پیغام رسانی کے لیے ’ٹیلی گرام‘ پر انحصار روسی فوج کو کتنا مہنگا پڑا؟

روس کے حامی بلاگرز، ماہرین اور صحافیوں نے میسجنگ ایپ ٹیلی گرام کے بانی پاول دروف کی فرانس میں گرفتاری پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا۔ اس دوران اس بارے میں بھی بحث ہوئی کہ روسی فوج پیغام رسائی کے لیے ٹیلی گرام استعمال کرتی ہے اور اس کی بندش فوج کے لیے ایک بڑا مسئلہ بن سکتا ہے۔

روس کے حامی بلاگرز، ماہرین اور روسی صحافیوں نے میسجنگ ایپ ’ٹیلی گرام‘ کے بانی پاؤل دروف کی فرانس میں گرفتاری پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔ اس دوران اس بارے میں بھی بحث ہوئی کہ روسی فوج پیغام رسائی کے لیے ٹیلی گرام استعمال کرتی ہے اور اس کی بندش روس کی فوج کے لیے ایک بڑا مسئلہ بن سکتا ہے۔

یوکرین میں روس کی افواج پہنچنے سے قبل یہ سوچنا بھی مشکل تھا کہ جنگ کے دوران ایک میسجنگ ایپ پر کسی ملک کی فوج کا انحصار اس قدر بڑھ سکتا ہے۔

یہ روایتی طور پر فوج کے خفیہ مواصلاتی نظام سے بالکل متصادم ہے جس کی توجہ سلامتی اور استحکام پر ہوتی ہے۔

اکثر سوشل میڈیا پلیٹ فارم اور میسجنگ ایپس فوجی ذرائع مواصلات کے سکیورٹی تقاضے پورے نہیں کرتیں کیونکہ انھیں صرف انٹرنیٹ کے ذریعے استعمال کیا جا سکتا ہے اور یہ 100 فیصد سکیورٹی کی ضمانت فراہم نہیں کرتیں۔

مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ سویلین سطح پر بنایا گیا کوئی سافٹ ویئر استعمال میں زیادہ وسیع اور آسان ہوتا ہے۔

فوج کو سویلین سمارٹ فون اور میسجنگ ایپس کے استعمال سے روکنے کے لیے خصوصی فوجی پلیٹ فارمز وغیرہ بنانا پڑتے ہیں جس کے لیے بہت محنت درکار ہوتی ہے۔ اور اس کے بعد فوجیوں کو اسے استعمال کرنا سکھایا جاتا ہے۔

بی بی سی روسی سروس نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ روسی فوج مواصلات کے لیے کون سا سسٹم استعمال کرتی ہے۔ اور یوکرین میں مداخلت کے دوران ٹیلی گرام سمیت دیگر مسیجنگ ایپس اور سمارٹ فونز کا کیا کردار رہا ہے۔

روس کے پرانے غیر مؤثر ریڈیو

روسی فوجی بلاگر میکس کسکد کا اپنا ٹیلی گرام چینل بھی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ٹیلی گرام نے روسی فوج میں مقبولیت حاصل کی کیونکہ ان کے پاس موجود مواصلاتی نظام اتنا اچھا نہیں تھا۔ روایتی ریڈیو سٹیشنز کو بُری طرح ایک دوسرے سے منسلک کیا گیا ہے اور فوج میں مواصلات کے لیے جدید انتظامات کا فقدان ہے۔

یہ ایک سادہ سی وضاحت ہے۔ کمیونیکیشن ایک وسیع اور پیچیدہ عنوان ہے اور ٹیکٹیکل سطح پر ٹیلی گرام کا استعمال ریڈیو یا دیگر تار والی ڈیوائسز کا متبادل بنا ہے۔ یہ مواصلاتی ذرائع آج بھی دنیا بھر میں استعمال ہوتے ہیں۔

جدید ٹیکٹیکل ریڈیو کافی کارگر ثابت ہو سکتے ہیں۔ وہ آپ کو کسی مداخلت سے بچاتے ہیں اور ان کے ذریعے آپ ڈیٹا یا ٹیکسٹ میسج بھی بھیج سکتے ہیں۔

