دس سالہ لڑکی جس نے چہل قدمی کرتے ہوئے 20 کروڑ سال قدیم ڈائنوسار کے قدموں کے نشانات دریافت کیے

دس سالہ سکول کی طالبہ ٹیگن نے پانچ بڑے قدموں کے نشانات دیکھے جن کے بارے میں ماہرین کا خیال ہے کہ یہ کیمیلوٹیا نسل کے ڈائنوسار کا نشان ہے جو 20 کروڑ سال پہلے روئے زمین پر موجود تھے۔
ٹیگن نے کہا کہ ہم لوگ ساحل پر صرف یہ تلاش کر رہے تھے کہ ہمیں کیا مل سکتا ہے
BBC
ٹیگن نے کہا کہ ہم لوگ ساحل پر صرف یہ تلاش کر رہے تھے کہ ہمیں کیا مل سکتا ہے

ایک 10 سالہ لڑکی اپنی ماں کے ساتھ موسم گرما کی چھٹیوں میں ساحل سمندر پر ٹہلنے گئی تو اسے اندازہ نہیں تھا کہ وہ ڈائنوسار کے پاؤں کے نشانات پر چل رہی ہوگی۔

اس دس سالہ سکول کی طالبہ ٹیگن نے پانچ بڑے قدموں کے نشانات دیکھے جن کے بارے میں ماہرین کا خیال ہے کہ یہ کیمیلوٹیا نسل کے ڈائنوسار کا نشان ہے جو 20 کروڑ سال پہلے روئے زمین پر موجود تھے۔

ماہرین حیاتیات کے خیال میں پیروں کے نشانات جو کہ 75 سینٹی میٹر (30 انچ) تک کے فاصلے پر ہیں، ٹرائیاسک دور کے آخر کے بہت بڑے سبزی خور جاندار کے قدموں کے نشان ہیں اور اب ان کی تصدیق کے لیے ان کی جانچ کی جا رہی ہے۔

ٹیگن اور ان کی والدہ کلیئر کو نیشنل میوزیم ویلز کی پیلیونٹولوجی کیوریٹر سنڈی ہاویلز نے بتایا کہ وہ ان کے بارے میں ’کافی پر یقین ہیں کہ وہ حقیقی ڈائنوسار نقش پا ہیں۔‘

سنڈی ہاویلز نے بی بی سی کے ’آور لائیوز‘ پروگرام کو بتایا کہ ’ہمارے پاس پانچ قدموں کے نشانات ہیں اور ہم ہر ایک کے درمیان آدھے سے تین چوتھائی میٹر کے فاصلے کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔‘

’یہ قدموں کے نشانات اتنے بڑے ہیں کہ یہ ڈائنوسار کی سوروپوڈومورفا قسم کے ہونے چاہیں۔‘

قدموں کے نشان
BBC
ڈائنوسار کے قدموں کے نشان

ٹیگن نے اس دیوقامت جاندار کے نقش قدم کی دریافت جنوبی ویلز کے ساحل کے قریب کی جہاں ان کی ماں رہتی تھیں۔

ٹیگن نے کہا کہ ’یہ بہت ہی شاندار اور پرجوش‘ دریافت ہے۔ وہ سوانسی کے قریب پونٹرڈاوے سے گلیمورگن کی وادی تک فوسلز کی تلاش میں پہنچی تھیں۔

انھوں نے کہا کہ ’ہم صرف یہ دیکھنے کے لیے باہر نکلے تھے کہ ہمیں کیا مل سکتا ہے، ہمیں نہیں لگا تھا کہ ہمیں کچھ ملے گا۔‘

’ہمیں پتہ چلا کہ یہ بڑے سوراخ ہیں جو ڈائنوسار کے قدموں کے نشانات کی طرح نظر آتے ہیں، اس لیے امی نے کچھ تصویریں لیں، میوزیم کو ای میل کیں اور یہ پتا چلا کہ یہ ایک لمبی گردن والے ڈائنوسار کے قدموں کے نشان تھے۔‘

کلیئر نے کارڈف اور بیری کے درمیان گلیمورگن ہیریٹیج کوسٹ کے ایک حصے پر لاورناک پوائنٹ پر سرخ سِلٹ سٹون میں پائے گئے نشانات کے چند دن بعد سِنڈی کو ای میل کیا۔

برطانیہ کے اس حصے میں 40 سالوں سے ڈائنوسار کی معلومات کی ماہر سنڈی نے کہا کہ جس چیز نے انھیں یقین دلایا کہ وہ ڈائنوسار کے حقیقی قدموں کے نشان ہیں کیونکہ یہ ان کے مستقل ڈگ بھرنے کے پیٹرن ہیں۔

