ملتان کی پچ کے لیے ’بولرز کا قبرستان‘ اور ’ملتان ہائی وے‘ جیسے القابات، پاکستان کے 556 کے باوجود انگلینڈ کا پلڑا بھاری

پہلی اننگز میں ساڑھے پانچ سو رنز کرنے والی پاکستانی ٹیم کو تیسرے روز کے اختتام پر ایک ایسی صورتحال کا سامنا ہے کہ اس وقت میچ کیا رخ اختیار کرے گا اس کا فیصلہ پاکستان نہیں انگلینڈ کی ٹیم کرے گی۔
انگلینڈ کے جو روٹ اور ہیری بروک
Getty Images

’ملتان ہائی وے، بولرز کا قبرستان اور روڈ۔۔۔‘

یہ وہ القابات ہیں جو انگلینڈ اور پاکستان کے درمیان ملتان میں کھیلے جانے والے پہلے ٹیسٹ میچ کے دوران پچ کے بارے میں سوشل میڈیا پر لکھے جا رہے ہیں۔

پہلی اننگز میں ساڑھے پانچ سو رنز کرنے والی پاکستانی ٹیم کو تیسرے روز کے اختتام پر ایک ایسی صورتحال کا سامنا ہے کہ اس وقت میچ کیا رخ اختیار کرے گا اس کا فیصلہ پاکستان نہیں انگلینڈ کی ٹیم کرے گی۔

تیسرے روز کے آخر میں جو روٹ اور ہیری بروک کی سنچریوں اور 243 رنز کی شراکت کے باعث انگلینڈ کو پاکستان کے پہلی اننگز کے سکور 556 رنز کو عبور کر کے برتری حاصل کرنے میں صرف 64 رنز درکار ہیں۔

اس ٹیسٹ میچ کے آغاز سے ہی پچ کے بارے میں بحث سوشل میڈیا پر جاری ہے اور اس حوالے سے پی سی بی پر تنقید کی جا رہی ہے۔

سنہ 2022 میں جب رمیز راجہ انتظامیہ کی جانب سے پچز کو ’نیوٹرل‘ بنانے کی کوشش کی گئی تھی، اس کے بعد سے پاکستان کی ہوم سیریز میں ہر مرتبہ ہی پچز زیرِ بحث رہتی ہیں۔

میچ کے آغاز میں پچ پر کچھ گھاس چھوڑی گئی تھی جس کے بعد یہ امید کی جا رہی تھی کہ شاید پہلے روز پچ فاسٹ بولرز کے لیے سازگار ثابت ہو گی۔

تاہم یہ ملتان میں ماضی کی پچز کی طرح انتہائی فلیٹ پچ ثابت ہوئی اور جہاں پاکستان کی جانب سے تین بیٹرز نے سنچریاں سکور کیں وہیں انگلینڈ کی جانب سے جو روٹ اور ہیری بروک کی جارحانہ سنچریوں اور بین ڈکٹ اورزیک کرالی کی نصف سنچریوں کے باعث صورتحال یہ ہے کہ انگلینڈ کے بولرز پاکستان کے بیٹرز کو مشکل میں ڈال سکتے ہیں۔

جو روٹ اور نسیم
Getty Images

مایوس کن ریکارڈ اور پاکستان کرکٹ کا ابہام

پاکستان کرکٹ ٹیم کے ریکارڈ پر نظر ڈالیں تو گذشتہ 10 ٹیسٹ میچوں میں سے وہ کسی ایک میں بھی ہوم گراؤنڈ پر کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔

اس کی وجوہات میں سے ایک پاکستانی ٹیم کا ہوم گراؤنڈز پر ایسی پچز نہ بنا پانا ہے جو قومی ٹیم کے پاس موجود فاسٹ بولرز کے لیے سازگار ثابت ہوں۔ پاکستانی کپتان شان مسعود میچ سے پہلے کی گئی پریس کانفرنس میں اس بات سے اتفاق کر چکے ہیں کہ پاکستان کو تاحال یہ نہیں معلوم کہ بطور ٹیم کی ان کی قوت کیا ہے اور اس حوالے سے کس قسم کی پچز پاکستانی بلے بازوں اور بولرز کے لیے سازگار ہوں گی۔

پاکستان نے بنگلہ دیش کی ٹیسٹ سیریز سے پہلے گرین پچ بنانے کا فیصلہ کیا تھا اور یہ الٹا ان کے بلے بازوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوا تھا جبکہ اس کے فاسٹ بولرز اس پچ سے وہ مدد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے تھے جو بنگلہ دیشی بلے بازوں کو ملی تھی۔

یوں پاکستان کو بنگلہ دیش نے ہوم گراؤنڈ پر آ کر وائٹ واش کر دیا تھا جو ٹیم کے فاسٹ بولرز کی انجریز، ٹی ٹوئنٹی کرکٹ پر زیادہ توجہ، ایک اچھے سپنر کی کمی اور کمزور ڈومیسٹک کرکٹ ڈھانچے سمیت کئی کمزوریوں کو عیاں کر گئی۔

