پاکستان کے آئین میں مجوزہ ترامیم ’آئینی پیکج‘ میں کیا ہے اور اس پر مخالفت کیوں؟

پاکستان میں ’آئینی پیکج‘ کو پیش کیے جانے سے قبل کئی روز سے ملک میں یہ چہ مگوئیاں کی جا رہی ہیں کہ حکومت عدلیہ سے متعلق قانون سازی کرنے کا ارداہ رکھتی ہے۔ ان اصلاحات میں ملک کے موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سمیت اعلی عدلیہ کے ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے کی تجویز شامل ہے۔
قومی اسمبلی
Getty Images

وزیر اعظم شہباز شریف کی زیرِ صدارت کابینہ کے اجلاس میں آئینی ترامیم منظور کیے جانے کا امکان ہے جس کے بعد انھیں پارلیمان کے ایوان زیریں قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔ مسلم لیگ ن اور اس کی اتحادی جماعتوں کی حکومت کو اس آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں میں دو تہائی اکثریت درکار ہوگی۔

مگر اس ’آئینی پیکج‘ کو پیش کیے جانے سے قبل کئی روز سے ملک میں یہ چہ مگوئیاں کی جا رہی ہیں کہ حکومت عدلیہ سے متعلق قانون سازی کرنے کا ارداہ رکھتی ہے۔

ان اصلاحات میں ملک کے موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سمیت اعلی عدلیہ کے ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے کی تجویز شامل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اعلی عدلیہ میں ججز کی تعیناتی کے لیے جوڈیشل کمیشن اور ججز کی تعیناتی سے متعلق پارلیمانی کمیشن کی ازسرنو تشکیل بھی زیر غور ہے۔

مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق وفاقی حکومت سنیچر کو 26ویں آئینی ترمیم پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں پیش کرنا چاہتی تھی تاہم نمبر پورے نہ ہونے کی وجہ سے یہ ترمیم اتوار کو یعنی آج قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس میں پیش کیے جانے کا امکان ہے۔

تاہم حکمراں اتحاد میں شامل ایک عہدیدار کے مطابق اس وقت حکومت کے پاس آئینی ترمیم کو منظور کروانے کے لیے مطلوبہ تعداد پوری نہیں ہے۔

دوسری طرف اپوزیشن جماعت تحریک انصاف کے سربراہ بیرسٹر گوہر نے ان اصلاحات کو ’غیر آئینی ترمیم‘ قرار دیا ہے اور یہ اعتراض بھی کیا ہے کہ ان ترامیم کو اتوار یعنی چھٹی کے روز منظر عام پر لایا جا رہا ہے۔

قومی اسمبلی
BBC

آئینی ترمیم کے لیے درکار نمبر

پاکستان کے 1973 کے آئین میں اب تک 25 مرتبہ ترامیم ہوچکی ہیں۔ آئینی ترمیم کے لیے پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے، یعنی قومی اسمبلی میں 224 ووٹ اور سینیٹ میں 64 ووٹ۔

اس وقت حکمراں اتحاد میں شامل مختلف سیاسی جماعتوں کے پاس قومی اسمبلی میں 214 ارکان کی حمایت حاصل ہے جبکہ دو تہائی اکثریت کے لیے حکومت کو 10 مزید ووٹ درکار ہیں۔ جبکہ اطلاعات کے مطابق سینیٹ میں حکومت کو ایک ووٹ کی کمی کا سامنا ہے۔

ان نمبروں کو پورا کرنے کے لیے حکمراں اتحاد جمعت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن سے ملاقاتیں کر رہے ہیں جن کے پاس قومی اسمبلی میں چھ ارکان ہیں۔

اگر مولانا فضل الرحمن کی جماعت بھی اس آئینی ترمیم کی حمایت کر دیتی ہے تو پھر بھی حکومت کو تین سے چار ووٹ مزید درکار ہوں گے جن کے بارے میں حکمراں اتحاد میں شامل سیاسی جماعتیوں کے ارکان کچھ بھی بتانے سے گریزاں ہیں۔

بظاہر ایسا لگتا ہے کہ حکومت کے پاس ابھی مطلوبہ نمبر پورے نہیں ہوئے، اس لیے قومی اسمبلی کے اجلاس کا وقت تبدیل کیا گیا ہے۔

