کوریا کی ’جل پریاں‘ جنھوں نے ملالہ یوسفزئی کو تیراکی سیکھنے پر مجبور کیا

امریکی کورین فلم ساز سو کم نے پاکستان سے تعلق رکھنے والی نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی کے ساتھ مل کر ہینیو خواتین کو اپنی کہانی دنیا کے ساتھ شیئر کرنے پر آمادہ کیا۔
سو کم، ملالہ یوسفزئی
Apple

اگر کوئی آپ کو یہ بتائے کہ جل پریاں حقیقت میں ہوتی ہیں تو۔۔۔؟ مچھلی جیسی دم کو بھول جائیں، ہمارا مطلب ہے کہ ایسی خواتین جو دن میں کئی بار سمندر میں غوطے لگاتے ہوئے اپنی سانسیں منٹوں تک روکنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

یہ جنوبی کوریا کی ہینیو غوطہ خور ہیں۔ یہ جیجو جزیرے پر خواتین کی ایسی کمیونٹی ہے جو صدیوں سے سمندری غذا کی کٹائی کے لیے آکسیجن کے بغیر غوطہ خوری کر رہی ہیں۔

ان میں سے اب زیادہ تر کی عمریں 60، 70 یا 80 برس ہے۔ ان کی روایات اور طرز زندگی اب خطرے سے دوچار ہے کیونکہ بہت کم تعداد میں نوجوان خواتین اس پیشے کا انتخاب کر رہی ہیں جبکہ سمندر میں بھی تبدیلیاں آ رہی ہیں۔

یہ ہی وہ حقائق ہیں جن کی وجہ سے امریکی کورین فلم ساز سو کم نے پاکستان سے تعلق رکھنے والی نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی کے ساتھ مل کر ان خواتین کو اپنی کہانی دنیا کے ساتھ شیئر کرنے پر آمادہ کیا۔

کم امریکہ میں پیدا ہوئیں لیکن ان کے والدین کوریا سے ہجرت کر کے یہاں آئے تھے۔ کم نے ہینیو خواتین کو اس وقت پہلی بار دیکھا جب وہ بچپن میں جنوبی کوریا چھٹیاں گزارنے گئیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں ان ہی وجوہات کی بنا پر ان خواتین سے متاثر ہوئی جو آپ کو فلم میں نظر آتی ہیں۔ وہ ناقابل یقین حد تک بے باک اور پراعتماد تھیں۔ ان کی آواز بہت اونچی تھی۔ لڑنا اور ہنسنا اور انھیں دیکھ کر بہت اچھا محسوس ہوتا۔‘

’میں چھوٹی بچی ہی تھی جب مجھے ان کی مثبت توانائی سے محبت ہو گئی اور بڑے ہوتے ہوئے بھی میں ان کے سحر میں گرفتار رہی۔ یہ کورین خواتین کا وہ روپ تھا جس سے میں متاثر ہوئی اور میں خود بھی اسے اپنانا چاہتی تھی۔‘

اس فلم کی پرڈیوسر ملالہ یوسفزئی وضاحت کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ ’مجھے بہت صدمہ ہوا کہ مجھے ان خواتین کے بارے میں نہیں پتا تھا۔ بہت سے لوگ ان کے بارے میں نہیں جانتے تھے، اسی لیے میں نے فوراً ہاں کہہ دیا۔‘

ہینیو
Apple

سو کم کے مطابق 10 برس قبل جب مجھے یہ پتہ چلا کہ یہ ہینیو کی ممکنہ طور پر آخری نسل ہے تو مجھے لگا کہ اس فلم پر فوری کام کرنا چاہیے۔

’جب تک وہ ہم میں موجود ہیں اور ہمیں اپنی کہانی اپنے الفاظ میں سنا سکتی تو ان خواتین کی زندگی کو دستاویزی شکل دینا ایک فوری مینڈیٹ بن گیا۔‘

فلم کی کہانی زیر سمندر کٹائی کے موسم کے دوران ان خواتین کے مشکل کام اور ان چیلنجز کا احاطہ کرتی ہے، جن کا سامنا انھیں پانی کے اندر اور باہر دونوں طرف ہوتا ہے۔

وہ صبح چھ بجے گھر سے نکلتی ہیں۔ وہ کچھ منٹوں کے لیے اپنا سانس روکے رکھتی ہیں، دوبارہ سطح سمندر پر آتی ہیں اور پھر سمندر کی تہہ میں چلی جاتی ہیں۔ وہ ہر سیشن میں 100 سے 300 مرتبہ ایسا کرتی ہیں۔

ذرا ان کی فٹنس کے بارے میں سوچیے۔ وہ چار گھنٹے تک کٹائی کا کام کرتی ہیں

اس بارے میں بہت سے نظریات ہیں کہ کیوں ان خواتین نے برسوں پہلے روایتی طور پر مردوں کا یہ کام سنبھالا۔

وزٹ جیجو کی ویب سائٹ کے مطابق یہاں کی آبادی میں مردوں کی تعداد مجموعی طور پر کم تھی کیونکہ ان میں سے ایک بڑا حصہ ماہی گیری کے دوران سمندر میں مر جاتا۔

نتیجتاً اس مشکل کام کے لیے زیادہ مرد نہیں تھے اور اسی لیے خواتین نے آہستہ آہستہ یہ کام سنبھال لیا۔

’اداس نانی والی شبیہ‘

ہینیو کے بارے میں یہ پہلی تفصیلی ڈاکیومینٹری ہے اور کم کا کہنا ہے کہ اس کے لیے ان خواتین تک رسائی حاصل کرنا کافی مشکل تھا۔