سنڈی نے کہا کہ ’اگر وہ بے ترتیب سوراخ ہوتے تو ہم محتاط رہتے۔ لیکن کیونکہ یہاں ان کے ایک بائیں پاؤں کا نشان تھا تو پھر ایک دائیں پاؤں کا اور پھر ایک بائیں اور پھر دوسرا دائیں پاؤں کا نشان تھا۔۔۔ اور ان کے درمیان ایک ہی قسم کا مستقل فاصلہ ہے۔‘

’یہ کافی اہم دریافت ہے۔ جب کوئی ہم سے ڈائنوسار کی حقیقی تلاش کے ساتھ رابطہ کرتا ہے تو بس اندر سے آواز آتی ہے کہ یہ حیرت انگیز ہے۔‘

کلیئر کو اس بات سے مسرور ہیں کہ ان کا خیال درست تھا اور انھوں نے اپنی جونیئر ’ڈائنو ہنٹر‘ بیٹی کی حوصلہ افزائی کی ہے۔

انھوں نے کہا ’اس بات کو ہضم کرنا مشکل ہے کہ آپ اسی ساحل پر چل رہے ہیں جہاں کروڑوں سال پہلے کچھ بڑے تاریخی جانور چلا کرتے تھے۔‘

’آپ پوری زندگی ڈائنوسار کے خزانوں کی تلاش میں گزار سکتے ہیں لیکن اس عمر میں ٹیگن کے لیے ایسا ہونا بہت اچھا ہے۔‘

ماں کلیئر اور بیٹی ٹیگن
BBC
ماں کلیئر اور بیٹی ٹیگن نے اس کی تصویریں لیں

کیمیلوٹیا ڈا‏ئنوسار کیا ہے؟

ساحل کے اس حصے پر تازہ ترین قبل تاریخ دریافت ہونے والے ڈائنوسارز میں سوروپوڈ خاندان کے نشانات ملے ہیں۔ ان میں بریچیوسورس اور ڈپلوڈوکس نسل کے ڈائنوسار بھی تھے جن کی بہت لمبی گردن، لمبی دم، بڑے جسم اور چھوٹے سر ہوتے تھے اور یہ ان کی خصوصیت تھی۔

سنڈی کا خیال ہے کہ قدموں کے یہ نشان کیمیلوٹیا نسل کے ڈائنوسار کے ہیں جو یورپ کے مختلف حصوں میں رہتے تھے۔

سٹیگوسورس، ٹرائیسراٹوپس اور طاقتور ٹی ریکس کے مقابلے میں ماہرین اس قسم کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں۔ لیکن یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے اگلے پیروں اور اپنے پچھلے اعضا پر چلتے تھے، سبزی خور تھے اور ٹرائیسک دور کے آخر میں ہوا کرتے تھے۔

سنڈی نے مزید کہا کہ ’ہمارے خیال سے یہ قدموں کے نشان معقول حد تک بڑے، سبزی خور ڈائنو سار نے بنائے تھے۔ ہمیں یہاں کوئی ہڈیاں نہیں ملی ہیں لیکن برسٹل چینل کے دوسری طرف اسی طرح کے ڈائنوسار کی ہڈیاں پائی گئی ہیں۔‘

’کیمیلوٹیا تقریباً تین میٹر (چار فیٹ) اونچے، چار سے پانچ میٹر لمبے ہوتے تھے اور یہ نسبتاً لمبی گردن، لمبی دم کے ساتھ ابتدائی سورپوڈومورف نسل کے تھے۔ یہ دو ٹانگوں پر چلتے تھے لیکن کھانے کے لیے چرتے وقت چاروں پاؤں پر چل سکتے تھے۔‘

کیمیلوٹیا نسل کا ڈائنوسار کچھ اس طرح کا نظر آتا ہوگا
Getty Images
کیمیلوٹیا نسل کا ڈائنوسار کچھ اس طرح کا نظر آتا ہوگا

کیا ویلز ایک ڈائنوسار کی تلاش کی سب سے اچھی جگہ ہے؟

سنڈی کو یقین ہے کہ ’ٹیگن نے جو قدموں کے نشانات ڈھونڈے ‘ ہیں ان کا تعلق سنہ 1879 میں ویلز کے قریب پورتھکال میں پائے جانے والے پہلے ڈائنوسار کے نشانات سے ہے۔

بیری اور سُلی کے قریب دی بینڈرکس میں مزید قدموں کے نشانات ملنے سے پہلے گلیمورگن کی وادی میں کاؤبرج میں ہڈیوں کا پتہ لگایا گیا تھا۔ یہ علاقہ اب خصوصی سائنسی اور قدیم سائنسی دلچسپیوں کے مقامات میں سے ایک ہے۔

سنہ 2014 میں پینارتھ کے قریب اسی ساحل پر ایک پورے ڈائنوسار کا ڈھانچہ ملا تھا جہاں حال میں ٹیگن کو ان کے قدموں کے نشان ملے ہیں۔ لیکن وہ 201 ملین سال پرانا ڈریکوراپٹر تھا اور ٹی ریکس کا گوشت خور کزن تھا۔