اسی طرح ریڈیو کئی ریسیور پر کام کر سکتا ہے اور بذریعہ آواز پیغام رسائی ٹیکسٹ سے زیادہ تیز ہوتی ہے۔ لڑائی کے دوران اس کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔ مثلاً ریڈیو پر چیخنا زیادہ کارآمد ہے، بجائے اس کے کہ آپ ایک گروپ چیٹ پر میسج بھیجیں۔

تاہم روسی فوج کو ایسے ریڈیو سٹیشنز کی شدت سے ضرورت ہے۔ یوکرین میں مداخلت کے ابتدائی مرحلے میں روسی فوجی سوویت دور کے ریڈیو استعمال کر رہے تھے جو زیادہ بھروسہ مند نہیں تھے اور دوسرے لوگ بھی ان کی باتیں سُن سکتے تھے۔

کسکد کا کہنا ہے کہ روسی فوج کے کئی ریڈیو مؤثر کام نہیں کرتے کیونکہ انھیں سویلین مارکیٹ میں رضاکاروں کی مدد سے خریدا جاتا ہے اور زیادہ بہتر ہو گا اگر مختلف قسموں کے ریڈیوز کی بجائے وزارت دفاع نے ایک ہی طرح کے ریڈیو منظوری کے بعد فراہم کیے ہوں۔

جنگ میں ’ٹیلی گرام‘ اور ’سِگنل‘ کا استعمال

اس اعتبار سے یوکرین فوج کے پاس بہتر مواصلات کا سامان موجود ہے۔ یوکرین میں بیرونی مدد اور مغربی امداد کے ذریعے ریڈیو سٹیشن بنائے گئے ہیں۔

یوکرین کی وزارت دفاع نے روس کی مداخلت سے پہلے سے ہی مواصلات پر کافی دھیان دے رکھا تھا، اس لیے یوکرین کی مسلح افواج جنگ کے لیے زیادہ بہتر انداز میں تیار تھیں۔ اُن کے پاس جدید ڈیجیٹل ریڈیو سٹیشن تھے اور ادارے میں مواصلات کا بہتر نظام تھا۔

اگرچہ یوکرینی فوج اچھے سامان کے باوجود اکثر میسجنر ایپس استعمال کرتی ہے تاہم یہاں ٹیلی گرام کو ہمیشہ شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

صحافی اور رضاکار الینا بلابا کہتی ہیں کہ ’بحریہ میں جس بھی اہلکار سے میں نے بات کی وہ کہتے تھے: صرف سِگنل۔۔۔‘

وہ کہتی ہیں کہ یوکرینی فوج روس کی مداخلت کے بعد سنہ 2022 میں ہی سگنل پر منتقل ہو گئی تھی۔ ’ہم سب وہاں ایک دوسرے سے رابطہ کرتے ہیں۔ کوئی بھی اہم چیز ٹیلی گرام پر نہیں لکھی جاتی۔‘

دیگر ذرائع بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ ان کے مطابق یوکرینی فوج زیادہ تر سگنل ایپ استعمال کرتے ہیں اور واٹس ایپ میسنجر بھی کم ہی استعمال کرتے ہیں۔

تاہم بی بی سی روسی سروس نے یوکرین کے فوجی حکام سے پہلے نہ صرف سگنل پر بلکہ ٹیلی گرام پر بھی رابطہ کیا ہوا ہے۔

اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ ایپ ان کے سمارٹ فون پر انسٹال کی گئی تھی۔ آپ میسنجر پر انٹرنیٹ ویب براؤزر کے ذریعے بھی کال کر سکتے ہیں۔

مگر ٹیلی گرام پر کالز کا مطلب ہے کہ یوکرین کی مسلح افواج نے جنگ کے دوران اس پر پابندی عائد نہیں کی تھی۔

میدان جنگ میں سمارٹ فون

20 سال قبل ریڈیو سٹیشن کا متبادل ’وائرڈ کمیونیکیشن‘ تھا۔ یہ آج بھی استعمال ہو رہا ہے اور اس کے کئی فائدے ہیں۔ اسے سننا ناممکن ہے اور اس کے لیے لائن میں براہ راست مداخلت کرنا پڑتی ہے۔ اس کا سگنل تیزی سے منتقل ہوتا ہے اور معیار بھی اچھا ہوتا ہے۔ جدید فیلڈ ٹیلی فون ٹی اے 88 اتنا پرانا نہیں۔ اسے سنہ 1988 میں بنایا گیا تھا۔

