فروری کی سرد رات کے آخری پہر پشاور شہر کے کرکٹ سٹیڈیم سے متصل ہوٹل کے ایک عقبی حصے کی سیڑھیوں سے سات اجنبی پراسرار اور محتاط انداز میں اندر داخل ہوتے ہیں۔جاسوسوں کے انداز میں اپنی شناخت چھپانے کے لیے چہرہ ڈھانپے یہ لوگ تھوڑی دیر بعد واپس پلٹے تو ان کی تعداد آٹھ ہو چکی تھی۔مگر آٹھواں شخص اپنے قدموں کے بل نہیں چل رہا تھا۔ دو لوگوں نے اسے بازوؤں اور ٹانگوں سے اٹھا رکھا تھا۔ہوٹل کی عقبی سڑک پہ ان کا ایک ساتھی تانگے کے ساتھ ان کا منتظر تھا۔ ہوٹل سے لائے گئے شخص کو تانگے پر لاد کر تمام لوگ وہاں سے روانہ ہو گئے۔
اس سے قبل آپ کا ذہن کسی جاسوسی تھرلر فلم یا سسپنس بھرے ناول کے کسی کردار کی طرف جائے۔ آپ کو بتا دیں کہ یہ سب کے سب کرکٹ کے کھلاڑی تھے۔ مگر کس ٹیم کے؟
تقریباً سات دہائیاں قبل ہونے والے اس واقعے کو آج یاد کرنے کی ایک وجہ انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم کی پاکستانی سرزمین پر موجودگی بھی ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان ٹیسٹ سیریز کا پہلا میچ آج سے ملتان میں شروع ہو رہا ہے۔
اگر آپ کا ذہن جاسوس نما کھلاڑیوں کی پہچان کے لیے انگلینڈ کی طرف جاتا ہے تو آپ صحیح سوچ رہے ہیں۔
البتہ مغوی شخص کون تھا اور رات کے اندھیرے میں اسے اٹھا کر لے جانے کی وجہ کیا تھی؟ اس سوال کا جواب آگے چل کر ملے گا۔
کرکٹ کے کھلاڑی ’اغوا کار‘ کیسے بنے؟
سنہ 1955 میں برطانیہ کی اے ٹیم جو میلبورن کرکٹ کلب کی مناسبت سے ایم سی سی کہلاتی تھی پاکستان کے دورے پر آئی۔ 26 فروری کو پشاور میں دونوں ملکوں کے درمیان تیسرے ٹیسٹ کا آغاز ہوا۔
مہمان ٹیم پہلی اننگز میں خاطر خواہ سکور نہ کر سکی۔ اس وقت کے پاکستانی کپتان لیفٹ آرم عبدالحفیظ کاردار کی تباہ کن باؤلنگ نے ایم سی سی کو 188 رنز سے آگے نہ بڑھنے دیا۔ انہوں نے 40 رنز کے عوض چھ کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔
26 فروری 1955 میں پشاور میں دونوں ملکوں کے درمیان تیسرے ٹیسٹ کا آغاز ہوا۔ فوٹو: وائزڈن
پہلے دن کے ختتامی لمحات میں پاکستانی اوپنر علاؤ الدین نے برطانوی باؤلر لاک کی ایک گیند کھیلنے کی کوشش کی۔ گیند ان کے پیڈ سے ٹکرائی۔ مخالف کھلاڑیوں کی فلک شگاف اپیل کے جواب میں ایمپائر کا بے تاثر چہرہ ان کا منہ چڑھا رہا تھا۔
پاکستان کی اننگز بھی 152 رنز تک پہنچ کر ختم ہو گئی۔ برطانوی ٹیم کی 36 رنز کی لیڈ کے باوجود دوسری اننگز کی کارکردگی پہلے سے بھی بدتر تھی۔ وہ صرف 111 رنز بنا سکی۔
تیسرے روز پاکستان کو جیتنے کے لیے محض 148 رنز کی ضرورت تھی۔ محمد حنیف اور علاؤ الدین نے 67 رنز کی اوپننگ سے اپنی ٹیم کی کامیابی کو اور قریب کر دیا۔
