کراچی ایئرپورٹ کے باہر چینی شہریوں پر ہوئے حملے میں ’70 سے 80 کلوگرام بارودی مواد استعمال کیا گیا‘

پاکستان کے صوبہ سندھ اور ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں چینی شہریوں کو لے جانے والے قافلے پر ایک حملے میں دو چینی شہری ہلاک جبکہ 11 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
تصویر
Getty Images

کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے باہر اتوار کی شب چینی شہریوں کو لے جانے والے کانوائے پر ہوئے حملے میں 70 سے 80 کلوگرام باردو استعمال ہوا جو ایک گاڑی میں موجود تھا۔

بم ڈسپوزل یونٹ کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق دھماکہ بارود سے بھری گاڑی میں ہوا جس کے نتیجے میں قرب و جوار میں موجود 15 گاڑیاں بُری طرح متاثر ہوئیں۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ جائے وقوعہ کے معائنہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس دھماکے میں 70 سے 80 کلوگرام بارودی مواد استعمال کیا گیا۔ دوسری جانب وزیر اعلیٰ سندھ نے صوبے میں امن و امان کے حوالے سے ہونے والے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے اس واقعے کی تحقیقات کے لیے تمام متعلقہ اداروں پر مشتمل جوائنٹ انٹروگیشن ٹیم بنانے کی ہدایت کی ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں چینی شہریوں کو لے جانے والے قافلے پر اتوار کے رات ہونے والے اس حملے میں دو چینی انجینیئرز سمیت تین افراد ہلاک جبکہ 11 افراد زخمی ہوئے تھے۔

کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے قریب ہونے والے اس حملے کی ذمہ داری شدت پسند کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے قبول کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ یہ ایک خودکش حملہ تھا تاہم پاکستانی حکام کی جانب سے فی الحال اس حملے کے خودکش ہونے یا نہ ہونے کی تصدیق یا تردیر نہیں کی گئی ہے۔

جائے وقوعہ پر پہنچنے والے ایدھی اہلکار نے کیا دیکھا؟

کراچی حملہ
Getty Images

’ہم سٹار گیٹ پر واقع اپنے سینٹر میں موجود تھے کہ پونے گیارہ بجے کے قریب دھماکے کی آواز سنی گئی جس پر ہم فوری پہلے پرانے ٹرمینل پر گئے جہاں کچھ نہیں تھا، اس کے بعد جب جناح ٹرمینل کے پاس پہنچے تو وہاں لوگوں میں بہت افراتفری تھی اور جب آگے بڑھے تو دیکھا گاڑیوں سے شعلے بلند ہو رہے تھے۔‘

محمد شفیق فلاحی ادارے ایدھی کے رضاکار ہیں اور ان لوگوں میں سے ہیں جو گذشتہ رات کراچی کے جناح انٹرنینشل ایئرپورٹ کے قریب ہونے والے دھماکے کے کچھ ہی دیر بعد یہاں پہنچے تھے۔

محمد شفیق نے بی بی سی کو بتایا کہ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت گاڑیوں میں لگی آگ کو بجھانے کی کوشش کر رہے تھے۔

ان کے مطابق اس آگ کو بجھانے میں دس سے پندرہ منٹ لگے ہوں گے جس کے بعد انھوں نے پہلے مرحلے میں زخمیوں کو نکال کر جناح ہسپتال اور قریبی نجی ہسپتال میں منتقل کیا گیا۔ ان کے مطابق اس کے بعد جائےوقوعہ سے تین لاشیں نکالی گئیں جن میں سے دو چینی شہریوں کی تھیں جو ساؤتھ سٹی ہسپتال منتقل کی گئیں جبکہ تیسری لاش ایک گاڑی سے آخر میں نکالی گئی جو ٹکڑوں میں تھی اور ناقابل شناخت تھی۔

’دھماکہ اس قدر شدید تھا کہ ہر چیز ہل کر رہ گئی‘

کراچی حملہ
Getty Images
جائے وقوعہ کو ٹینٹ لگا کر کر بند کر دیا گیا ہے

دھماکے کے مقام سے 500 میٹر دور شاہراہ فیصل پر واقع اپارٹمنٹس کے ایک دکاندار ذاکر خان نے بتایا کہ جس وقت دھماکہ ہوا اُس وقت علاقے میں بجلی گئی ہوئی تھی اور وہ اپنی دکان کے باہر بیٹھے ہوئے تھے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’دھماکہ اِس قدر شدید تھا کہ ہر چیز ہل کر رہ گئی، پہلے تو سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا ہوا ہے، کوئی ٹائر پھٹا ہے یا کچھ اور ہوا ہے، اس کے بعد آس پاس کی عمارتوں سے بھی لوگ نیچے اُتر آئے۔ اس کے بعد خبریں آئیں کہ دھماکہ ہوا ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ عام طور پر یہ علاقہ پُرامن ہے جہاں سکیورٹی بھی سخت رہتی ہے۔

