اتوار کے دن شمالی اسرائیل میں بن یامینا فوجی اڈے پر حزب اللہ کے حملے میں چار فوجی ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے جو اب تک ملک میں ہونے والا سب سے نقصاندہ ڈرون حملہ تھا۔لیکن سست رفتار اور چھوٹے ڈرون اسرائیلیوں کے لیے ’جان لیوا درد سر‘ کیوں بن چکے ہیں؟
سست رفتار اور چھوٹے لیکن کم خرچ میں تیار ہونے والے ڈرون اسرائیلیوں کے لیے ایک جان لیوا درد سر بن چکے ہیں۔
اتوار کے دن شمالی اسرائیل میں بن یامینا فوجی اڈے پر حزب اللہ کے حملے میں چار فوجی ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے جو اب تک ملک میں ہونے والا سب سے نقصاندہ ڈرون حملہ تھا۔
تاہم اس حملے کے بعد اسرائیل کے انتہائی مہنگے فضائی دفاعی نظام کے بارے میں سوال جنم لے رہے ہیں کہ یہ سسٹم ایسے حملوں کو روکنے کی کتنی اہلیت رکھتے ہیں۔
سوموار کے دن متاثرہ فوجی اڈے کا دورہ کرنے والے اسرائیلی وزیر دفاع نے کہا تھا کہ ’مستقبل میں ایسے ڈرون حملوں کا توڑ تلاش کرنے کے لیے کافی کوششیں ہو رہی ہیں۔‘
اسرائیلی فضائی دفاعی نظام کے چند حصے یقینا منظم طریقے سے کام کرتے ہیں۔ شمالی اسرائیل میں ہم نے وقفے وقفے سے دھماکوں کی آواز سنی جب آئرن ڈوم نے جنوبی لبنان سے حزب اللہ کے داغے جانے والے راکٹوں کو نشانہ بنایا۔ اسرائیل کا دعوی ہے کہ 90 فیصد تک اہداف کو نشانہ بنایا گیا۔
لیکن آئرن ڈوم اس لیے بھی اپنا کام کر پاتا ہے کیوں کہ حزب اللہ کے راکٹ کافی بنیادی نوعیت کے ہیں اور یہ ممکن ہوتا ہے کہ اس بات کا اندازہ لگایا جا سکے کہ یہ راکٹ کہاں جا کر گریں گے اور اسی لیے انھیں روکا جا سکتا ہے۔ لیکن ڈرون کو روکنا زیادہ پیچیدہ کام ہے اور اس جنگ میں یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا سامنا بار بار ہو رہا ہے۔
جولائی میں یمن سے حوثی باغیوں نے ایک ڈرون بھیجا جو تل ابیب تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ اکتوبر میں اسرائیلی فوج کے مطابق عراق سے داغے جانے والے ایک ڈرون نے گولان کی پہاڑیوں پر دو فوجیوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ چند ہفتوں ہی بعد ایک اور ڈرون وسطی اسرائیل میں ایک نرسنگ ہوم پر جا گرا۔
ڈاکٹر یہوشا کلسکی تل ابیب میں نیشنل سکیورٹی سٹڈیز کے انسٹیٹیوٹ میں سینئر ریسرچر ہیں۔ انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’زیادہ تر ڈرون ایران میں بنے ہیں اور پھر یہ لبنان، عراق اور یمن میں ایرانی حمایت یافتہ گروہوں کو مہیا کر دیے جاتے ہیں۔‘
واضح رہے کہ ڈرون کو ریڈار کی مدد سے پکڑنا مشکل ہوتا ہے کیوں کہ یہ بہت ہی نچلی سطح پر اڑ سکتے ہیں۔ ریڈار پر ایسے ڈرون پرندوں کی طرح نظر آتے ہیں۔
ڈاکٹر یہوشا کلسکی وضاحت کرتی ہیں کہ ’ان کو لڑاکا طیاروں کی مدد سے روکنا بھی اس لیے مشکل ہوتا ہے کیوں کہ یہ بہت سست رفتار ہوتے ہیں اور 200 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتے ہیں جبکہ لڑاکا جیٹ طیارہ 900 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے اڑتے ہیں۔‘
اسرائیلی میڈیا رپورٹس میں عندیہ دیا گیا ہے کہ اتوار کو حزب اللہ کے دو ڈرون، جو غالبا ’زیاد 107‘ تھے، لبنان کی جانب سے داغے گئے تھے جن میں سے ایک کو مار گرایا گیا جبکہ دوسرا غائب ہو گیا اور گمان کر لیا گیا کہ وہ گر کر تباہ ہو گیا۔ تاہم بعد میں یہ ڈرون ایک فوجی اڈے کی کنٹین پر جا گرا۔
الما ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی سریت زہانی کہتی ہیں کہ ’ڈرون صرف قسمت کی وجہ سے ہی نہیں بچ نکلتے۔‘ وہ کہتی ہیں کہ ’یہ منصوبہ تھا اور بہت عرصے سے وہ ایسا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
سریت زہانی لبنان کی سرحد سے نو کلومیٹر کے فاصلے پر رہتی ہیں اور انھوں نے اتوار کے دن پیش آنے والے واقعات اپنے گھر کی بالکنی سے دیکھے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ڈرون حملہ ہوتے ہی راکٹ فائر ہوئے اور سرحد پر الرٹ جاری ہونا شروع ہوئے جبکہ فضائی دفاعی نظام انھیں روکنے میں ناکام رہا۔‘
ان کے ادارے نے اب تک تقریبا 559 ایسے واقعات ریکارڈ کیے ہیں جن میں اسرائیل کی شمالی سرحد سے ڈرون جاسوسی یا حملے کے ارادے سے لبنان کی جانب سے داخل ہوئے۔ اتوار کو فوجی اڈے پر ہونے والے حملے کے علاوہ ان کے مطابق اب تک ڈرون 11 افراد کو ہلاک کر چکے ہیں۔
آئرن ڈوم نامی دفاعی نظام کے علاوہ ’داؤد کی غلیل‘ سمیت ’ایرو ٹو‘ اور ’ایرو تھری‘ نامی دفاعی نظام بھی اسرائیل میں فعال ہیں جو بیلسٹک میزائل تباہ کرنے کے لیے بنائے گئے۔ جلد امریکی ’تھاڈ‘ نظام بھی اسرائیل میں نصب ہو جائے گا۔
فی الحال اسرائیل ڈرون حملے روکنے کا کوئی مستقل حل تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
ڈاکٹر یہوشا کلسکی کہتی ہیں کہ ’انتہائی طاقتور لیزر پر کام ہو رہا ہے جبکہ ایک اور ٹیکنالوجی مائیکرو ویو توپ کی ہے جس سے ڈرون کی الیکٹرانکس کو جلا دیا جائے گا۔‘
ان کو امید ہے کہ یہ نئی ٹیکنالوجی مستقبل قریب میں اسرائیل کو دستیاب ہو سکے گی۔