پولارس ڈان: جیرڈ آئزک مین سپیس واک کرنے والے پہلے نجی خلا باز بن گئے

جمعرات کو ارب پتی کاروباری شخصیت جیرڈ آئزک مین اور سپیس ایکس کی سارہ گیلس کسی نجی خلائی مشن کے دوران خلا میں چہل قدمی کرنے والے پہلے خلا باز بن گئے ہیں۔ انھوں نے زمین سے 435 میل خلا میں چند منٹ کی چہل قدمی کر کے ایک نیا ریکارڈ بنایا ہے۔

ارب پتی کاروباری شخصیت جیرڈ آئزک مین کسی نجی خلائی مشن کے دوران خلا میں چہل قدمی کرنے والے پہلے خلا باز بن گئے ہیں۔

جمعرات کو جیرڈ آئزک مین نے جب ’پولارس ڈان‘ نامی نجی خلائی جہاز سے باہر قدم نکالا تو ان کے ہیلمٹ پر لگا کیمرہ وہاں سے لائیو منظر کشی کر رہا تھا۔ ایسے میں ان کے منھ سے جو پہلے الفاظ نکلے وہ تھے: ’حسین دنیا۔ ویسے تو زمین پر ہم سب کو بہت کچھ کرنے ضرورت ہے لیکن فی الحال یہاں سے زمین ایک پرفیکٹ دنیا کی طرح نظر آتی ہے۔‘

آئزک مین کی پیچھے پیچھے خلائی جہاز سے سپیس ایکس کی انجینیئر سارہ گیلِس بھی سپیس واک کے لیے باہر نکلیں۔

دونوں خلاباز چند منٹ سپیس واک کرنے کے بعد واپس اپنے جہاز کے اندر چلے گئے۔ دونوں خلا بازوں نے زمین سے 435 میل کے فاصلے میں اپنا یہ مشن مکمل کیا۔تاہم پولارس ڈان کے زمین پر لوٹنے میں ابھی دو دن باقی ہیں۔

پولارس ڈان ایک ’خطرناک‘ نجی خلائی مشن

منگل کے روز نجی خلائی مشن ’پولارس ڈان‘ امریکہ کی جنوب مشرقی ریاست فلوریڈا سے سپیس ایکس فالکن 9 راکٹ کے ذریعے کامیابی سے اپنے سفر پر روانہ ہوا تھا۔

اس خلائی جہاز پر ارب پتی کاروباری شخصیت جیرڈ آئزک مین کے علاوہ ایک ریٹائرڈ پائلٹ سکاٹ ’کِڈ‘ پوٹیٹ اور سپیس ایکس کے دو انجینئرز اینا مینن اور سارہ گیلِس بھی سوار ہیں۔

’ریزیلیئنس‘ نامی یہ خلائی جہاز زمین سے 1400 کلومیٹر کے فاصلے پر خلا میں داخل ہوا۔ سنہ 1970 کی دہائی میں امریکی خلائی ادارے ناسا کے اپولو پروگرام کے خاتمے کے بعد سے اب تک کسی انسان نے زمین سے اتنا دور سفر نہیں کیا ہے۔

یہ خلا باز اپنے سفر کے دوران خلا میں ایک ایسے علاقے سے بھی گزریں گے جسے ’وین ایلن بیلٹ‘ کہا جاتا ہے اور جہاں بہت زیادہ تابکاری موجود ہے لیکن خلائی جہاز اورعملے کے جدید خلائی لباس انھیں اس سے محفوظ رکھیں گے۔

اس علاقے سے چند بار گزرنے کے دوران ہی ان کا سامنا اتنی تابکاری سے ہو گا جس کا سامنا بین الاقوامی خلائی مرکز پر رہنے والے خلا باز تین مہینوں میں کرتے ہیں جو کہ قابل قبول حد میں ہے۔

