آئینی ترامیم پارلیمان کی’بالادستی‘ کیلئے کروائی جا رہی ہیں:خواجہ آصف

image
وزیر دفاع خواجہ آصف نے دعویٰ کیا ہے کہ آج قومی اسمبلی کے اہم اجلاس کے لیے ان کے پاس پارلیمان میں دو تہائی اکثریت ہے۔

اتوار کو پارلیمنٹ ہاؤس میں اردو نیوز کے نامہ نگار بشیر چوہدری کے ساتھ گفتگو میں خواجہ آصف نے کہا ہے آئین کے مطابق سب سے بالادست ادارہ پارلیمان ہے۔

پارلیمان میں عدلیہ سے متعلق آئینی ترمیم آج پیش کیے جانے کا امکان ہے تاہم قومی اسمبلی کے اجلاس کے جاری کردہ ایجنڈے میں اس مجوزہ ترمیمی بل کا ذکر موجود نہیں۔

وزیر خارجہ خواجہ آصف نے مزید کہا کہ ’گزشتہ چند سالوں سے پارلیمنٹ کے حدود میں قبضہ مخالفانہ عدلیہ کی جانب سے کیا گیا ہے۔ آئین واضح کرتا ہے کہ پارلیمنٹ سب سے بالادست ادارہ ہے۔ میرا خیال ہے کہ اب جو لاسٹ سپیس ہے جو پارلیمنٹ نے گنوائی ہے یا ہم سے لے لی گئی ہے اس کو بھی ڈیفائن کرنے کی ضرورت ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’تو یہ ساری ترامیم پارلیمنٹ کی بالادستی دوبارہ بحال کرنے کے لیے ہی کی جا رہی ہیں۔‘

وزیر قانون کے پاس آج بھی بِل نہیں تھا جو ہمارے ساتھ شیئر کرتے: بیرسٹر گوہر

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما بیرسٹر گوہر نے کہا ہے کہ عدلیہ کو کمزور کرنے کی کوشش کی جاری ہے جو غیرآئینی ہے۔

پارلیمان میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر گوہر نے کہا کہ آج بھی وزیر قانون کے پاس بل نہیں تھا جو ان کے ساتھ شیئر کرتے۔

انہوں نے کہا کہ عدلیہ اور ججز کے اختیارات کم نہیں ہونے چاہیے اور اگر کوئی کوشش کی گئی تو اس کی مذمت کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے یہ نہیں کہا کہ آج ہی ووٹنگ کرانی ہے لیکن اگر ووٹنگ ہوتی ہے تو ہمارے اراکین ہمارے ساتھ ہیں۔

نمبر گیم میں کوئی مسئلہ نہیں ہوگا: عطااللہ تارڑ

 وفاقی وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا ہے کہ آئینی ترامیم کے لیے نمبر گیم میں کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے عوام کو فوری انصاف اور انصاف تک رسائی دینے کے لیے قانونی اصلاحات کی ضرورت تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ جو بھی قانون سازی ہو گی وہ قوم کے اجتماعی مفاد میں ہوگی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’مولانا فضل الرحمان ہمارے پرانے اتحادی اور ساتھی ہیں، تھوڑا انتظار کریں اچھی خبریں ملیں گی۔‘

عدلیہ سے متعلق آئینی ترمیم کیا ہے؟عدلیہ سے متعلق ممکنہ آئینی ترمیم میں سپریم کورٹ کے ججز کی مدت ملازمت 65 سال سے بڑھا کر 68 سال کرنے کی تجویز ہے جبکہ ہائی کورٹس میں ججز کی مدت ملازمت 62 سال سے بڑھا کر 65 سال کی جا سکتی ہے۔

آئینی ترمیم کے لیے حکمران اتحاد کو دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت درکار ہو گی۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس وقت اُنہیں ایوان میں دو تہائی اکثریت حاصل ہے تاہم اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ آئینی ترمیم لانے کے لیے جمعیت علمائے اسلام (ف) کی حمایت کے ساتھ ساتھ حکومت کو آزاد اراکین کا تعاون بھی چاہیے ہو گا۔

قومی اسمبلی میں حکمران اتحاد کی پوزیشنقومی اسمبلی میں آئینی ترمیم منظور کروانے کے لیے حکمران اتحاد کو دو تہائی اکثریت یعنی 224 ارکان کی حمایت حاصل کرنا ہو گی۔ اگر حکومتی اتحادیوں کے کُل نمبروں کا جائزہ لیں تو اس وقت حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کے پاس 213 ووٹ موجود ہیں۔

ان ارکان میں مسلم لیگ ن کے 111، پاکستان پیپلز پارٹی کے 68 اور متحدہ قومی موومنٹ کے 22 ووٹ شامل ہیں۔

حکمران اتحاد میں شامل پاکستان مسلم لیگ ق کے پاس پانچ ووٹ ہیں۔ استحکام پاکستان پارٹی کے ممبران قومی اسمبلی کی تعداد چار ہے جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور ضیا الحق پارٹی کا ایک ایک رکن بھی حکومتی اتحادیوں میں شامل ہے۔

اس وقت قومی اسمبلی میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ارکان کی تعداد آٹھ ہے۔ اگر حکومت کو قومی اسمبلی میں مولانا فضل الرحمان کی جماعت کی حمایت حاصل ہو جاتی ہے تو اُن کے پاس ترامیم کے حق میں یہ نمبرز 221 ہو جائے گے۔

تاہم جے یو آئی کی حمایت کے باوجود حکومت قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل نہیں کر سکتی۔ حکمران اتحاد کو آئینی ترمیم کے لیے قومی اسمبلی میں موجود آزاد ارکان کا تعاون بھی درکار ہو گا۔ حکومتی حلقے دعویٰ کر رہے ہیں کہ چار سے پانچ آزاد اراکین قومی اسمبلی آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دے سکتے ہیں۔

سینیٹ میں حکمران اتحاد کی پوزیشنایوانِ بالا یعنی سینیٹ میں دو تہائی اکثریت کے ساتھ آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے حکومت کو 64 اراکین کی حمایت حاصل ہونا ضروری ہے۔ اگر سینیٹ میں نمبرز گیم کا ذکر کریں تو اس وقت سینیٹ میں حکومتی اتحادی جماعتوں کو 55 سنیٹرز کی حمایت حاصل ہے۔

اِن 55 ووٹوں میں مسلم لیگ ن کے 19 اور پاکستان پیپلز پارٹی کے 24 سینیٹرز شامل ہیں جبکہ اُنہیں بلوچستان عوامی پارٹی کے چار،متحدہ قومی موومنٹ کے تین اور پانچ آزاد اراکین کی بھی حمایت حاصل ہے۔ سینیٹ میں حکمراں اتحاد کو آئینی ترمیم کے لیے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے پانچ ارکان سمیت مزید چار ووٹوں کی بھی ضرورت ہو گی۔


News Source   News Source Text

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.