قومی اسمبلی سیکرٹریٹ سے جو اجلاس کا ایجنڈا جاری کیا گیا اس میں قومی اسمبلی کا اجلاس دن ساڑھے گیارہ بجے شروع ہونا تھا۔ تاہم اب اس اجلاس کا وقت شام چار بجے کر دیا گیا ہے۔

اس اجلاس کا جو ایجنڈا جاری کیا گیا ہے اس میں آئینی ترامیم کے پیش کیے جانے کا ذکر نہیں ہے۔ جبکہ حکومت کا یہ دعویٰ ہے کہ آئینی ترمیم پیش کرنے کے لیے قومی اسمبلی کا ضمنی ایجنڈا جاری کیا جائے گا۔

عوام کے ذہنوں میں یہ سوال ہے کہ چھٹی والے دن قوم اسمبلی کا اجلاس کیوں طلب کیا گیا ہے؟ اس بارے میں پارلیمانی امور کی نگرانی کرنے والے صحافی صدیق ساجد کا کہنا تھا کہ آئین میں یہ کہیں بھی قدغن نہیں ہے کہ قومی اسمبلی کا اجلاس چھٹی والے دن نہیں ہوسکتا۔

انھوں نے کہا کہ سپیکر کا یہ اختیار ہے کہ وہ جب چاہے اور جتنی دیر تک چاہے قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرسکتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ سپیکر کے اس اقدام کو کسی طور پر کہیں بھی چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔

سپریم کورٹ
Reuters

آئینی ترمیم میں کیا ہے اور حکومت کو اس کی ضرورت کیوں؟

وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ متعدد بار یہ کہہ چکے ہیں کہ حکومت جوڈیشل ریفارمز سے متعلق بل قومی اسمبلی میں پیش کرنا چاہتی ہے اور وفاقی وزیر قانون کے بقول ایسا اقدام عدلیہ میں اصلاحات کرنے کے ساتھ ساتھ زیر التوا مقدمات فوری نمٹانے اور اعلی عدلیہ میں چیف جسٹس سمیت دیگر ججز کی تعیناتی کا پیکج بھی شامل ہیں۔

حکومت کی جانب سے ممکنہ طور پر پارلیمنٹ میں پیش کی جانے والی آئینی ترمیم میں اعلی عدلیہ میں ججز کی عمر 65 سال سے بڑھا کر 68 سال کرنے کی تجویز ہے۔

اس کے علاوہ آئینی عدالت بنانے کا بھی ذکر کیا گیا ہے جس میں صرف آئینی معاملات ہی بھیجے جائیں گے اور اس کے ساتھ ساتھ سپریم جوڈیشل کونسل اور ججز کی تعیناتی سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کی فارمیش تبدیل کرنے کی تجویز بھی لائی جا رہی ہے۔

حکومت کا یہ دعویٰ ہے کہ آئینی عدالت بنانے کا مقصد سائلین کو ریلیف فراہم کرنا ہے۔

ججز کی تعیناتی سے متعلق موجودہ سسٹم میں سپریم جوڈیشل کونسل کسی بھی شخص کو ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں بطور جج تعینات کرنے کی منظوری دیتی ہے۔ تو اس کو حمتی منظوری کے لیے اعلی عدالتوں میں تعیناتی سے متعلق قائم کی گئی پارلیمانی کمیٹی کو بھجوا دیا جاتا ہے۔

اس کمیٹی کے ارکان سے متعدد بار اس بارے میں تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے کہ اس ضمن میں ان کا کردار ربڑ سٹمپ کے برابر ہے کیونکہ اگر وہ جوڈیشل کمیشن کی طرف سے بھیجے گئے کسی بھی شخص کے نام پر اعتراض کرتے ہیں تو انھیں تحریری طور پر کمیشن کو اس بارے میں آگاہ کرنا ہوگا اور اس کے ساتھ ساتھ ثبوت بھی دینا ہوں گے۔

تاہم ان اعتراضات اور ثبوتوں کے بارے میں حتمی فیصلہ سپریم کورٹ کو ہی کرنا ہے۔

اس کے علاوہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے کے لیے تین نام بھیجے جائیں گے جن میں سے ایک جج کو چیف جسٹس کے عہدے پر تعینات کیا جائے گا جس کی معیاد تین سال رکھنے کی تجویز ہے۔

سپریم کورٹ نے وہاب الخیری کی درخواست پر جو فیصلہ دیا تھا اس کے مطابق سب سے سینیئر جج کو ہی ملک کا چیف جسٹس بنایا جائے گا۔