اسی طرح چار سالہ للی کو تین سال قبل دی بینڈرکس میں پوری طرح سے محفوظ ڈائنوسار کے قدموں کے نشان ملے تھے اور اب ٹیگن نے ساحل کے نیچے کچھ اور دیکھا ہے۔

سنڈی نے کہا کہ ’یہ حیرت انگیز ہے کہ ہمارے ویلز میں بہت کم ڈائنوسار ملنے کے شواہد تھے، ہم نے یہ نہیں سوچا تھا کہ ہمارے یہاں ڈائنوسار کی تلاش کے لیے بہت کچھ ہے۔‘

’اب ہمیں ہر پانچ سے چھ سال بعد ایک پاؤں کا نشان یا ہڈی مل رہی ہے اور اب ہم جانتے ہیں کہ ہمارے پاس ویلز میں ڈیڑھ کروڑ سال یا اس سے زیادہ عرصہ پہلے رہنے والے ڈائنوساروں کا ایک تسلسل ہے اور یہ حیرت انگیز ہے۔‘

ساؤتھ ویلز گروپ کے جیولوجسٹ ایسوسی ایشن کی سنڈی نائب صدر ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ ’ڈائنو سار ٹی ریکس کے لیے برطانیہ کی بہترین سائٹ ہے، جو ٹرائیسک دور سے باہر ہے۔‘

ویلز کیسا تھا جب ڈائنوسار وہاں گھوما کرتے تھے؟

سنڈی نے کہا ہے کہ ویلز کی ارضیاتی تاریخ 700 ملین سال پرانی ہے۔ یہ ایک گرم ریگستان تھا جہاں تیز سیلاب آتے تھے اور ٹیگن نے جس ڈائنوسار کے پاؤں کے نشانات دیکھے ہیں وہ اس جگہ گھومتے پھرتے تھے۔

اس نے قدموں کے ان نشانات کا فوری طور پر تجزیہ کر لیا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ وہ ایک قبل از تاریخ والے علاقے میں گھوم رہی ہے۔

سنڈی نے مزید کہا کہ ’اس علاقے کے آس پاس کی چٹانیں ٹرائیسک چٹانیں ہیں، جو صحراؤں میں بنتی ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ ہمیں ان میں ڈائنوسار کے قدموں کے نشان ملے ہیں۔‘

’کوئی 220 ملین سال پہلے ویلز ایسا لگتا تھا جیسا کہ آج کل مشرق وسطیٰ ہے، جو بہت گرم، صحراؤں پر مشتمل خشک اور سمندر سے سینکڑوں میل دور۔‘

’لیکن سطح سمندر میں تبدیلی آ رہی تھی اور براعظم ٹوٹ رہے تھے اور یہ علاقہ رطوبت والا ہو رہا تھا اور سمندر صحراؤں کو بھر رہا تھا تو وہ ماحول ڈائنوسار کے لیے زیادہ سازگار تھا۔

’پھر 20 کروڑ سال پہلے ویلز بحیرہ روم کی طرح تھا جس میں گرم ٹراپیکل سمندر اور چھوٹے جزیرے تھے۔‘

سنڈی نے اب دیگر ماہرین حیاتیات کے لیے ایک رپورٹ لکھی ہے اور وہ اس کے بارے میں لکھتی ہیں یہ نشانات ڈائنو سار کے اور ان کے اس تجزیے کی توثیق ہونا باقی ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’لوگوں کو یہ بتانا بہت اچھا لگتا ہے کہ ہمارے ساؤتھ ویلز کے ساحل پر ڈائنوسار کے قدموں کے نشانات ہیں۔ بس آپ کو صحیح وقت پر صحیح جگہ پر ہونا ہے۔‘

’عجائب گھروں میں ہمارے پاس وقت نہیں ہوتا کہ ہم خود باہر جا کر اس کی تلاش کریں اس لیے ہم ٹیگن جیسے لوگوں پر بھروسہ کرتے ہیں جو ہمارے لیے ہمارا کام کر رہے ہیں۔ ہم ان کے بغیر اپنا کام نہیں کر سکتے۔‘

ماہرین ارضیات کی ایسوسی ایشن نے شوقیہ ڈائنوسار کی تلاش کرنے والوں کو بتایا ہے کہ پیروں کے نشانات کو ’شناخت کرنا‘ہو سکتا ہے کیونکہ بہت سے نشانات اونچی لہروں کے نیچے ہیں۔

’یہ گروپ مشورہ دیتا ہے کہ ’جب ٹریکس میں پانی کم ہوں تو وہاں جانا بہتر ہے۔‘

’آسمان پر سورج ڈھل رہا ہو یا نکل رہا ہو تو بھی قدموں کے نشانات کو تلاش کرنا آسان ہے کیونکہ طویل سائے قدموں کے نشانات کو واضح کرنے میں مدد کریں گے۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.