وہ وضاحت کرتی ہیں کہ ’ہینیو کمیونٹیز بہت غیر معمولی ہیں۔ وہ دیہی کمیونٹیز ہیں اور ماہی گیری کے گاؤں میں رہتی ہیں۔ وہ جیجو شہروں میں زیادہ رابطے میں نہیں رہتیں۔‘

کم نے ایک ریسرچر کو تلاش کیا جن کے مختلف این جی اوز اور اس کمیونٹی میں رابطے تھے۔

’تو اس خاتون نے ہمارا ان کمیونٹی کی خواتین سے تعارف کروایا۔ مجھے ان کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے وہاں دو ہفتے تک رہنا پڑا اور میں نے ایسا ان کی باتیں سن کر کیا۔‘

’وہ دراصل ان تمام چیزوں کے بارے میں بات کرنا چاہتی تھیں جو ان کے ساتھ ہو رہی تھیں۔ وہ اس حقیقت کے بارے میں بات کرنا چاہتی تھیں کہ وہ معدومیت کے دہانے پر ہیں۔ وہ اس بارے میں بھی بات کرنا چاہتی تھیں کہ سمندر کے ساتھ کیا ہو رہا ہے اور کسی کو بھی یہ جاننے میں دلچسپی یا فکر نہیں۔‘

کم کہتی ہیں کہ ’انھیں ان خواتین کو اس بات کی یقین دہانی کرانا پڑی کہ انھیں دقیانوسی خیالات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا اور نہ ہی ان پر اس لیے ترس کھایا جائے گا کہ وہ اس عمر میں کام کر رہی ہیں۔‘

’انھیں کام کرنا بہت پسند ہے۔ ان کے خیال میں وہ بہت طاقتور اور پر اعتماد ہیں۔‘ کم نے ان خواتین کو بتایا کہ وہ انھیں ان کی ’حقیقی طاقت میں ہی دکھائیں گی۔‘

’میں نے ان سے وعدہ کیا کہ میں آپ کی اداس دادی یا نانی والی شبیہ پیش نہیں کروں گی کیونکہ میں انھیں ایسے نہیں دیکھتی۔ میرے لیے آپ ہیروز ہیں اور اس کے بعد ہم ایک فیملی بن گئے۔‘

ہینیو غوطہ خور
Apple

خطرات بڑے ہیں لیکن اس کے باوجود اس کام کے لیے کوئی انشورنس نہیں۔ اب سمندر اور خواتین کا ذریعہ معاش بھی خطرے میں ہے۔

گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں سمندری حیات کم ہو رہی ہے اور آکسیجن کے بغیر گہرے پانی میں غوطہ لگانا زیادہ مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

فلم کا زیادہ تر حصہ اس بارے میں ہے، جب یہ خواتین جاپان کے فوکیشما پلانٹ سے سمندر میں پانی چھوڑنے کے خلاف احتجاج کرتی ہیں، جس کے نتیجے میں ایک ہینیو سون ڈیوک جنگ جنیوا میں اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کی کونسل پہنچ جاتی ہیں۔

اس بارے میں بعض ماہرین کی رائے ہے کہ پانی کا یہ اخراج محفوظ ہے اور جوہری نگرانی کے بین الاقوامی ادارے نے اس کی اجازت دی ہے لیکن تمام سائنسدان اس کے اثرات پر متفق نہیں۔

ہینیو چونکہ سمندر میں کٹائی کرتے ہیں تو اس بارے میں ضوابط موجود ہیں کہ انھیں کب کس سمندری غذا کی کٹائی کی اجازت ہے۔

ہینیو
Apple

لیکن سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ اب بہت ہی کم نوجوان خواتین اس مشکل پیشے کو اپنانے کا انتخاب کرتی ہیں۔

2000 کی دہائی کے اوائل میں ایک تربیتی سکول بھی قائم کیا گیا تھا تاکہ کم ہوتی اس تعداد کو بڑھایا جا سکے لیکن اس سکول جانے والی صرف پانچ فیصد خواتین نے ہی ہینیو بننے کا فیصلہ کیا۔

لیکن ایسا بھی نہیں کہ سب کچھ کھو گیا۔ یہ فلم ہمیں ایک دوسرے جزیرے کی دو نوجوان خواتین سے بھی متعارف کرواتی ہے، جو اس کام کے لیے نرم اوقات کے بارے میں بات کرتی ہیں تاکہ خواتین کی فیملی لائف متاثر نہ ہو۔

ان میں سے ایک خاتون کو یہ کام کرنے کے لیے 30 سال کی عمر میں تیراکی سیکھنا پڑتی ہے۔

ملالہ یوسفزئی ان خواتین سے متاثر ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’جب میں ان خواتین کو دیکھتی ہوں کہ وہ کس طرح مل کر کام کرتی ہیں، تو اس سے مجھے یاد آتا ہے کہ کیسے خواتین ہر جگہ اجتماعی طور پر کر رہی ہیں، جیسے کہ افغان خواتین جو اپنے خلاف ہونے والے منظم جبر کے بارے میں آگاہی پیدا کر رہی ہیں۔‘

ملالہ مزید کہتی ہیں کہ ’میں چاہتی ہوں کہ جب کوئی بھی لڑکی اس فلم کو دیکھے تو وہ خود پر یقین کرے کہ وہ کچھ بھی حاصل کر سکتی ہے۔ وہ بھی پانی کے نیچے دو سے تین منٹ تک سانس روکے رہ سکتی ہے۔‘

’اور ہاں مجھے بھی اب تیراکی سیکھنے کے لیے کلاسز لینی ہیں۔ مجھے ابھی تیراکی نہیں آتی لیکن ان خواتین نے مجھے متاثر کیا کہ میں تیراکی سیکھوں۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.