علی امین گنڈاپور کی ’حکمت عملی‘ اور تحریک انصاف کا ڈی چوک احتجاج جو ’پارٹی کے لیے کئی سوال چھوڑ گیا‘

خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور سنیچر کو اپنے قافلے سے الگ ہو کر بلا روک ٹوک ریڈ زون میں واقع کے پی ہاؤس چلے گئے۔ خیبر پختونخوا ہاؤس پر پولیس اور رینجرز کے چھاپے کے بعد ان کی مبینہ گمشدگی اور ایک روز بعد اسمبلی کے اجلاس میں شرکت نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔
pti
Getty Images

’میری قوم کے ہر فرد سے اپیل ہے کہ ڈی چوک اسلام آباد پہنچنے کے لیے نکلے اورعلی امین گنڈاپور کے قافلے کا حصہ بنے۔‘

یہ پیغام پانچ اکتوبر کو پاکستان تحریک انصاف کے بانی اور سابق وزیر اعظم عمران خان کے ’ایکس‘ کے اکاؤنٹ سے اس وقت پوسٹ ہوا تھا جب کنٹینروں اور رکاوٹوں سے گھرے اسلام آباد میں ایک روز قبل یعنی جمعے سے ہی تحریک انصاف کے کارکنان بلیو ایریا کے اختتام پر واقع ڈی چوک پہنچنے کی کوشش میں تھے اور اطراف کی فضاؤں میں آنسو گیس کی بو رچی ہوئی تھی۔

معاملہ شروع ہوا تھا حکومت کی مجوزہ آئینی ترمیم کے حوالے سے پاکستان تحریک انصاف کا اسلام آباد کے ڈی چوک پر چار اکتوبر یعنی جمعے کے روز احتجاج کی کال سے۔ جس میں بڑی تعداد میں خیبرپختونخوا سے کارکنان کو علی امین گنڈا پور کی قیادت میں ’پر امن‘ احتجاج کے لیے ڈی چوک پہنچنا تھا۔

پارٹی قیادت جس انداز سے اسلام آباد پہنچنے کا کہہ رہی تھی اور مظاہرین کو روکنے کے لیے جیسی رکاوٹیں لگائی گئی تھیں، اس میں یہ قیاس آرائیاں بھی کی جا رہی تھیں کہ اب ڈی چوک پر مجوزہ آئینی ترامیم کے خلاف احتجاج نہیں بلکہ دھرنا ہو سکتا ہے۔ تاہم جو کچھ ہوا وہ اِن توقعات کے برعکس تھا۔

احتجاج اور دھرنوں میں عوامی سطح پر مقبولیت حاصل کرنے والی پی ٹی آئی اپنے قائدین کی ہدایت پر تمام رکاوٹیں عبور کرتے ہوئے پہنچنے کی کوشش میں رہے اور سب کو انتظار تھا وزیر اعلی خیبرپختونخوا کا۔

تاہم سنیچر کو علی امین گنڈاپور تمام رکاوٹیں عبور کرتے اسلام آباد کے بلیو ایریا تک پہنچے مگر مختصر خطاب کے بعد اپنے قافلے سے الگ ہو کر بلا روک ٹوک ریڈ زون میں واقع کے پی ہاؤس چلے گئے جہاں سے ان کی مبینہ گمشدگی اور ایک روز بعد اسمبلی کے اجلاس میں ان کی ’انٹری‘ نےکئی سوالات کو جنم دیا ہے۔

اس صورت حال میں خود پی ٹی آئی کے اندر بھی ایسے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ کیا یہ سب پہلے سے طے شدہ تھا۔ یہ سوال بھی زیر گردش ہے کہ جیل میں قید عمران خان اور ڈی چوک میں اعلیٰ پارٹی قیادت کی عدم موجودگی میں یہ احتجاج کتنا کامیاب رہا اور کیا اس سے پی ٹی آئی کو فائدہ ہوا؟

ہم نے تجزیہ کاروں سے بات کر کے ان سوالوں کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔

pti
Getty Images

تحریک انصاف کی سیاسی کامیابی یا ناکامی؟

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور راولپنڈی میں چار اکتوبر کی صبح سورج طلوع ہوا تو منظر معمول سے ہٹ کر تھا۔