مگر مواصلات کا یہ طریقہ مشکل ہے کیونکہ تاریں ٹوٹ سکتی ہیں۔ اس کے لیے ہر فرد کے لیے کونیکشن ڈالنا پڑتا ہے اور مرمت بھی کرنی پڑتی ہے۔ ایسی جنگ جس میں آپ کی پوزیشن ساکن ہو اس میں آپ تاریں بچھا سکتے ہیں مگر شیلنگ کے بعد ان کی مرمت درکار ہوتی ہے۔

مواصلات بذریعہ ریڈیو (اور وائرڈ کمیونیکیشن میں بھی) انٹرنیٹ درکار نہیں ہوتا۔ اگلی صفوں میںیہ ویسے بھی میسر نہیں ہوتا۔ اسی لیے ٹیلی گرام کبھی بھی واکی ٹاکی کا متبادل نہیں بن سکتا۔

مگر واکی ٹاکی کسی سمارٹ فون کا بھی متبادل نہیں جس میں آپ کے پاس مختلف ایپس اور فوری پیغام رسائی کے لیے میسنجر ہوتے ہیں۔

آپ ٹیلی گرام کے ذریعے ٹیکسٹ میسج بھیج سکتے ہیں اور یہ سب کو ایک ہی وقت میں مل جاتے ہیں۔ اس لیے واکی ٹاکی کی طرح اسے استعمال کرنے میں کوئی مشکل نہیں۔ سمارٹ فون سب کی رسائی میں بھی ہوتے ہیں۔

ٹیلی گرام کے ذریعے آپ جیو لوکیشن، تصاویر، ویڈیو اور لنک بھیج سکتے ہیں اور ایسا ریڈیو سے ممکن نہیں۔ تصور کریں کہ کسی علاقے کے کوآرڈینیٹس پڑھنا کتنا مشکل ہے اور اس میں کتنا وقت لگتا ہے۔ اس کے برعکس آپ آسانی سے اپنے دوستوں کے ساتھ لوکیشن شیئر کر سکتے ہیں۔

روسی فوج
Reuters

میسنجر کے علاوہ بھی فوج کے استعمال میں کئی ایپس ہیں۔

الیکٹرانک نقشوں کے ذریعے معلومات فراہم کی جاتی ہے۔ ان میپس کو آف لائن بھی استعمال کیا جا سکتا ہے اور ان میں پہلے سے ہی معلومات موجود ہوتی ہے۔ انھیں کہیں سے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے، مثلاً کسی کمبیٹ مشن یا اہداف کے تعاقب کے لیے۔

سمارٹ فونز میں نیویگیشن پر ضرورت سے زیادہ انحصار بھی ٹھیک نہیں۔ مثلاً سمارٹ فون پر گاڑیاں کسی چیز کی طرح حرکت کرتی نظر نہیں آتیں اور یہ کسی میزائل کا نشانہ بن سکتی ہیں۔ نیویگیٹر کو بغیر انٹرنیٹ استعمال کیا جاسکتا ہے جو زیادہ محفوظ رہتا ہے۔

کئی برسوں سے سمارٹ فونز پر فوج کے لیے خصوصی ایپس بنائی گئی ہیں۔ مثلاً کسی ہتھیار کی گولہ باری کے خد و خال کا حساب لگا سکتے ہیں اور یہ معلومات فیلڈ پر کمانڈروں تک بذریعہ سمارٹ فون پہنچائی جاسکتی ہے۔

یوکرین میں ایک سمارٹ فون ایپ روسی ڈرونز اور کروز میزائلز پر نظر رکھتی ہے۔ روس میں بھی ایسی ایپس بنائی گئی جو زیادہ کارآمد ثابت نہیں ہوئیں۔ مگر یوکرینی ڈرونز کے استعمال میں اضافے کے بعد روس جلد ایسی ایپس بنا سکتا ہے۔

