لوو جہاد، غیرقانونی مساجد اور ہندو خواتین سے چھیڑ خوانی جیسے الزامات: انڈیا کی نسبتاً پُرامن ریاستوں کے مسلمان اب ہندو تنظیموں کے نشانے پر کیوں ہیں؟

انڈیا میں مذہبی ہم آہنگی کی بنیاد پر نسبتاً پُرامن سمجھی جانے والی ریاستوں میں گذشتہ کچھ عرصے کے دوران مسلمان مخالف واقعات میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ یہاں بسنے والے مسلمانوں کو بھی اب لوو جہاد، غیرقانونی مساجد و مزارات تعمیر کرنے اور ہندو خواتین سے چھیڑ خوانی جیسے الزامات کا سامنا ہے جس کی بنیاد پر اُن کے خلاف اقدامات اور مظاہرے کیے جا رہے ہیں۔ مگر اس سب کے پس پردہ مقاصد کیا ہو سکتے ہیں؟
انڈیا
Getty Images

’یہ مسجد تو ٹوٹ کر ہی رہے گی۔ ہم نہیں چاہتے کا باہر سے مسلمان یہاں آئیں اور دنگے فساد کریں۔ ہم یہاں کے مقامی باشندے ہیں اور ہم نہیں چاہتے کہ یہ لوگ ہمیں ماریں۔‘

یہ کہنا تھا شمالی انڈیا کی ریاست ہماچل پردیش کے دارالحکومت شملہ میں بدھ کے دن ہونے والے مظاہرے میں شریک ایک خاتون کا جو اپنے علاقے میں واقع ایک مسجد سے جڑے تنازع پر اپنی رائے کا اظہار کر رہی تھیں۔ مقامی ہندو تنظیمیں اس پرانی مسجد کو ’غیرقانونی‘ قرار دے رہی ہیں جبکہ مقامی وقف بورڈ کا دعویٰ ہے کہ یہ مسجد اُن کی ملکیت ہے اور مکمل طور پر قانونی ہے۔

اس مسجد کی قانونی حیثیت کے تعین کے لیے ایک کیس مقامی عدالت میں زیر سماعت ہے۔ تاہم اس کے باوجود گذشتہ ایک ہفتے سے سینکڑوں ہندو افراد مظاہرہ کر رہے ہیں اور اس مسجد کو گِرانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ مظاہرین کا دعویٰ ہے کہ اِس مسجد میں ’غیر قانونی تارکین وطن بھی قیام کرتے ہیں اور ریاست کو چاہیے کہ وہ باہر سے آنے والے ان افراد کی جانچ پڑتال بھی کرے۔‘ واضح رہے کہ ہماچل پردیش میں اپوزیشن جماعت کانگریس کی حکومت ہے۔

تاہم یہ تنازع ایک مسجد تک محدود نہیں بلکہ شمالی انڈیا میں گذشتہ کچھ عرصے کے دوران مسلمان مخالف واقعات اور رویوں میں اضافہ اور شدت دیکھنے کو ملی ہے۔ یہ وہ علاقے ہیں جہاں ماضی میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان اس نوعیت کی کشیدگی کم ہی دیکھی جاتی تھی۔

شمالی انڈیا کے کسی علاقے میں مسجد کے قانونی یا غیرقانونی ہونے کا تنازع ہے تو کہیں دُکان پر نام لکھنے کا جھگڑا، کہیں مسلمانوں پر ’لوو جہاد‘ کا الزام عائد ہو رہا ہے تو کہیں گاؤں میں اُن کے داخلے پر پابندی عائد کی جا رہی ہے۔

ہماچل پردیش کے ساتھ ساتھ اُتراکھنڈ میں بھی پیش آنے والے ایسے واقعات کے بعد یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ شمالی انڈیا کی ریاستوں میں اس نوعیت کے واقعات میں شدت آنے کی وجوہات کیا ہیں اور یہ بھی کہ کیا ان معاملات کو بنیاد بنا کر سیاست تو نہیں کھیلی جا رہی؟

ان سوالوں کے جواب جاننے سے قبل شملہ کی مسجد کے تنازع کے بارے میں جانتے ہیں اور یہ دیکھتے ہیں کہ حالیہ کچھ عرصے میں شمالی انڈیا میں ایسے اور واقعات کہاں، کیسے اور کب پیش آئے۔

