’آپ کی جیب میں ڈارک ویب‘ کہلائی جانے والی ٹیلی گرام ایپ جرائم کا گڑھ کیسے بنی

فرانس میں ٹیلی گرام کے چیف ایگزیکٹیو کی گرفتاری نے ان کی ایپ پر ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔
man smoking an illegal cigarette
BBC

آج سے تقریباً نو ماہ قبل ایک سٹوری پر تحقیق کرتے کرتے میں ایک ایسے بڑے ٹیلی گرام چینل تک پہنچ گیا جو منشیات کی فروخت کے لیے بنا تھا۔

اس کے بعد مجھے دو اور چینلز میں ایڈ کیا گیا جن میں سے ایک ہیکنگ اور دوسرا چوری شدہ کریڈٹ کارڈز کے متعلق تھا۔

مجھے ایسا محسوس ہوا کہ شاید میری ٹیلی گرام ایپ کی سیٹنگز ایسی ہیں جن کے باعث میرے کچھ کیے بغیر ہی لوگ بڑے آرام سے مجھے اپنے اپنے چینلز میں ایڈ کر رہے ہیں۔

ان مجرمانہ نیٹ ورکس والے چینلز میں مختلف لنکس اور سپیم (غیر متعقلہ اور مشکوک پیغامات) شیئر کیے جا رہے تھے۔

اسی لیے میں نے سیٹنگز تبدیل نہیں کیں کہ دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔ چند مہینوں کے اندر اندر مجھے 82 مختلف گروپس میں ایڈ کر دیا گیا تھا۔

اس سب کو روکنے کے لیے میں نے اپنی سیٹنگز تبدیل کر دیں لیکن اب میں جب بھی لاگ اِن کرتا ہوں تو ان غیر قانونی مگر انتہائی فعال گروپس سے آنے والے ہزاروں پیغامات میرا استقبال کرتے ہیں۔

فرانس میں ٹیلی گرام کے ارب پتی چیف ایگزیکٹو کی گرفتاری نے ان کی ایپ پر صارفین کے تحفظ اور نگرانی کی بحث کو جنم دیا ہے۔

پاول دورف پر غیر قانونی لین دین، منشیات کی سمگلنگ، دھوکہ دہی، بچوں کے جنسی استحصال اور اُن کی تصاویر کو اپنی ویب سائٹ پر شیئر ہونے کی اجازت دینے میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جرائم دوسرے سوشل نیٹ ورکس پر بھی ہو رہے ہیں۔ لیکن میرا تجربہ ایک وسیع تر مسئلے کی طرف اشارہ کرتا ہے جس کے بارے میں قانون نافذ کرنے والے بہت سے لوگ برسوں سے فکر مند ہیں۔

تمام تصاویر گروپوں میں پوسٹ کی گئی تھیں ان کی روک تھام کے لیے ہم نے چینلز کے نام تبدیل کر دیے ہیں تاکہ ان کی تشہیر کو بھی روکا جاسکے۔

person holding a large pile of cash
BBC
کارڈ سوائپرز گروپ (15,700 ارکان) میں دنیا بھر میں چوری شدہ کلون کریڈٹ کارڈز اور جہازوں کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔یہاں تصاویر اور ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مجرم جعلی کارڈز کا استعمال کرتے ہوئے اے ٹی ایم ز سے کامیابی کے ساتھ نقد رقم نکالتے ہیں
balls of marijuana
BBC
ڈرگز گارڈن(9،119 ارکان) کے عہدیدار بھنگ سے بنی گیند نما بڑی گولیاں، چرس کوکیز، اور غیر قانونی ویپس فروخت کرتے ہیں۔ مصنوعات اور کسٹمر کے جائزے کی ویڈیوز اور تصاویر باقاعدگی سے شیئر کی جاتی ہیں
a list of different drugs being offered on the channel
BBC
یادیں اور منشیات (6,253 ارکان) میں تقریبا ہر قابل تصور نشہ فروخت ہو رہا ہے۔ اس ٹیلی گرام چینل میں دنیا بھر کے کئی شہروں میں منشیات فروخت کرنے والے اور خریدار موجود ہیں۔
a hand holding a gun
BBC
ممنوعہ نیٹ ورک (5,084 ممبران) ایک ایسا گروپ ہے جہاں چوری شدہ کریڈٹ کارڈز، بندوقیں اور دیگر غیر قانونی سامان فروخت ہو رہا ہے
A picture of the inside of an aeroplane cabin
BBC
گفٹ کارڈز فورم (23,369 اراکین): ایئر بی این بی، میریئٹ ہوٹل، امریکن ایئرلائنز، ایمیزون، ایپل، وال مارٹ اور درجنوں دیگر کمپنیوں کے لیے جعلی واؤچرز اور گفٹ کارڈز فروخت کرنے والا گروپ
Image of stolen passports
BBC
نیو ڈان مارکیٹ (222 ممبران): ہیکنگ کرنے کے طریقوں کی ویڈیوز، بدنیتی پر مبنی سافٹ ویئر اور چوری شدہ کریڈٹ کارڈز اور پاسپورٹ فروخت کرنے والا گروپ