جب تیسرے روز کا کھیل ختم ہوا تو پاکستان کو جیتنے کے لیے آٹھ رنز کی ضرورت تھی اور اس کی صرف دو وکٹیں گری تھیں۔
پاکستانی کرکٹ کی تاریخ کی تفصیل اور تحقیق پر مبنی برطانوی مصنف پیٹر اوبون کی کتاب ’واؤنڈڈ ٹائیگر‘ میں اس میچ سے جنم لینے والے واقعات کی جزیات بیان ہوئی ہیں۔
مصنف کے مطابق انگلینڈ کی ٹیم کے تین کھلاڑی ایل بی ڈبلیو قرار پائے۔ مگر تیسرے دن کے میچ کے اختتامی لمحات میں ایک پاکستانی بیٹسمین کے خلاف ایل بی ڈبلیو کی اپیل مسترد ہو گئی۔ جس پر مہمان کھلاڑیوں کے اندر پنپتے ناانصافی اور جانبداری کے محسوسات میں اضافہ ہو گیا۔
برطانوی کھلاڑی پشاور کے دینز ہوٹل میں رہائش پذیر تھے۔ آج کل یہ ہوٹل شاپنگ پلازہ میں تبدیل ہو چکا ہے۔
اسی شام مہمان ٹیم نے پشاور کرکٹ ایسوسی ایشن کے ڈنر میں شرکت کی۔ اس ٹیسٹ میچ کے ایمپائر بھی وہیں موجود تھے۔ انگلینڈ کے کھلاڑیوں نے انہیں ساتھ چلنے کا کہا مگر وہ کوئی دلچسپی دکھائے بغیر اپنے ہوٹل روانہ ہو گئے۔
انگلش ٹیم کے نائب کپتان بلی سٹکلف جو کہ عظیم کرکٹر ہر برڈ سٹکلف کے بیٹے تھے نے تجویز پیش کی کہ کیوں نہ میچ کے ایمپائر کو پانی سے نہلایا جائے۔
اس سکیم کو عملی جامہ پہنانے کے لیے برطانوی کھلاڑیوں نے ایمپائر تک رسائی کے لیے ایک انوکھا منصوبہ بنایا۔
پاکستانی کپتان عبدالحفیظ کاردار کی تباہ کن باؤلنگ نے ایم سی سی کو 188 رنز سے آگے نہیں بڑھنے دیا تھا۔ فوٹو: ریڈیو پاکستان
’اغوا‘ کے بعد ایمپائر پر کیا بیتی؟
ہوٹل سے برطانوی کھلاڑیوں کے ہاتھوں ’اغوا‘ ہونے والا شخص کوئی اور نہیں اس میچ کے ایمپائر ادریس بیگ تھے۔
ان کے ’اغوا‘ سے سٹیڈیم کے باہر دونوں ٹیموں میں ٹکراؤ اور کشمکش کا ایسا سلسلہ شروع ہوا جو بذات خود رنگ بدلتے سنسنی خیز میچ سے کم نہ تھا۔
یہاں تک کہ اس وقت کے پاکستانی گورنر جنرل کو پشاور سے لندن تک پھیلے انتقام کے الزامات سے بھرے غیر روایتی میچ کو ختم کروانے کے لیے مداخلت کرنی پڑی۔
ادریس بیگ پشاور کے سروسز نامی ہوٹل میں قیام پذیر تھے۔ پاکستانی ٹیم کے دیگر کھلاڑی بھی قریب ہی سٹیڈیم سے متصل ایک ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے۔
انگلینڈ کا کپتان ڈونلڈ کار اس مہم کا سرخیل بن گیا۔ منہ پر نقاب چڑھائے ٹیم نے ادریس بیگ کو ڈنر کے لباس میں ہوٹل میں جا لیا۔
اس واقعے پر ہونے والی انکوائری کے مطابق ایک عینی شاہد نے بتایا کہ بیک کو عقبی سیڑھیوں سے نیچے اتار کر لے جایا گیا۔
انگلینڈ کے کھلاڑی انہیں اپنے ہوٹل لے آئے اور نائب کپتان کے کمرے میں لے جا کر ایک کرسی پر بٹھا دیا۔ انگلش ٹیم کے سات کھلاڑی ان کے ارد گرد دائرہ بنا کر کھڑے ہو گئے۔
