انڈیا نے ٹیسٹ کرکٹ میں تاریخی زوال کو عروج میں کیسے بدلا؟

گذشتہ مہینے چنائی میں بنگلہ دیش کو شکست دینے کے بعد ٹیسٹ کرکٹ میں انڈیا کی مجموعی فتوحات کا نمبر شکستوں سے آگے بڑھ گیا ہے۔ انڈیا اب تک 580 ٹیسٹ میچ کھیل چکا ہے، جس میں سے اس نے 179 میچ جیتے ہیں جبکہ 178 ہارے ہیں۔
انڈیا، ٹیسٹ میچ
Getty Images
2001 میں آسٹریلیا کے خلاف ایڈن گارڈنز میں وی وی ایس لکشمن اور ڈراوڈ کے 376 رنز کے شاندار سٹینڈ نے ایک افسانوی جیت پر مہر ثبت کی

تقسیم برصغیر سے قبل انڈین ٹیم نے اپنا پہلا میچ 1932 میں لندن میں لارڈز کے تاریخی میدان میں کھیلا تھا۔

اس وقت انڈیا کی ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے کی کچھ اور ہی اہمیت تھی تاہم حال ہی میں بنگلہ دیش کے خلاف ٹیسٹ میچ جیت کر انڈین کرکٹ ٹیم نے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔

گذشتہ مہینے چنئی میں بنگلہ دیش کو شکست دینے کے بعد ٹیسٹ کرکٹ میں انڈیا کی مجموعی فتوحات کا نمبر شکستوں سے زیادہ ہو گیا ہے۔ انڈیا اب تک 580 ٹیسٹ میچ کھیل چکا ہے، جس میں سے اس نے 179 میچ جیتے ہیں جبکہ 178 ہارے ہیں۔

کھیلوں کے نامہ نگار سوریش مینن نے انڈیا کے ٹیسٹ کرکٹ کے قابلِ ذکر سفر کو قلم بند کیا ہے۔

سوریش مینن لکھتے ہیں کہ کھیل کی دنیا میں جب بھی کوئی اہم تبدیلی آتی ہے تو اس کے پیچھے عام طور پر ٹیم کا سب سے بہترین کھلاڑی ہوتا ہے۔ اس تبدیلی کو کامیاب بنانے میں ٹیم کے باقی کھلاڑی اس کا ساتھ دیتے ہیں تاہم ان کی کارکردگی ان کے جتنی اچھی نہیں ہوتی۔

سنہ 1958 اور 1970 کے درمیان برازیل نے چار فٹبال ورلڈ کپوں میں سے تین جیتے۔ ان فتوحات کے پپیچھے ایسے ہی ایک کھلاڑی پیلے کا ہاتھ تھا۔

اسی طرح جب سچن تندولکر انڈین ٹیم میں شامل ہوئے تو انڈیا کی کرکٹ ٹیم کی قسمت ہی بدل گئی۔ تاہم ان کا ساتھ دینے والے سپورٹنگ ایکٹرز نے بھی ٹیم کی قسمت چمکانے میں ان کا ساتھ دیا تھا۔

ان کھلاڑیوں میں انیل کمبلے، وی وی ایس لکشمن، ظہیر خان، راہل ڈراوڈ، ویریندر سہواگ، جواگل سری ناتھ، ہربھجن سنگھ اور ایم ایس دھونی شامل ہیں۔

جب نومبر 1989 میں سچن تندولکر نے انڈیا کی قومی ٹیم کے لیے ڈیبیو کیا تب تک انڈیا نے کل 257 ٹیسٹ میچچز میں سے صرف 43 ٹیچ میچز جیتے تھے جبکہ دگنے ہارے تھے۔ اس کے علاوہ میچز بے نتیجہ رہے تھے۔

انڈیا ٹیسٹ کرکٹ
Getty Images
ویراٹ کوہلی کے ٹیسٹ کرکٹ کے لیے شدید جنون اور جیت نے ان کی ٹیم کو متاثر کیا

تاہم تندولکر کے دور میں انڈیا نے کل ملا کے 217 ٹیسٹ میچز کھیلے جن میں سے 78 میچز جیتے جبکہ 60 ہار گئے اورڈرا ہونے والے میچز کی تعداد 79 تھی جو کہ ایک معنی خيز تعداد تصور کی جاتی تھی۔

ان میں سے صرف سات فتوحات جنوبی افریقہ، آسٹریلیا، نیوزی اور انگلینڈ کے خلاف تھیں۔ ان ممالک کی ٹیموں کے خلاف میچز ڈرا ہونا بھی اپنے آپ میں ایک کامیابی سمجھی جاتی تھی۔

یہی نقطہ نظر اپنا کر انڈیا نے بین الاقوامی سطح پر کرکٹ کھیلنی شروع کی۔ اس دوران قومی سطح پر بھی کرکٹ میں تبدیلیاں آ رہی تھیں۔

