کیا پاکستان میں اسلامی بینک صارفین سے قرضوں پر زیادہ منافع لے رہے ہیں؟

پاکستان میں اسلامی بینکاری سے منسلک مالیات اداروں کے مطابق وہ سود سے پاک بینکاری کرتے ہیں تاہم خزانہ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں اسلامی بینکوں کے قرضوں پر منافعے کو روایتی بینکوں سے زیادہ قرار دیا گیا ہے۔
اسلامی بینکاری
Getty Images

پاکستان میں حالیہ برسوں میں اسلامی بینکاری کا کافی فروغ حاصل ہوا ہے اور ان بینکوں کے ساتھ روایتی بینکوں کی اسلامی بینکاری برانچز کی تعداد میں کافی اضافہ دیکھا گیا ہے۔

گذشتہ دنوں پارلیمان کے ایوان بالا کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے چیئرمین سلیم مانڈی والا کی جانب سے کہا گیا ہے کہ روایتی بینک قرضوں پر کم منافع کماتے ہیں جبکہ اسلامی بینکوں کی جانب سے صارفین کو مہنگی شرح پر قرض دیا جاتا ہے۔

پاکستان میں اسلامی بینکاری سے منسلک مالیات اداروں کے مطابق وہ سود سے پاک بینکاری کرتے ہیں تاہم خزانہ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں اسلامی بینکوں کے قرضوں پر منافع کو روایتی بینکوں سے زیادہ قرار دیا گیا ہے۔

کیا ’ربا‘ کے نام پر صارفین سے عام بینکوں کے مقابلے میں زیادہ منافع لیا جا رہا ہے؟

پاکستان کے ایوان بالا کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے چیئرمین سلیم مانڈی والا نے کہا اسلامی بینک صارفین سے قرضوں پر زیادہ منافع لے رہے ہیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق انھوں نے کہا اسلامی بینکوں کی جانب سے صارفین سے قرضوں پر 25 سے 30 فیصد جبکہ روایتی بینکوں کی جانب سے 20 فیصد منافع کمایا جا رہا ہے۔ ربا کا عمومی تصور ایسے سود کا ہے جو کسی قرض کے بدلے حاصل کیا جائے۔

واضح رہے کہ ملک میں اس وقت سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے پالیسی ریٹ یعنی شرح سود 19.5 فیصد مقرر کیا گیا ہے اور بینک کراچی انٹربینک آفرڈ ریٹ جسے عام زبان میں ’کائی بور‘ کہا جاتا ہے اس میں سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے مقرر کردہ شرح سود سے کچھ فیصد زیادہ سود لیتے ہیں۔

BANKiSLAMI
Getty Images

اس سلسلے میں انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) میں سنٹر آف ایکسی لینس برائے اسلامک فنانسنگ کے ڈائریکٹر احمد علی صدیقی نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’سب سے پہلے یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ اسلامی بینکاری میں روایتی بینکوں کی طرح قرضہ نہیں دیا جاتا ہے اور نہ قرض پر کوئی نفع نہیں حاصل ہوتا ہے اور مزید یہ کہ اسلامی بینک قانونی طور پر بھی سود کا لین دین نہیں کرسکتے۔ اگر کبھی اسلامی بینک قرضہ فراہم بھی کرتے ہیں تو وہ بلا سود قرضہ ہوتا ہے۔ ‘

انھوں نے اس تاثر کو مسترد کیا کہ روایتی بینکوں کے مقابلے میں اسلامی ببینک اپنے ’فنانسنگ کسٹمرز‘ سے دس فیصد زیادہ نفع کماتے ہیں۔

احمد علی صدیقی نے مزید بتایا کہ ’جب حکومت بینکوں سے قرض لیتی ہے تو روایتی بینکوں سے ٹریژی بلز اور بانڈز کے ذریعے لیے جانے والا قرضہ مہنگا ہوتا ہے جبکہ سکوک کے ذریعے اسلامی بینکوں سے لیا جانے والا سرمایہ ایک سے ڈیڑھ فیصد سستا ہوتا ہے جس کا اعتراف خود وفاقی وزارت خزانہ نے بھی کیا ہے۔‘

