لاہور میں نجی کالج کی طالبہ کے مبینہ ریپ کے دعوے اور احتجاج: اب تک کیا حقائق سامنے آئے ہیں؟

پاکستان کے شہر لاہور میں ایک نجی کالج کی طالبہ کے مبینہ ریپ کی خبر گذشتہ دنوں سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد شروع ہونے والا طلبا کا احتجاج، حکومت پنجاب کی جانب سے تحقیقاتی کمیٹی کی تشکیل کے بعد بھی تھمتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا۔ بی بی سی نے اس حوالے سے حقائق جاننے کی کوشش کی ہے۔
لاہور احتجاج
Getty Images

پاکستان کے شہر لاہور میں ایک نجی کالج کی طالبہ کے مبینہ ریپ کی خبر گذشتہ دنوں سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد شروع ہونے والا طلبا کا احتجاج، حکومت پنجاب کی جانب سے تحقیقاتی کمیٹی کی تشکیل کے بعد بھی تھمتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا اور منگل کو بھی لاہور شہر میں مختلف کالجوں کے طلبا و طالبات نے بڑے پیمانے پر احتجاج کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ اس مبینہ واقعے میں ملوث ملزمان کی گرفتاری تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔

پنجاب پولیس کے مطابق سوشل میڈیا پر چند روز قبل سامنے آنے والی ایک خبر میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ’پنجاب کالج‘ کے خواتین کے لیے مخصوص گلبرگ کیمپس میں فرسٹ ایئر کی ایک طالبہ کو اُسی کالج کے ایک سکیورٹی گارڈ نے مبینہ طور پر ریپ کا نشانہ بنایا۔

ساتھ ہی ساتھ احتجاج کرنے والے طلبا کی جانب سے یہ دعوے بھی سامنے آئے کہ کالج کی انتظامیہ مبینہ طور پر اس واقعے کو چھپانے کی کوشش کر رہی ہے اور اس اس حوالے سے دستیاب تمام شواہد بھی ختم کر دیے ہیں۔

طلبا یہ الزام بھی عائد کرتے دکھائی دیے کہ اُن کے کالج کے مالکان اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے پاکستان کے مقامی میڈیا پر بھی یہ خبر نشر نہیں ہونے دے رہے ہیں۔

پنجاب کالج کی انتظامیہ نے ایسے تمام تر الزامات کی تردید کی اور پولیس کے مطابق اُن کا موقف ہے کہ ایسا کوئی واقعہ پیش ہی نہیں آیا۔ کالج انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ تحقیقات میں پنجاب حکومت اور پولیس کے ساتھ مکمل تعاون کر رہی ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر یہ ریپ سے متعلق غیر مصدقہ اطلاعات وائرل ہونے کے بعد پنجاب کالج کے طلبا نے پیر کو کالج کی کچھ برانچوں کے باہر احتجاج کیا جو کالج کے سکیورٹی عملے کی طرف سے طلبہ پر لاٹھی چارج کیے جانے کے بعد پُرتشدد رُخ اختیار کر گیا۔

پیر کے روز مشتعل طلبہ نے کالج کی سکیورٹی کے ذمہ داران اور انتظامیہ کے افراد کے علاوہ حالات پر قابو پانے کے لیے بھیجے گئے پولیس اہلکاروں پر بھی پتھراؤ کیا اور کئی مقامات پر آگ لگا کر سڑکیں بھی بلاک کر دیں۔

حکام کے مطابق اِن پرتشدد مظاہروں میں 20 سے زیادہ افراد زخمی ہوئے جن میں زیادہ تعداد طلبا کی تھی۔

پُرتشدد احتجاج کے بعد پنجاب کی وزیراعلٰی مریم نواز نے واقعے کی تحقیقات کا حکم دیا جبکہ پولیس کی جانب سے اُس سکیورٹی گارڈ کو بھی حراست میں لے لیا گیا جسے مظاہرین کی جانب سے اس واقعے کا ملزم قرار دیا جا رہا تھا۔

پیر ہی کے روز پولیس کی جانب سے طلبا اور عوام سے اپیل کی گئی اگر ان کے پاس اس واقعے سے متعلق کوئی تفصیل موجود ہے تو وہ پولیس کے ساتھ شیئر کی جائے۔

منگل کی صبح جہاں طلبہ اس واقعے کے ذمہ داران کو سزا دلوانے کے لیے ایک بار پھر لاہور کی سڑکوں پر نکلے وہیں پنجاب پولیس کا کہنا ہے کہ ابتدائی چھان بین اور تحقیقات کے بعد تاحال کسی ایسی لڑکی کے بارے میں معلومات سامنے نہیں آ سکی ہیں جسے مبینہ طور پر ریپ کیا گیا۔

منگل کی دوپہر پنجاب پولیس کی جانب سے ایک مرتبہ پھر عوام سے اپیل کی گئی کہ اس واقعے کے بارے میں اگر کسی شہری کے پاس کوئی بھی معلومات ہیں تو پولیس سے رابطہ کریں اور اطلاع دینے والے کا نام صیغہ راز میں رکھا جائے گا۔