ایم سی سی کے کپتان نے ادریس بیگ کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کے بارے میں تفصیل یوں بیان کی تھی۔
’ہم نے اسے ایک مخصوص کرسی پر بٹھایا۔ ’ادریس کیا تم ڈرنک لینا چاہو گے؟‘ میرے سوال کا اس نے نفی میں جواب دیا۔ کمرے میں ایک جگہ پر پانی سے بھری دو بالٹیاں رکھی گئی تھیں۔ یہ شوٹنگ کا شاندار حصہ تھا جب دونوں بالٹیوں کا پانی اس کے اوپرانڈیلا گیا۔‘
اتفاق سے ایک پاکستانی کھلاڑی کو ایمپائر کے ’اغوا‘ کی گن سن مل گئی۔ اطلاع ملنے پر ان کی تلاش شروع کر دی گئی۔ پاکستانی پلیئر خان محمد کی قیادت میں تلاش پارٹی دینز ہوٹل پہنچ گئی
مذاق اور مستی کا نشانہ بنے ادریس بیگ انہیں ہوٹل کے کمرے سے بری حالت میں ملے۔
اسی دوران پاکستانی ٹیم کے مینیجر محمد حسین بھی ہوٹل پہنچ گئے۔ ایمپائر کے ساتھ بیتے واقعے کی اطلاع ملنے پر پاکستان کے کپتان عبدالحفیظ کاردار اور پاکستان کرکٹ کنٹرول بورڈ کے سیکرٹری گروپ کیپٹن چیمہ ایئر فورس میس پہنچ گئے۔ پاکستان کے معروف مبصر اور کرکٹ کمنٹیٹر جمشید مارکر اور عمر قریشی بھی ان سے آن ملے۔
کاردار لکھتے ہیں کہ جب انہوں نے ڈونلڈ کار سے اس واقعے پر باز پرس کرنے کی کوشش کی تو اس نے متکبرانہ اور بے نیازانہ انداز میں ٹیم مینیجر سے بات کرنے کا کہا۔
پاکستان ٹیم کے پہلے کپتان عبدالحفیظ کردار تھے۔ فوٹو: آئی سی سی
ادریس بیگ کی دھمکی
پاکستانی کھلاڑیوں اور ٹیم کی انتظامیہ نے مہمان ٹیم کے نائب کپتان کے کمرے میں جا کر اس حرکت کے بارے میں بات چیت کی۔ ایم سی سی کے ارکان نے اپنے عمل کا دفاع کرنے کی کوشش کی اور کہا کہ ادریس بیگ نے اس خوش مذاقی سے لطف لیا ہے۔
گروپ کیپٹن چیمہ نے انہیں ٹوکا کہ وہ کرکٹ کے بنیادی قواعد کو پامال کرنے کے مرتکب ہوئے ہیں۔ ایمپائر کے ساتھ بدتمیزی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے ادریس بیگ کو بھی وہیں بلا لیا۔
اب طرفین میں دلائل کے تبادلے اور غلطی کا تعین کرنے کا طویل مباحثہ شروع ہو گیا۔ ادریس بیک انگلش کھلاڑیوں کی مسلسل ہٹ دھرمی پر غصے میں اگئے۔ انہوں نے قانونی کاروائی اور پولیس رپورٹ کی دھمکی تک دے ڈالی۔
جس کے بعد گروپ کیپٹن چیمہ نے مہمان کھلاڑیوں کی سرزش کی اور انہیں غلطی تسلیم نہ کرنے کی صورت میں واپس بھیجنے کا عندیہ دے ڈالا۔
جس پر انگلینڈ کے مینیجر نے تحکمانہ انداز میں کہا کہ انہیں واپس نہیں بھیجا جا سکتا گروپ کیپٹن چیمہ نے ترکی بہ ترکی جو اب دیا کہ پاکستان نے انہیں مدعو کیا ہے اور اس لیے وہ انہیں واپس بھیجنے کا حق بھی رکھتا ہے۔