اسی طرح دونوں اطراف پر فوج کی اعلیٰ قیادت انٹرنیٹ پر وسائل اور معلومات سے فائدہ اٹھاتی ہے۔ ہر ہتھیار اور فوجی گاڑی کے لیے سرکاری ہدایات موجود ہوتی ہیں اور ذاتی تجربات کی بنیاد پر تکنیک وضع ہوتی ہے۔

مگر جہاں تک مواصلات کی بات ہے تو مرکزی چیز میسنجر ایپ ہے۔ روسی فوج کے لیے وہ ٹیلی گرام ہے۔

روسی فوج
Getty Images

ٹیلی گرام ہی کیوں؟

ماسکو سٹی دوما کے ڈپٹی اور بلاگر آندرے مدودف کہتے ہیں کہ یوکرین میں جاری جنگ میں روسی فوج کے لیے مواصلات کا مرکزی ذریعہ ٹیلی گرام ہے۔ ’شاید آج سے ہماری فوج کے لیے ایک فوجی میسنجر بنانے کا مسئلہ بہت اہم ہے۔ ٹیلی گرام کب تک رہے گا، یہ ہمیں نہیں معلوم اور اس کی پیشگوئی کرنا مشکل ہے۔‘

ٹیلی گرام کئی میسنجرز میں سے ایک ہے۔ مگر روسی فوج نے اس کا انتخاب کیوں کیا؟ روسی کمان کی طرف سے ایسے کسی فیصلے کی معلومات نہیں۔ مگر اس کے پیچھے سکیورٹی وجوہات ہو سکتی ہیں۔

سائبر سکیورٹی کی کمپنی ہیگزنز سے منسلک روبن مرادیان کہتے ہیں کہ باقی اکثر ایپس امریکی ہیں۔ ’اس کا مطلب ہے امریکی سرورز سے یوکرین کو معلومات مل سکتی ہے۔ یوکرین کو واٹس ایپ کی معلومات فیس بک کی مالک کمپنی میٹا سے مل سکتی ہے۔‘

واٹس ایپ کے برعکس ٹیلی گرام خود ہی آپ کا چیٹ ڈیٹا انکرپٹ نہیں کرتا۔ اس کے لیے آپ کو سیکرٹ چیٹ شروع کرنی پڑتی ہے۔ ٹیلی گرام پر گروپ چیٹ سے معلومات لینا ناممکن ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی ٹیلی گرام کے سرور تک رسائی حاصل کرتا ہے یا ٹیلی گرام خود کسی سے تعاون کرتی ہے تو انھیں محض انکرپٹڈ پیغامات ملیں گے۔ گروپ چیٹ کے 99.99 فیصد چیٹ انکرپٹڈ ہیں۔ بٹالین کمانڈر دیگر لوگوں سے گروپ چیٹ پر ہی بات کرے گا۔‘

ماہرین کے مطابق ڈیٹا کی منتقلی کے امکان کم ہیں مگر یہ تب تک واضح نہیں ہو گا جب تک ٹیلی گرام کے بانی دورف یا کوئی اور اس کا اعلان نہیں کرتا۔

تاہم کسی بھی غلط فہمی سے اعتماد کا فقدان پیدا ہو سکتا ہے۔

انٹرنیٹ ڈیفنس سوسائٹی کے سربراہ میخیل کلیمروف نے بی بی سی کو بتایا کہ ٹیلی گرام کے استعمال پر مسئلہ یہ ہے کہ روسی فوج ’ڈیٹا کی منتقلی پر کنٹرول نہیں رکھتی۔ انھیں نہیں معلوم کن سرورز کی مدد سے یہ ڈیٹا گزرتا ہے۔‘

ان کے مطابق کوئی بھی شخص کمانڈر کو ضمانت نہیں دے سکتا ہے کہ ٹیلی گرام پر یہ چیٹ کوئی اور نہیں پڑھ رہا۔ سب اس بارے میں لاعلم ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ یہ ایپ فوجی مقاصد کے لیے نہیں بنائی گئی تھی۔

اس غیر یقینی نے صرف فوج کو چوکنا نہیں کیا۔ روسی سکیورٹی فورسز کے قریب بازا کی رپورٹ کے مطابق ’اہلکاروں سے ٹیلی گرام پر سرکاری گفتگو حذف کرنے کا کہا گیا ہے۔‘

