علی امین گنڈا پور کا افغانستان سے مذاکرات کا اعلان: کیا کوئی صوبہ خارجہ اُمور پر کسی ملک سے براہ راست بات کر سکتا ہے؟

وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کے بطور صوبہ افغانستان کے ساتھ براہ راست مذاکرات کرنے کے بیان کو ’وفاق پر حملہ‘ قرار دیا ہے۔ علی امین افغان حکام کے ساتھ براہ راست مذاکرات کیوں کرنا چاہتے ہیں اور کیا کوئی صوبہ خارجہ اُمور سے متعلقہ معاملات پر کسی ملک کے ساتھ مذاکرات کر سکتا ہے؟
تصویر
Getty Images

’میں اعلان کرتا ہوں کہ خود بطور صوبہ افغانستان سے بات کروں گا، وہاں وفد بھیجوں گا۔ افغانستان کے ساتھ بیٹھ کر بات کروں گا اور مسئلہ حل کروں گا۔‘

پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کی جانب سے بدھ کی شام صوبائی دارالحکومت پشاور میں بار کونسلز ایسوسی ایشنز کی تقریب سے خطاب کے دوران ادا کیے جانے والے اِن الفاظ نے پاکستان کی سیاست میں ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے کہ آیا کسی صوبے کا وزیر اعلیٰ کسی دوسرے ملک سے براہ راست مذاکرات کر سکتا ہے یا نہیں؟

پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے جمعرات کو قومی اسمبلی میں علی امین گنڈا پور کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے اسے ’وفاق پر براہ راست حملہ‘ قرار دیا ہے اور واضح کیا ہے کہ ’کوئی صوبہ کسی ملک کے ساتھ براہ راست مذاکرات نہیں کر سکتا۔‘ جبکہ پاکستان کی وزارت خارجہ نے بھی کہا ہے کہ ’خارجہ پالیسی ایک وفاقی موضوع ہے اور یہ حکومتِ پاکستان کا اختیار ہے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی کو آگے بڑھائے۔‘

علی امین گنڈاپور کا بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ایک جانب تحریک انصاف اور وفاق میں برسراقتدار مسلم لیگ نواز اور اتحادیوں کی حکومت کے درمیان سیاسی تناؤ شدت اختیار کر چکا ہے تو دوسری جانب خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع میں شدت پسندی کی لہر سے متاثرہ پولیس اہلکار بھی احتجاج کر رہے ہیں۔

وزیر اعلی خیبرپختونخوا کا بیان بھی امن و امان کی اِسی بگڑتی صورتحال کے تناظر میں تھا۔ اپنے بیان میں اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’میں نے ایپکس کمیٹی کی متعدد اجلاسوں میں کہا کہ ہماری پولیس اور عوام کا اعتماد ختم ہو چکا ہے، آپ معاملات کو کہاں لے کر جا رہے ہیں، مگر انھیں پرواہ ہی نہیں ہے۔ ہمارا خون بہہ رہا ہے، مگر انھیں پرواہ ہی نہیں ہے۔ میں نے کہا کہ افغانستان سے بات کرو، وہ ہمارے پڑوسی ہیں، مجھے وفد بھیجنے دو، مگر انھیں پرواہ ہی نہیں ہے کیونکہ خون ہمارا بہہ رہا ہے۔‘

علی امین نے سوال کرتے ہوئے کہا کہ ’کیا ہمارے لوگوں کا خون پانی ہے؟ میں کب تک برداشت کروں گا۔ آپ کی اپنی پالیسی ہے تو اپنی پالیسی اپنے پاس رکھو، وہی پالیسی جس کی وجہ سے ہمارے لوگ مر رہے ہیں اور آپ کو پرواہ ہی نہیں۔ میں اعلان کرتا ہوں کہ اب میں خود افغانستان سے بات کروں گا۔ میں بطور صوبہ بات کروں گا۔۔۔ میں اُس عوام کو جوابدہ ہوں جس نے مجھے اس منصب پر بٹھایا ہے۔ میں اس معاملے پر کمپرومائز نہیں کروں گا، آپ کو اچھا لگتا ہے تو ویری گڈ، اور اگر اچھا نہیں لگتا تو ویری ویری گڈ۔‘

