پولارس ڈان: ’خطرناک‘ نجی خلائی مشن جو سپیس واک کا نیا ریکارڈ قائم کرنا چاہتا ہے

نجی خلائی مشن پولارس ڈان منگل کو سپیس ایکس فالکن 9 راکٹ کے ذریعے جنوب مشرقی امریکی ریاست فلوریڈا سے کامیابی کے ساتھ لانچ کیا گیا ہے اور کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگر یہ مشن کامیاب ہوتا ہے تو یہ اب تک کے بڑے اور کم لاگت والے نجی شعبے کے ایسے مشنز کو جنم دے گا جو سرکاری خلائی ایجنسیوں سے کہیں زیادہ لوگوں کو خلا میں لے جائے گا۔

نجی خلائی مشن ’پولارس ڈان‘ امریکہ کی جنوب مشرقی ریاست فلوریڈا سے سپیس ایکس فالکن 9 راکٹ کے ذریعے کامیابی سے اپنے سفر پر روانہ ہو گیا ہے۔

اس خلائی جہاز پر ارب پتی کاروباری شخصیت جیرڈ آئزک مین بھی موجود ہیں جو آنے والے دنوں میں سپیس واک یعنی خلا میں چہل قدمی کا ارادہ بھی رکھتے ہیں۔

اگر وہ اس کوشش میں کامیاب رہے تو یہ خلا میں جانے والے کسی نجی مشن کے رکن کی پہلی سپیس واک ہو گی۔

جیرڈ کے علاوہ اس خلائی جہاز پر ایک ریٹائرڈ پائلٹ سکاٹ ’کِڈ‘ پوٹیٹ اور سپیس ایکس کے دو انجینئرز اینا مینن اور سارہ گیلِس بھی سوار ہیں۔

’ریزیلیئنس‘ نامی یہ خلائی جہاز زمین سے 1400 کلومیٹر کے فاصلے پر خلا میں داخل ہو گا۔ سنہ 1970 کی دہائی میں امریکی خلائی ادارے ناسا کے اپولو پروگرام کے خاتمے کے بعد سے اب تک کسی انسان نے زمین سے اتنا دور سفر نہیں کیا ہے۔

یہ خلا باز اپنے سفر کے دوران خلا میں ایک ایسے علاقے سے بھی گزریں گے جسے ’وین ایلن بیلٹ‘ کہا جاتا ہے اور جہاں بہت زیادہ تابکاری موجود ہے لیکن خلائی جہاز اورعملے کے جدید خلائی لباس انھیں اس سے محفوظ رکھیں گے۔

اس علاقے سے چند بار گزرنے کے دوران ہی ان کا سامنا اتنی تابکاری سے ہو گا جس کا سامنا بین الاقوامی خلائی مرکز پر رہنے والے خلا باز تین مہینوں میں کرتے ہیں جو کہ قابل قبول حد میں ہے۔

اس سفر کا مقصد بھی انسانی جسم پر مختصر مدت کے لیے تابکاری کے اثرات کا مطالعہ ہے۔

ریزیلیئنس کے مسافر خلا میں اپنا دوسرا دن بلند ترین اونچائی پر گزاریں گے اور اس دوران تقریباً 40 تجربات کیے جائیں گے جن میں ڈریگن خلائی جہاز اور سپیس ایکس کی سٹار لنک سیٹلائٹس کے مجموعے کے درمیان انٹر سیٹلائٹ لیزر رابطے بھی شامل ہیں۔

یہ ایک ریکارڈ قائم کرے گا

اگر سب کچھ منصوبے کے مطابق ہوتا ہے تو مشن کے تیسرے دن آئزک مین اور سارہ گیلِس خلا میں چہل قدمی کی کوشش کریں گے اور یہ عمل دو گھنٹے تک جاری رہے گا۔

یہ چہل قدمی مدار میں 700 کلومیٹر کی بلندی پر کی جائے گی۔ خلاباز اس دوران اپنے نئے خلائی لباس کی جانچ بھی کریں گے جو کہ خلائی جہاز سے باہر کام کرنے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ یہ سپیس ایکس کے انٹرا ویہیکولر ایکٹیویٹی (آئی وی اے) سوٹ کا بہتر ورژن ہے۔

اس سپیس واک کا ایک انوکھا پہلو یہ ہے کہ خلائی جہاز میں کوئی ایئر لاک نہیں ہے جو بیرونی خلا میں داخلے کے دروازے اور جہاز کے باقی حصوں کے درمیان ایک سیل بند چیمبر کا کام کرتا ہے۔