اس سفر کا مقصد بھی انسانی جسم پر مختصر مدت کے لیے تابکاری کے اثرات کا مطالعہ ہے۔

ریزیلیئنس کے مسافر خلا میں اپنا دوسرا دن بلند ترین اونچائی پر گزاریں گے اور اس دوران تقریباً 40 تجربات کیے جائیں گے جن میں ڈریگن خلائی جہاز اور سپیس ایکس کی سٹار لنک سیٹلائٹس کے مجموعے کے درمیان انٹر سیٹلائٹ لیزر رابطے بھی شامل ہیں۔

ایک نیا ریکارڈ قائم

جیسا کہ اس مشن پر اب تک سب کچھ منصوبے کے مطابق ہو رہا ہے اور آئزک مین اور سارہ گیلِس کی خلا میں چہل قدمی نے ایک نیا ریکارڈ بنا دیا ہے۔

یہ چہل قدمی مدار میں 700 کلومیٹر کی بلندی پر کی گئی۔ خلابازوں نے اس دوران اپنے نئے خلائی لباس کی جانچ بھی کی جو کہ خلائی جہاز سے باہر کام کرنے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ یہ سپیس ایکس کے انٹرا ویہیکولر ایکٹیویٹی (آئی وی اے) سوٹ کا بہتر ورژن ہے۔

اس سپیس واک کا ایک انوکھا پہلو یہ ہے کہ خلائی جہاز میں کوئی ایئر لاک نہیں ہے جو بیرونی خلا میں داخلے کے دروازے اور جہاز کے باقی حصوں کے درمیان ایک سیل بند چیمبر کا کام کرتا ہے۔

عام طور پر خلا بازوں کے داخل ہونے اور باہر نکلنے سے پہلے ایئر لاک کو ڈی پریشرائز کیا جاتا ہے لیکن ریزیلیئنس کے معاملے میں پورے خلائی جہاز کو ڈی پریشرائز کیا جائے گا اور خلابازوں کو پوری طرح سے سازوسامان سے لیس ہونا پڑے گا چاہے وہ جہاز سے باہر بھی نہ نکلیں۔

اس خلائی جہاز کو ویکیوم کو برداشت کرنے کے لیے تیار کیا گیا ہے اور نائٹروجن اور آکسیجن کے اضافی ٹینک نصب کیے گئے ہیں۔ اگرچہ صرف دو ہی خلا باز جہاز سے باہر نکلیں لیکن چاروں خلا باز ہی ای وی اے سوٹ پہنے ہوئے تھے۔

اس طرح یہ مشن ایک ہی وقت میں خلا کے ویکیوم میں لوگوں کی سب سے زیادہ تعداد کا ریکارڈ توڑ دے گا۔

فلائٹ ٹیم اس مشن کا استعمال خلا بازوں پر ڈی کمپریشن کے اثرات کے مطالعے کے ساتھ ساتھ نظر کے دھندلے پن کی جانچ بھی کرے گا کیونکہ خلا باز کبھی کبھی خلا میں دھندلی نظر کا شکار ہو سکتے ہیں۔ اس کیفیت کو سپیس فلائٹ سے وابستہ نیورو آکولر سنڈروم کہا جاتا ہے۔

وان ایلن بیلٹ میں تابکاری کے اثرات کی جانچ اور سپیس واک کا مقصد مستقبل میں زیادہ اونچائی اور ممکنہ طور پر چاند یا مریخ پر جانے والے نجی شعبے کے مشنز کی بنیاد رکھنا ہے۔

زمین سے 1400 کلومیٹر دور تک یہ مشن جائے گا اور بہت سے سائنسی تجربے کا باعث بنے گا
BBC
زمین سے 1400 کلومیٹر دور تک یہ مشن جائے گا اور بہت سے سائنسی تجربے کا باعث بنے گا

نئے سوٹ

ایوا (ای وی اے) سوٹ میں ہیلمٹ پر نصب ڈسپلے شامل ہے جو اسے پہننے والے فرد کو لباس کے بارے میں معلومات فراہم کرتا رہتا ہے۔ ایوا سوٹ آرام دہ اور لچکدار ہیں جو لانچ اور لینڈنگ کے دوران پہنے جا سکتے ہیں اور یہ مختلف مقامات کے لیے الگ الگ خلائی لباس کی ضرورت کو ختم کرتے ہیں۔