واضح رہے کہ پاکستان کا گذشتہ کچھ عرصے سے مؤقف ہے کہ خیبرپختونخوا میں شدت پسندی کی لہر میں اضافے کی وجہ کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے افغانستان کی سرزمین کا استعمال ہے۔ پاکستانی حکام کے مطابق انھوں نے بارہا افغانستان کو ثبوت دیے مگر طالبان حکومت پاکستان کے تحفظات دور نہ کر سکی اور نتیجتاً یہ گروہ (ٹی ٹی پی) زیادہ آزادی سے افغانستان سے پاکستان کے خلاف حملوں کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ تاہم افغانستان میں برسراقتدار طالبان حکومت اِن الزامات کی تردید کرتی رہی ہے۔

یاد رہے کہ اپنے اس اعلان کے بعد وزیر اعلیٰ علی امین نے جمعرات کی شام پشاور میں تعینات افعان قونصل جنرل حافظ محب اللہ شاکی کی ملاقات کی جس میں انھوں نے اس ضرورت پر زور دیا کہ ’علاقے میں پائیدار امن کے قیام کے لیے سنجیدہ کوششیں ہونی چاہییں‘ اور یہ کہ ’وفاقی حکومت اس سلسلے میں ایک جرگہ تشکیل دے کر پڑوسی ملک کے ساتھ بات چیت کرے۔‘

تو ایسے میں خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ کی جانب سے افغانستان کی حکومت سے براہ راست مذاکرات کا اعلان کیوں کیا گیا؟ اور وہ کیا معاملات ہیں جو خیبرپختونخوا حکومت کے نزدیک پاکستان سرکاری سطح پر افغانستان کے ساتھ نہیں اٹھا رہا؟ سوال یہ بھی ہے کہ کسی صوبے کی جانب سے اِس نوعیت کے اقدامات اٹھانے کے کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں؟

خیبرپختونخوا حکومت کو وفاق سے کیا شکایت ہے؟

علی امین گنڈاپور
PTI KP TWITTER

بی بی سی اُردو کی جانب سے خیبرپختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف سے اسی ضمن میں چند سوالات کیے گئے۔

ان سوالات کے تحریری جواب میں ترجمان خیبر پختونخوا حکومت بیرسٹر سیف نے کہا کہ ’خیبر پختونخوا میں امن و امان کے حالات کا براہ راست تعلق افغانستان سے ہے اور وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا نے اس متعلق بیان بھی اِسی تناظر میں دیا۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’خیبر پختونخوا حکومت نے بار بار وفاقی حکومت سے اپیل کی کہ افغانستان کے ساتھ بات چیت کی جائے مگر وفاقی حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔‘

اُن کا کہنا تھا کہ ’علی امین گنڈاپور کو عوام نے منتخب کیا ہے، وہ صوبے کے وزیر اعلی ہیں اور اُن کو عوام کی فکر ہے۔ عوام کے جان ومال کی حفاظت وزیراعلیٰ کی ذمہ داری ہے جبکہ وفاقی حکومت کو خیبر پختونخوا کے امن و امان کی کوئی فکر نہیں۔‘

ایک سوال کے جواب میں ترجمان نے مزید کہا کہ ’اپنے عوام کی حفاظت کے لیے وزیر اعلیٰ ہر کسی سے بات کرسکتے ہیں۔‘

’فیڈریشن پر براہ راست حملہ‘

وزیر دفاع خواجہ آصف
BBC
خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ ’کوئی صوبہ کسی ملک کے ساتھ براہ راست مذاکرات نہیں کر سکتا‘

وفاقی حکومت کی جانب سے وزیر دفاع خواجہ آصف نے جمعرات کے دن قومی اسمبلی سے خطاب میں اس معاملے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’وزیر اعلی خیبرپختونخوا کا بیان آیا ہے کہ ہم خود افغانستان سے مذاکرات کریں گے۔ یہ وفاق پر براہ راست حملہ ہے۔‘

خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ آئین اور قانون کے مطابق ’کوئی صوبہ کسی ملک کے ساتھ براہ راست خارجہ معاملات پر مذاکرات نہیں کر سکتا۔‘

خواجہ آصف نے وزیر اعلی خیبرپختونخوا کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ اُسی خطاب کا تسلسل ہے جو انھوں نے چار دن قبل (اسلام آباد کے) جلسے میں کیا تھا۔‘ اُن کا کہنا تھا کہ ’جس راستے پر وزیر اعلی خیبرپختونخوا خود چل رہے ہیں اور اپنی پارٹی کو چلانے کی کوشش کر رہے ہیں وہ پاکستان کے لیے زہرِ قاتل ہے۔‘

