’تین دن پہلے یہاں پہنچے، پتا نہیں کب واپسی ہو گی‘: بی بی سی کی ٹیم نے پی ٹی آئی احتجاج کے دوران اسلام آباد میں کیا دیکھا؟

جب بی بی سی کی ٹیم اسلام آباد کی ناظم الدین روڈ جو جناح ایونیو اور ریڈ زون کی طرف جاتی ہے، تک پہنچی تو وہاں پی ٹی آئی کے سینکڑوں کارکنان نظر آئے اور ساتھ ہی فائرنگ کی آوازیں بھی۔ یہ پولیس کی جانب سے آنسو گیس کی شیلنگ کی آوازیں تھیں جو کنٹینرز کی دوسری جانب سے فائر کیے جا رہے تھے۔
پی ٹی آئی
BBC

’پریشان نہ ہوں، انھیں محاصرہ نہیں توڑنے دیں گے۔‘ پاکستانی فوج کے ایک افسر ریڈ زون میں سنیچر کی دوپہر اس وقت اپنے ہی ایک سینیئر افسر کو یہ بتا رہے تھے جب یہاں داخل ہونے کا واحد کھلا راستہ بھی بند کر دیا گیا۔

ہم اپنی ٹیم کے ہمراہ اس وقت ریڈ زون میں موجود تھے اور پاکستانی فوج کے دستے اب منسٹر اور ججز کالونی سے باہر نکل کر کنٹرول سنبھال رہے تھے۔ اس سے تقریباً دس منٹ پہلے ہم پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے ایک پولیس اہلکارکے پاس موجود تھے جب انھیں وائرلیس پر اطلاع دی گئی کہ ’پاکستان تحریک انصاف کا چالیس سے پچاس گاڑیوں پر مشتمل ایک قافلہ مارگلہ روڈ پہنچ رہا ہے۔ ‘

یہ سنتے ہی پولیس اہلکار نے ہمیں کہا کہ ’آپ لوگ جلدی سے مارگلہ روڈ کی طرف جائیں، وہیں مظاہرین آ رہے ہیں اور وہ راستہ بند کر دیا جائے گا‘۔

اور اس سے پہلے کہ ہم وہاں پہنچتے، ریڈ زون کا یہ گیٹ بند کر دیا گیا۔

آدھا گھنٹہ قبل جب ہم ریڈ زون میں داخل ہوئے تھے تو صرف مارگلہ روڈ کی جانب سے سڑک کھلی تھی تاہم یہاں بھی صرف چیکنگ کے بعد سکیورٹی فورسز اور سرکاری ملازمین اور میڈیا کو داخلہ دیا جا رہا تھا۔ پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری تعینات تھی لیکن فوج ابھی ریڈ زون کی سڑکوں پر موجود نہیں تھی۔

یہ اطلاعات آتے ہی کہ پاکستان تحریک انصاف کا ایک قافلہ مارگلہ روڈ کی جانب بڑھ رہا ہے، فوجی دستوں کی تعیناتی شروع ہو گئی۔

تقریباً ایک گھنٹہ ریڈ زون میں گزارنےکے بعد بالآخر ہم اس وقت باہر نکلنے میں کامیاب ہوئے جب پولیس کے دستوں سے بھری متعدد بسیں ریڈ زون میں داخل ہوئیں اورسکیورٹی فورسزکو ان کے لیے گیٹ کھولنا پڑا۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستان تحریک انصاف، احتجاج
BBC

یہاں سے نکلتے ہی ہم نے مارگلہ روڈ کی جانب سفر شروع کیا تاکہ دیکھ سکیں کہ پی ٹی آئی کے کون سے قافلے تمام رکاوٹیں توڑ کر شہر میں داخل ہونے میں کامیاب ہوئے ہیں لیکن حیرت انگیز طور پر مارگلہ روڈ سمیت شہر کی بیشتر سڑکیں خالی تھیں اور مارگلہ روڈ پر ریڈ زون میں داخلے کے علاوہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار بھی موجود نہیں تھے۔

جب بی بی سی کی ٹیم جناح ایونیو اور ریڈ زون کی طرف جانے والی ناظم الدین روڈ تک پہنچی تو وہاں پی ٹی آئی کے سینکڑوں کارکنان نظر آئے اور ساتھ ہی شیلنگ کی آوازیں بھی۔ یہ پولیس کی جانب سے آنسو گیس کے گولے پھینکنے کی آوازیں تھیں جو کنٹینرز کی دوسری جانب سے جناح ایونیو پر موجود مظاہرین پر فائر کیے جا رہے تھے۔