ہماچل پردیش اور اُتراکھنڈ میں مسلمان مخالف واقعات

شملہ کی مسجد کا تنازع ریاستی اسمبلی میں بھی زیر بحث رہا، جہاں ایک وزیر انیرودھ سنگھ نے بھی اس مسجد کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’اسے گِرا دیا جانا چاہیے۔‘

ریاستی اسمبلی میں اپوزیشن بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اراکین اسمبلی نے بھی اس مطالبے کی حمایت کی۔ بی جے پی رہنما جے رام ٹھاکر کا کہنا تھا کہ ’اس مسجد میں غیر قانونی تعمیر کے خلاف 2010 میں ہی میونسپل کارپوریشن میں شکایت درج کروائی گئی تھی لیکن کارروائی نہیں ہوئی۔ اب وہاں چار منزلوں سے بھی زیادہ اونچی عمارت تعمیر کی جا چکی ہے۔ یہ غیر قانونی ہے، اسے گِرانا چاہیے۔‘

ہماچل میں اس نوعیت کا یہ واحد واقعہ نہیں۔ ایسا ہی ایک مظاہرہ اس سے قبل ریاست کے ایک شہر ’منڈی‘ میں بھی ایک مسجد کے خلاف پیش آ چکا ہے جس کے بعد ہماچل کی حکومت نے کہا تھا کہ اب دوسری ریاستوں سے یہاں آنے والوں اور کاروبار کرنے والوں کی تفتیش ہو گی۔

اُدھر گذشتہ دنوں اُتراکھنڈ ریاست کے رودر پریاگ ضلع کے کئی دیہات میں مقامی ہندو تنظیموں کی جانب سے ایسے بورڈ آویزاں کر دیے گئے تھے جن پر لکھا ہوا تھا کہ ’روہنيگیا مسلمانوں، غیر ہندوؤں اور پھیری لگانے والوں کو گاؤں میں داخل ہونے کی اجازت نہیں اور اگر انھیں گاؤں میں پایا گیا تو انھیں سزا دی جائے گی۔‘

ایک برس قبل بھی ریاست کے کئی مقامات پر بعض ہندو تنظمیوں کی جانب سے مسلمانوں کو وارننگ دینے والے پوسٹر چسپاں کیے گئے تھے جن میں لکھا تھا کہ ’لوو جہادیوں کو مطلع کیا جاتا ہے کہ وہ ہندوؤں کی مہاپنچایت ہونے سے پہلے اپنی دُکانیں خالی کر دیں اور اگر اس پر عمل نہیں کیا تو اس کا نتیجہ کیا ہو گا یہ وقت بتائے گا۔‘

گذشتہ منگل کو اُتراکھنڈ کے دارالحکومت دہرہ دون میں بھی ہندو تنطیموں کی کال پر مسلمانوں کے خلاف احتجاج ہوا جس کی وجہ جوتوں کی ایک دکان پر مبینہ طور پر ایک مسلمان ملازم کی ایک خاتون سے نازیبا حرکت بتائی گئی۔ اس واقعے کے بعد اتراکھنڈ سے مسلمانوں کو باہر نکالنے کا مطالبہ کیا گیا جبکہ میڈیا کی خبروں کے مطابق شہر میں چھوٹا موٹا کاروبار کرنے والے سو سے زائد مسلمانوں کو حراست میں بھی لیا گیا۔

ہندو تنظیموں کا موقف کیا ہے؟

ہندو تنطیمیوں کا الزام ہے کہ اتراکھنڈ ریاست میں ’بڑی تعداد میں غیر قانونی تارکین وطن داخل ہو گئے ہیں جن سے ہندوؤں بالخصوص خواتین کو خطرہ ہے۔‘

ہندو تنظیموں کی جانب بڑی تعداد میں مسلمانوں کے آنے سے ہندوؤں کی آبادی کا توازن بگڑنے کی شکایات کے بعد ریاست کے وزیرِ اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی نے پیر کے روز ریاستی پولیس کے سربراہ کو ہدایت کی کہ وہ ’ڈیموگریفک تبدیلیوں‘ کا سروے کریں۔

اتراکھنڈ میں ’دیوبھومی رکشا ابھیان‘ نامی ایک ہندو تنطیم کے بانی سوامی درشن بھارتی نے کہا کہ ’اُتراکھنڈ ہندوؤں کے مقدس ترین مقامات میں ہے جہاں مسلمانوں کی آبادی بہت تیزی سے بڑھی ہے۔‘ بی بی سی اس دعوے کی آزادانہ تصدیق نہیں کر سکتا۔