عام طور پر خلا بازوں کے داخل ہونے اور باہر نکلنے سے پہلے ایئر لاک کو ڈی پریشرائز کیا جاتا ہے لیکن ریزیلیئنس کے معاملے میں پورے خلائی جہاز کو ڈی پریشرائز کیا جائے گا اور خلابازوں کو پوری طرح سے سازوسامان سے لیس ہونا پڑے گا چاہے وہ جہاز سے باہر بھی نہ نکلیں۔

اس خلائی جہاز کو ویکیوم کو برداشت کرنے کے لیے تیار کیا گیا ہے اور نائٹروجن اور آکسیجن کے اضافی ٹینک نصب کیے گئے ہیں۔ اگرچہ صرف دو ہی خلا باز جہاز سے باہر نکلیں گے لیکن چاروں خلا باز ہی ای وی اے سوٹ پہنیں گے۔ اس طرح یہ مشن ایک ہی وقت میں خلا کے ویکیوم میں لوگوں کی سب سے زیادہ تعداد کا ریکارڈ توڑ دے گا۔

فلائٹ ٹیم اس مشن کا استعمال خلا بازوں پر ڈی کمپریشن کے اثرات کے مطالعے کے ساتھ ساتھ نظر کے دھندلے پن کی جانچ بھی کرے گا کیونکہ خلا باز کبھی کبھی خلا میں دھندلی نظر کا شکار ہو سکتے ہیں۔ اس کیفیت کو سپیس فلائٹ سے وابستہ نیورو آکولر سنڈروم کہا جاتا ہے۔

وان ایلن بیلٹ میں تابکاری کے اثرات کی جانچ اور سپیس واک کا مقصد مستقبل میں زیادہ اونچائی اور ممکنہ طور پر چاند یا مریخ پر جانے والے نجی شعبے کے مشنز کی بنیاد رکھنا ہے۔

زمین سے 1400 کلومیٹر دور تک یہ مشن جائے گا اور بہت سے سائنسی تجربے کا باعث بنے گا
BBC
زمین سے 1400 کلومیٹر دور تک یہ مشن جائے گا اور بہت سے سائنسی تجربے کا باعث بنے گا

نئے سوٹ

ایوا (ای وی اے) سوٹ میں ہیلمٹ پر نصب ڈسپلے شامل ہے جو اسے پہننے والے فرد کو لباس کے بارے میں معلومات فراہم کرتا رہتا ہے۔ ایوا سوٹ آرام دہ اور لچکدار ہیں جو لانچ اور لینڈنگ کے دوران پہنے جا سکتے ہیں اور یہ مختلف مقامات کے لیے الگ الگ خلائی لباس کی ضرورت کو ختم کرتے ہیں۔

سپیس واک کی تربیت کے دوران ایک انٹرویو میں گیلِس نے وضاحت کی تھی کہ یہ سپیس ایکس کے لوگوں کو دوسرے سیاروں پر بھیجنے کے منصوبوں کا ایک اہم حصہ ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’اب تک، صرف کسی ملک کی جانب سے روانہ کیے گئے مشن کے ارکان ہی سپیس واک کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ سپیس ایکس مریخ تک پہنچ کر زندگی کو ملٹی پلیٹنری یا ایک سے زیادہ سیارے والی بنانے کی بڑی خواہش رکھتا ہے۔ اسے حاصل کرنے کے لیے ہمیں کہیں نہ کہیں سے تو شروع کرنا ہے اور پہلا قدم ایوا سپیس سوٹ کا تجربہ ہے تاکہ ہم سپیس واک اور مستقبل کے سوٹ ڈیزائن کو مزید بہتر بنا سکیں۔‘

آئزک مین نے بھی انھی خيالات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’سپیس ایکس اگر ایک دن دوسرے سیارے کو آباد کرنے کے اپنے طویل مدتی خواب کو پورا کرنا چاہتا ہے تو وہ یہ جانتا ہے کہ اسے ایوا کی صلاحیت کی ضرورت ہے۔‘

مقصد یہ ہے کہ خلائی لباس کو کسی خاص ضرورت پوری کرنے والا لباس نہ بنایا جائے، بلکہ ایسا لباس بنایا جائے جو کمرشل خلا بازوں کی وسیع رینج کے کام آ سکے۔ ایسا اس لیے بھی ہے کہ مستقبل میں جب انسانی خلائی پروازوں میں اضافہ ہو تو اس کے اخراجات کو کم کیا جا سکے۔

