ڈیڑھ کروڑ پاکستانی نوجوان منشیات کی لت میں مبتلا

image

تازہ ترین اعدادوشمار اورماہرین صحت کےعلاوہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذمہ دار عہدیداروں نے انکشاف کیا ہے کہ ڈیڑھ کروڑپاکستانی نوجوان منشیات کی لت میں مبتلا ہیں۔

ہم انویسٹی گیٹس کومختلف سرکاری و غیرسرکاری حکام نے بتایا ہے کہ اس وقت 25مختلف اقسام کا غیرقانونی اور صحت کے لیے خطرناک نشہ، 80 سے زائد نشہ آور گولیاں، کیپسولز اورمائع حالت میں نشہ آور مشروب تقریباً ڈیڑھ کروڑ سے زائد پاکستانیوں کے زیراستعمال ہیں۔

تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ تیس لاکھ طلباوطالبات نشے کی اس لت کا شکار ہیں، لگ بھگ تین ہزار سے زائد تعلیمی اداروں اور دوہزار سے زائد دفاترکا معائنہ کیا گیا ہے جس سے انکشاف ہوتا ہے کہ نشہ کی لت کا شکار زیادہ ترنوجوان ہیں۔ اگرچہ منشیات کا باقاعدہ استعمال کرنے والوں کی اس کثیر تعداد کا مستند دستاویزی ثبوت موجود نہیں لیکن ایسے ماہرین بھی نہیں ملتے،جو منشیات استعمال کرنے والوں کی تعداد ڈیڑھ کروڑ سے کم ہونے کا دعویٰ کرتے ہوں۔

ہماری ٹیم نے بین الاقوامی اداروں سے تفصیلات حاصل کی جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح پاکستان میں ڈرگ کی روک تھام کیلئے حکومتی ادارے پوری طرح توجہ نہیں دے رہے۔

تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ چار سو سے زائد پولیس اور نارکوٹکس کنڑول کے اہلکاروں کو پچھلے پانچ سال میں نشہ کے کاروبار میں ملوث ہونے کی وجہ سے نوکریوں سے فارغ کردیاگیا ہے۔

تفصیلات سے پتہ چلتا ہے کہ انسانی صحت کے لیے خطرناک ترین نشے کی زیادہ تر اقسام بڑے شہروں کے پوش علاقوں سے لے کر چھوٹے قصبوں، دیہات حتی کہ تعلیمی، سرکاری دفاتر، شمالی علاقہ جات اور کئی دوسرے تفریحی مقامات پر بھی آسانی سے دستیاب ہیں۔

قانون نافذ کرنے والے سرکاری اداروں نے کئی ایسے تین سوسترسے زائد منشیات فروش گینگ گرفتار کیے  ہیں جو بین الاقوامی کورئیر کمپنیوں کے ذریعے ملک بھر میں آسانی کے ساتھ منشیات سپلائی کررہے تھے۔

بہت سے منشیات فروش گینگزسوشل میڈیا پلیٹ فارم استعمال کررہے ہیں، بڑے شہروں میں مخصوص پارٹیاں اور فنکشنز ہر قسم کے نشہ کی فراوانی اور دستیابی کے ساتھ منعقد ساتھ منعقد کیے جاتے ہیں۔

ہم انویسٹی گیٹشن کی ٹیم کئی ماہ سے منشیات کی ملک میں فراوانی اور اس کے بہت زیادہ استعمال کے بارے میں تحقیق کررہی تھی جس میں سامنے آنے والے حقائق اور اعدادوشمار بہت حیران کن اور خوفناک ہیں۔

قانون نافذ کرنے واے اداروں کی رپورٹ اور بیانات سےپتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں نوجوانوں اور خاص طور پر طالب علموں کی بہت بڑی تعداد اس مہلک نشے کی وبا اور علت کی لپیٹ میں آچکی ہے اور ایک تازہ ترین خفیہ رپورٹ کے مطابق ہر دسواں طالب علم نشے کا عادی ہے۔

پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں کئی منشیات فروش گینگز اِن اداروں میں سرگرم عمل ہیں ، ہم انویسٹی گیٹس کی ٹیم نے دارالحکومت اسلام آباد اور جڑواں شہرراولپنڈی کے سب سے بڑے ڈرگ ڈیلر کو اس تحقیقاتی رپورٹ کے لیے معلومات فراہم کرنے پر راضی کیا،جس نے اسلام آباد،راولپنڈی،لاہور،کراچی غرض پورے ملک میں ڈرگز کے اس کاروبار اور اس کے ہم انویسٹی گیشن کی ٹیم نے اس ڈرگ ڈیلر کے ساتھ راولپنڈی کے ایک خفیہ مقام پر اس شرط پر ملاقات کی ۔

برسوں سے منشیات کے کاروبار سے منسلک اس ڈیلر کا دعویٰ ہے کہ وہ کاروبار کر رہا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ڈرگز کاا ستعمال اب ایک فیشن بن چکا ہے اور اس کے بغیر گزارہ ممکن نہیں۔

