دنیا میں پہلی بار آئس کریم کس نے تیار کی اور یہ ہمارے دماغ کو کیسے متحرک کرتی ہے؟

دنیا کی سب سے پہلی آئس کریم کس نے بنائی آپ کو اس سوال کے اتنے ہی جواب مل جائیں گے جتنے آئس کریم کے ذائقے ہیں۔ تاہم حال میں گھوڑی کے دودھ سے بننے والی آئس کریم کا ایک بار پھر آئس کریم کے دیوانوں میں چرچا ہے۔
آئس کریم
Getty Images
آئس کریم کو اکثر خوشی کے لمحات سے جوڑا جاتا ہے

دنیا کی سب سے پہلی آئس کریم کس نے بنائی آپ کو اس سوال کے اتنے ہی جواب مل جائیں گے جتنے آئس کریم کے ذائقے ہیں۔ تاہم حال میں گھوڑی کے دودھ سے بننے والی آئس کریم کا ایک بار پھر آئس کریم کے دیوانوں میں چرچا ہے۔

ہمیں آئس کریم اس قدر کیوں پسند ہے یہ بھی ایک سنجیدہ سائنسی موضوع ہے۔

محققین نے آئس کریم کے غذائی فوائد کے ساتھ انسانی صحت پر اس کے مضر اثرات کے بارے میں جانچ کی ہے۔

آئس کریم ہمارے موڈ کو کیسے بدل دیتی ہے اس بارے میں کئی تحقیق موجود ہیں۔

سنہ 2021 میں لندن کے ادارۂ نفسیات کی ایک تحقیق میں سامنے آیا کہ آئس کریم کا صرف یک چمم کھانے سے ہمارے دماغ کے اوربیٹو فرنٹل کورٹیکس (وہ حصہ جو فیصلہ سازی میں ہماری مدد کرتا ہے) متحرک ہو جاتا ہے۔

دیگر تحقیقات میں سامنے آیا ہے کہ آئس کریم میں موجود پروٹین اور چکنائی ہمارا موڈ بہتر کر دیتے ہیں اور ہمارے جسم میں موجود سیروٹونن (وہ ہارمون جس سے موڈ اچھا ہو جاتا ہے) کی سطح بھی بڑھ جاتی ہے۔

معیاری آئس کریم میں پروٹین اور چکنائی کی مقدار ویسے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ آئس کریم کی چاہت میں ارتقا کا بھی ایک اہم کردار ہے۔ ارتقا سے پتہ چلتا ہے کہ انسانوں کو باقائدگی سے میٹھی چیزوں کی خواہش کیوں ہوتی ہے۔

مزید یہ کہ آئس کریم میں موجود مٹھاس، چکنائی اور اس کا ٹھنڈا درجہ حرارت کھانے والے کے منہ میں خوشگوار احساسات پیدا کرتا ہے۔

آئس کریم کی تاریخ کہاں اور کیسے شروع ہوئی یہ موضوع کھانے کے تاریخ دانوں میں بحث کا موضوع ہے۔

تاہم ایک بات پر سب متفق ہیں کہ آئس کریم بجلی اور فرج سے پہلے کی ایجاد ہے۔ وہ ثقافتیں جو برفیلی جگہوں پر پائی جاتی تھیں یا انھیں بدلتے موسم کے ساتھ برف باری کا لطف حاصل ہوتا تھا انھوں نے کسی نہ کسی شکل میں منجمد میٹھے اور شربت کی ایجاد ضرور کی ہے۔ ان میٹھوں اور مشروبات کو آئس کریم کا پیش خیمہ سمجھا جاتا ہے۔

کہتے ہیں کہ پہلی صدی میں رومی شہنشاہ نیرو اپنے مشروبات کو ٹھنڈا کرنے کے لیے اپنے خادموں کو پہاڑوں پر بھیجتے تھے کہ وہ جائیں اور ان کے لیے برف جمع کر کے لائیں۔

تاریخ میں کچھ ریکارڈز کے مطابق قدیم چین کی تانگ سلطنت دودھ سے بنی منجمد ڈش کو شوق سے کھاتے تھے۔

آئس کریم
Getty Images
انڈین قلفی بھی بہت سے ذائقوں میں ملتی ہے

آئس کریم، جلاٹو یا سوربے

یخچل
Getty Images
قدیم فارس میں برف بنانے کے لیے یخچل

آئس کریم کی عالمی تاریخ پر مبنی اپنی کتاب ’آئس کریم: اے گلوبل ہسٹری‘ کی مصنف لورا بی وائس کہتی ہیں کہ آئس کریم کا مرکب ’گائے، بکری یا بھینس کے دودھ کو سڑا کے اور گرم کرکے بنتا تھا۔ اس کی ساخت اور ذائقہ کے لیے اس میں آٹا اور کافوور ملایا جاتا تھا۔'

’جمانے کے لیے اس مرکب کو دھات سے بنے برتنوں یا سانچوں میں ڈال دیا جاتا تھا۔۔۔ ان سانچوں کو پھر برف کے پانی ڈبو دیا جاتا تھا جیسے آج کے دور میں کُلفی جمائی جاتی ہے۔‘