واضح رہے کہ جس مقام پر یہ دھماکہ ہوا وہاں سے کچھ فاصلے پر ایک پولیس چوکی بھی قائم ہے جبکہ کچھ ہی فاصلے پر ایئرپورٹ سکیورٹی فورس کا سکیورٹی ٹاور بھی ہے۔

ایئرپورٹ کے داخلی راستے سے شاہراہ فیصل جانے کے لیے عموماً یہ سڑک استعمال ہوتی ہے جبکہ اس کے بالکل سامنے کی ایک سڑک ملیر کینٹ کی طرف جاتی ہے۔

جناح ایئرپورٹ کا یہ علاقہ ہائی سکیورٹی زون میں شامل ہے۔ اس سے قبل سنہ 2014 میں ایئرپورٹ کے اندر حملہ کیا گیا تھا جس کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان نے قبول کی تھی۔

چینی قونصل خانے کی مذمت

اس واقعے کے بعد پاکستان میں چینی سفارتخانے اور قونصلیٹ جنرل کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے بیان میں بتایا گیا تھا کہ چھ اکتوبر کو رات 11 بجے کے قریب پورٹ قاسم اتھارٹی الیکٹرک پاور کمپنی (پرائیویٹ) لمیٹڈ سے چینی عملے کو لانے والے ایک قافلے پر کیے گئے حملے میں دو چینی شہری ہلاک جبکہ ایک چینی شہری زخمی ہوا ہے۔

چینی قونصل خانے نے اپنے بیان میں شدت پسند حملے کی مذمت کی تھی اور دونوں ممالک سے تعلق رکھنے والے متاثرہ شہریوں کے اہلِخانہ سے گہرے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ وہ پاکستانی حکام کے ساتھ مل کر اس کے بعد کا لائحہ عمل طے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

چینی قونصل خانے نے بتایا گیا تھا کہ ان کی جانب سے فوری طور پر ایک ایمرجنسی پلان لانچ کر دیا گیا ہے اور پاکستانی حکام سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ اس حملے کی جامع تحقیقات کریں اور ملوث افراد کو سزا دینے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں مختلف منصوبوں میں کام کرنے والے چینی شہریوں کی حفاظت کے لیے اقدامات کریں۔

کراچی
Getty Images

وزیرِ اعظم شہباز شریف اور دفترِ خارجہ کا ردِعمل

اس واقعے کے بعد پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف نے کہا تھا کہ انھیں گذشتہ رات کراچی ایئرپورٹ کے قریب قافلے پر ہونے والے حملے میں دو چینی شہریوں کی ہلاکت پر گہرا صدمہ اور دکھ ہوا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’میں اس گھناؤنے عمل کی مذمت کرتا ہوں اور چینی رہنماؤں اور باشندوں سے افسوس کا اظہار کرتا ہوں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس بھیانک حملے میں ملوث افراد پاکستانی نہیں ہو سکتے بلکہ یہ پاکستان کے دشمن ہیں۔ اس بارے میں فوری تحقیقات جاری ہیں تاکہ ان کی شناخت کرتے ہوئے انھیں کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے۔‘

انھوں نے کہا کہ پاکستان اپنے چینی دوستوں کی حفاظت کے لیے پرعظم ہے، ہم ان کی سلامتی اور خوشحالی کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے رہیں گے۔

دوسری جانب پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے پیر کو ایک نیوز بریفنگ میں کہا کہ پاکستان چینی شہریوں پر حملے کی شدید مذمت کرتا ہے اورواقعے پر چینی حکام سے مسلسل رابطے میں ہیں۔

انھوں نے کہا کہ دہشت گردی کی کارروائی پاکستان اور چین کی پائیدار دوستی پر حملہ ہے، سکیورٹی فورسز دہشت گردوں، سہولت کاروں کو پکڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گی، حملے میں ملوث افراد کو ضرور سزا ملے گی۔

ترجمان نے کہا کہ سیکورٹی فورسز دہشت گردوں اور سہولت کاروں کو پکڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے، مجید بریگیڈ سمیت اس بزدلانہ حملے کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے پرعزم ہیں۔

پاکستان میں چینی باشندوں کو کب کب نشانہ بنایا گیا ہے؟

چینی
BBC

پاکستان میں چینی باشندوں کی بڑی تعداد چین پاکستان اقتصادی راہداری سے منسلک منصوبوں میں کام کرنے کے لیے موجود ہے اور گذشتہ چند برسوں کے دوران ان پر حملے کیے جاتے رہے ہیں۔

کراچی میں 2017 سے یہ چینی شہریوں پر آٹھواں حملہ ہے، یہ حملے زیادہ تر بلوچ اور سندھی قوم پرست جماعتوں کی جانب سے کیے گئے ہیں، پاکستان میں2015 میں سی پیک کے منصوبے کے آغاز کے بعد بلوچ اور سندھی قوم پرستوں نے اس منصوبے کی مخالفت کی تھی۔

سنہ 2017 سے چینی شہریوں پر حملوں کی ابتدا ہوئی اور اب تک سی پیک سے منسلک 16 حملے ہوئے ہیں جن میں 12 چینی شہری ہلاک اور 16 زخمی ہوئے ہیں ان میں صوبہ سندھ میں آٹھ، بلوچستان میں چھ اور خیبر پختونخوا میں دو حملے کیے گئے ہیں۔