دوسری جانب وزارت خارجہ کی ہفتہ وار بریفنگ کے دوران بھی یہ معاملہ زیر بحث آیا۔ ایک صحافی کی جانب سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں ترجمان وزارتِ خارجہ کا کہنا تھا کہ ’خارجہ پالیسی ایک وفاقی موضوع ہے اور یہ حکومت پاکستان کا اختیار ہے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی کو آگے بڑھائے۔ اس ضمن میں پاکستان کی کسی بھی عوامی شخصیت کی طرف سے آنے والی کوئی بھی تجاویز حکومتِ پاکستان زیر غور لائے گی اور پاکستان کے قومی مفاد میں فیصلے کیے جائیں گے۔‘

’افغانستان سے مذاکرات پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں ہی ہیں‘

افغان طالبان
Getty Images

سابق سفارتکار اور پاکستان کی وزارت امور خارجہ کی سابق ترجمان تسنیم اسلم نے اس بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’خارجہ پالیسی ایک ایسی چیز ہے جو ہمیشہ وفاقی سطح پر ہی رہتی ہے اور کبھی صوبوں تک نہیں آتی۔‘

انھوں نے کہا کہ ’آئین میں ترامیم ہوئیں اور بہت سے اختیارات صوبائی حکومتوں کو دیے گئے لیکن ہمارے ہاں آئین پر کبھی کوئی چلا ہی نہیں۔‘

تاہم تسنیم اسلم نے مزید کہا کہ ’صوبائی حکومتیں دوسرے ممالک کی حکومتوں کے ساتھ کئی معاہدے کرتی رہی ہیں۔ اگر کسی صوبے میں استحکام لانے کے لیے ایسے کسی معاہدے کے ضرورت ہو تو ایسا ہونا چاہیے۔‘

خیبر پختونخوا اور افغانستان کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’ان دونوں کو آپس میں بات کرنی چاہیے کیونکہ دونوں کی زبان ایک ہے، ثقافت ایک ہے، لوگ ایک دوسرے کو بہتر طریقے سے اپنی بات پہنچا سکتے ہیں۔‘

’افغانستان ہمسایہ ملک ہے، بہت سی چیزیں بات چیت کر کے حل کی جا سکتی ہیں۔ دہشتگردی اُن کے لیے بھی اور ہمارے لیے بھی خطرہ ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اس بارے میں جارحانہ ہو کر نہیں بلکہ بات چیت کے ذریعے معاملات کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ کشیدگی یا تناؤ کسی کے حق میں نہیں اور یہ کوئی دانشمندانہ پالیسی نہیں کہ تناؤ کا ماحول برقرار رکھا جائے۔‘

تسنیم اسلم کی رائے میں اگر خیبرپختونخوا صوبہ براہ راست افغانستان سے بات چیت کرتا ہے تو اس میں مضائقہ نہیں تاہم ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ سکیورٹی کے معاملے پر، جس میں پاکستان کی فوج اہم کردار رکھتی ہے، صوبہ خود سے کس حد تک بات چیت کر سکتا ہے۔

ایسے میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کی حالیہ تاریخ کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔

صحافی اور تجزیہ کار عقیل یوسفزئی نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میرے خیال میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کے بنیادی نکات کے مطابق کوئی صوبہ اس سطح پر مذاکرات نہیں کر سکتا۔‘

علی امین گنڈاپور کے بیان کو ’سیاسی پوائنٹ سکورنگ‘ قرار دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’اگر مریم نواز یہ کہیں کہ وہ پنجاب کی وزیراعلیٰ کی حیثیت سے انڈیا سے بات کرنا چاہتی ہیں تو سوچیں اس کا ردعمل کیسا ہو گا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’افغان طالبان سے مذاکرات کے لیے ایک فریم ورک کی ضرورت ہے اور فریم ورک تو یہ ہے کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ ہی افغانستان کے ساتھ معاملات کو دیکھتی ہے۔‘

ماضی کی مثال دیتے ہوئے عقیل یوسفزئی نے کہا کہ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں جب عمران خان وزیراعظم تھے تو تب بھی ایک ایسا ہی عمل شروع کیا گیا تھا لیکن وہ ناکامی سے دوچار ہوا۔