سپیس واک کی تربیت کے دوران ایک انٹرویو میں گیلِس نے وضاحت کی تھی کہ یہ سپیس ایکس کے لوگوں کو دوسرے سیاروں پر بھیجنے کے منصوبوں کا ایک اہم حصہ ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’اب تک، صرف کسی ملک کی جانب سے روانہ کیے گئے مشن کے ارکان ہی سپیس واک کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ سپیس ایکس مریخ تک پہنچ کر زندگی کو ملٹی پلیٹنری یا ایک سے زیادہ سیارے والی بنانے کی بڑی خواہش رکھتا ہے۔ اسے حاصل کرنے کے لیے ہمیں کہیں نہ کہیں سے تو شروع کرنا ہے اور پہلا قدم ایوا سپیس سوٹ کا تجربہ ہے تاکہ ہم سپیس واک اور مستقبل کے سوٹ ڈیزائن کو مزید بہتر بنا سکیں۔‘

آئزک مین نے بھی انھی خيالات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’سپیس ایکس اگر ایک دن دوسرے سیارے کو آباد کرنے کے اپنے طویل مدتی خواب کو پورا کرنا چاہتا ہے تو وہ یہ جانتا ہے کہ اسے ایوا کی صلاحیت کی ضرورت ہے۔‘

مقصد یہ ہے کہ خلائی لباس کو کسی خاص ضرورت پوری کرنے والا لباس نہ بنایا جائے، بلکہ ایسا لباس بنایا جائے جو کمرشل خلا بازوں کی وسیع رینج کے کام آ سکے۔ ایسا اس لیے بھی ہے کہ مستقبل میں جب انسانی خلائی پروازوں میں اضافہ ہو تو اس کے اخراجات کو کم کیا جا سکے۔

یہ بین الاقوامی خلائی سٹیشن سے بھی آگے جائے گا
Getty Images
یہ بین الاقوامی خلائی سٹیشن سے بھی آگے جائے گا

’بہت سے خطرات‘

انگلینڈ کی کرین فیلڈ یونیورسٹی میں راکٹ پروپلزن کے ماہر ڈاکٹر ایڈم بیکر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس میں بہت سے خطرات موجود ہیں۔ انھوں نے اپنے لیے بہت سے بڑے اہداف مقرر کیے لیکن خلائی پرواز میں ان کا تجربہ نسبتاً محدود ہے۔ دوسری طرف، انھوں نے مشن کی تیاری میں کئی ہزار گھنٹے صرف کیے ہیں۔ اس لیے وہ خطرات کو کم کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔‘

کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس مشن کی کامیاب کے بعد یہ اب تک کے بڑے اور کم لاگت والے نجی شعبے کے ایسے مشنز کو جنم لیں گے جو سرکاری خلائی ایجنسیوں سے کہیں زیادہ لوگوں کو خلا میں لے جائے گا۔

لیکن بیکر اس بارے میں زیادہ محتاط نظر آتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’اب تک نجی شعبے نے بہت پیسہ خرچ کیا ہے، بہت زیادہ تشہیر بھی کی ہے، لیکن خلائی سفر پر جانے والوں کی تعداد 100 سے بھی کم ہے۔

’خلائی پرواز مشکل، مہنگی اور خطرناک ہے، اس لیے کسی بھی وقت جلد ہی بڑی تعداد میں دولت مند شہریوں کے خلا میں جانے یا اس عمل میں شامل ہونے کی توقع کم ہی ہے۔‘

بائیں سے دائیں: اینا مینن، سکاٹ پوٹیٹ، جیرڈ آئزک مین اور سارہ گیلس
Reuters
بائیں سے دائیں: اینا مینن، سکاٹ پوٹیٹ، جیرڈ آئزک مین اور سارہ گیلس