’آئس کریم، سوربے اینڈ جلاٹی: دی ڈیفینیٹو گائیڈ‘ نامی کتاب کے مصنف روبن وائر کہتے ہیں کہ آئس کریم ایجاد کرنے والوں کا پتہ لگانے کے لیے ہمارے پاس دو سراغ ہیں جن پر غور کیا جا سکتا ہے۔

اس کے لیے سب سے پہلے ہمیں آئس کریم کیا ہے، اس کی وضاحت کرنا ہو گی۔

2022 میں بی بی سی کے ریڈیو پروگرام میں روبن وائر نے کہا کہ ’آسان الفاظ میں آئس کریم میں ڈیری یا ملائی موجود ہوتی ہے جبکہ سوربے میں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔‘

’جبکہ جلاٹو جو کہ اٹلی سے آئی ہے اس میں ملائی بالکل نہیں ہوتی یا ہوتی ہے تو نہ ہونے کے برابر۔ اس کا مرکب بنانے کے لیے آہستہ آہستہ گھوٹا لگانا پڑتا ہے جس کے باعث یہ کم پھولتا ہے۔‘

’مجھے آئس کریم کا موضوع دلچسپ لگتا ہے کیونکہ اسے بنانے کے لیے بہت کم اجزا درکار ہیں۔ اس میں صرف چینی، پانی، شاید دودھ یا ملائی اور ذائقے کے لیے ایک آدھ چیز شامل کی جاتی ہے۔ یہ بنانے والے پر ہے کہ وہ ان اجزا کا ملاپ کیسے کرتا ہے۔‘

آئس کریم کی پہلی ایجاد جاننے کے لیے روبن وائر کا دوسرا مشورہ یہ کہ اس بات کا پتہ لگایا جائے کہ انسانوں کو ’اینڈو تھرمکافیکٹ‘ (حرارت گیر عمل) کے بارے میں کب علم ہوا۔

اینڈو تھرمک افیکٹ کے ذریعے ارد گرد کی گرمائش کسی چیز میں جزب ہو رہی ہوتی ہے۔

اس لیے آئس کریم میں نمک ملایا جاتا ہے تاکہ آئس کریم کا اپنا درجہ حرارت نقطہ انجماد یعنی زیرو ڈگری سینٹی گریڈ سے نیچے آ جائے اور اسے ارد گرد کی گرمائش کی وجہ سے جلدی پگھلنے سے روکا جا سکے۔

آئس کریم بنانے کے لیے درجہ حرارت منفی 10 سے منفی 20 ڈگری سینٹی گریڈ کے درمیان رکھا جائے تو صحیح رہتا ہے۔

مصنف لورا بی وائس اپنی کتاب میں لکھتی ہیں کہ تاریخ میں کسی نہ کسی وقت چینیوں، عربیوں اور انڈینز نے اپنی سمجھ کے حساب سے اینڈو تھرمک افیکٹ کے اصول کا استعمال کیا ہے۔

تاہم تاریخ دانوں کو ابھی بھی نہیں معلوم کہ کس نے کب اس اصول کو اپنایا۔

آئس کریم
BBC
کٹی ٹریوز آئس کریم کے مختلف ذائقے تیار کرنے میں ماہر ہیں

400 قبل مسیح میں ایران میں گنبد کی شکل کی ایک جگہ کی تعمیر کی جاتی تھی جس کے اندر زیر زمین بھی جگہ ہوتی تھی۔ اس خاص عمارت کو ’یخچل‘ کہتے ہیں جس میں برف ذخیرہ کی جاتی تھی۔

یخچل کی تعداد سو کے قریب ہو گی تاہم سوال یہ ہے کہ فارسیوں نے برف جمانے کے لیے یخچل کیوں بنائے تھے۔ کیا انھیں اینڈو تھرمک افیکٹ کے اصول کے بارے میں معلومات تھیں؟ کیا اس میں ذخیرہ کی گئی برف کا استعمال منجمد میٹھے بنانے کے لیے کیا جاتا تھا؟

لندن کی لا گروتا آئسز کی بانی کٹی ٹریورا آئس کریم کے نئے ذائقے تخلیق کرنے میں ماہر ہیں۔ وہ آئس کریم کے ایسے ذائقے تخلیق کرتی ہیں جن میں پھل، سبزیاں اور جڑی بوٹیاں استعمال ہوتی ہوں۔

انھوں نے بتایا کہ وہ آئس کریم بنانے کے روایتی طریقوں کے ساتھ تجربات کر چکی ہیں جن میں اینڈو تھرمک اصولوں کا استعمال کیا گیا ہو۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’سالوں پہلے میں نے ایک کورس لیا تھا جس میں تاریخی طریقوں سے آئس کریم تیار کرنا سکھایا گیا تھا۔‘

’ہمیں لکڑی کی ایک بالٹی دی گئی تھی جس میں آئس کیبوز اور نمک کی تہہ لگی ہوئی تھی۔ ہم نے اس بالٹی میں ایک مرتبان رکھا جس میں پامیژان چیز ڈالی ہوئی تھی۔ پھر ہم نے ہاتھوں سے اس میں گھوٹا لگایا۔‘