طویل تکرار و تلخ جملوں کے تبادلے کے بعد انگلینڈ کے کپتان نے معافی نامہ لکھنے پر آمادگی ظاہر کی۔ تاہم آخر وقت تک وہ اسے کھلاڑیوں کی خر مستی اور خوش ذوقی قرار دیتے رہے۔
صبح کے تین بجے کاردار جب ہوٹل سے نکلے تو قومی اور بین الاقوامی میڈیا کے نمائندوں کو اپنا منتظر پایا۔ ان صحافیوں میں کرکٹ کے پاکستانی مبصر عمر قریشی بھی شامل تھے۔
انہوں نے اس واقعے کے بارے میں لکھا کہ ڈیلی ٹیلی گراف کے نمائندے کا خیال تھا کہ یہ خبر دبا دینی چاہیے جبکہ ڈیلی مرر سے وابستہ ایک رپورٹر اور عمر قریشی نے محدود اور محتاط انداز میں اس واقعے کو رپورٹ کرنے کی تجویز دی۔
مگر جب مقامی اخبارات کو پاکستانی ایمپائر کے ساتھ بدتمیزی کے واقعے کا علم ہوا تو ’اغوا‘ کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ کچھ پاکستانی اخبارات اس پر سیخ پا ہو گئے۔ خبروں اور اداریوں میں اس کی مذمت کا مقابلہ شروع ہو گیا۔
اسکندر مرزا نے کیوں مداخلت کی؟
انگلینڈ کے مینیجر اور کپتان نے واقعے کی خبروں کی تردید کی مگر لوگوں میں رنج اور رد عمل بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ ایمپائر کی توہین اور تشدد کی اطلاعات پر پشاور میں حالات ایسے ہو گئے کہ انتظامیہ کو برطانوی ٹیم کی حفاظت کے لیے چھ گارڈز تعینات کرنے پڑے۔
لاہور میں تو اس سے بڑھ کر ناراضگی اور ناپسندیدگی کا اظہار ہوا۔ مقامی طلبہ اور شہری سڑکوں پر آ گئے۔ مشتعل ہجوم نے برطانیہ کے ڈپٹی ہائی کمشنر کے دفتر کا محاصرہ کر لیا۔
’ایم سی سی واپس جاؤ‘ کہ نعروں نے شہری زندگی میں بھونچال برپا کر دیا۔
انگلش ٹیم کے نائب کپتان بلی سٹکلف نے پاکستانی ایمپائر کو پانی سے نہلانے کا منصوبہ بنایا۔ فوٹو: وینٹیج پاکستان
وقفے کے بعد اگلے دن میچ شروع ہوا جو پاکستان نے بآسانی جیت لیا۔ غصے سے بپھرے طلبہ نے سٹیڈیم کا گھیراؤ کر لیا۔ مخالفانہ نعروں کے شور میں پولیس نے برطانوی ٹیم کو مشکل سے ہوٹل منتقل کیا۔
برطانوی ٹیم مخالف جذبات کی خبریں جب لندن پہنچیں تو وہاں کے میڈیا میں اپنی ٹیم کی حمایت اور مخالفت میں بحث اور بیان بازی شروع ہو گئی۔ انگلینڈ کے پریس کا غالب حصہ ادریس بیگ کو معصومانہ شرارت کا شکار قرار دے رہا تھا۔
ایم سی سی کے دورے کے مینیجر جیفری ہاورڈ نے سفارتی ڈاک کے ذریعے میلبورن کرکٹ کلب کے سکریٹری رونی ایریڈ کے نام خط میں اس واقعے کی تفصیلات بیان کی تھیں۔ یہ خط ایم سی سی کے ریکارڈ میں ابھی تک محفوظ ہے۔
کرکٹ کے برطانوی مبصر پیٹر اوبون اس خط کے ذریعے ٹیم کے مینیجر کے ذہنی رویے اور پریشانی کے بارے میں بتاتے ہیں۔ انہوں نے لکھا کہ ’انگلینڈ کی ٹیم طوفان کی زد میں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ تمام حالات اور واقعات کی ڈوریں کہیں اور سے ہلائی جا رہی ہیں۔‘
