سکھ قیدیوں کو لنگر پیش کرنے کے لیے دو سکھ رہنماؤں نے ٹرین کے آگے لیٹ کر موت کو گلے لگا لیا کیونکہ برطانوی حکومت نے انھیں اس کی اجازت نہیں دی تھی۔
ساکا پنجہ صاحب پُرامن اور عدم تشدد کی ایک تحریک تھی جو کہ انسانی حقوق کی جدوجہد کی علامت کے طور پر یاد کی جاتی ہے۔
ساکا پنجہ صاحب کی کہانی دراصل امرتسر میں 'گرو کے باغ مورچے' کے لیے لڑی جانے والی جدوجہد کا تسلسل تھی۔
سکھ مذہب کی شرومنی کمیٹی نے مہنتوں سے 'گرو کا باغ' نامی گرودوارہ لے لیا تھا لیکن اس گوردوارے کی زمین سے لنگر کے لیے لکڑیاں کاٹنے کی اجازت نہیں دی جا رہی تھی۔
اس کی مخالفت میں 8 اگست سنہ 1922 کو دوبارہ پُرامن تحریک شروع ہوئی۔
پولیس سکھ جتھے کے ممبران کو اندھا دھند زبردستی حراست میں لے لیتی تھی، انھیں گرفتار کرتی اور ان پر قانون کی خلاف ورزی کے الزام میں مقدمہ چلاتی تھی۔ یہ سب کچھ 13 ستمبر تک جاری رہا۔
اس وقت کے صوبہ پنجاب کے گورنر کی مداخلت سے پولیس کی جانب سے ہونے والی زور زبردستی بند ہوئی لیکن کچھ دنوں بعد گرفتاریاں پھر شروع ہو گئیں۔
امرتسر میں گرفتار کیے جانے والے سکھ کارکنوں کے خلاف باقاعدہ عدالتی کارروائی کے بعد انھیں ٹرینوں میں لاد کر دور دراز کی جیلوں میں بھیجا جانے لگا۔
29 اکتوبر سنہ 1922 کو سکھ قیدیوں کو لے کر ایک ٹرین حسن ابدال کے راستے اٹک کے لیے روانہ کی گئی۔
پتا چلا کہ دوران سفر گرفتار ہونے والے اکالی سکھوں کو انگریز افسر بھوکوں مار رہے ہیں اور ٹرینوں کے ذریعے انھیں اٹک جیل لے جایا جا رہا ہے۔
لنگر دینے کا وقت
جب اس واقعے کا علم لوگوں کو 30 اکتوبر سنہ 1922 کو ہوا تو سکھ سنگت نے حسن ابدال ریلوے سٹیشن پر ٹرین روک دی اور بھوکے قیدیوں کو لنگر (کھانا) دینے کا انتظام کیا۔
لیکن یہ سب یونہی نہیں ہو گيا۔ پنجہ صاحب گوردوارہ کے سنگت اور خزانچی بھائی پرتاپ سنگھ نے حسن ابدال ریلوے سٹیشن کے ماسٹر سے گزارش کی کہ وہ بھوکے سکھ قیدیوں کو لنگر فراہم کرنے کے لیے ٹرین رکوا دیں۔
ان کا ارادہ بھوکے سکھ قیدیوں کو کھانا پانی دینا تھا لیکن سٹیشن ماسٹر نے ٹرین رکوانے سے انکار کر دیا۔
چلتی ٹرین کو زبردستی روکنے کے لیے بھائی پرتاپ سنگھ خزانچی اور آنند پور صاحب کے ایک عقیدت مند کرم سنگھ اپنے سر پٹریوں پر رکھ کر لیٹ گئے۔
ان کے ایسا کرنے کے باوجود گاڑی نہیں رُکی اور انھیں کچلتی نکل گئی۔ دونوں اسی جگہ دم توڑ گئے۔ ان کے ساتھ چھ دیگر ساتھی بھی زخمی ہوئے۔
اس کے بعد گاڑی تھوڑی دور جا کر رُکی اور ڈیڑھ گھنٹے تک اسی جگہ پر رُکی رہی۔ اس دوران خواتین سمیت سکھ قیدیوں کو لنگر پیش کیا گیا اور دیگر ضروری اشیا تقسیم کی گئیں۔
سکھ مت کے انسائیکلو پیڈیا کے مطابق پنجہ صاحب میں 14 اکتوبر سنہ 1932 کو پٹیالہ کی شاہی ریاست کے ٹِکا یادوندر کی صدارت میں ساکے کی یاد میں نئے ٹینک کی تعمیر شروع کی۔
اس کا کام پنج پیارے یعنی پانچ بھائیوں بھائی رندھیر سنگھ، بابا وشاکھا سنگھ، بابا ندھان سنگھ، بھائی جودھ سنگھ اور سنت بدھ سنگھ نے پرارتھنا (دعا) کر کے شروع کیا تھا۔
ہندوستان کی آزادی اور تقسیم کے بعد یہ گوردوارہ بہت سے دوسرے سکھ گوردواروں اور سکھ زیارت گاہوں کی طرح پاکستان کی طرف رہا۔
سکھ قیدیوں کو لنگر پیش کرنے کے لیے دو سکھ رہنماؤں نے ٹرین کے آگے لیٹ کر موت کو گلے لگا لیا کیونکہ برطانوی حکومت نے انھیں اس کی اجازت نہیں دی تھی۔
جن سکھوں نے ٹرین روکنے کی کوشش کی ان کا مقصد بھوکے سکھ قیدیوں کو کھانا کھلانے کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا۔
اسی تقریب کو ساکا پنجہ صاحب کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