آنکھ کھلتے ہی فون پر موبائل سگنلز کی جگہ ’نو سروس‘ لکھا ملا، پھر اسلام آباد میں داخل ہونے والے تمام راستے کنٹینروں اور مختلف رکاوٹوں سے بند ملے۔ اس کی وجہ پی ٹی آئی کے بانی عمران خان کی جانب سے اسلام آباد کے ڈی چوک پر چار اکتوبر کو مظاہرے کا اعلان تھا اور اس کی قیادت کی ذمہ داری وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے کندھوں پر ڈالی گئی تھی۔

اگرچہ وفاقی حکومت نے انھیں اس احتجاج کی اجازت نہیں دی تھی اور رکاوٹیں لگانے کے علاوہ مظاہرین کو سخت کارروائی کی تنبیہ دی تھی۔ شہر میں دفعہ 144 نافذ کرنے کے بعد رینجرز کو بھی تعینات کیا گیا تھا۔

سابق وزیر اعظم عمران خان کی کال پر پارٹی کارکنان اور لوگ احتجاج میں شامل ہونے کے لیے نکلے اور راستے میں کنٹینروں اور رکاوٹوں کے علاوہ آنسوں گیس کے شیلوں کا مقابلہ کرتے ہوئے ڈی چوک تو پہنچ گئے مگر اس احتجاج کی قیادت کرنے والے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور سمیت اعلیٰ قیادت وہاں دکھائی نہیں دی تو یہ سوال پیدا ہوا کہ کیا پارٹی قیادت کیوں ڈی چوک نہ آئی؟

تجزیہ کار محمود جان بابر نے بی بی سی کو بتایا کہ تحریک انصاف کا یہ مظاہرہ اس حوالے سے کامیاب نہیں رہا کہ اس سے کچھ حاصل کیا جاتا، جیسے دباؤ ڈال کر حکومت سے اپنے مطالبات تسلیم کرائے جاتے۔

مگر وہ کہتے ہیں کہ علی امین گنڈاپور کا یوں غائب ہو جانا اور پھر پشاور میں اسمبلی کے اجلاس میں آنا کئی سوال چھوڑ گیا ہے۔ ’علی امین کے بارے میں یہ تاثر بھی پیدا ہو گیا ہے کہ کیا وہ اتنے قابل اعتماد ہیں جتنا عمران خان نے ان پر اعتماد کیا؟‘

محمود جان بابر کے مطابق علی امین گنڈاپور پر جس قدر ذمہ داریاں عائد کی گئی ہیں ہو سکتا ہے کہ اس سے ان کے لیے مشکلات پیدا ہو رہی ہوں۔

’علی امین نے اپنا وعدہ پورا کیا‘

دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور سابق صوبائی وزیرِ اطلاعات شوکت یوسفزئی نے بی بی سی کو بتایا کہ علی امین گنڈا پور نے اتنی بڑی تعداد میں مظاہرین کے ساتھ اسلام آباد پہنچ کر اپنا وعدہ پورا کیا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’علی امین کا مقصد ہرگز یہ نہیں تھا کہ عوام کو ریاستی اداروں اور فوج کے خلاف لایا جائے کیونکہ یہ فوج ہماری ہے اور ہم فوج کی عزت کرتے ہیں۔‘

ان کی رائے میں ’علی امین کا پختونخوا ہاؤس جانے کا فیصلہ درست تھا کیونکہ ان کے وہاں (ریڈ زون کے احتجاج میں) موجود رہنے سے حالات خراب ہو سکتے تھے۔‘

اکرام کھتانہ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا سے منسلک ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کارکنان عمران خان کی کال پر گئے تھے اور آئندہ بھی ایسا ہی کریں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’کارکنان گرفتاریوں سے نہیں ڈرتے۔‘

ان کے مطابق وہ عمران خان کی کال پر اس احتجاج میں شامل ہوئے تھے اور’اگر عمران خان کل پھر احتجاج یا ریلی کا اعلان کرتے ہیں تو وہ پھر اس میں جائیں گے۔‘