’آپ کی جیب میں ڈارک ویب‘

یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ سائبر سکیورٹی پوڈکاسٹر پیٹرک گرے جیسے کچھ لوگ مہینوں سے ٹیلی گرام کو ’آپ کی جیب میں ڈارک ویب‘ کے طور پر بیان کر رہے ہیں۔

دورف کی حیران کن گرفتاری کے بارے میں بات کرتے ہوئے گرے نے اپنے پوڈ کاسٹ رسکی بزنس میں کہا کہ ٹیلی گرام طویل عرصے سے جرائم کی پناہ گاہ رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم بچوں کے جنسی استحصال کے مواد کے بارے میں بات کر رہے ہیں، ہم منشیات کی فروخت کے بارے میں بات کر رہے ہیں، ہم جرائم کی بات کر رہے ہیں جس کے بارے میں وہ کچھ نہیں کر رہے ہیں۔‘

ڈارک ویب انٹرنیٹ کا ایک حصہ ہے جس تک صرف ماہر سافٹ ویئر انجنئیرز اور ڈیویلپرز کی رسائی ہوتی ہے۔ 2011 میں سلک روڈ مارکیٹ کے آغاز کے بعد سے غیر قانونی ساز و سامان اور دیگر جرائم سے جُڑی ویب سائٹس کی ایک کڑی موجود ہے۔

A post promoting Telegram channels
BBC
ٹیلی گرام طویل عرصے سے جرائم کی پناہ گاہ رہا ہے

جرائم پیشہ افراد ڈارک ویب کو اس وجہ سے پسند کرتے ہیں کہ یہ آپ کی گمنامی برقرار رکھتی ہے۔ انٹرنیٹ ٹریفک دنیا بھر میں لوگوں کے مقامات کو متاثر کرتی ہے لہذا یہ نشاندہی کرنا انتہائی مشکل ہے کہ کون کس سے بات کر رہا ہے۔

لیکن ایسا لگتا ہے کہ مجرموں کو ٹیلی گرام بھی پسند ہے۔

سائبر سکیورٹی کمپنی انٹیل 471 کے محققین کا کہنا ہے کہ ’ٹیلی گرام سے قبل یہ سرگرمی زیادہ تر آن لائن مارکیٹوں میں کی جاتی تھی جس میں خفیہ ڈارک ویب سروسز کا استعمال کیا جاتا تھا‘ لیکن نچلے درجے کے، کم ہنر مند سائبر جرائم پیشہ افراد کے لیے ’ٹیلی گرام مقبول ترین آن لائن مقامات میں سے ایک بن چکا ہے۔‘

اس موسم گرما کے اوائل میں این ایچ ایس کہ ہسپتالوں کے ڈیٹا کو ہیکر گروپ کیلن نے ٹیلی گرام چینل پر مریضوں کا ڈیٹا شائع کرنے کا انتخاب کیا۔ سپین اور جنوبی کوریا میں سکول کی طالبات کی جعلی برہنہ تصاویر بنانے کے لیے استعمال ہونے والی ڈیپ فیک سروس ٹیلی گرام پر ادائیگی سمیت اپنا کاروبار چلاتی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس میں سے کچھ جرائم دوسرے پلیٹ فارمز پر ہو رہے ہیں جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہو چُکا ہے۔

