پاکستان بمقابلہ انگلینڈ: شان مسعود ’بیز بال‘ کا جواب لے آئے

نہ صرف شان مسعود نے اپنی فارم بحالی کی ایک تگڑی اننگز کھیلی بلکہ جس سٹرائیک ریٹ سے انھوں نے یہ بھاری سینچری ترتیب دی، وہ اس اتھارٹی اور عزم کی عکاس تھی جو وہ اپنی ٹیم پہ ثبت کرنا چاہتے ہیں۔ سمیع چوہدری کی تحریر۔
شان مسعود
Getty Images

یہ وہ آغاز نہیں تھا جس کی اولی پوپ کو توقع تھی۔ سیمنگ پچز پہ اپنی مہارتیں نکھارنے والے انگلش بولرز کے لیے دھیمے باؤنس کی ایشین پچز ہمیشہ ہی چیلنج ثابت ہوا کرتی ہیں اور سیریز کے پہلے ہی روز پوپ ٹاس بھی ہار گئے۔

ویسے تو نرم خُو انگلش موسموں کے عادی کھلاڑیوں کے لیے عمومی ایشیائی موسم کی گرمی ہی کم نہیں ہوتی کہ یہاں تو ملتان کی دھوپ سے بھی سامنا تھا جو اعصاب کو ویران کر چھوڑتی ہے۔

اس پہ طرہ یہ کہ انگلش پیس اٹیک تجربے سے بھی خالی تھا۔

پوپ کی بدقسمتی شان مسعود کی خوش قسمتی بن گئی اور انھوں نے اس موقع کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ پچھلے کچھ مہینے شان مسعود کے لیے بہت بوجھل رہے ہیں۔

بطور کپتان پہلے پانچوں میچز میں فتح سے محروم رہنے کے بعد پاکستان کرکٹ کے کسی گوشے سے انھیں کوئی ٹھنڈی ہوا نہیں آ رہی تھی۔

اور صائم ایوب کی بے نیازی نے جب ایٹکنسن کو پہلی وکٹ عنایت کی تو انگلش کیمپ میں یہ امید روشن ہوئی کہ یہ پاکستانی اننگز بھی ان کے اعصاب پہ سوار نہ ہو گی۔ پچھلے پانچ میچز سے پاکستانی بیٹنگ جو فارم دکھا رہی تھی، اس کے تناظر میں متوقع بھی یہی تھا۔

لیکن شان مسعود ایٹکنسن اور کارس کے باؤنس پہ سوار ہوئے اور ان کی جارحانہ اپروچ انہی پہ پلٹا دی۔ اور جب سپنرز کے خلاف شان کے قدم کریز سے نکلے، تبھی گویا واضح ہو گیا تھا کہ یہاں انگلش بولنگ کی آزمائش اور پاکستانی بیٹنگ کا اعتماد دونوں ہی بڑھنے والے تھے۔

نہ صرف شان مسعود نے اپنی فارم بحالی کی ایک تگڑی اننگز کھیلی بلکہ جس سٹرائیک ریٹ سے انھوں نے یہ بھاری سینچری ترتیب دی، وہ اس اتھارٹی اور عزم کی عکاس تھی جو وہ اپنی ٹیم پہ ثبت کرنا چاہتے ہیں۔

ان کی اننگز ’بیز بال‘ بولنگ کا عین درست جواب تھی۔

عبداللہ شفیق
Getty Images

جیسے جیسے شان کی اننگز بڑھی، ویسے ہی محتاط آغاز کرنے والے عبداللہ شفیق کے ہاتھ بھی کھلنے لگے اور طویل غیر حاضری کے بعد ان کے خوبصورت سٹروکس سے جڑی سینچری بھی دیکھنے کو ملی جو مورال کی پستی سے الجھتی بیٹنگ لائن کے لیے بہت حوصلہ افزا تھی۔

لیکن جہاں شان، عبداللہ اور سلمان کی سینچریوں میں پاکستان کے لیے خوشی کا سامان رہا، وہیں بابر اعظم کی بری فارم کا سلسلہ مزید طول پکڑ گیا۔

بابر اور سعود شکیل کی پارٹنرشپ نے برق رفتار پاکستانی اننگز پہ کچھ سستی طاری کی جو شاید میچ کے حتمی نتیجے میں فیصلہ کن ٹھہرے۔

سوموار کی شام کے سیشن میں جب دونوں پاکستانی اوپنرز ڈھیر ہوئے تو اس میں خوبی انگلش بولنگ کی نہیں، بلکہ ملتان کی حدت سے اٹھی وہ تھکاوٹ تھی جو طویل اننگز میں دونوں بلے بازوں کے قدم بوجھل کر گئی۔

مگر اس پارٹنرشپ کے ٹوٹنے سے نہ صرف انگلش بولنگ کا اعتماد بحال ہوا بلکہ کریز پہ آنے والے نئے بلے بازوں نے خود پہ دباؤ کا ایک حصار سا طاری کر لیا جس سے بالآخر ووکس نے فائدہ اٹھایا اور بابر اعظم کی اننگز سمیٹ ڈالی۔

گس ایٹکنسن ٹیسٹ کرکٹ میں نووارد ہیں۔ برائیڈن کارس اپنا پہلا میچ کھیل رہے تھے اور اس اٹیک کے لیڈر کرس ووکس تھے جو کبھی غیر ملکی کنڈیشنز میں اپنی تاثیر ثابت نہیں کر پائے۔ لیکن جو کاوش انگلش پیسرز نے ملتان کی اس بے جان پچ پہ دکھائی، وہ جرات آموز تھی۔

انگلش بولنگ کا ڈسپلن اور پاکستانی مڈل آرڈر کی کم مائیگی رہی کہ پاکستان اپنے متوقع رنز متوقع رن ریٹ پہ جوڑنے سے قاصر رہا۔

جو روٹ
Getty Images

گو، یہ سکور بورڈ پاکستان کے لیے حوصلہ افزا ہے مگر جس رفتار سے انگلش بیٹنگ اپنی اننگز کو بڑھاتی ہے، وہ ہمیشہ حریف کپتانوں اور بولرز کے لیےکوئی الجھن سی رہتی ہے۔ اور اگرچہ پاکستان نے اپنے ماضی کے معیارات سے بہتر رن ریٹ پہ اننگز تشکیل دی ہے مگر ملتان کی اس فلیٹ پچ پہ ٹوٹ پھوٹ میں ابھی ایک دن باقی ہے۔

ایسے میں کل پاکستانی بولنگ کا بھرپور امتحان ہو گا کہ وہ جارح مزاج انگلش بلے بازوں کا راستہ روکنے کو کیسا تحمل اور ضبط اپنا سکتے ہیں۔

گو پاکستانی اننگز کا یہ مجموعہ تشفی بخش ہے مگر ’بیز بال‘ کی رفتار نے ٹیسٹ کرکٹ کی بنیادی حرکیات اس قدر بدل ڈالی ہیں کہ حیران کن انگلش کم بیک کبھی خارج از امکان نہیں ہو سکتا۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.