پنجہ صاحب گوردوارہ حسن ابدال ریلوے سٹیشن سے تقریباً ایک کلومیٹر اوپر واقع ہے۔ کہا جاتا ہے کہ گرو نانک دیو نے مغرب کے دورے سے واپس آتے ہوئے اس جگہ کچھ دیر قیام کیا تھا۔
حسن ابدال کا پس منظر
پنجہ صاحب گوردوارہ حسن ابدال ریلوے سٹیشن سے تقریباً ایک کلومیٹر اوپر واقع ہے۔
کہا جاتا ہے کہ حسن ابدال میں سکھ مذہب کے بانی اور پہلے گرو گرو نانک دیو کے قدم پڑے تھے۔ یہ جگہ راولپنڈی سے تقریباً 35 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
تاریخی تفصیلات کے مطابق گرو نانک دیو مغرب کے دورے یعنی مکہ اور بغداد جو کہ اسلام کے بڑے مراکز ہیں سے واپس آ رہے تھے اور اس جگہ کچھ دیر قیام کیا تھا۔
اس وقت گرو نانک دیو کے ساتھ ان کے مسلمان عقیدت مند بھائی مردانا بھی تھے۔
ولی قندھاری کا واقعہ
بھائی سنتوکھ سنگھ کی لکھی ہوئی سری گرو نانک پرکاش اور مشہور سکھ روایات کے مطابق بھائی مردانا اس جگہ پر بھوکے پیاسے پہنچے تھے۔
پانی کے لیے وہ ولی قندھاری نامی صوفی کے پاس گئے جو پہاڑ پر تنہائی میں رہتے تھے لیکن ولی قندھاری سے تین بار پانی مانگنے پر بھی بھائی مردانا کو پانی نہیں دیا گیا۔
بھائی مردانا نے گرو نانک دیو سے شکایت کی کہ وہ پانی کے بغیر مر رہے ہیں اور ولی قندھاری نے انھیں پینے کو پانی نہیں دیا۔
پنجابی پیڈیا کے مطابق گرو نانک دیو نے بھائی مردانا سے کہا کہ وہ اپنے پاس پڑے پتھر کو 'ستی کرتار' اور 'پربھو داس کا دکھ کھاوی ساکیے' کہتے ہوئے اٹھا لیں۔
مردانا نے پتھر اٹھایا تو اس کے نیچے سے پانی کا ایک چشمہ پھوٹ پڑا۔
قندھاری کے چشمے کا پانی ختم ہونے لگا اور قندھاری کو غصہ آیا اس نے اپنی پوری طاقت سے ایک پتھر گرو جی کی طرف لڑھکا دیا۔
کچھ روایات کے مطابق گرو نانک نے اپنے پنجے سے اسے روک دیا۔ جس کی وجہ سے بعد میں اس تاریخی مقام کا نام پنجہ صاحب رکھا گیا۔
نام اور تنصیب
پنجہ صاحب میں گردوارہ کی خدمت سب سے پہلے ہری سنگھ نلوا نے کی تھی۔
بھائی ہربنس سنگھ کے سکھ ازم کے انسائیکلوپیڈیا کے مطابق گرودوارہ پنجہ صاحب کو مہاراجہ رنجیت سنگھ نے کچھ زمین دی تھی اور وہ اپنی زندگی میں ایک بار وہاں گئے تھے۔
بعض دیگر ذرائع کے مطابق پانچ سو روپے سالانہ جاگیر اور کچھ مقامی پنچکیوں کی آمدنی بھی پنجہ صاحب گرودوارہ کے نام پر مختص کی گئی تھی۔
دیگر گوردواروں کی طرح پنجہ صاحب پر بھی 1920 عیسوی تک برطانوی دور حکومت میں مہنتوں کا قبضہ رہا۔
17-18 نومبر سنہ 1920 عیسوی کو گرودوارہ پنجہ صاحب کو مہنتوں کے قبضے سے 25 سنگھوں کے ایک گروپ نے جٹھیدار کرتار سنگھ جھبار کی قیادت میں آزاد کرایا اور اسے شرومنی کمیٹی کے تحت لایا گیا۔
مذہبی اہمیت
1947 کے بعد شرومنی گوردوارہ پربندھک کمیٹی ہر سال اپریل میں خالصہ سجنا اور دیگر اہم دنوں پر جتھوں کو پاکستان بھیجتی ہے۔
پنجہ صاحب کی صد سالہ تقریبات میں شرومنی گوردوارہ پربندھک کمیٹی، پنجاب حکومت، انڈیا اور پاکستان کی حکومتوں نے بین الاقوامی سطح پر شہداء کی یاد میں تقریبات کا اہتمام کیا۔
حسن ابدال ریلوے سٹیشن پر جہاں ٹرین والا واقعہ پیش آيا تھا وہاں ایک بار پھر بڑا کیرتن دربار منعقد ہوا۔
یہ سانحہ گوردواروں کی اصلاحات کی تحریک اور ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد میں بہت اہمیت کا حامل رہا ہے۔
1920-25 کی گرودوارہ اصلاحی تحریک کے تحت، اکالیوں، سکھوں، دیگر پنجابیوں اور عورتوں نے مہنتوں اور انگریزوں سے بہت سے گوردواروں کو آزاد کرانے کے لیے تشدد، قید و بند سامنا کیا اور کئیوں نے موت کو بھی گلے لگایا۔
کچھ دیگر اہم مورچوں میں گوردوارہ رکاب گنج، بابا دی بیر، سیالکوٹ، ننکانہ صاحب، کجیان دا مورچہ، گرو کا باغ اور جیتون وغیرہ شامل ہیں۔