امیروں کا سوال؟

کچھ لوگوں کے لیے ارب پتیوں کی خلا میں جانے کے لیے بڑی رقم کی ادائیگی اچھی بات نہیں ہے اور ایسے مشن کے بارے میں سوالات اٹھتے ہیں جس میں سفر کی ادائیگی کرنے والا شخص کمانڈر بھی ہوتا ہے۔

انگلینڈ کی اوپن یونیورسٹی کے ایک خلائی سائنسدان سائمن باربر ہین جو مختلف ممالک کی حکومتوں کی طرف سے خلائی منصوبوں کے لیے سائنسی آلات تیار کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ یہ کوئی خود نمائی کی بات نہیں ہے۔

انھوں نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ ’آئزک مین دراصل عملے کے سب سے تجربہ کار خلا باز ہیں۔ وہ واحد شخص ہیں جو اس سے پہلے خلا میں جا چکے ہیں۔ وہ سپیس ایکس کے ساتھ ایک دوسرے نجی فنڈڈ مشن پر خلا میں گئے تھے، جہاں انھوں نے کمانڈر کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔ مشن کے تناظر میں، وہ فطری انتخاب ہیں۔

’مزید وسیع تناظر میں دیکھیں تو اس سٹار کلاس ٹکٹ کی فروخت سے حاصل ہونے والا منافع زمین پر ہی رہے گا۔ اس پیسے سے سامان اور خدمات خریدی جائیں گی، تنخواہیں دی جائيں گی، اور بدلے میں ٹیکس حاصل ہوں گے۔ خیراتی فنڈز کا ذکر ہی نہیں جو مشن کے ذریعے جمع ہوں گے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ خلائی صنعت میں بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ امیر افراد کی شمولیت ایک اچھی بات ہے۔

’اگر وہ سیارے سے دور جانا چاہتے ہیں اور کسی دن چاند یا مریخ پر جانا چاہتے ہیں تو اس کی وجہ سے راستے میں سائنسی تجربات کرنے کے مواقع پیدا ہوں گے اور خلا کو کھوجنے کی وجوہات جتنی متنوع ہوں گی پروگرام اتنا ہی زیادہ لچکدار ہوگا۔‘

کیا سپیس واک سے زمین پر رہنے والوں کو کچھ فائدہ ہو گا؟

دنیا میں مسائل کی کمی نہیں ہے ایسے میں جہاں اس مشن کو دیکھنے والے کئی افراد کے ذہنوں میں یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ اس مشن پر اتنی خطیر رقم خرچ کرنے کی کیا ضرورت ہے وہیں کچھ لوگ اس کو جدت اور نجی کاروباری دنیا کے لیے کامیابی گردانیں گے۔

دراصل سرکاری خلائی ایجنسیاں چاہتی ہیں کہ پرائیویٹ کمپنیاں اس مہنگے خلائی سفر کا مالی بوجھ اٹھائیں کیونکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ چاند پر انسانوں کی مستقل آبادکاری کے نزدیک پہنچتے جا رہے ہیں۔

پولارس ڈان مشن کا ایک سائنسی مقصد بھی ہے۔ یہ مشن امریکی ایئر فورس کی اکیڈمی کے ساتھ مل کر زمین کے نچلے مدار کی نباتات پر بھی تحقیق کرے گا تاکہ چاند یا مریخ پر خوراک فراہم کرنے کے لیے خلا میں پودوں کی نشوونما کو سمجھا جا سکے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اس سے زمین پر پودوں کی نشوونما اور خوراک کی پیداوار کو بہتر بنانے میں بھی مدد ملے گی۔

عمومی طور پر ایسے خلائی پروگراموں سے نئی ٹیکنالوجی بنانے مدد ملے گی جیسے ناسا کے اپولو پروگرام کے بعد سیٹلائٹ کمیونیکیشن اور لیزر ٹیکنالوجی جیسی چیزوں کی تیزی دیکھنے میں آئی تھی۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.