ملک کے سب سے بڑے صوبے کی پولیس کے ایک سابق سربراہ نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ہم انویسٹی گیشن کو بتایا کہ جب پولیس کے ملازمین خود نشہ کریں گے، نشے کا کاروبار کریں گے تو وہ صوبے میں تیزی کے ساتھ بڑھتی ہوئی نشے کی لعنت کو کیوں روکیں گے؟

خود پنجاب پولیس کی طرف سے مرتب کی گی ایک رپورٹ میں یہ انکشاف سامنے آیا ہے کہ صوبے بھر میں 250 سے زائد پولیس ملازمین منشیات کے غیر قانونی کاروبار سے براہ راست منسلک ہیں۔ پنجاب پولیس کی سرویلنس برانچ کی اس رپورٹ کے مطابق چھوٹے رینک کے ملازمین سے لے کر اعلیٰ عہدوں پر موجود پولیس افسران جن کی تعداد سینکڑوں میں ہے، صوبے میں چرس ہیروئن اور آئس کی تجارت اور نقل وحمل میں براہ راست ملوث ہیں۔

ہم انویسٹی گیٹس کی ٹیم کو معلوم ہوا ہےکہ آئی جی پنجاب کو پیش کی جانے والی اس رپورٹ میں موجود معلومات کی بنیاد پر محکمانہ سطح پر گرفتاریوں اور تفتیش کا کام شروع ہوچکا ہے۔

منشیات کی اسمگلنگ میں ملوث کرداروں اور نیٹ ورکس کی صورت حال یہ ہے کہ اب کاروبارصرف مقامی لوگوں کے ہی پاس نہیں بلکہ اس میں بین الاقوامی گروہ بھی شامل ہو چکے ہیں۔

پنجاب پولیس نے گزشتہ ماہ چاکلیٹس اور ٹافیوں میں خطرنا ک ترین نشہ سپلائی کرنے والے ایک انٹرنیشنل گروہ جارڈن گینگ کو گرفتار کیا۔ منشیات سپلائی کرنے والا یہ گینگ ڈرگز سے بھری امپورٹڈ چاکلیٹس کوریئرسروس کے ذریعے فروخت کر رہا تھا۔

دوسری طرف منشیات کے عادی افراد کے علاج کے لیے ریاستی سطح پر ایک مکمل سردمہری پائی جاتی ہے۔مختلف غیر سرکاری اداروں، انسداد منشیات کے سرکاری اداروں اور کئی تحقیقاتی اداروں کی طرف سے پیش کیے جانے والے اعدادوشمار کے مطابق اس وقت ملک میں نشے کے عادی افراد کی تعداد ڈیڑھ کروڑ کے قریب ہے اور اس میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔

ملک میں منشیات کے استعمال کی اس غیر معمولی لہر اور منشیات اسمگلروں کی یلغار کے پیش نظر ایسے بحالی مراکز یعنی ری ہیب سنٹرز کی جتنی ضرورت ہے، اس کا عشر عشیر بھی ملک میں موجود نہیں۔

اے این ایف اور وزارت صحت کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق ملک بھر میں سات ماڈل ٹریٹمنٹ، ری ہیب سینٹرز اور اینٹی کریشن سینٹرز قائم کیے گئے ہیں۔ یہ سینٹرز کراچی، سکھر، حیدرآباد، اسلام آباد اور کوئٹہ میں قائم کیے گئے ہیں جب کہ دوسری جانب منشیات کی عادت کی روک تھام کے لیے پنجاب کے 10ہسپتالوں میں ماڈل ڈرگ ابیوز سینٹرز قائم کیے گئے ہیں۔

سرکاری اعدادوشمار کے مطابق خیبر پختونخواہ میں صوبائی حکومت کی نگرانی میں ایک ری ہیب سینٹر کام کررہا ہے۔ اس قسم کے ری ہیب سینٹرز کا عملہ معلومات کی فراہمی میں میڈیا کے ساتھ تعاون نہیں کرتا اور ایسے سینٹرز جو کاروباری ادارے یا افرادچلاتے ہیں وہاں پر ہونے والے علاج کے بارے میں بہت سے سوالات اُٹھائے جاتے ہیں۔

ہم انویسٹی گیشن کی ٹیم نے اینٹی نارکوٹکس اور تمام حکومت متعلقہ ذمہ داران کو انکے موقف کیلئے کئی بار لکھا کہ  پچھلے دس سال میں نشے کے لت میں مبتلا افراد کی نشاندہی کے لئے سروے کیوں نہیں کرایا گیا؟ لیکن متعلقہ حکام اس موضوع پر بات کرنے سے گریزاں تھے۔

نوٹ:

(اس رپورٹ کو تیار کرنے میں مجاہد حسین اور ابوبکر خان نے بھی معاونت کی ہے)


News Source   News Source Text

مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.