ملک کی مختلف ہائی کورٹس میں اس کا مکمل طور پر اطلاق نہیں ہو رہا جس کی حالیہ مثال لاہور ہائی کورٹ کی چیف جسٹس کی تعیناتی ہے۔ سنیارٹی میں چوتھے نمبر پر جج جسٹس عدلیہ نیلم کو لاہور ہائی کورٹ کا چیف جسٹس تعینات کیا گیا تھا۔

تحریک انصاف
Getty Images

آئینی ترمیم کی مخالفت

سابق وزیر اعظم عمران خان کی جماعت تحریک انصاف نے ان ممکنہ اصلاحات کی بھرپور مخالفت کی ہے۔

پاکستان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ میں پاکستان تحریک انصاف کے رہنما حامد خان کا کہنا ہے کہ حکمراں اتحاد میں شامل ارکان روزانہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ آئینی ترمیم لے کر آ رہے ہیں لیکن پھر وہ اپنی اس بات سے مُکر جاتے ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ یہ آئینی ترامیم لانے کا ماحول نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ جو اسمبلی متنازع ہو وہ کیسے آئینی اصلاحات کرسکتی ہے اور نہ ہی حکمراں اتحاد کے پاس آئینی ترامیم لانے کے لیے نمبر پورے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ان کی جماعت تو کھل کر اس آئینی ترمیم کی مخالفت کرے گی اور اس ضمن میں انھوں نے اپنے ارکان کو تحریری طور پر آگاہ کر دیا ہے کہ وہ اس آئینی ترمیم کی حمایت نہیں کریں گے۔

ان کے مطابق اگر کسی نے ایسا کرنے کی کوشش تو آئین کے آرٹیکل 63 اے سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ لاگو ہوگا جس کے تحت ایک تو ان کے ووٹ شمار نہیں کیے جائیں گے اور دوسرا یہ کہ ان کی پارلیمان کی رکنیت بھی ختم ہو جائے گی۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے 63 اے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر اکثریتی رائے سے یہ فیصلہ دیا تھا کہ پارلیمانی لیڈر کی ہدایت کے برعکس کوئی بھی رکن اگر پارلیمانی قانون سازی میں ووٹ دے گا تو نہ تو ان کا ووٹ شمار ہوگا بلکہ ان کی اسمبلی کی رکنیت بھی ختم ہو جائے گی۔

اس عدالتی فیصلے کے خلاف حکومت نے نظر ثانی کی اپیل دائر کر رکھی ہے جس کو ایک سال سے زیادہ عرصہ ہوگیا ہے لیکن ابھی تک یہ اپیل سماعت کے لیے مقرر نہیں ہوئی۔

حامد خان کے مطابق عمران خان جیل میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کے دوران یہ کہہ چکے ہیں کہ حکومت ملک کے موجودہ چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں توسیع کے لیے قانون سازی کرنے جا رہی ہے اور اگر ایسا ہوا تو وہ اپنی جماعت کو احتجاج کی کال دیں گے۔

ادھر سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس ریٹائرڈ فیصل عرب کا کہنا ہے کہ بظاہر یہ آئینی ترامیم ’پرسن سپیفک لگتی ہیں۔‘

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اگر حکومت ان ترامیم پر عملدرآمد اس آئینی ترمیم کے منظور ہونے کے بعد اعلیٰ عدلیہ میں آنے والے ججز پر لاگو کرتی ہے تو پھر تو ٹھیک ہے، ورنہ ایسے حالات میں یہ ترامیم متنازع ہوں گی۔

انھوں نے کہا کہ ملک کے حالات نارمل نہیں ہیں، اس میں نہ چاہتے ہوئے بھی معاملہ اس طرف جائے گا کہ حکومت یہ ترامیم کسی فرد واحد کے لیے لے کر آرہی ہے۔

جسٹس ریٹائرڈ فیصل عرب کا کہنا تھا کہ حکومت کے بہت سے حساس معاملات سپریم کورٹ میں زیر التوا ہیں اور ایسے حالات میں آئینی پیکج لانے سے ملک میں حالات معمول پر آنے کی بجائے مزید خرابی کی طرف جائیں گے۔

واضح رہے کہ پاکستان کے موجود چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا ہے کہ وہ ’پرسن سپیسیفک‘ قانون سازی کے حق میں نہیں ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.