اسلام آباد میں پی ٹی آئی کا احتجاج
Reuters

’ایسے رویے سے پی ٹی آئی کی عوامی طاقت پر اثر پڑ سکتا ہے‘

پی ٹی آئی کے حامیوں میں بعض کارکنان ایسے بھی ہیں جن کا کہنا ہے کہ علی امین گنڈاپور کا ڈی چوک سے خیبر پختونخوا ہاؤس جانے کا فیصلہ درست نہیں تھا۔ ان کی رائے میں ڈی چوک پر ان کے ساتھ لوگوں کی بڑی تعداد کے ہونے سے حکومت کو مذاکرات پر مجبور کیا جا سکتا تھا۔

کیا پی ٹی آئی کے اس احتجاج نے کچھ کارکنان کو واقعی ناراض کیا ہے؟ یہ سوال ہم نے پشاور سے تعلق رکھنے والے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار علی اکبر کے سامنے رکھا تو انھوں نے کہا کہ ’یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ علی امین گنڈا پور نے ایسا کیا۔ اس سے پہلے لاہور جلسے میں بھی علی امین تاخیر سے پہنچے تھے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’ایسے رویے سے پی ٹی آئی کی عوامی طاقت پر اثر پڑ سکتا ہے۔‘

انھوں نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ماضی کی ریلیوں کی نسبت اس مرتبہ ’پی ٹی آئی کے کارکنان کی تعداد کم تھی۔‘

علی اکبر نے اس تاثر کی طرف اشارہ کیا کہ علی امین عمران خان کے پسندیدہ رہنما ہونے کے ساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بھی اچھے تعلقات رکھتے ہیں۔

علی اکبر کے مطابق یہی وجہ ہے کہ یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ ’وکٹ کے دونوں جانب کھیل رہے ہیں۔‘

ان کا خیال ہے کہ تحریک انصاف کے حلقوں میں بھی یہ رائے پائی جاتی ہے کہ علی امین گنڈاپور اپنی تقریر سے پوری طرح صورتحال کو واضح نہیں کرسکے۔

خیال رہے کہ وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ وہ پورا وقت خیبر پختونخوا ہاؤس میں ہی تھے جہاں پولیس چھاپوں کے باوجود انھیں ڈھونڈ نہ سکی۔

ادھر شوکت یوسفزئی کا اس بارے میں کہنا تھا کہ ’اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ خیبر پختونخوا ہاؤس میں جس طرح کے حالات تھے، وہاں سے نکلنا اور پھر کیسے وہ پشاور پہنچے، سب کچھ علی امین نے بتا دیا تھا۔‘

کیا تحریک انصاف کو قیادت کے فقدان کا سامنا ہے؟

گنڈاپور
KP ASSEMBLY

اسلام آباد میں پی ٹی آئی کا حالیہ پاور شو دو دن تک جاری رہا۔ اس دوران یعنی چار اکتوبر سے چھ اکتوبر کی شام تک ایک بے یقینی کی صورتحال رہی مگر پی ٹی آئی کی قیادت میں صرف علی امین گنڈاپور کا نام نمایاں رہا۔

یاد رہے کہ وہ پی ٹی آئی کے صوبائی صدر ہونے کے علاوہ انتظامی سربراہ بھی ہیں۔ ایک طرف وہ پنجاب اور وفاق کی حکومتوں سے نبرد آزما رہتے ہیں تو دوسری جانب انھیں اپنی جماعت میں بھی اختلاف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

قیادت کے فقدان سے متعلق سوال کے جواب میں محمود جان بابر نے کہا کہ ’صرف ایک شخص پر ہی ساری ذمہ داریاں ڈالنا مناسب نہیں تھا۔ اس میں باقی قیادت کو بھی سامنے آنا چاہیے تھا۔‘

جبکہ شوکت یوسفزئی کہتے ہیں کہ پارٹی پالیسی کے تحت تمام ارکان قومی اسمبلی اور سینیٹرز کو تاکید کی گئی تھی کہ وہ منظر عام پر نہ آئیں اور اس کی ایک وجہ یہ تھی ارکان پر مجوزہ آئینی ترامیم کے لیے دباؤ ڈالا جا سکتا ہے۔

