معروف اسلامی مبلغ ڈاکٹر ذاکر نائیک نے حال ہی میں اپنے 10 روزہ دورہ پاکستان کے دوران پی آئی اے (پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن) کے سی ای او کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ کراچی میں ہونے والی تقریب اور عوامی لیکچرز کے دوران، جہاں وہ مختلف موضوعات پر گفتگو کر رہے تھے، ذاکر نائیک نے اپنے ساتھ پیش آنے والا ایک واقعہ سنایا جس میں انہوں نے پی آئی اے کی جانب سے ان کے ساتھ برتے گئے رویے پر مایوسی کا اظہار کیا۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک نے بتایا کہ جب وہ ملائیشیا سے پاکستان آ رہے تھے، تو ان کے ہمراہ موجود افراد کا سامان تقریباً ایک ہزار کلو تھا۔ انہوں نے پی آئی اے کے کنٹری مینیجر سے رابطہ کیا اور انہیں بتایا کہ ان کے سامان کا وزن حد سے زیادہ ہے۔ اس پر کنٹری مینیجر نے کہا، "ڈاکٹر صاحب، میں آپ کے لیے کچھ بھی کروں گا۔" لیکن جب ذاکر نائیک نے اضافی سامان کے وزن کی بات کی تو انہیں بتایا گیا کہ انہیں صرف 50 فیصد رعایت دی جا سکتی ہے۔
یہ سن کر ڈاکٹر ذاکر نائیک نے سخت ناراضی کا اظہار کیا اور جواب دیا: "یا تو فری میں سامان لے جائیں یا پھر کچھ مت دیں، مجھے رعایت نہیں چاہیے!" انہوں نے مزید کہا کہ بھارت میں جب کوئی غیر مسلم انہیں دیکھتا ہے تو ہزاروں کلو کا سامان بھی مفت لے جانے دیتا ہے، اور یہاں پاکستان میں، جہاں وہ حکومت کے مہمان ہیں اور ان کے ویزے پر "اسٹیٹ گیسٹ" لکھا ہوا ہے، انہیں 50 فیصد رعایت کی پیشکش کی جا رہی ہے۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک نے کہا کہ یہ بات ان کے لیے بے حد مایوس کن تھی کہ وہ ریاستی مہمان ہوتے ہوئے بھی پی آئی اے سے ایسی توقعات نہیں رکھ سکتے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت میں تو غیر مسلم انہیں دیکھ کر 1000 سے 2000 کلو کا سامان بھی بغیر کسی چارج کے لے جانے دیتے ہیں، جبکہ پاکستان میں 300 کلو سامان چھوڑنے کو تیار نہیں تھے۔
ان کا یہ بیان سوشل میڈیا پر وائرل ہوا، اور اس کے بعد پی آئی اے کے سی ای او کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا، خاص طور پر اس بات پر کہ ریاستی مہمان کے ساتھ اس طرح کا سلوک کیوں کیا گیا۔