اس سے قبل، رواں برس مارچ میں صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقے شانگلہ کی تحصیل بشام میں چینی انجینیئرز کے قافلے کو داسو ڈیم کی طرف جاتے ہوئے نشانہ بنایا گیا تھا جس میں پانچ چینی انجنییئر ہلاک ہوئے تھے۔

اس حملے کے بعد چین کی جانب سے پاکستان پر ملک میں چینی باشندوں کی سکیورٹی یقینی بنانے پر زور دیا گیا تھا۔

رواں سال جون میں پاکستان میں منعقد ہونے والے ’پاک چین مشاورتی میکانزم‘ نامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے چین کے وزیر لیو جیان چاؤ نے پاکستان میں چینی سرمایہ کاری کو اندرونی استحکام اور بہتر سکیورٹی سے مشروط قرار دیا تھا۔

اس کے فوراً بعد نیشنل ایکشن پلان کی ایپکس کمیٹی کے اجلاس کے دوران وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنی تقریر میں ملکی سکیورٹی کی ذمہ داری صرف فوج پر ڈالنے کی بجائے صوبوں سے بھی اپنا کردار ادا کرنے کی بات کی تھی اور اس اجلاس کے اعلامیے میں آپریشن ’عزم استحکام‘ کے آغاز کا اعلان کیا گیا تھا۔

اس سے قبل جولائی 2021 کے دوران داسو ڈیم کے منصوبے پر کام کرنے والے نو چینی انجینیئرز سمیت 13 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

سنہ 2018 میں چینی قونصل خانے پر حملہ کیا گیا تھا جس میں سات پاکستانی شہری ہلاک ہوئے تھے جبکہ سنہ 2022 میں کراچی یونیورسٹی کے احاطے میں چینی زبان کے مرکز کے قریب ایک خودکش حملے میں تین چینی اساتذہ سمیت کم از کم چار افراد ہلاک اور چار زخمی ہوئے تھے۔

حملے کے بعد بی ایل اے کی جانب سے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کی گئی تھی اور ایک بیان میں حملہ آور کی شناخت ظاہر کی گئی ہے۔ بیان کے مطابق حملہ آور کی شناخت شاہ فہد عرف آفتاب بتائی گئی ہے۔

بی ایل اے کیسے بنی اور اس کا مجید بریگیڈ کیا ہے؟

اس سال میں بلوچ لبریشن آرمی کی مجید بریگیڈ کی جانب سے متعدد ہلاکت خیز حملے کیے گئے ہیں۔ 26 اگست کو بلوچستان کے علاقے بیلہ میں سکیورٹی فورسز کے ایک کیمپ کے دروازے پر بارود سے بھری گاڑی ٹکرانے سے آپریشن ھیروف کا آغاز ہوا تھا جس میں کم از کم 39 افراد کی ہلاکت ہوئی تھیگ

جبکہ پاکستان کی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق جوابی کارروائی کے دوران 21 شدت پسند اور 14 سکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔

بلوچستان میں جاری عسکری تحریک پر نظر رکھنے والے صحافی اور تجزیہ نگار شہزادہ ذوالفقار بتاتے ہیں کہ اسلم اچھو اور بشیر زیب نے مجید بریگیڈ کی بنیاد رکھی تھی۔

ان کے تربیتی اور اشاعتی مواد کے مشاہدے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی یہ سوچ تھی کہ وہ کچھ مزید پیشرفت کریں کیونکہ سب سے خطرناک اقدام یہ ہی ہوتا ہے کہ آپ اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے کہیں پر گھس جائیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے پہلے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے دوران جب بلوچستان کی پہلی منتخب حکومت یعنی نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت کو بر طرف کیا جا چکا تھا تو مزاحمت شروع ہو چکی تھی۔

سنہ 1975 میں اگست کے مہینے میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کوئٹہ میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرنے کے لیے پہنچے تو ایک دستی بم دھماکے میں مجید لانگو نامی نوجوان ہلاک ہو گیا بعد میں یہ اطلاعات سامنے آئیں کہ نوجوان بھٹو پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔

مجید لانگو کا تعلق منگوچر کے علاقے سے تھا اور وہ طالب علمی سے بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن یعنی بی ایس او سے وابستہ تھا۔

مجید لانگو کی ہلاکت کے بعد ان کے چھوٹے بھائی کی ولادت ہوئی جس کا نام مجید رکھا گیا، جس نے کالعدم بلوچ لبرشین آرمی میں شمولیت اختیار کی اور سنہ 2011 میں کوئٹہ کے قریب قانون نافذ کرنے والے اداروں سے ایک مقابلے میں ہلاک ہو گیا۔

بی ایل اے کا کہنا ہے کہ اسی ہلاکت والے دن اس فدائی گروپ کی تشکیل کا اعلان ہوا اور استاد اسلم نے اس کا نام دونوں بھائیوں کی بہادری کے پیش نظر مجید بریگیڈ رکھا گیا۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.