پشاور ٹیسٹ اختتام پذیر ہو گیا مگر مہمان ٹیم کا پاکستان میں مزید رکنے اور بقیہ میچوں پر سوالیہ نشان لگ چکا تھا۔
اس موقع پر ایم سی سی کے صدر لارڈ الیگزینڈر کو پاکستان میں اپنے تعلقات اور اثرو نفوز آزمانے کا خیال آیا۔
وہ 1930 کے عشرے میں برطانوی فوج کی طرف سے موجودہ پاکستان کے علاقے شمالی وزیرستان کی مہم جوئی میں شریک رہ چکے تھے۔
انہی دنوں ان کی راہ و رسم اور دوستی برطانوی ہند کی پولیٹیکل سروس کے ایک مقامی آفیسر سے ہوئی۔
اتفاق سے ان کا دوست ان دنوں پاکستان کی سب سے طاقتور شخصیت یعنی گورنر جنرل بن چکا تھا۔ انہوں نے کرکٹ کی وجہ سے بڑھتی تلخی اور تناؤ محسوس کرتے ہوئے اسکندر مرزا کو معذرت اور افسوس کا پیغام بھیجا۔
انہوں نے لکھا کہ میں اپنے مینیجر کی رپورٹ کا انتظار کر رہا ہوں۔اس افسوسناک واقعے پر انہیں صدمہ ہے۔ خط کے بعد انہوں نے گورنر جنرل پاکستان کو ٹیلی فون پر ٹیم کو واپس بھجوانے کی پیشکش بھی کی۔ اور ایسا کرنے کی صورت میں کسی بھی قانونی کاروائی اور ہرجانہ نہ لینے کا وعدہ بھی کیا۔
برطانیہ کی ملٹری اکیڈمی سینٹ ہیرسٹ سے تربیت یافتہ اسکندر مرزا خود بھی کرکٹ کے شوقین تھے۔ اس وقت پاکستان کرکٹ کنٹرول بورڈ کے چیئرمین کا عہدہ بھی ان کے پاس تھا۔
انہوں نے لارڈ الیگزینڈر کو دورہ جاری رکھنے کو کہا۔ یوں انگلش ٹیم نے اپنے طے شدہ دنوں کے تمام بقیہ میچ پاکستانی سرزمین پر کھیلے۔
انگلش ٹیم کے خلاف ردعمل اتنا شدید تھا کہ صدر اسکندر مرزا کو مداخلت کرنا پڑی۔ فوٹو: ونٹیج پاکستان
17 مارچ کو انگلینڈ کی ٹیم دورہ مکمل کر کے واپس چلی گئی۔ باقی میچ تناؤ اور بے رخی کے ماحول میں ہوئے۔ ٹیم کے مینیجر کی تحقیقاتی کمیٹی نے بھی اس واقعے کو غیر مہلک اور مذاق قرار دے کر معاملہ نپٹا دیا۔ تمام کھلاڑیوں کو کسی بھی طرح کے جرمانے کے بجائے بونس اور میچ فیس ادا کی گئی۔
دو کپتانوں کی خاموش رقابت
پاکستان کے گورنر جنرل کی مداخلت سے بظاہر معاملہ نمٹ گیا۔ ایم سی سی کی ٹیم کے کپتان، مینیجر اور انتظامیہ نے بار بار ایمپائر کے ساتھ بد تہذیبی کو اپنے کھلاڑیوں کی خرمستی اور خوش مذاقی قرار دیا۔ ادھر ادریس بیگ نے برطانوی کپتان کی معافی بھی قبول کر لی تھی۔
مگر اس قضیے سے جڑے بعض پہلو ایسے ہیں جن کا مطالعہ پاکستانی ایمپائر کے ’اغوا‘ کا محرک بننے والے کچھ پوشیدہ محرکات کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
’وؤنڈ ٹائیگر‘ کے مصنف نے ایم سی سی کے دورے کی جزیات اور تفصیلات جو لارڈز کی لائبریری میں محفوظ ہیں کہ حوالے سے کچھ اور اسباب کا ذکر کیا ہے۔