پیسہ پیسہ
Getty Images

سینیٹ کیقائمہ کمیٹی برائے خزانہ میں کیا ہوا؟

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے چیئرمین کے ترجمان نے بی بی سی اردو کے رابطہ کرنے پر سینیٹ آف پاکستان کی جانب سے جارہ کردہ پریس ریلیز بھیجی جس میں کہا گہا کہ کمیٹی نے اسلامک بینکاری میں تضادات پر بحث کی اور سلیم مانڈی والا نے کہا کہ اسلامی بینکوں کی شرح منافع مبینہ طور پر روایتی بینکوں سے زیادہ ہو سکتی ہے۔

انھوں نے سٹیٹ بینک سے اسلامی بینکاری پر بھی ایک تفصیلی بریفنگ کا کہا ہے اور اجلاس میں اسلامی بینکاری میں شفافیت کے لیے ریگولیٹری نگرانی پر زور دیا گیا ہے۔

پیسہ
Getty Images

پاکستان میں اسلامی بینکاری میں منافع کا تصور کیا ہے اور یہ سود سے کیسے مختلف ہے؟

احمد علی صدیقی نے اس سلسلے میں بتایا کہ پاکستان میں اسلامی بینکاری دنیا بھرمیں رائج اسلامی بینکاری کے شرعی اصولوں کے مطابق چل رہی ہے اور اس سلسلے میں سٹیٹ بینک کا ایک مضبوط اسلامی بینکاری ریگولیٹری فریم ورک موجود ہے جس کے تحت پاکستان میں اسلامی بینک کام کر رہی ہے۔

اس وقت دنیا کے تقریباً ایک سو سے زائد ممالک میں اسلامی مالیاتی ادارے موجود ہیں۔ انھوں نے کہا کے روایتی بینکاری میں قرضہ دیا جاتا ہے تو اس پر جو نفع حاصل کیا جاتا ہے اسے اردو میں سود اور عربی زبان میں ربا کہتے ہیں۔ مثال کے طور پر کسٹمر کو ایک لاکھ کا قرضہ دیا گیا ہے اور اس سے ایک لاکھ پانچ ہزار کی واپس کیے گئے یہاں پر پانچ ہزار روپے کا اضافہ سود ہو گا۔

انھوں نے کہا کہ اسلامی بینکاری میں سرمائے کی فرامی شراکت داری، خرید و فروخت یا کرائے داری کےشرعی اصولوں پر ہوتی ہے۔

انھوںنے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر اسلامی بینک سے مکان کے لیے سرمایہ لیا جائے تو بینک اور صارف کے درمیان ایک کرائے کا معاہدہ ہو گا یعنی بینک وہ مکان خرید کر صارف کو کرائے پر دے گا اور ایک خاص مدت تک کرایہ ادا کرتا ہے اور ساتھ ساتھ صارف اس مکان کی ملکیت کا حصہ خرید کر مالک بن سکتا ہے۔ ‘

انھوں نے بتایا کہ اسلامی بینکاری میں بینک کا اثاثہ جو وہ کرائے پر پر دے رہا ہے اس کے نقصان کا رسک بھی بینک پر ہوتا ہے۔

بینکاری شعبے کے ماہر راشد مسعود عالم نے اس سلسلے میں بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’روایتی بینکاری میں سود کا تصور ہوتا ہے جس میں قرض پر دی گئی اصل رقم پر اضافی رقم لینا وہ اسلامی ’سکالرز‘ کے نزدیک حرام ہے اور ربا ہے۔ ‘

’روایتی بینک میں قرض دہندہ اور قرض خواہ اور سود کا تصور ہے۔ انھوںنے کہا اسلامی بینکاری میں جو اشیا ہوتی ہیں وہ مراحبہ، اجارہ ، مشارکہ جس میں پارنٹرشپ اور نفع نقصان کا تصور ہوتا ہے جیسے مشارکہ جس میں شراکت داری کو تصور ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی صنعت کار کوئی پلانٹ یا مشنیری یا کوئی خام مال خریدنا چاہتا ہے تو مراحبہ کے تحت اسے سپلائر کے نام پر پے آرڈر مل جاتا ہے اور پھر بینک اس صنعت کار کے ساتھ معاہدہ کر لیتا ہے۔ ‘

