا مہنگا پڑ گیا

ہر اتوار کی شب 8 بجے پیش کئے جانے والے 23 اقساط پر مشتمل اس ڈرامے کے نمایاں اداکاروں میں سجل علی، حمزہ سہیل، ریحان شیخ، سمیعہ ممتاز، علی طاہر، چوہدری محمد عثمان، سید تنویر حسین، عدنان شاہ ٹیپو، مبشر محمود، نورین گلوانی، سعد اظہر، عدیل افضل، نجمہ بی بی اور زریاب حیدر سمیت دیگر شامل ہیں۔

اب تک اس ڈرامے کی نصف سے زیادہ اقساط پیش کی جاچکی ہیں لہٰذا ڈرامے کی کہانی اور اس کے تانے بانے کافی حد تک سامنے آچکے ہیں اور اب ڈرامہ اس اسٹیج پر ہے جب ہر دیکھنے والے کی زبان پر ”اب کیا ہوگا؟“ کی گردان ہے۔

کیا مینو اپنا خواب پورا کرپائے گی؟ کیا مینو کا بوڑھا باپ آگے چل کر مینو کا ساتھ دے سکے گا؟ کیا مینو اور نوفل کے درمیان استاد اور شاگرد سے ہٹ کر بھی کوئی رشتہ پنپ رہا ہے؟ کیا گاؤں والے ڈاکٹر نوفل کو قبول کرپائیں گے؟ آپ اپنے اندازے اور مشورے ہم سے کمنٹس باکس میں شیئر کرسکتے ہیں۔

”زرد پتوں کا بن“ رومانس اور شادی کے روایتی بیانئے سے ہٹ کر بنایا گیا ایک ایسا ڈرامہ ہے جو روایتی تلخ رشتوں اور ان سے جڑے تکلیف دہ مسائل کو اجاگر کرتا ہے۔ سنجیدہ اور دل فگار موضوع کے باوجود یہ مکمل طور پر ایک دلچسپ اور تفریحی ڈرامہ ہے جس نے یہ ثابت کیا ہے کہ صرف سنسنی نہیں بلکہ موضوع کی حساسیت اور متاثر کن کہانی بھی عوام میں اپنی جگہ بنالیتی ہے۔

یہ ڈرامہ پسماندہ علاقوں میں حاملہ خواتین کی صحت، چائلڈ لیبر، خاندانی منصوبہ بندی، صنفی بنیاد پر تشدد اور منشیات کے استعمال جیسے اہم اور حساس سماجی مسائل پر روشنی ڈالتا ہے۔ ڈرامے کے مرکزی کردار حمزہ سہیل (ڈاکٹر نوفل) ڈرامے میں ایک رحمدل، بہادر اور انصاف پسند ڈاکٹر کا کردار ادا کررہے ہیں۔ یہ ایک ایسا کردار ہے جو ان مردوں کی عکاسی کرتا ہے جن کی وجہ سے معاشرے میں بہت سی خواتین کامیابی سے اپنی خدمات سرانجام دیتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لارہی ہیں۔

غلطی سے ہارٹ اٹیک کا لفظ استعمال کیا، آئمہ بیگ کی وضاحت

سجل علی (مینو) ایک پرجوش اور پرعزم طالبعلم کا کردار ادا کررہی ہیں جو ایک جانب جذباتی ہے تو دوسری جانب رویوں میں لچک کیساتھ زندگی کے چیلنجوں کا مقابلہ کرتی ہے۔ اس کے ڈاکٹر بننے کی خواہش کی راہ میں اس کے اپنے ہی گھر کے لوگ حائل ہیں لیکن اپنے باپ کے حوصلے کی سیڑھی چڑھتے ہوئے وہ آگے بڑھتی نظر آتی ہے۔

منال قریشی (مقدس) روشن (شیخ مبشر محمود) کی محبوبہ کا کردار ادا کررہی ہیں، یہ منال کا پہلا ڈرامہ ہے جبکہ سجل کے بھتیجے کا کردار ادا کرنے والے روشن کے کردار کو بھی عوام میں پسندیدگی کی سند حاصل ہو رہی ہے۔ منجھی ہوئی ادکارہ سمعیہ ممتاز حسب سابق اپنے کردار سے انصاف کررہی ہیں۔

”زرد پتوں کا بن“ کے حوالے سے ڈرامے کے ڈائریکٹر سیف حسن کا کہنا ہے ”جب تک آپ شہروں کی حدود سے باہر نکل کر رجعت پسند برادریوں اور پسماندہ گاؤں میں خواتین کی حالت زار نہیں دیکھیں گے اس وقت تک آپ لڑکیوں کی تعلیم کی اہمیت کو صحیح معنوں میں نہیں سمجھ پائیں گے۔ ان خواتین کی حالت زار تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورتحال کی عکاس ہے۔ یاد رکھیں کہ خواتین معاشرے کا اہم ترین ستون ہیں اور ان کی تعلیم سماجی ترقی کیلئے انتہائی اہمیت کی حامل ہے لہٰذا اس ضمن میں ہر ایک کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، یہ ڈرامہ ہماری جانب سے اس سمت لوگوں کو متوجہ کرنے کی ایک کوشش ہے۔“