’جنرل فیض اور عمران خان کے کہنے پر خیبرپختونخوا کے ترجمان بیرسٹر سیف اور دیگر نے مذاکرات کے لیے جو عمل شروع کیا تھا، وہ بھی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے ہی کروایا گیا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’صوبہ خیبرپختونخوا، بلوچستان یا کسی بھی صوبے کی حکومت کسی پڑوسی ملک سے ایسے وقت میں مذکرات نہیں کر سکتی، جب بین الاقوامی پراکسیز بھی عروج پر ہوں اور اس ملک سے سکیورٹی کے حوالے سے خدشات بھی پائے جاتے ہوں۔‘

عقیل یوسفزئی نے کہا کہ ’پاکستان اور افغانستان کے تعلقات انتہائی پیچیدہ ہیں۔ علی امین گنڈاپور سمیت کسی بھی صوبے کا وزیراعلیٰ کسی پڑوسی ملک کا دورہ تو کر سکتا ہے لیکن مذاکرات کا معاملہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں ہی ہے۔‘

پاکستان اور افغانستان کے کشیدہ تعلقات

افغان طالبان
Getty Images

موجودہ حکومت کے دورِ اقتدار میں پاکستان کے افغانستان کے ساتھ تعلقات کچھ بہتر نہیں رہے ہیں۔

تعلقات میں کشیدگی اس وقت بڑھتی جب رواں سال مارچ میں افغان طالبان نے کہا کہ پاکستانی طیاروں نے افغانستان کی حدود میں پکتیکا اور خوست کے علاقوں میں بمباری کی جس کے بعد پاکستانی دفتر خارجہ نے بتایا تھا کہ اس آپریشن میں حافظ گل بہادر گروپ سے تعلق رکھنے والے دہشتگرد ہدف تھے۔

دوسری جانب پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ’آپریشن عزمِ استحکام کے تحت اگر ضرورت محسوس ہوئی تو افغانستان میں موجود تحریکِ طالبان پاکستان کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔‘

انھوں نے بعد میں ماضی میں ہونے والی ایسی کارروائیوں کا تذکرہ بھی کیا۔

بی بی سی کو دیے جانے والے ایک حالیہ انٹرویو کے دوران خواجہ آصف نے کہا کہ ’پاکستان افغانستان میں طالبان کے ٹھکانوں کے خلاف کارروائی جاری رکھے گا۔‘

انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’بالکل ہم نے ان (افغانستان) کی سرحد کے اندر کارروائیاں کی ہیں کیونکہ ان کی سرزمین سے لوگ آ کر یہاں پاکستان میں کارروائیاں کر رہے ہیں۔ تو ہم نے انھیں کیک، پیسٹری تو نہیں کھلانی ہیں۔‘

واضح رہے کہ مارچ میں ہونے والے حملے پر افغان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بیان میں کہا تھا کہ پاکستان کے فضائی حملے میں پانچ خواتین اور تین بچے ہلاک ہوئے۔

افغانستان میں طالبان حکومت نے پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ آصف کے افغانستان کے اندر کارروائی کے بیان پر ردِعمل دیتے ہوئے اسے ’غیر دانشمندانہ‘ قرار دیا تھا۔

ایکس (سابق ٹوئٹر) پر جاری ایک بیان میں افغان وزارتِ دفاع کا کہنا تھا کہ ’پاکستانی وزیر کا افغانستان کی قومی خود مختاری کی ممکنہ خلاف ورزی سے متعلق بیان ایک غیر دانشمندانہ عمل ہے جو بد اعتمادی پیدا کر سکتا ہے اور یہ کسی کے حق میں نہیں۔‘

افغانستان کی وزارتِ دفاع نے کہا تھا کہ پاکستان کی قیادت کو چاہیے کہ کسی کو بھی حساس معاملات پر اس طرح کے غیر سنجیدہ بیانات دینے کی اجازت نہ دے۔

دوسری جانب دوحہ میں افغان طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ سہیل شاہین نے پاکستان کے وزیر دفاع کے ریمارکس پر ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ کسی کو افغانستان کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دیں گے۔

طلوع نیوز سے بات کرتے ہوئے سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ افغانستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو رہی اور دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت افغان پالیسی کا حصہ نہیں۔

’ہم نہ تو کسی کو نقصان پہنچاتے ہیں اور نہ ہی کسی کو نقصان پہنچانے کی اجازت دیتے ہیں، اور نہ ہی ہم کسی کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتے ہیں۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.