انصاف کے لیے 32 برس کا انتظار: ’ریپ کے بعد ان میں سے ایک نے مجھے لپ سٹک خریدنے کے لیے 200 روپے دیے‘

سنہ 1992 میں طاقتور افراد کے اس گروہ نے اجمیر شہر کے مختلف مقامات پر ریپ کا نشانہ بنایا اور بلیک میل کیا تھا۔ تمام متاثرین سکول جانے والے بچے یا طالبات تھیں۔ اس مقدمے کا فیصلے آنے میں 32 سال لگ گئے۔

’میرے دل میں بہت درد بھرا ہوا ہے۔ آج بھی جب میں سوچتی ہوں تو مجھے رونا آ جاتا ہے کہ کیسے اُس ایک ملاقات نے میری زندگی تباہ کر دی تھی۔‘

یہ بات ہے سنہ 1992 کی ہے جب سُشما (فرضی نام) محض 18 سال کی تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کی جان پہچان کا ایک شخص انھیں ویڈیو ٹیپ دکھانے کے بہانے ایک خالی گودام میں لے گیا۔ وہاں چھ سے سات مردوں نے انھیں باندھ کر ان کا ریپ کیا اور اس واقعے کی تصاویربھی بنائیں۔

سُشما کا ریپ کرنے والے افراد کا تعلق انڈیا کی ریاست راجستھان کے شہر اجمیر کے امیر اور بااثر خاندانوں سے تھا۔

’میرا ریپ کرنے کے بعد ان میں سے ایک شخص نے مجھے لپ سٹک خریدنے کے لیے 200 روپے دیے۔‘ سشما کہتی ہیں کہ انھوں نے وہ پیسے نہیں لیے۔

بالآخر گذشتہ ہفتے اس واقعے کے 32 سال بعد انڈیا کی ایک عدالت نے سشما کے ریپ کے مرتکب افراد کو مجرم ٹھہراتے ہوئے انھیں عمر قید کی سزا سنا دی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں 50 سال کی ہو گئی ہوں اور مجھے لگتا ہے کہ بالآخر مجھے انصاف ملا ہے۔‘

’لیکن اس سے وہ سب واپس نہیں آ سکتا، جو میں نے کھو دیا ہے۔‘

سشما کہتی ہیں کہ ان کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کی وجہ سے ان کو برسوں تک معاشرے کے طعنے سہنے پڑے اور ان کی دونوں شادیاں طلاق پر ختم ہوئیں کیونکہ ان کو شوہروں کو ان کے ماضی کے بارے میں پتا چل گیا تھا۔

سُشما اکیلی نہیں ہیں۔ ان کے علاوہ 15 ایسی اور خواتین ہیں جنھیں 1992 میں طاقتور افراد کے اس گروہ نے اجمیر شہر کے مختلف مقامات پر ریپ کا نشانہ بنایا اور بلیک میل کیا تھا۔

تمام متاثرین سکول جانے والے بچے یا طالبات تھیں۔

گذشتہ ہفتے 18 میں سے چھ ملزمان کو عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ ان افراد میں: نفیس چشتی، اقبال بھٹ، سلیم چشتی، سید جمیر حسین، نسیم عرف ٹارزن اور سہیل غنی شامل ہیں۔

ملزمان اپنے جرم سے انکاری ہیں اور ان کے وکلا کا کہنا ہے کہ وہ اس فیصلے کے خلاف اعلیٰ عدالت میں اپیل دائر کریں گے۔

باقی 12 ملزمان کا کیا ہوا؟

اس کیس کے دیگر آٹھ ملزمان کو 1998 عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی، لیکن ان میں سے چار کو اعلیٰ عدالت نے بری کر دیا تھا، جبکہ دیگر کی سزا کم کر کے 10 سال کر دی گئی تھی۔

باقی چار ملزمان میں سے ایک نے خودکشی کر لی تھی۔ ایک اور ملزم کو 2007 میں عمر قید کی سزا سنائی گئی لیکن انھیں چھ سال بعد بری کر دیا گیا۔ ایک ملزم کو ایک متعلقہ معمولی کیس میں سزا سنائی گئی لیکن بعد میں انھیں بھی بری کر دیا گیا جبکہ ایک ملزم تاحال مفرور ہے۔