سورو گانگولی اور ایم ایس دھونی کی قیادت میں ٹیم کے لیے نئے کھلاڑی ڈھونڈنے کا طریقہ کار بھی بدل رہا تھا۔ روایتی سینٹروںسے باہر ہنر مند کھلاڑیوں کی تلاش کی جا رہی تھی۔

اگر آپ اچھی کرکٹ کھیلتے تھے تو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ آپ کا تعلق کہاں سے ہے۔ آپ کو موقع دیا جاتا تھا۔

بڑی بات یہ تھی کہ یہ سب کچھ اس پس منظر میں ہو رہا تھا جب کرکٹ بورڈ اور دیگر مقامی انتظامیہ اپنے سیاسی مفاد کو فوقیت دے رہی تھیں۔

سنہ 2013 میں تندولکر نے ریٹائرمنٹ لے لی۔ اس کے بعد سے انڈیا نے کل 106 ٹیسٹ میچز کھیلے اور 58 ٹیسٹ میچز جیتے جبکہ 29 ٹیسٹ میچز میں شکست کا سامنا کیا۔ تاہم صرف 19 میچز بے تنیجہ رہے جو کہ حیرت انگیز تعداد ہے۔

یکے بعد دیگرے انڈیا نے آسٹریلیا کے خلاف ٹیسٹ میچ سیریز جیتیں۔ کرکٹ کے میدان میں اںڈیا نے آسٹریلیا کے جارحانہ اور پر اعتماد کھیل کے انداز کا بھرپور مقابلہ کیا۔ اب کرکٹ محض ایک کھیل نہیں بلکہ ایک اعصابی جنگ بن چکی تھی۔

وراٹ کوہلی میں ٹیسٹ کرکٹ جیتنے کا جنون تھا اور یہی جنون ٹیم کے باقی کھلاڑیوں میں پیدا ہونا شروع ہو گیا۔

2014 میں آسٹریلیا کے شہر ایڈیلیڈ میں انھوں نے بطور کپتان اپنے کیریئر کا پہلا میچ کھیلا۔ انڈیا کو 364 رنز بنانے کے ہدف ملا تھا۔ میچ اس طرح بھی کھیلا جا سکتا تھا کہ ڈرا ہو جائے لیکن انڈین ٹیم نے اسے جیتنے کی سرتوڑ کوشش کی۔

تاہم انڈیا 48 رنز سے یہ میچ ہار گیا اور یہ سیریز بھی۔

جس انداز سے کوہلی نے ٹیم کی قیادت کی اس نے ٹیسٹ کرکٹ کی جانب ایک نئے طرز عمل کو جنم دیا۔

کوہلی نے انڈیا کے زیادہ تر ٹیسٹ میچز کی کپتانی کی۔ انھوں نے بطور کپتان 68 میچز کھیلے۔ ٹیم کی کارکردگی دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا تھا کہ کوہلی کو ٹیسٹ میچ ڈرا ہونے سے الرجی ہے۔

ٹیسٹ کرکٹ کو لے کر ان کی اس سوچ کا مطلب تھا کہ انڈیا ٹیسٹ میچ صرف جیتنے کے لیے کھیلتی تھی۔ اس میں شکست کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔

کوہلی کی قیادت میں صرف 16 فیصد ٹیسٹ سیریز بے نتیجہ رہے جو کہ تاریخ کے ٹاپ چھ کپتانوں میں سب سے کم شرح ہے۔ یہاں تک کہ ویسٹ انڈیز کے کپتان کلائیو لائیڈ کے بھی 35 فیصد ٹیسٹ میچز ڈرا ہوئے تھے۔

کوہلی کے ارد گرد ایک باصلاحیت گروپ تھا – چیتیشور پجارا، اجنکیا رہانے، روی چندرن اشون، ایشانت شرما، رویندر جڈیجہ، کے ایل راہول۔ ایک بار پھر، کھلاڑیوں کو روایتی مراکز سے باہر دریافت کیا گیا۔

کوہلی کے ارد گرد با صلاحیت کھلاڑی موجود تھے۔ ان میں چیتیشور پجارا، اجنکیا رہانے، رویچندرن ایشون، ایشانت شرما، رویندر جڈیجا، کے ایل راہل شامل تھے۔ کھلاڑیوں کو روایتی کرکٹ اکیڈمیز اور لیگز کی بجائے دیگر ذرائع سے ڈھونڈا گیا تھا۔

سوچ میں مزید بدلاؤ یہ آیا کہ انڈیا نے ٹیسٹ کرکٹ کو لے کر پرانے طریقہ کار اور نظریات کی سختی سے پیروی کرنا چھوڑ دی۔ کرکٹ کھیلنے کے سٹائل سے زیادہ کرکٹ کتنے موثر انداز سے کھیلی جا رہی ہے اسے زیادہ اہمیت ملنا شروع ہو گئی۔

