کشمیر میں پولیس کا ٹریکر پہن کر الیکشن لڑنے والے امیدوار جنھوں نے پاکستان میں تعلیم حاصل کی تھی

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں انتخابات میں حصہ لینے والے کئی قیدیوں اور سابق علیحدگی پسند امیدواروں میں سے ایک اُمیدوار ایسے ہیں جن کے پیر میں پولیس کا جی پی ایس ٹریکر لگا ہے۔

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں جموں کی صوبائی اسمبلی کی 90 نشستوں کے لیے ہونے والے مرحلہ وار انتخابات میں 43 خواتین سمیت 873 اُمیدوار میدان میں ہیں۔

ان سب امیدواروں میں سے 36 سالہ محمد سکندر ملک واحد اُمیدوار ہیں جن کے پیر میں جیل سے حالیہ رہائی کے وقت پولیس نے جی پی ایس ٹریکڑ نصب کر دیا تھا تاکہ ان کی نقل و حرکت کے بارے میں پولیس باخبر رہے۔

وہ سکندر بانڈی پورہ کے حلقے سے الیکشن لڑ رہے ہیں جہاں انتخابات کے تیسرے اور آخری مرحلے میں یکم اکتوبر کو پولنگ ہو رہی ہے۔

سکندر ملک کون ہیں؟

سکندر ملک سرینگر سے شمال مشرق کی جانب 65 کلومیٹر دُور بانڈی پورہ قصبہ میں پیدا ہوئے۔

نوجوانی میں ہی وہ لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پار کر کے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر چلے گئے جہاں انھوں نے ایک مدرسے سے قرآن حفظ کیا اور بعد میں ایک مقامی کالج سے گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔

تاہم انڈین حکومت ان پر ایل او سی پار کر کے انتہاپسند گروپوں کے ساتھ مسلح ٹریننگ حاصل کرنے کا الزام عائد کرتی ہے۔

سنہ 2008 میں اُس وقت کے انڈین وزیر داخلہ پی چدامبرم نے پاکستان یا اس کے زیر انتظام کشمیر میں ایسے کشمیریوں کو واپس لانے کی پالیسی کا اعلان کیا تھا جنھوں نے کسی مسلح تنظیم میں شمولیت اختیار نہیں کی تھی اور جنھوں نے ہتھیار اٹھانے کی بجائے تعلیم یا تجارت کو ترجیح دی تھی۔

ایسے پانچ سو سے زیادہ نوجوانوں کو سنہ 2010 سے 2012 کے درمیان نیپال کے راستے کشمیر واپس لایا گیا۔ ان میں سکندر ملک بھی تھے۔

کشمیر واپسی پر سکندر ملک نے اسلامک یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے عربی ادب میں ماسٹر ڈگری حاصل کرلی، اور اس دوران وہ مقامی جماعت اسلامی کے ساتھ وابستہ ہو گئے۔ سنہ 2015 میں انھیں جماعت اسلامی نے بانڈی پورہ ضلع کا امیر منتخب کیا۔

لیکن 2016 کے جولائی میں مقبول مسلح کمانڈر برہان وانی کی انڈین سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپ میں دو ساتھیوں سمیت ہلاکت سے پورے کشمیر میں پُرتشدد احتجاج کی لہر پھیل گئی تو سکندر بھی احتجاج میں شامل ہو گئے۔ انھیں اگست میں گرفتار کیا گیا اور پھر ایک سال بعد رہا کیا گیا۔

بعد میں وہ کئی سال تک کئی مرتبہ طویل مدتوں تک گرفتار رہے۔ گذشتہ برس دسمبر میں انھیں ضمانت پر رہا کیا گیا لیکن پولیس نے ان کے ٹخنے پر جی پی ایس ٹریکر نصب کر دیا اور اسے دن رات پہنے رہنے کی سخت ہدایات کے بعد ہی انھیں گھر جانے کی اجازت دی گئی۔

’میں خوش ہوں کہ ٹریکر لگایا‘

سکندر ملک کو گذشتہ دس برس کے دوران اکثر اوقات جیل، تھانوں میں طلبی اور گرفتاریوں کا سامنا رہا ہے۔ ان پر لوگوں کو ریاست کے خلاف بھڑکانے، تشدد پر اُکسانے اور امن و امان میں خلل ڈالنے کے الزامات لگتے رہے ہیں۔

پولیس کی جانب سے پیر پر ٹریکر لگانے سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’مجھے کوئی اعتراض نہیں، میں تو خوش ہوں کہ ٹریکر کی وجہ سے مجھے بار بار گرفتار نہیں ہونا پڑ رہا ہے کیونکہ اُن کو دن رات میری سرگرمیوں کے بارے میں معلومات ملتی رہتی ہیں۔‘

جب پولیس کے پاس ٹریکر دستیاب نہیں تھا تب سکندر پر مختلف طرح کی پابندیاں ہوتی تھیں۔

ان کا کہنا ہے کہ چند سال قبل جب وہ رہا ہوئے تو ان پر پابندی تھی کہ وہ اپنے گھر کے اردگرد صرف 20 کلومیٹر کے دائرے تک نقل و حرکت کرسکتے ہیں، اس دائرے سے باہر انھیں کہیں جانے کی اجازت نہیں تھی۔

اسی طرح ایک مرتبہ رہائی کے بعد وہ ایک مقامی سکول میں پڑھانے لگے تو انھیں اس کی اجازت نہیں دی گئی۔ ان کا کہنا ہے کہ پولیس کو خدشہ تھا کہ وہ طالب علموں کو ’بہکا سکتے ہیں۔‘

سکیورٹی گارڈ بھی اور جی پی ایس ٹریکر بھی

دلچسپ بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن آف انڈیا کے ضابطوں کے تحت دیگر الیکشن اُمیدواروں کے ساتھ ساتھ سکندر ملک کی حفاظت پر بھی جموں کشمیر پولیس کے گارڈز تعینات ہیں۔

اس تضاد پر کچھ کہے بغیر انھوں نے بتایا کہ ’میں نے سخت ترین حالات میں بھی اپنی تعلیم اور تربیت پر توجہ دی۔ اب یہ موقع ہے کہ جمہوری طریقے سے میں ایک بااخلاق معاشرے کی تعمیر میں اپنا حصہ ادا کروں۔

’میں تعمیر و ترقی، بہتر طبی اور تعلیمی سہولات اور نوجوانوں کی اخلاقی تربیت کے لیے ووٹ مانگ رہا ہوں۔‘

یہ بات قابل ذکر ہے کہ جماعت اسلامی کئی برس پہلے کالعدم قرار دی گئی لہذا وہ براہ راست الیکشن میں حصہ نہیں لے رہی ہے، تاہم جماعت کے عہدیدار کئی حلقوں سے انتخابات لڑ رہے ہیں اور ان کی پشت پر جماعت اسلامی کی حمایت ہے۔

گذشتہ 30 برسوں میں یہ پہلا موقعہ ہے کہ کشمیر میں انتخابی عمل کو عوامی اعتماد حاصل ہے۔ ماضی میں علیحدگی پسند جماعتیں اور مسلح گروپ بائیکاٹ کی کال دیتے تھے جس کی وجہ سے ووٹنگ شرح بے حد متاثر ہوتی تھی۔

لیکن اس بار الیکشن کے دونوں مرحلوں میں ریکارڈ پولنگ ہوئی، جسے وزیر اعظم نریندر مودی ایک تاریخی بدلاؤ قرار دے رہے ہیں۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.