سوامی درشن بھارتی نے الزام عائد کیا کہ ’مسلمانوں نے اہم مقدس مقامات اور کاروبار پر قبضہ کر لیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ کوئی غیر ملک سازش ہو جس کے تحت مسلمانوں کو یہاں بسایا جا رہا ہو۔‘

’خواتین سے چھیڑ خانی بہانہ ہے‘

اتراکھنڈ میں مسلمانوں کی ایک مقامی تنظیم مسلم سیوا سنگٹھن کے سربراہ نعیم احمد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ’ریاست میں مسلمانوں کو ہدف بنانے کے لیے خواتین سے چھیڑ خانی کا معاملہ ایک ایسا ٹرینڈ بن چکا ہے کہ کوئی ہندو خاتون کسی مسلمان پر چھیڑنے یا بدتمیزی کرنے کا الزام عائد کرتی ہے اور ہندو تنظیمیں اسے بہانہ بنا کر پُرتشدد مظاہرے کرتی ہیں۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ان واقعات میں اب شدت آ گئی ہے۔

نعیم احمد نے مزید بتایا کہ ’موجودہ حالات میں مسلمان بہت خوفزدہ ہیں اور انتطامیہ بھی سخت گیر ہندو تنظیموں کے سامنے بے بس ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ بہت سے مسلمان خاندان اپنا گھر بار چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ ’ہم قانون کا سہارا لے رہے ہیں، ہم مسلمانوں کو ان کے حقوق کے بارے میں آگاہ کر رہے ہیں اور انھیں بتا رہے ہیں کہ جھوٹے الزامات لگائے جانے پر وہ حالات کا کس طرح سامنا کریں۔‘

نعیم احمد کا موقف ہے کہ ’سیاسی طور پر تو مسلمانوں کو پہلے ہی کنارے کیا جا چکا ہے، اب اقتصادی اور اس سے بھی زیادہ خطرناک، سماجی طور پر انھیں علیحدہ کیا جا رہا ہے جو ایک خطرناک رحجان ہے۔‘

انھوں نے الزام عائد کیا کہ ’اس رجحان کو حکومت کی پشت پناہی حاصل ہے۔‘

واضح رہے کہ مسلمانوں کے خلاف تشدد اور حملوں کے واقعات دوسری ریاستوں میں بھی ہوئے ہیں۔ حال ہی میں ریاست ہریانہ میں کچھ دن پہلے ایک بنگالی مسلمان کو سخت گیر ہندو نوجوانوں کے ایک گروہ نے پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا تھا جبکہ مہاراشٹر میں ایک ٹرین میں سفر کرنے والے 72 سال کے ایک بزرگ کو بھنیس کا گوشت لے کر سفر کرنے کی پاداش میں بری طرح زدوکوب کیا گیا۔

گذشتہ ہفتے مغربی اُتر پردیش کے مظفر نگر شہر سے گزرنے والی شاہراہ پر ایک ریسٹورنٹ کے مسلمان مالک نے، جن کے ریسٹورنٹ کا نام ’سنگم شدھ شاکاہاری بھوجنالے‘ تھا، ایک ہندو مذہبی رہنما کی دھمکی کے بعد اپنے ریستوراں کا نام بدل دیا۔ ہندو رہنما نے مسلمانوں کو وارننگ دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ریسٹورنٹس اور اپنی دکانوں پر ہندو نام بالخصوص ہندو دیوی دیوتاؤں کے نام کا استعمال نہ کریں۔

مقامی صحافی امت کمار سینی نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ سلسلہ ایک برس قبل شروع ہوا تھا۔ یاد رہے کہ ہزاروں ہندو زائرین ایک مخصوص مہینے میں سینکڑوں کلومیٹر پیدل چل کر اس علاقے سے گزرتے ہیں۔

امت کمار کے مطابق ’اس وقت تمام دکانداروں سے کہا گیا تھا کہ وہ اپنی دکان پر بورڈ میں واضح طور پر اپنا نام لکھیں تاہم اس وقت انڈیا کی سپریم کورٹ کے ایک حکم کے بعد اس پر پوری طرح عمل نہیں ہوا تھا۔‘