یہاں ہمیں پی ٹی آئی کے کارکن ملے جن میں سے کچھ نے ہمیں بتایا کہ ان کا تعلق صوابی اور بونیر سے ہے۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ وہ سنگجانی انٹرچینج کے راستے اسلام آباد میں داخل ہوئے اور یہ کہ وزیراعلی خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور بھی انھی کے قافلے میں موجود ہیں۔

اسی دوران پولیس کی جانب سے شدید شیلنگ شروع ہوئی اور ہمیں ہجوم سے باہر نکلنا پڑا۔ پی ٹی آئی کے کارکنان ماسک پہنے، ہاتھوں میں پانی اور عرق گلاب کی بوتلیں پکڑے وہاں موجود تھے۔ چاروں طرف دھوئیں کے بادل تھے اور لوگوں کا ہجوم ان شیلز سے بچنے کے لیے بھاگ رہا تھا۔ ایسے میں کئی ایسے نوجوان بھی تھے جو یہ شیلز اٹھا کر واپس پولیس کی جانب پھینک رہے تھے۔

اس دوران جناح ایونیو کے اس مقام پر جہاں مظاہرین موجود تھے، فوج موجود نہیں تھی۔ تاہم اس مجمعے سے دور، جناح ایونیو کے فلائی اوور پر فوجی دستے تعینات تھے۔

سنیچر کی صبح جب ہم جناح ایونیو پر پہنچے تھے تو اسلام آباد کی اس مصروف شاہراہ پر جگہ جگہ آنسو گیس کے شیلز کے خول اور پتھر بکھرے تھے۔

یہ شیل اس وقت اسلام آباد پولیس نے فائر کیے جب گذشتہ شب پاکستان تحریک انصاف کے حمایتی جناح ایوینیو کے اردگرد کے علاقوں سے ڈی چوک پہنچنے کی کوشش کر رہے تھے۔

پی ٹی آئی، اسلام آباد
BBC

خیال رہے کہ جناح ایوینو اسلام آباد کی وہ بڑی شاہراہ ہے جس پر ڈی چوک واقع ہے۔ یہ چوک دارالحکومت کے کانسٹیٹیوشن ایوینیو اور جناح ایونیو کے ملاپ پر وہ مقام ہے جہاں پارلیمان، سپریم کورٹ سمیت دیگر سرکاری عمارتیں موجود ہیں اور یہی وہ مقام ہے جہاں تحریک انصاف کے بانی عمران خان نے اپنے کارکنان کو جمع ہونے کی ہدایت کی تھی۔

تین اکتوبر کی شام سے ہی یہاں پہنچنا تقریباً ناممکن بنا دیا گیا تھا اور بظاہر اس کی وجہ شہر میں مختلف مقامات پر رکھے کنٹینرز اور خاردار تاریں تھیں۔

ہم نے بھی سنیچر کی صبح شہر کی مختلف سڑکوں اور گلیوں سے ڈی چوک پہنچنے کی کوشش کی لیکن ہر سڑک کے اختتام پر ایک عدد کنٹینر اور پولیس اہلکار جبکہ ہر گلی کے نکڑ پر خاردار تاریں موجود تھیں۔

ایسی ہی ایک سڑک پر تین اہلکار درختوں کے سائے میں بیٹھے ملے جو خیبر پختونخوا سے آنے والی ایف سی فورس کا حصہ تھے۔ ان میں سے ایک نے بتایا کہ ’ہم تین دن پہلے یہاں پہنچے اور پتا نہیں کہ واپسی کب ہو گی‘۔

وہیں موجود ایک اور اہلکار جن کا تعلق وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کے آبائی علاقے سے ہے، یہ شکوہ کر رہے تھے کہ انھیں وزیراعلیٰ کے قافلے میں کیوں نہیں رکھا گیا۔

’ہم ان کے گھر سے پندرہ منٹ کے فاصلے پر رہتے ہیں۔ ان کے الیکشن میں دن رات کام بھی کیا۔ اس وقت تو وہ ہمارے ساتھ ہوتے تھے، اب وزیراعلیٰ بن کر بڑے آدمی بن گئے ہیں۔ وہ میری ڈیوٹی اپنے قافلے میں لگاتے تو ان کی حفاظت کرتے، اب یہاں آ گئے تو ہم حفاظت تو نہیں کریں گے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.