جسپریت بمرا جنھوں نے قومی سطح سے بین الاقوامی کرکٹ کھیلنے کا سفر بہت تیزی سے طے کیا اور آج جنھیں انڈیا کے فاسٹ بولرز میں شمار کیا جاتا ہے، ماضی کی نسل میں شاید انھیں کھیلنے کا موقع نہ دیا جاتا۔ وہ غیر روایتی طریقے سے کرکٹ کھیلتے ہیں۔ شاید ماضی کے کوچز انھیں کسی اور شعبے میں جانے کی تجویز دیتے۔

تاہم بیرون ممالک میں انڈیا کی ٹیسٹ میچز میں شکست کرکٹ بورڈ کی نظر میں آنے لگی۔ 2011 اور 2012 کے درمیان چھ ماہ کی مدت میں انڈین ٹیم آسٹریلیا اور برطانیہ کے خلاف تمام میچز ہار گئی۔

تاہم انڈین کرکٹ ٹیم کی وہ ’سنہری نسل‘ اب ریٹائر ہونا شروع ہو گئی تھی۔ قومی سطح پر جو کرکٹ کھیلی جا رہی تھی اس پر کافی تنقید ہوئی۔ پھر کرکٹ بورڈ نے فیصلہ کیا کہ بولرز کے لیے مناسب پچ تیار کی جائے اور ہدایت جاری کی کہ پچز تیار کرتے وقت تین سے آٹھ ملی میٹر تک گھاس چھوڑ دی جائے۔

afp
AFP
ایڈیلیڈ 2020 میں انڈیا کے 36 رنز پر آل آؤٹ کو ایک عجیب و غریب اننگز کے طور پر دیکھا گیا

اس دوران انڈیا کے سامنے دو نتیجے آئے۔ انڈیا نے نا صرف فاسٹ بولرز دریافت کیے بلکہ ایسی پچ بنائی جسے انڈین بلے بازوں کو بھی فاسٹ بولر کا ڈٹ کر سامنا کرنا آ گیا۔

بیرون ممالک میں تسلسل سے میچز میں فتح حاصل کرنے کے لیے فاسٹ بولرز کی ضرورت تھی۔ عام طور پر یہی دیکھا گیا کہ انڈیا کے بیٹسمن فاسٹ بولرز کے آگے کمزور تھے۔

1952 میں مانچسٹر میں ایک ٹیسٹ میچ میں انڈین ٹیم دونوں اننگز میں آل آؤٹ ہو گئی تھی، ایک مرتبہ 58 رنز پر اور دوسری مرتبہ 82 رنز پر کیوںکہ فاسٹ بولرز فریڈ ٹرومین اور الیک بیڈسر نے اپنی گیند بازی سے پوری بیٹنگ لائن کو تباہ کر دیا تھا۔

1974 میں لارڈز میں ٹیسٹ میچ کھیلتے وقت انڈین ٹیم نے محض 42 رنز بنائے۔ اننگ اتنی تیزی سے ختم ہوئی کہ انتہائی مضحکہ خیز کارٹون سپورٹس حلقوں میں گردش کرنے لگا۔ کارٹون میں ایک عورت اپنے شوہر سے کہہ رہی ہوتی ہے کہ وہ ٹوائلٹ گئے تھے تو اںڈین اننگز شروع ہوئی تھی۔ جب وہ باہر نکلے تو اننگز ختم ہو چکی تھی۔

تاہم 2020 میں جب انڈیا 36 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئی تب ایسا کوئی کارٹون نہیں بنا۔ اسے نہایت ہی عجیب و غریب اننگز کے طور پر دیکھا گیا جس میں ہر اچھی گیند پر ایک وکٹ گری تھی اور مشکل سے ہی ایسی کوئی گیند تھی جس پر شاٹ کھیلا جا سکے۔

اتنی خراب کارکردگی کا سامنا کرنے اور شکست کو برداشت کرنے کے لیے ایک الگ ہی قسم کی خود اعتمادی درکار تھی۔ تاہم اسی خود اعتمادی کی وجہ سے انڈیا نے اگلے دونوں ٹیسٹ میچز جیتے اور اسی کے ساتھ پوری سیریز پر بھی فاتح ثابت ہوئے۔

2002 اور 2004 میں ایک وقت تھا جب انڈیا نے پورٹ آف سپین، لیڈز، ایڈیلیڈ، ملتان اور راول پنڈی میں منعقد ٹیسٹ میچز جیتے تاہم سیریز انھوں نے صرف پاکستان میں جیتی تھی۔