ان کے مطابق انگلینڈ کے کپتان نے پاکستان آمد پہ یہ کہا کہ وہ اوول کا بدلہ لیے بغیر انگلینڈ کے ساحلوں کو واپس نہیں جائیں گے۔
دونوں ٹیموں کے کپتان اکسفورڈ کے تعلیم یافتہ تھے۔ اور ان کے درمیان دور طالب علمی سے چھپی مخاصمت کہیں نہ کہیں موجود تھی۔ حفیظ کاردار پاکستان کے فخر کی علامت تھے۔ شاید اس واقعے میں ان کے ساتھ پیشہ ورانہ رقابت کا کوئی نہ کوئی عنصرکار فرما ہو۔
ایم سی سی کی ٹیم ٹیسٹ سیریز سے قبل کراچی، حیدر آباد اور بہاولپور میں مقامی ٹیموں کے خلاف میدان میں اتری۔ پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان ڈھاکہ میں ہونے والے ٹیسٹ میچ میں پاکستان نے ایک اننگز اور 10 رنز سے کامیابی حاصل کی تھی۔ ان تمام میچوں کے دوران انگلینڈ کے کپتان کا کاردار کے ساتھ رویہ اہانت آمیز رہا تھا۔
لاہور میں فلیٹیز ہوٹل کے قیام کے دوران دونوں کا آمنا سامنا ہوا تو کاردار نے اس توہین آمیز رویے کے بارے میں دریافت بھی کیا۔
یہی نہیں کچھ برطانوی اخبارات نے اپنی رپورٹس میں لکھا کہ پاکستانی کپتان اور ادریس بیگ برطانیہ کے خلاف میچوں کے دوران ایک ہی کمرے میں رہائش پذیر ہوتے تھے۔
عبدالحفیظ کاردار نے ان مفروضوں کی سختی سے تردید کی۔ نہ تو انہوں نے خود اور نہ ہی پاکستان کے کسی اور کھلاڑی نے ایمپائر کے ساتھ کمرہ شیئر کیا تھا۔
صدر اسکندر مرزا نے انگلش ٹیم کو پاکستان کو دورہ جاری رکھنے کو کہا تھا۔ فوٹو: گیٹی امیجز
مفروضوں میں ملفوف تنقید کا ہدف کاردار ہی نہ تھے بلکہ ادریس بیگ کو بھی اشاروں کنایوں میں جانبدار اور متعصب قرار دینے کی کوشش کی گئی۔ اس دورے کے دوران انگلش ٹیم کے مینیجر نے اپنی بیوی کے نام خط میں ایمپائرنگ کے جانبدارانہ فیصلوں اور انداز کی طرف اشارہ کیا تھا۔
پیٹر اوبون نے اپنی تحقیق کی بناء پر دونوں ٹیموں کی حریفانہ نفسیات میں کار فرما ایک اہم نقطے کا حوالہ دیا ہے۔ ان کے مطابق بھارتی کپتان نے انگلینڈ کے مینیجر کو گمراہ کیا تھا کہ پاکستانی ایمپائر ایل بی ڈبلیو نہیں دیتے۔
مصنف نے خود بھی اسے بے بنیاد قرار دیا ہے۔ انہوں نے اعداد و شمار سے ثابت کیا ہے کہ اس واقعے سے کچھ عرصہ قبل انڈیا کے دورہ پاکستان میں انڈین سے زیادہ پاکستانی کھلاڑی ایل بی ڈبلیو آؤٹ ہوئے۔
کھیلوں کی تاریخ میں گراؤنڈ میں جنم لینے والے تنازعات کا جلد حل نکل آتا ہے۔ اسی طرح کرکٹ میں کھلاڑیوں اور ایمپائرز کے درمیان توتکار بلکہ مار کٹائی کے واقعات ہو چکے ہیں۔
مگر کھیل کے میدان سے باہر ایمپائر کا ’اغوا‘ اور اس پر پاکستان کے طول و عرض میں پھوٹنے والے رد عمل کی جڑیں کھیل کے علاوہ برطانیہ کے طویل نو آبادیاتی نظام سے بیزاری اور بدلے میں بھی پیوستہ تھیں۔