سنتوش گپتا ایک صحافی ہیں جنھوں نے نہ صرف اس کیس کے بارے میں لکھا ہے بلکہ مقدمے کے دوران وہ استغاثہ کے گواہ کے طور پر بھی پیش ہوئے تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’کیا آپ اسے [20 اگست کے فیصلے] کو انصاف کہہ سکتے ہیں؟ صرف فیصلہ سنانا انصاف نہیں ہے۔‘

سپریم کورٹ کی وکیل ربیکا جان بھی سنٹوش کی رائے سے متفق دکھائی دیتی ہیں۔ وہ اسے ’انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار‘ کے مصداق مانتی ہیں۔

’یہ ایک ایسے مسئلے کی طرف اشارہ کرتا ہے جو صرف قانونی نظام تک محدود نہیں ہے۔ ہمارا پدرشاہی معاشرہ کافی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ ہمیں جس چیز کی ضرورت ہے وہ سوچ کی تبدیلی کی ہے، لیکن اس میں کتنا وقت لگے گا؟‘

استغاثہ کے وکیل وریندر سنگھ راٹھور کہتے ہیں کہ ملزمان نے متاثرین کو دھوکہ، دھمکیاں اور لالچ دینے کے لیے اپنی طاقت اور اثر و رسوخ کا استعمال کیا۔

ان کے مطابق ملزمان متاثرین کی قابلِ اعتراض تصاویر اور ویڈیوز کو انھیں خاموش کروانے یا مزید لوگوں کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کرتے تھے۔

’ایک مرتبہ ملزمان نے ایک ایسے شخص کو پارٹی میں مدعو کیا جسے وہ جانتے تھے اور اسے نشے میں دھت کر دیا۔ اس کے بعد انھوں نے اس کی قابلِ اعتراض تصاویر کھینچیں اور دھمکی دی کہ اگر وہ اپنی خواتین دوستوں کو ان سے نہیں ملوائے گا تو وہ ان تصاویر کو عام کر دیں گے۔‘

راٹھوڑ کے مطابق ملزمان اس طریقے سے مزید شکار ڈھوںڈتے تھَے۔

ملزمان کے مضبوط سیاسی اور سماجی روابط تھے۔ ان میں سے کچھکا تعلق شہر کی ایک مشہور درگاہ سے بھی تھا۔

سنتوش گپتا کہتے ہیں کہ اس زمانے میں اجمیر ایک چھوٹا شہر ہوا کرتا تھا اور ملزمان بائیک اور کاروں پر شہر میں گھومتے پھرتے تھے۔

’کچھ لوگ ان آدمیوں سے ڈرتے تھے، کچھ ان کا قرب حاصل کرنا چاہتے تھے اور کچھ ان جیسا بننا چاہتے تھے۔‘

گپتا کہتے ہیں کہ ملزمان نے اپنے طاقت اور اثر و رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے کیس کو مہینوں تک دبائے رکھا۔

لیکن کچھ لوگ جو اس بات سے واقف تھے کہ وہاں کیا ہو رہا ہے، ان میں ایک فوٹو سٹوڈیو میں کام کرنے والے افراد اور کچھ پولیس افسران شامل تھے۔

ایک روز ملزمان کی جانب سے لی گئی کچھ تصاویر گپتا تک پہنچ گئیں۔ وہ ان تصاویر کو دیکھ کر ششدر رہ گئے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’شہر کے چند طاقتور افراد معصوم، کم عمر لڑکیوں کے ساتھ گھناؤنے کام میں ملوث تھے اور اس کا ثبوت بھی موجود تھا۔ لیکن پولیس یا عوام کی طرف سے کوئی خاص ردعمل سامنے نہیں آیا تھا۔‘

انھوں نے اس بارے میں چند رپورٹس شائع کیں لیکن اس کا کوئی خاص اثر نہیں پڑا۔ سنتوش کے مطابق پھر ایک دن ان کے اخبار نے ایک ’جرات مندانہ فیصلہ‘ لیا۔

اخبار نے ایک متاثرہ نوجوان لڑکی کی کمر تک برہنہ تصویر شائع کی۔ اس تصویر میں اسے دو مردوں نے پکڑا ہوا تھا اور وہ اس کی چھاتی پر ہاتھ لگا رہے تھے۔ ان میں سے ایک شخص کیمرے کی طرف دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔ تصویر میں صرف لڑکی کا چہرہ دھندلا کیا گیا تھا۔

اس رپورٹ کے شائع ہونے کے بعد عوام مشتعل ہو گئی اور کئی روز تک شہر بند رہا۔ راجستھان میں غصہ آگ کی طرح پھیل گیا تھا۔