مشہور زمانہ مصنف ڈیوڈ فریتھ کا خیال تھا کہ اس وقت انڈیا کے پاس کھیل کی تاریخ کی بہترین ٹاپ چھ بیٹنگ لائن اپ تھیں۔ ان میں ادا بھی تھی اور طاقت بھی۔

تاہم اس ٹیم کی ایسی کارکردگی نہ تھی جس کی ان سے امید تھی۔ یہ بھی انڈین کرکٹ کی ایک ستم ظریفی تھی کہ ان کے سب سے مشہور کھلاڑی اس طرح حاوی نہیں ہو پائے جس طرح انھیں ہونا چاہیے تھا۔

لیکن حالیہ انڈین ٹیم میں بہت دم ہے۔

انڈیا ٹیسٹ کرکٹ
Getty Images
جسپریت بمراہ انڈیا کے فاسٹ بولرز میں سے ایک ہیں جنھیں ماضی کے کوچز پسند نہ کرتے

ایڈیلیڈ میں 36 اور لیڈز میں 78 رنز بنا کر کھلاڑیوں کا کرکٹ کی جانب رویہ سامنے آ گیا کہ وہ شکست کو دل پر نہیں لیتے اور صرف جیت کو یاد رکھتے ہیں۔

انفرادی طور پر بھی یہ ایک غیر معمولی خصوصیت ہے اور ٹیم میں اس خصوصیت ک ہونا اور بھی نایاب ہے۔

ماضی میں انڈیا کی ٹیم میں ایسے غیر معمولی صلاحیت والے کھلاڑی ہوتے تھے جن کے کندھوں پر بھاری ذمہ داری ہوتی تھی۔ اگر سنیل گواسکر آؤٹ ہو جاتے تو ایسا لگتا کہ آدھی ٹیم آؤٹ ہو گئی۔ اگر مخالف ٹیم انڈین سپنرز کو کھیلنے میں کامیاب ہو جاتی تو اس وقت تک کوئی امید نہ رہتی جب تک کپل دیو کی واپسی نہ ہو جاتی اور اگر کسی روز ان کا برا دن ہوتا، تو صورتحال مزید خراب ہو جاتی۔

سنہ 1960 کی دہائی میں انڈیا نے غیر ملکی دوروں پر صرف ایک سیریز جیتی اور وہ بھی نیوزی لینڈ میں۔ اس سے انڈیا کو اپنی کرکٹ ٹیم کو یہ معلوم ہوا کہ سپن بولنگ ہی ان کی طاقت ہے۔ انڈیا کی کرکٹ ٹیموں کی اس جنریشن کی کپتانی نواب منصور علی خان پٹودی کر رہے تھے اور جس جذبے کے ساتھ وہ کھیلا کرتے تھے، وہ اپنے آپ میں ایک انتہائی اہم امر تھا۔ یہ اتنا ہی ضروری تھا جتنی انڈیا کی تسلسل کے ساتھ اچھی کارکردگی دکھانے میں سچن تندولکر کی بیٹنگ اہم تھی۔

یہ سب کوہلی کی سربراہی میں سامنے آنے والے پیشہ وارانہ کرکٹرز کے سامنے آنے سے پہلے کی بات ہے۔ جب انڈیا پہلی بار نمبر ون ٹیسٹ ٹیم بنی تو انھوں نے آسٹریلیا، جنوبی افریقہ، یا سری لنکا میں کوئی سیریز نہیں جیتی تھی۔ اب صرف جنوبی افریقہ ہی وہ ملک ہے جہاں انڈیا تاحال ٹیسٹ سیریز نہیں جیت پایا۔

انڈین کرکٹ تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے اور اب ہم حالیہ ستاروں کی ریٹائرمنٹ قریب آتی دیکھ رہے ہیں جیسے وراٹ کوہلی، روہت شرما، رویچندرن اشون اور روندرا جڈیجا۔ رشبھ پنت، بمرا، شبمن گل، یشوی جیسوال، سمیت متعدد ابھرتے ہوئے کھلاڑیوں نے اپنا لوہا منوا لیا ہے۔

اب انڈیا کی اگلی سیریز نومبر میں آسٹریلیا کے خلاف ہے اور اچانک تمام دباؤ آسٹریلیا پر ہے۔ تندولکر جنریشن نے ایک مضبوط بنیاد رکھ دی تھی اور اب کوہلی اور شرما کی جنریشن اسے مزید مضبوط بنانے میں کامیاب ہوئی ہے۔ چنئی ٹیسٹ کے بعد انڈیا کی فتوحات اس کی شکستوں سے زیادہ ہو گئی ہیں، 580 ٹسیٹ میچوں میں 179 فتوحات اور 178 شکستیں۔ یہ اس بات کا عددی ثبوت ہے کہ ہم کرکٹ کے نئے انڈین دور میں جی رہے ہیں۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.