تاہم انھوں نے کہا اسلامی بینکاری میں بہت زیادہ دستاویزی کام ہوتا ہے جس کی وجہ سے ان کی جانب سے صارف کو کسی معاہدے میں دی جانے والی رقم کی قیمت زیادہ ہو جاتی ہے۔

BANKS
Getty Images

پاکستان میں بینک کیا اپنی مرضی سے سود یا ربا کا تعین کرتے ہیں؟

پاکستان میں بینکوں کی جانب سے صارفین کو دیے جانے والے قرضے کس شرح منافع پر دیے جائیں گے۔ اس کے تعیّن کے بارے میں بات کرتے ہوئے احمد علی صدیقی نے بتایا کہ ملک میں بینکوں سے سرمائے کی فراہمی کے لیے سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے پالیسی ریٹ جاری کیا جاتا ہے جو اس وقت ساڑھے 19 فیصد پر موجود ہے۔

انھوں نے کہا یہ ایک معیار یا بینچ مارک ہے اور اصل میں مارکیٹ کے اصول اس بات کا تعیّن کرتے ہیں کہ ایک بینک صارف سے کتنے فیصد نفع کمانا ہے۔

انھوں نے کہا جو بینک زیادہ مسابقتی ہو گا صارف اس سے زیادہ کام کرے گا۔

انھوں نے کہا اس وقت ملک میں ہاوسنگ کے شعبے میں جو فنانسنگ ہے اس میں اسلامی بینکوں کا حصہ تقریباً ساٹھ فیصد ہے اس کا مطلب ہے اسلامی بینک نہ صرف شرعی اصولوں کو اپناتے ہے بلکہ زیادہ مسابقتی ہیں اور صارف اس لیے ان سے زیادہ مکانوں کی خریداری کے لیے رجوع کر رہے ہیں۔

Bank
BBC

اسلامی بینک زیادہ منافع لینے کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ میں اسلامی بینکوں کی جانب سے صارفین سے قرض دینے پر زیادہ منافع کمانے کی الزامات کے بارے میں پاکستان میں کام کرنے والے بینک اسلامی کے ’شریعہ کمپلاٸنس ڈیپارٹمنٹ‘ کے سربراہکے طور پر کام کرنے والے عرفان احمد نے بتایا کہ سب سے پہلے یہ بات سمجھنی ضروری ہے کہ سود قرضے کے معاملے میں ہوتا ہے اور اسلامی بینک اپنے صارف کو قرضہ نہیں دیتا کہ جس پر نفع کی صورت میں سود کما یا جا سکے۔

انھوں نے کہا اسلامی بینک اور صارف مل کر پارٹنر شپ، خریدوفروخت اور کرایہ داری کا معاملہ کرتے ہیں۔ اسلامی بنیادوں پر آٹو فنانسکے طریقہ کار کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اگر کسی صارف نے گاڑی خریدنی ہے تو اسلامی بینک اور صارف اس میں پارٹنر شپ کریں گے اور ایک خاص مدت کے لیے اسلامی بینک اپنی گاڑی میں اپنا حصہ صارف کو کرایہ پر دے گا۔ اس دوران جو کرایہ حاصل ہوگا وہ اسلامی بینک کا نفع ہوگا۔

انھوں نے کہا یہ بات بھی واضح ہونی چاہیے کہ اگر گاڑی کو کوئی نقصان ہو جائے تو اسلامی بینک اس اثاثے میں اپنے حصے کے بقدر نقصان برداشت کرتا ہے جب کہ روایتی بینکوں میں یہ نقصان صارف برداشت کرتے ہیں۔

انھوں نے کہا اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اسلامی بینک کاری فریم ورک میں اسلامی بینکسودی معاملات نہیں کرسکتے بلکہ وہ صارف کے ساتھ خریدوفروخت، کرایہ داری یا شراکت داری کے جاٸز معاملات کرتے ہیں۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.