راٹھور کہتے ہیں کہ اس کے بعد بالآخر حکومت کی طرف سے کچھ ٹھوس کارروائی دیکھنے میں آئی اور پولیس نے ملزمان کے خلاف ریپ اور بلیک میلنگ کا مقدمہ درج کیا اور کیس کو سینٹرل انویسٹی گیشن ڈیپارٹمنٹ [سی آئی ڈی] کے حوالے کر دیا گیا۔

راٹھور بتاتے ہیں کہ کئی عوامل تھے جن کی وجہ سے مقدمہ 32 سال تک چلا۔ اس میں ملزمان کی وقفے وقفے سے گرفتاری، ملزمان کے وکلا کی جانب سے مبینہ تاخیری حربوں کا استعمال، پراسیکیوشن کے فنڈز میں کمی اور عدالتی نظام کے مسائل شامل ہیں۔

پولیس نے جب 1992 میں ابتدائی مقدمات درج کیے تو اس میں حال ہی میں سزا پانے والے چھ ملزمان کا نام شامل نہیں تھا کیونکہ وہ اُس وقت مفرور تھے۔

راٹھور کے خیال میں یہ ایک غلطی تھی۔ جب پولیس نے آخر کار 2002 میں ان چھ افراد کے خلاف الزامات درج کیے تو وہ تب بھی مفرور تھے۔ ان میں سے دو ملزمان کو 2003 میں، ایک کو 2005 میں اور دو کو 2012 میں گرفتار کیا گیا تھا، جبکہ آخری ملزم کی گرفتاری 2018 میں عمل میں آئی۔

جب بھی کوئی ملزم گرفتار ہوتا تو مقدمے کی سماعت نئے سرے سے شروع کی جاتی کیونکہ وکیلِ صفائی استغاثہ کی طرف سے پیش کیے گئے متاثرین اور گواہوں کو دوبارہ جرح کے لیے طلب کر لیتی۔

راٹھور اس کی وضاحت پیش کرتے ہیں کہ قانون کے مطابق جب گواہ شہادت دے رہے ہوتے ہیں تو ملزم کو حق حاصل ہے کہ وہ اس وقت عدالت میں موجود ہوں اور وکیلِ دفاع کو ان سے جرح کرنے کا حق حاصل ہے۔

اس چیز نے متاثرین کو اذیت ناک صورتحال میں مبتلا کر دیا تھا کیونکہ انھیں بار بار اس صدمے سے گزرنا پڑ رہا تھا جس کا وہ شکار ہوئے تھے۔

راٹھور یاد کرتے ہیں کہ دورانِ سماعت کئی بار متاثرین جو اب 40 اور 50 سال کے ہو چکے تھے جج پر چیخ پڑتے کہ انھیں ریپ کے برسوں بعد بھی عدالت میں کیوں گھسیٹا جا رہا ہے۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پولیس کے لیے گواہوں کا سراغ لگانا بھی مشکل ہوتا گیا۔

راٹھور کہتے ہیں کہ بہت سے لوگ اس کیس سے کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتے تھے کیونکہ ان کی زندگیاں آگے بڑھ چکی تھیں۔

’اب بھی ایک ملزم مفرور ہے۔ اگر اسے گرفتار کر لیا جاتا ہے یا اگر کوئی دوسرا ملزم اعلیٰ عدالت میں اس فیصلے کے خلاف اپیل کرتا ہے تو متاثرین اور گواہوں کو دوبارہ گواہی کے لیے بلایا جائے گا۔‘

سشما ان تین متاثرین میں سے ایک ہیں جن کی گواہی نے ان چھ ملزمان کو سزا دلوانے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔

وہ کہتی ہیں کہ وہ میڈیا سے اپنی آزمائش کے بارے میں اس لیے بات کرتی ہیں کیونکہ وہ سچ بول رہی تھیں۔

’میں نے اپنی کہانی کبھی نہیں بدلی۔ میں کم عمر اور معصوم تھی جب ان لوگوں نے میرے ساتھ ایسا کیا۔ اس واقعے نے مجھ سے میرا سب کچھ چھین لیا۔ اب میرے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں ہے۔‘

*اس خبر میں متاثرہ خاتون کا نام تبدیل کر دیا گیا ہے۔ انڈین قانون کے مطابق ریپ کے شکار شخص کی شناخت ظاہر نہیں کی جا سکتی۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.