’ذرائع کے مطابق روسی وزارت دفاع کے سینیئر اہلکاروں اور کاروباری شخصیات کو یہ حکم دیا گیا۔‘

ٹیلی گرام
Reuters

روسی فوج اپنا خود کا میسنجر کیوں نہیں بنا لیتی؟

روسی فوج کافی دیر سے جنگ کے لیے ایک نیا اور مؤثر مواصلاتی نظام بنانا چاہتی ہے۔ تاہم روس کے عسکری ماہر وکٹر موراکھاوسکی لکھتے ہیں کہ تاحال اینڈرائیڈ یا آئی فون کے لیے کوئی فوجی میسنجر نہیں۔

انھوں نے لکھا ہے کہ فوج کے پاس پیغام رسائی کے لیے کم از کم چار میسنجر ہیں تاہم انھیں بحفاظت چلانے کے لیے لینیکس او ایس (سافٹ ویئر) پر چلنے والا ہارڈ ویئر درکار ہے۔

یعنی ایک خاص میسنجر کے استعمال کے لیے ایک خاص ڈیوائس درکار ہو گی اور فوجیوں کو تربیت بھی دینا پڑے گی۔ اس مسئلہ کا حل ہو سکتا ہے مگر اِس کے لیے وقت، پیسہ اور کوششیں درکار ہیں۔ اس کے برعکس ایک کِلک کے ساتھ آپ سمارٹ فون پر ٹیلی گرام انسٹال کر سکتے ہیں۔

کئی ملکوں میں فوجی دستوں کو کنٹرول کرنے کے لیے سسٹم بنائے گئے ہیں اور یہ فوج کے مستقبل کا بنیادی تقاضہ ہے۔ اس کے ذریعے میدان جنگ میں کئی ذرائع سے معلومات اکٹھی کی جاتی ہے، اس کا مصنوعی ذہانت کے ذریعے جائزہ لیا جاتا ہے اور ڈیجیٹل پیغام رسائی سے حکم دیا جاتا ہے۔

یوکرینی فوج کے پاس ڈیلٹا نامی ڈیجیٹل کنٹرول سسٹم ہے۔ اگست کے وسط میں یوکرینی فوج نے اسے تمام یونٹس کے لیے متعارف کرایا۔ اس کے اندر خفیہ پیغامات کے لیے ایلیمنٹ نامی مسنجر بنایا گیا۔ تاہم یہ کتنا موثر ہے اور کیسے چلتا ہے، اس بارے میں معلومات نہیں ہے۔

روس، یوکرین اور دیگر ممالک میں بھی فوجی میسنجر ایپس موجود ہیں جنھیں واٹس ایپ، سگنل، وائبر یا ٹیلی گرام سے زیادہ محفوظ سمجھا جاتا ہے۔

روبن مرادیان کا کہنا ہے کہ اس کے لیے ایک اوپن سورس پروٹوکول موجود ہے جس کا نام ایکس ایم پی پی (ایکسٹنسبل میسجنگ اینڈ پریزنس پروٹوکول) ہے جس میں فوج اپنا سرور بنا سکتی ہے اور خود اپنا سافٹ ویئر چلا سکتی ہے۔

اس سکیور میسجنگ پروٹوکول کو جیبر بھی کہا جاتا ہے اور اس کا سورس کوڈ سبھی کے لیے دستیاب ہے۔

میخیل کلیمروف کا خیال ہے کہ ایسے میسنجرز کا معیار اتنا اچھا نہیں ہو گا، جیسے ٹیلی گرام کو تو 10 سال سے استعمال کیا جا رہا ہے۔

مزید یہ کہ ایسا سافٹ ویئر بنانے میں روسی فوج کو کافی وقت لگ سکتا ہے۔ روس کی وزارت دفاع فوج کے مواصلاتی نظام میں اس قدر پیچیدہ اور اہم چیز متعارف کرانے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔

اس کے لیے کئی منظوریاں درکار ہوں گی، ہدایات تیار کی جائیں گی اور آزمائشیں ہوں گی۔

تاہم اگر ایسا ہوتا ہے تو روسی فوج میں نئے میسنجر کو متعارف کرانے کا منصوبہ ’اندر سے آئے گا۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.