یہ بین الاقوامی خلائی سٹیشن سے بھی آگے جائے گا
Getty Images
یہ بین الاقوامی خلائی سٹیشن سے بھی آگے جائے گا

’بہت سے خطرات‘

انگلینڈ کی کرین فیلڈ یونیورسٹی میں راکٹ پروپلزن کے ماہر ڈاکٹر ایڈم بیکر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس میں بہت سے خطرات موجود ہیں۔ انھوں نے اپنے لیے بہت سے بڑے اہداف مقرر کیے لیکن خلائی پرواز میں ان کا تجربہ نسبتاً محدود ہے۔ دوسری طرف، انھوں نے مشن کی تیاری میں کئی ہزار گھنٹے صرف کیے ہیں۔ اس لیے وہ خطرات کو کم کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔‘

کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگر یہ مشن کامیاب ہوتا ہے تو یہ اب تک کے بڑے اور کم لاگت والے نجی شعبے کے ایسے مشنز کو جنم دے گا جو سرکاری خلائی ایجنسیوں سے کہیں زیادہ لوگوں کو خلا میں لے جائے گا۔

لیکن بیکر اس بارے میں زیادہ محتاط نظر آتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’اب تک نجی شعبے نے بہت پیسہ خرچ کیا ہے، بہت زیادہ تشہیر بھی کی ہے، لیکن خلائی سفر پر جانے والوں کی تعداد 100 سے بھی کم ہے۔

’خلائی پرواز مشکل، مہنگی اور خطرناک ہے، اس لیے کسی بھی وقت جلد ہی بڑی تعداد میں دولت مند شہریوں کے خلا میں جانے یا اس عمل میں شامل ہونے کی توقع کم ہی ہے۔‘

بائیں سے دائیں: اینا مینن، سکاٹ پوٹیٹ، جیرڈ آئزک مین اور سارہ گیلس
Reuters
بائیں سے دائیں: اینا مینن، سکاٹ پوٹیٹ، جیرڈ آئزک مین اور سارہ گیلس

امیروں کا سوال؟

کچھ لوگوں کے لیے ارب پتیوں کی خلا میں جانے کے لیے بڑی رقم کی ادائیگی اچھی بات نہیں ہے اور ایسے مشن کے بارے میں سوالات اٹھتے ہیں جس میں سفر کی ادائیگی کرنے والا شخص کمانڈر بھی ہوتا ہے۔

انگلینڈ کی اوپن یونیورسٹی کے ایک خلائی سائنسدان سائمن باربر ہین جو مختلف ممالک کی حکومتوں کی طرف سے خلائی منصوبوں کے لیے سائنسی آلات تیار کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ یہ کوئی خود نمائی کی بات نہیں ہے۔

انھوں نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ ’آئزک مین دراصل عملے کے سب سے تجربہ کار خلا باز ہیں۔ وہ واحد شخص ہیں جو اس سے پہلے خلا میں جا چکے ہیں۔ وہ سپیس ایکس کے ساتھ ایک دوسرے نجی فنڈڈ مشن پر خلا میں گئے تھے، جہاں انھوں نے کمانڈر کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔ مشن کے تناظر میں، وہ فطری انتخاب ہیں۔

’مزید وسیع تناظر میں دیکھیں تو اس سٹار کلاس ٹکٹ کی فروخت سے حاصل ہونے والا منافع زمین پر ہی رہے گا۔ اس پیسے سے سامان اور خدمات خریدی جائیں گی، تنخواہیں دی جائيں گی، اور بدلے میں ٹیکس حاصل ہوں گے۔ خیراتی فنڈز کا ذکر ہی نہیں جو مشن کے ذریعے جمع ہوں گے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ خلائی صنعت میں بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ امیر افراد کی شمولیت ایک اچھی بات ہے۔

’اگر وہ سیارے سے دور جانا چاہتے ہیں اور کسی دن چاند یا مریخ پر جانا چاہتے ہیں تو اس کی وجہ سے راستے میں سائنسی تجربات کرنے کے مواقع پیدا ہوں گے اور خلا کو کھوجنے کی وجوہات جتنی متنوع ہوں گی پروگرام اتنا ہی زیادہ لچکدار ہوگا۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.