”زرد پتوں کا بن“ ایک ایسا ڈرامہ ہے جسے ناقدین کی بھی پسندیدگی حاصل ہے۔ اس ڈرامے کی کہانی شوخ و شنگ نہیں ہے، ڈائیلاگ سادہ مگر پراثر ہیں، مناظر حقیقی ہیں،کردار سادہ مگر جاندار ہیں، ہر اداکار اپنی جگہ پوری ایمانداری سے اپنا کردار نبھارہا ہے۔ یہ روایت سے مختلف ڈرامہ ہے جو ایک مخصوص سمت پر گامزن ہے اور صورتحال کے مطابق بتدریج تبدیلی کے عمل سے گزر رہا ہے، ایک جانب محبتوں کی شدتیں ہیں، باپ بیٹی کا خوبصورت رشتہ ہے تو دوسری جانب بھائیوں کی اسی بہن سے چڑ، ایک طرف باہر سے آئے ہوئے ڈاکٹر کا انسانی ہمدردی کے تحت گاؤں قیام ہے تو دوسری طرف اپنی ہی اولاد کے خون کا سودا کرنا والا باپ بھی ہے۔

یہاں اگر بیٹی کے عوض پیسے لینے والا باپ ہے تو اسی بیٹی کی خاطر بغاوت کرنے والی ماں بھی ہے، اس کہانی میں گاؤں کے گھٹے ہوئے ماحول میں ایک لڑکی کا پڑھنے اور ڈاکٹر بننے کا فیصلہ کرنااور کسی کا باہر سے آکر اس خواب کی تکمیل میں اس کا ساتھ دینااور اس راہ میں حائل مشکلات کا سامنا کرنا، یہ سب مختلف سمتوں کی کہانیاں ہیں جنہیں مصطفی ہاشمی نے انتہائی خوبصورتی سے تحریر کیا ہے۔ مصطفی ہاشمی نے ڈرامہ پوری دیانتداری سے لکھا ہے، سادہ مگر اثرانگیز جملے ہیں جن میں کوئی نہ کوئی پیغام پوشیدہ ملتا ہے۔

’’من جوگی‘‘نے عوام کے دل جیت لئے

سیف حسن کی بہترین ڈائریکشن ہر سین میں نظر آرہی ہے، ڈرامے کے کئی سین ایسے ہیں جہاں ڈائیلاگ کے بجائے محض تاثرات سے کام لیا گیا ہے اور بہت کچھ ایسا ہے جس کی آپ توقع بھی نہیں کرسکتے لیکن وہ اسکرین پر دیکھ پاتے ہیں۔

ڈرامے میں سجل علی کی اداکاری کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہوگی، ناظرین اس کے ہر سین سے لطف اندوز ہورہے ہیں، وہ بھتیجے سے محبت کا اظہار کرتی ہے یا باپ کی محبت پر فخر کررہی ہے، دوست سے دوستی نبھا رہی ہے یا رشتہ لانے والوں سے گفتگو کررہی ہے، کالج میں ٹیچرز سے بات کررہی ہے یا پھر ڈاکٹر سے لڑرہی ہے، ہر جگہ سجل نے اپنے کردار کو نبھایا ہے۔ اگر اس کا کریکٹر اچھا لکھا گیا ہے تو اس نے پوری ایمانداری سے اس کردار کو نبھایا بھی ہے۔ اس نے سائیکل اٹھائی ہے، چارہ کاٹا ہے، درخت پر چڑھی ہے، ڈنڈے مارے ہیں یہاں تک کہ دوست کی چارپائی کو سائیکل پر باندھ کر اسپتال تک لائی ہے، پورے ڈرامے میں شاید ہی کہیں سجل نے ایک رنگ کے کپڑے پہنے ہیں، تو کہنے کا مطلب یہ ہے کہ سجل نے اس ڈرامے کو نبھانے کیلئے سخت محنت کی ہے جس کے نتائج بھی سامنے آرہے ہیں۔

یہ ایک ایسا ڈرامہ ہے جس پر ڈرامہ انڈسٹری کو بجاطور پر فخر کرنا چاہئے، جہاں ہم کمرشل بنیادوں پر ڈرامے بناتے اور دکھاتے ہیں وہیں معاشرے کو کچھ ایسا دینا جس پر معاشرہ سوچے اور لوگ اس پر بات کریں، نہایت اہمیت کا حامل اور میڈیا انڈسٹری کا فرض ہے جو ہم ٹی وی بجاطور پر ادا کررہا ہے۔ یہ ڈرامہ ثابت کرتا ہے کہ ہم ٹی وی اپنے اختراعی ڈراموں کے ذریعے سماجی اقتدار کو چیلنج کرتے ہوئے صنفی تعصبات اور عدم مساوات کے خاتمے کے حل پیش کرتا ہے۔

یہ چینل حقیقی زندگی کے تجربات پر مبنی مستند کہانیوں کے ذریعے خواتین کے مضبوط کردار کو اجاگر کرتا ہے، معاشرے میں مکالمے کا رجحان پیدا کرتا ہے، رویوں میں تبدیلی کا سبب بنتا ہے، ناظرین کو زیادہ جامع اور منصفانہ مستقبل کے قیام کی ترغیب دیتا ہے۔


News Source   News Source Text

مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.