مثال کے طور پر مجھے جن ٹیلی گرام کرمنل چینلز میں شامل کیا گیا تھا ان میں سے کچھ سنیپ چیٹ پر موجود ہیں اور منشیات فروش انسٹاگرام پر بھی پائے جا سکتے ہیں جہاں اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ نجی چیٹس میں سودے کیے جا رہے ہیں۔

لیکن منشیات فروشوں کو اکثر ان دوسری ویب سائٹس پر اپنے ٹیلی گرام چینلز کی تشہیر کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں کو اپنی جانب راغب کیا جاسکے۔

بچوں سے بدسلوکی کا مواد

ٹیلی گرام کا کہنا ہے کہ اس کی صارفین کی نگرانی کی پالیسی مختص کردہ معیار کے مطابق ہے۔ رواں ہفتے ہم نے دیکھا ہے کہ ٹیلی گرام پر بچوں سے متعلق جنسی مواد سمیت جرائم پیشہ سرگرمیاں کم ہوئی ہیں۔

بدھ کے روز بی بی سی کو معلوم ہوا کہ اگرچہ ٹیلی گرام پولیس اور خیراتی اداروں کی جانب سے کچھ درخواستوں کا جواب دیتا ہے لیکن وہ ایسے پروگراموں میں حصہ نہیں لے رہا جس کا مقصد بچوں کے ساتھ ریپ کی تصاویر اور ویڈیوز کے پھیلاؤ کو روکنا ہے۔

ایپ لاپتہ اور استحصال شدہ بچوں کے قومی مرکز یا انٹرنیٹ واچ فاؤنڈیشن کا رکن نہیں ہے۔ دونوں اس طرح کے مواد کو تلاش کرنے، رپورٹ کرنے اور ہٹانے کے لیے تمام بڑے سوشل نیٹ ورکس کے ساتھ کام کرتے ہیں۔

فرانسیسی پراسیکیوٹرز کی جانب سے بچوں کے جنسی استحصال کے مواد کی روک تھام کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہ کرنا ایک بڑا جرم ہے۔

فرانسیسی چائلڈ پروٹیکشن ایجنسی آفمین کے سیکرٹری جنرل جین مائیکل برنی گوڈ نے لنکڈ ان پر کہا کہ ’اس معاملے میں پلیٹ فارم کی جانب سے تعاون کا فقدان ہے، خاص طور پر بچوں کے خلاف جرائم اور اس کی روک تھام کے لیے جاری کوشش میں۔‘

ٹیلی گرام نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ اپنی ویب سائٹ پر بچوں کے جنسی استحصال سمیت غیر قانونی سرگرمیوں کے بارے میں پتا چلانے کی پوری کوشش کرتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صرف اگست میں 45 ہزار گروپوں کے خلاف غیر اعلانیہ کارروائی کی گئی۔

پریس آفس نے اس کے بارے میں یا اس مضمون میں کسی اور چیز کے بارے میں سوالات کا جواب نہیں دیا۔

پولیس سے تعاون نہیں کیا جا رہا

ٹیلی گرام کے لیے ایک مسئلہ اپنے مواد پر نظر رکھنا اور دوسرا غیر قانونی مواد کو ہٹانے اور پولیس کو ثبوت فراہم کرنے اور درخواستوں پر اس کے خلاف کارروائی کرنا ہے۔

جیسا کہ اعتماد اور حفاظت کے لیے سافٹ ویئر پلیٹ فارم سنڈر کے شریک بانی برائن فش مین نے پوسٹ کیا کہ ’ٹیلی گرام ایک دہائی سے داعش کا کلیدی مرکز رہا ہے۔ یہ بچوں کے جنسی استحصال کے مواد کے خلاف کُچھ نہیں کرتا۔ سالوں سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نظر انداز کیا گیا۔ یہ مکمل طور پر ایک مختلف نقطہ نظر ہے۔‘

کچھ لوگ یہ دلیل دے سکتے ہیں کہ ٹیلی گرام کی پرائیویسی کا مطلب یہ ہے کہ کمپنی کے پاس پولیس کو رپورٹ کرنے کے لیے اس سرگرمی کے بارے میں زیادہ ڈیٹا نہیں ہے۔ سگنل اور واٹس ایپ جیسی انتہائی ایپس کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔

#freedurov imagery
BBC

ٹیلی گرام صارفین کو بہترین پرائیویسی دیتا ہے۔ وہ خفیہ چیٹ کر سکتے ہیں جہاں اینڈ ٹو اینڈ انکرپشن ہوتی ہے۔ یعنی آپ کی رازداری کو برقرار رکھا جاتا ہے۔

اس کا مطلب ہے کہ ان گروپس کے اندر ہونے والی بات چیت کے بارے میں کسی کو پتا نہیں چلتا یہاں تک کہ ٹیلی گرام کو بھی اس کے بارے میں علم نہیں ہوتا کہ کیا بات ہو رہی ہے۔

تاہم یہ فیچر ٹیلی گرام پر ڈیفالٹ کے طور پر سیٹ نہیں کیا گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ایپ پر زیادہ تر سرگرمیاں، بشمول ان غیر قانونی چینلز پر جن میں مجھے شامل کیا گیا تھا، خفیہ نہیں ہیں۔

ٹیلی گرام چاہے تو تمام مواد پڑھ سکتا ہے اور اسے پولیس کو دے سکتا ہے لیکن یہ اپنی شرائط و ضوابط میں کہتا ہے کہ وہ ایسا نہیں کرتا۔

تمام ٹیلی گرام چیٹس اور گروپ چیٹس شرکا تک محدود ہیں۔ کمپنی کے مطابق ان کے خلاف درخواستوں پر کارروائی نہیں کی جاتی۔

قانون نافذ کرنے والے اداروں کے بارے میں ٹیلی گرام کا رویہ ایک ایسی چیز ہے جس کے بارے میں مجھے بڑی مایوسی سے پولیس افسران نے پریس کانفرنس کے دوران بتایا۔

فرانسیسی حکام نے اپنے بیانات میں دورف پر الزامات کا ذکر کیا کہ وہاں اور بیلجیئم کی پولیس کے پاس ایسا کوئی ریکارڈ نہیں کہ ٹیلی گرام نے ان کی درخواستوں پر جواب دیا ہو۔

جرمنی سمیت دیگر ممالک کے حکام غیر قانونی مواد کو ہٹانے پر ایپ کی جانب سے عدم تعاون کے بارے میں بار ہا توجہ دلاتے رہے ہیں۔

اظہارِ رائے کی آزادی

صارفین کے تحفظ اور نگرانی سے متعلق ٹیلی گرام کی پالیسی پر تمام تر تنقید کے باوجود کچھ لوگوں کے لیے دورف کی گرفتاری ایک پریشان کن اقدام ہے۔

Pavel Durov
Reuters
دورف کو فرانس چھوڑنے کی اجازت نہیں ہے اور انھیں باقاعدگی سے پولیس سٹیشنوں میں جا کر حاضری لگوانی پڑتی ہے یعنی پولیس کے سامنے پیش ہونا پڑتا ہے۔

ڈیجیٹل رائٹس کی تنظیم ایکسیس ناؤ کا کہنا ہے کہ انھیں اس گرفتاری پر بڑی تشویش ہوئی ہے۔

تاہم ایکسیس ناؤ نے متنبہ کیا ہے کہ ایسے پلیٹ فارم کے عہدیداران کی گرفتاری سے سینسرشپ بڑھ سکتی ہے جنھیں لوگ اظہار رائے کی آزادی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

خود ٹیلی گرام نے بار بار کہا ہے کہ ’یہ دعویٰ مضحکہ خیز ہے کہ کوئی پلیٹ فارم یا اس کا مالک غلط استعمال کا ذمہ دار ہے۔‘

ساتھی ارب پتی اور ایکس (سابقہ ٹویٹر) کے مالک ایلون مسک نے گرفتاری کی مذمت کی ہے اور اسے اظہار رائے کی آزادی پر حملہ قرار دیا ہے۔ اُن کی جانب سے دورف کی رہائی کا مطالبہ بھی سامنے آیا ہے۔

جرائم پیشہ افراد کے گروپس میں اب ’دورف کو رہا کرو‘ کے پیغامات انگریزی اور روسی زبانوں میں شیئر ہو رہے ہیں۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.