انگلینڈ کی جارحانہ بیٹنگ لائن اپ نے میچ کے تیسرے روز پچ کے فلیٹ ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ چوتھے اور پانچویں روز تمام دباؤ پاکستانی بلے بازوں پر ہو گا اور پہلے بیٹنگ کر کے آخر اننگز میں انگلینڈ پر دباؤ ڈالنے کی جو برتری کپتان شان مسعود حاصل کرنا چاہتے تھے وہ اب ان کے ہاتھوں سے سرکتی دکھائی دے رہی ہے۔

احمد جمال
Getty Images

ملتان ٹیسٹ کے تیسرے روز پاکستانی بولرز کی کارکردگی کیسی رہی؟

پاکستانی بولرز کی جانب سے آج مختلف پلان بھی آزمائے گئے اور انگلش بولرز کے برعکس گیند ریورس سوئنگ بھی ہوئی لیکن کچھ بدقسمتی آڑے آئی اور کہیں انگلینڈ کے جارحانہ انداز نے پاکستانی بولرز کو مستقل مزاجی سے ایک ہی لائن اور لینتھ پر بولنگ کرنے ہی نہیں دیا۔

دن کے آغاز پر شاہین شاہ آفریدی کی بولنگ پر ہیری بروک نے ایک آسان کیچ احمد جمال کو تھمایا تو پاکستانی بولرز کے لیے امید کی ایک کرن اجاگر ہوئی۔

پاکستانی فاسٹ بولرز نے اس دوران گیند ریورس بھی کرنی شروع اور نسیم شاہ کی گیند بین ڈکٹ کے بیٹ کا باہری کنارہ لیتے ہوئے کیپر اور تیسری سلپ کے درمیان سے گزر گئی۔

جو روٹ اور بین ڈکٹ نے سپنر ابرار احمد کو دباؤ بڑھانے کا موقع نہیں دیا اور ایک ایسی پچ پر جہاں گیند زیادہ سپن بھی نہیں ہو رہی تھی وہاں ابرار احمد اپنا جادو جگانے میں ناکام رہے اور رنز بھی نہ روک پائے اور ان کے 35 اوورز میں 174 رنز بنے اور وہ کوئی وکٹ حاصل کرنے میں ناکام رہے۔

احمد جمال کی جانب سے اچھی بولنگ کا مظاہرہ کیا گیا اور انھیں ریورس سوئنگ ہوتی گیند کا اچھا فائدہ اٹھایا لیکن بدقسمت رہے اور صرف بین ڈکٹ کی ہی وکٹ حاصل کر سکے۔

سب سے اہم بات یہ تھی کہ پاکستان کے تمام ہی بولرز نے چار سے زیادہ کی اوسط سے رنز دیے اور انگلینڈ پورا دن لگ بھگ پانچ کی اوسط سے رنز بناتا رہا اور اس بارے میں نہ تو پاکستانی بولرز اور نہ ہی پچ کچھ خاص کردار ادا کر سکی۔

’یہ تو ہائی وے ہے بھائی‘

سوشل میڈیا پر جہاں پچ پر تنقید کی جا رہی ہے وہیں پاکستانی بولنگ بھی تنقید کی زد میں ہے اور صارفین پہلی اننگز میں بڑا سکور کرنے کے بعد برتری انگلینڈ کو دینے پر پاکستانی بولنگ سے مایوس دکھائی دے رہے ہیں۔

انڈین کرکٹ کمنٹیٹر ہارشا بھوگلے نے ایک پوسٹ میں کہا کہ ’کوئی ٹیم پہلی اننگز میں ساڑھے پانچ سو رنز بنا کر یہ تاثر کیسے دے سکتی ہے کہ مخالف ٹیم کی میچ پر گرفت زیادہ مضبوط ہے۔‘

اس بارے میں میچ کے پہلے ہی روز کیون پیٹرسن نے پچ کو ’بولرز کا قبرستان‘ قرار دیا تھا جبکہ آج انھوں نے کہا کہ یہ آج بھی بولرز کا قبرستان ہے اور یہ اگر آنے والے دنوں میں مددگار ثابت نہ ہوئی تو یہ ٹیسٹ کرکٹ کو تباہ کرنے کی وجہ بن سکتی ہے۔

ایک صارف نے ابرار احمد پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’ابرار احمد ابہام کا شکار دکھائی دے رہے تھے اور ان کی جادوئی بولنگ اب تاریخ کا حصہ بن گئی ہے۔‘

پاکستانی کرکٹ ٹیم اپنی ہوم کنڈیشنز میں ایسے کھیلتی ہے جیسے کسی دوسرے ملک میں کھیل رہی ہو۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.