ادھر اسی سوال پر اکرام کھتانہ کا کہنا تھا کہ مرکزی قیادت تو ایک پالیسی کے تحت ہی سامنے نہیں آئی لیکن صوبائی قیادت جن میں صوبائی وزرا اور اراکین اسمبلی شامل ہیں، وہ کارکنوں کے ساتھ ساتھ رہے ہیں۔

ان کے مطابق ’ان میں بعض ایک کی ویڈیوز بھی سامنے آئی ہیں جبکہ ان پر آنسو گیس کی شیل پھینکے گئے جو انھوں نے اٹھا کر دور پھینکے ہیں۔‘

یاد رہے کہ پاکستان میں سال 2022 میں عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد پاکستان تحریک انصاف اور اس کے قائدین مسلسل مشکلات کا شکار رہے ہیں اور اس وقت جماعت میں دوسرے اور تیسرے درجے کی قیادت کے پاس اختیارات ہیں۔

اس دوران بعض رہنماؤں نے پی ٹی آئی سے علیحدگی اختیار کی تھی جبکہ کچھ کو گرفتار کیا گیا تھا۔

پشاور سے احتجاجی ریلی کے ساتھ جانے والے سینیئر صحافی فیضان حسین نے بی بی سی کو اپنی رائے دیتے ہوئے بتایا کہ پشاور سے بڑی تعداد میں لوگ ریلی میں شامل تھے لیکن جب وہ صوبہ پنجاب کی حدود میں داخل ہوئے تو رکاوٹیں شروع ہو گئی تھیں۔

قافلے کے ساتھ لے جائی گئی مشینری کی مدد سے کنٹینرز ہٹائے گئے مگر پھر کارکنان پر شیلنگ کی گئی۔

فیضان حسین نے بتایا کہ انھوں نے اپنے پیشہ ورانہ فرائض کے دوران متعدد احتجاج کوور کیے جن میں آنسو گیس کی شیلنگ اور دیگر طریقے اپنائے گئے لیکن ’اس شیلنگ میں ایسا کیمیکل تھا جس سے ہمارے جسم جلنے لگ گئے تھے۔‘

مظاہرے کی کوریج کرنے والے صحافی پی ٹی آئی کے کارکنان کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ برہان انٹرچینج سے آگے کٹی پہاڑی کو عبور کرنے کے بعد قائدین نے فیصلہ کیا کہ مارگلہ روڈ سے جانا چاہیے جس وجہ سے ڈی چوک تک پہنچنے میں زیادہ مشکلات پیش نہیں آئیں۔

pti
Getty Images

’کارکنوں میں مایوسی پیدا ہوئی‘

پی ٹی آئی کا احتجاج کا اعلان، حکومت کی رکاوٹیں عمران خان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے سب کو لڈی چوک پہنچنے کی تاکید اور علی امین گنڈا پور کا ’کے پی‘ ہاؤس چلے جانا اور مقامی قائدین کی عدم دستیابی۔

یہ سب صورتحال کارکنان کے حوصلے پست کرنے کا سبب بن سکتی ہے؟

اس بارے میں بات کرتے ہوئے علی اکبر نے بتایا کہ ’جس طرح یہ ریلی اسلام آباد پہنچی اور پھر علی امین گنڈاپور اور دیگر مقامی قائدین غائب ہوئے ہیں، اس سے کارکنوں میں مایوسی پیدا ہوئی۔‘

ان کا دعویٰ تھا کہ قائدین کے جانے کے بعد خدشہ تھا کہ مظاہرین کی کوئی سمت متعین نہیں تھی اور اس سے حالات خراب بھی ہو سکتے تھے۔

علی اکبر نے کہا کہ ’حکومت کی حکمت عملی مناسب تھی کیونکہ اتنا خوف پیدا کیا تھا کہ بڑی تعداد میں کارکن ریلی میں شریک نہیں تھے اور جو گئے تھے وہ بھی احتجاج جاری نہیں رکھ سکے اور واپسی کی راہ لے لی تھی۔‘

ادھر بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر حکومت یہ رکاوٹیں کھڑی نہ کرتی اور تحریک انصاف کو جلسہ کرنے کی اجازت دے دیتی تو شاید جو تین روز تک اسلام آباد اور پنجاب کے مختلف شہروں میں حالات کشیدہ رہے، ایسی صورتحال پیدا نہ ہوتی۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.