’یہ عمل میری بجلی سے چلنے والی مشین کے مقابلے زیادہ جلدی مکمل ہو گیا اور آئس کریم کا ذائقہ بھی خوب آیا۔ تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر آپ کو برف کے کیوبز قدرتی طور پر میسر ہوں تو آپ کو آئس کریم بنانے کے لیے بجلی کی ضرورت نہیں۔‘

یورپ میں مشہور ہے کہ مارکو پولو دیگر کھانوں کی ترکیبات کے ساتھ چین سے منجمد میٹھوں کی ترکیبات بھی لائے تھے جبکہوہ خود چین گئے تھے یا نہیں، اس بات پر ابھی بھی بحث ہے۔

تاہم ’آکسفورڈ کمپینین ٹو شوگر اینڈ سویٹس‘ سمیت متعدد اشاعتوں نے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ یورپیوں کو 16ویں صدی تک کھانے پر اینڈوتھرمک افیکٹ کے اصول کے بارے میں معلوم نہیں تھا۔

20ویں صدی کے وسط میں جب مشرق میں فریج کی قیمت مناسب ہو گئی تھی تو صنعتی پیمانے پر آئس کریم بنانے کے کاروبار پروان چڑھا۔

مقامی سطح پر مقبول ذائقے

آئس کریم
YouTube @tapiwaguzhamade

بزنس انٹیلی جنس پلیٹ فارم ’سٹیٹسٹا‘ کے مطابق 2024 میں آئس کریم کی صنعت سے 103.4 ارب ڈالر حاصل ہوئے۔ اس کے مقابلے میں چاکلیٹ کے کاروبار سے آنے والی آمدنی 1.33 ارب ڈالر ہے جبکہ کافی کی صنعت سے 93.46 ارب ڈالر آئے ہیں۔

وقت کے ساتھ ساتھ آئس کریم کے مختلف ذائقوں میں بھی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے اور بات اب روایتی ونیلا اور چاکلیٹ آئس کریم سے کہیں زیادہ آگے بڑھ چکی ہے۔ کچھ آئس کریم کے ذائقے مقامی کھانوں کی ثقافت سے بھی مشابہت رکھتے ہیں۔

2022 میں جنوبی افریقہ کے دارالحکومت کیپ ٹاؤن میں کچن چلانے والے ٹاپیوا گزہا کا سوشل میڈیا پر چرچہ ہوا جب انھوں نے سوکھی نمکین مچھلی کے ذائقے والی آئس کریم کی بنائی۔

سوکھی مچھلی کے ساتھ اس آئس کریم میں مرچوں کا بھی ذائقہ شامل تھا۔ ٹاپیوا گزہا پیشے سے حیاتیات کے ماہر ہیں اور ان کی پیدائش زمبابوے کی ہے تاہم وہ خود کو سائنسی ذہنیت کا ’فوڈی‘ یعنی کھانے کا شوقین کہتے ہیں۔

بی بی سی بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ’میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا کہ میں آئس کریم کے عجیب و غریب یا مختلف ذائقے تیار کروں۔ میری بس اتنی سی کوشش تھی کہ آئس کریم کے ذائقوں میں افریقہ کے مقامی کھانوں کا ذائقہ آئے۔‘

’میں جو کھانے بناتا ہوں ان میں افریقہ کے مختلف قبائل کے کھانوں کے ذائقوں کا ملاپ ہوتا ہے۔‘

تاہم حال میں آئس کریم بنانے کی تازہ ترین ترکیب پولینڈ سے آئی ہے۔

پولینڈ کے شہر زچن کی ویسٹ پومرینیئن یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کے محققین نے گھوڑی کے دودھ سے دہی بنا کر اس سے آئس کریم بنائی جو دیکھنے میں اور کھانے میں اسی آئس کریم کی طرح ہے جو گائے کے دودھ سے بنتی ہے۔

پولینڈ کے محققین نے اپنا مطالعہ اگست میں شائع کیا اور کہا کہ گھوڑی کا دودھ انسانوں کے پیٹ کے لیے اچھا ہے تاہم اس میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

وسطی ایشیا میں ایک طویل عرصے سے گھوڑی کے دودھ کو سڑاکر استعمال کیا جا رہا ہے لیکن اس سے آئس کریم بنانا ایک قدرے نیا تجربہ ہے۔

لندن کی کٹی ٹریورس کہتی ہیں انھوں نے پولینڈ کے محققین کی ترکیب پر عمل کیا تاہم ان کے مطابق آئس کریم ’پتلی اور تھوڑی کرکری‘ بنی تھی۔

اگست میں جب بی بی سی نے ان سے ملاقات کی تو انھوں نے گھوڑی کے دودھ سے ایک اور آئس کریم بنائی جس میں ناشپاتی کا چھلکا اور سونف کا استعمال کیا۔

ایک ہفتے بعد انھوں نے اپنے دوستوں کی دعوت کی جس میں انھوں نے اپنی تخلیق کردہ آئس کریم پیش کی جو ان کے دوستوں کو بے حد پسند آئی۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.