امیت کمار سینی کہتے ہیں کہ ’اس سے کوئی بنیادی قرق نہیں پڑا تھا اور ہندو زائرین مسلمانوں کے ریستورانوں پر بھی پہلے ہی کی طرح کھا پی رہے تھے اور ان واقعات سے ہندوؤں اور مسلمانوں کے باہمی رشتوں پر بھی کوئی اثر نہیں پڑا لیکن ماحول ضرور خراب ہوتا ہے۔‘

’اتراکھنڈ گجرات کی طرح ہندوتوا کی لیبارٹری‘

آئندہ چند ہفتوں میں انڈیا کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے علاوہ ہریانہ اور چند دیگر ریاستوں میں اہم انتخابات ہونے والے ہیں اور بعض مبصرین کا ماننا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف نفرت کی لہر میں اچانک شدت کا ایک اہم سبب انتخابات سے پہلے ووٹر کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرنا بھی ہے۔

اتراکھنڈ ریاست کے مقامی صحافی آصف علی نے بی بی سی سے بات کرتے ہو کہا کہ ’ریاست کی بی جے پی حکومت ایسا کچھ کر نہیں سکی جسے وہ عوام کے سامنے کامیابی کے طور پر پیش کر سکے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ابھی کچھ دن پہلے ریاستی اسمبلی کی دو خالی سیٹوں کے لیے انتخاب ہوا اور دونوں میں بی جے پی ہار گئی تھی۔ اب ریاست کی کیدارناتھ سیٹ پر ضمنی اننتخاب ہونا ہے جو ہندوؤں کا ایک بہت اہم مقدس مقام ہے، اگر بی جے پی یہاں سے بھی ہار گئی تو اس کے لیے سیاسی پیچیدگیاں بڑھ جائے گی، وہ ہر قیمت پر اس سیٹ کو جیتنا چاہتی ہے۔‘

’اس سیٹ سے جیتنا یہاں کے وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم مودی دونوں کے لیے وقار کا سوال ہے۔‘ ایسے میں ان کا ماننا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف تحریک سے بی جے پی کو انتخابی فائدہ ہو سکتا ہے۔

سیاسی تجزیہ کار راجیش جوشی کا کہنا ہے کہ ’بی جے پی مئی کے پارلیمانی انتخابات کے بعد سکتے کی حالت میں تھی، اب وہ دوبارہ اپنی کھوئی ہوئی طاقت کو حاصل کرنے کے لیے بیتاب ہے اور ایک بار پھر سخت گیر ہندوتوا کے نظریے کی طرف لوٹ رہی ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’جس طرح پہلے گجرات ہندوتوا کی لیبارٹری ہوا کرتا تھا، اب اتراکھنڈ ہندوتوا کی لیبارٹری بن چکا ہے۔‘

’ریاست کے گاؤں گاؤں میں ہندو مسلم کی تقسیم کر دی گئی ہے، جہاں جہاں مسلمانوں کی دکانیں ہیں اُن سے کہا جاتا ہے کہ وہ خالی کر دیں، ریاست میں ہزاروں مزارات کو غیر قانونی قرار دیا گیا ہے جبکہ یہ بات پھیلائی جا رہی ہے کہ مسلمانوں کی آبادی بڑھتی جا رہی ہے جس کے باعث اب وہ وہ مسجدیں بنائیں گے، خواتین کو چھیڑیں گے، یہ ایک منظم مہم ہے۔‘

راجیش جوشی کا کہنا ہے کہ جو تنطیمیں اس مہم میں شامل ہیں وہ اقتصادی طور پر مسلمانوں کی کمر توڑ دینا چاہتی ہیں۔

’اس سے پہلے گجرات، مدھیہ پردیش اور ہریانہ کے قصبوں اور دیہات میں باقاعدہ کال دی جاتی تھی کہ مسلمانوں کی دکانوں سے سامان نہ خریدیں، انھیں کام نہ دیں، وہ لوو جہادی ہیں۔ یہ ایک منظم اور سوچا سمبجھا منصوبہ ہے تاکہ مسلمانوں خاص طور سے غریب مسلمانوں کی کمر ٹوٹ جائے۔‘

تاہم راجیش جوشی کا کہنا ہے کہ ’ایک اہم پہلو یہ ہے کہ اس منصوبے میں وہ کچھ حد تک ہی کامیاب ہو پا رہے ہیں۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.