پاکستان کے سوشل میڈیا پر اب بھی اس واقعے کو لے کر بحث جاری ہے جس میں بہت سے پہلو غیر واضح ہیں۔

تو ایک نظر دیکھتے ہیں کہ لاہور میں طلبا کی طرف سے احتجاج اور مظاہروں کا تعلق جس مبینہ واقعے سے ہے، اس کے حوالے سے اب تک کیا حقائق سامنے آئے ہیں۔

متاثرہ لڑکی اور لواحقین کی تلاش: پولیس کیا کہتی ہے؟

اسسٹنٹ سپرٹنڈنٹ آف پولیس ڈیفنس شہربانو نقوی نے بی بی سی اُردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اب تک کی تحقیقات کے مطابق ایسے کسی واقعے کے شواہد نہیں مل پائے ہیں جس میں کالج کی کسی لڑکی کو ریپ کیا گیا ہو۔

انھوں نے بتایا کہ احتجاج کرنے والے طلبا اور اس معاملے پر دعوے کرنے والے افراد کی طرف سے جن لڑکیوں کے ناموں کے حوالے سے بات کی جا رہی تھی، پولیس نے اُن تمام کے گھروں میں جا کر چھان بین کی اور ’کسی بھی لڑکی یا ان کے والدین نے پولیس سے ایسی کوئی شکایت کی اور نہ ہی ایسے کسی واقعے کی تصدیق کی۔‘

سوشل میڈیا پر ایسی خبریں بھی گرم تھیں کہ اس واقعے کے بعد لڑکی کو زخمی حالت میں لاہور کے ایک نجی ہسپتال منتقل کیا گیا۔ اس بارے میں شہربانو نقوی کا کہنا تھا کہ ہسپتال میں موجود لڑکی کے والد اور چچا نے پولیس کے رابطہ کرنے پر یہ وضاحت کی کہ ان کی بچی کا نام غلط طور پر اس معاملے میں لایا جا رہا ہے۔

اُن کے مطابق پولیس نے اپنے طور پر مذکورہ نجی ہسپتال جا کر تمام چھان بین کی اور اس ہسپتال میں بھی ریکارڈ چیک کیا، جہاں اس بچی کو چوٹ لگنے پر لے جایا گیا تھا اور پولیس کو کسی قسم کے ریپ کے واقعے کا کوئی ریکارڈ یا شواہد نہیں ملے ہیں۔

اس سلسلے میں لاہور پولیس کی جانب سے پیر کی شام ایک ویڈیو بھی شیئر کی گئی جس میں شہربانو نقوی کے ساتھ موجود دو افراد جنھیں زیرِ علاج لڑکی کا والد اور چچا بتایا گیا، کہتے دیکھے جا سکتے ہیں کہ ’واقعے سے متعلق سوشل میڈیا پر کافی ویڈیوز وائرل ہوئی ہیں، اس میں ہماری بچی کا نام لیا جا رہا ہے، ہماری بچی گھر پر پاؤں پھسلنے سے گری اور اسے ریڑھ کی ہڈی پر چوٹ لگی جس کے بعد اسے آئی سی یو میں لے جایا گیا۔‘

اُن کا کہنا تھا کہ انھوں نے بچی کی میڈیکل رپورٹ اور تمام متعلقہ معلومات پولیس کو دے دی ہیں۔

شہربانو نقوی کے مطابق ’اس لڑکی کے والد اور چچا نے پولیس سے کہا ہے کہ اس واقعے کا جنسی تشدد یا پنجاب کالج کے معاملے سے کوئی تعلق نہیں اور انھوں نے درخواست کی ہے کہ ان کو اس معاملے میں نہ گھسیٹا جائے۔‘

لاہور پولیس کی جانب سے جاری ویڈیو میں شہر بانو نقوی نے عوام سے درخواست کی کہ وہ ’محض غلط خبر کی بنیاد پر والدین کے لیے ذہنی اذیت کا سبب نہ بنیں، کسی بھی ایسے واقعے کی صورت میں پولیس خود اپنی مدعیت میں ایف آئی آر درج کرے گی مگر اس کے لیے ٹھوس شواہد اور مدعی کا موجود ہونا لازمی ہے لہٰذا موجودہ حالات میں والدین کا احساس کیا جائے۔‘

احتجاج کرنے والے طلبا کا کیا دعویٰ ہے؟

لاہور پولیس کی جانب سے اگرچہ ریپ کے کسی واقعے سے ہی انکار کیا جا رہا ہے وہیں احتجاج کرنے والے طلبہ اسے واقعے کو دبانے کی کوشش قرار دے رہے ہیں۔

پیر اور منگل کو احتجاج میں شامل طلبہ کی سوشل میڈیا پر موجود متعدد ویڈیوز میں انھیں اس واقعے کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔

ایسی ہی ایک ویڈیو میں مذکورہ کالج کی یونیفارم میں ملبوس ایک طالبہ نے دعویٰ کیا کہ ’دو دن ہو گئے ہیں، ہمارے سُننے میں آ رہا ہے کہ جس بیسمنٹ میں ہم کھیلتے اور پڑھتے تھے اور جس جگہ کو ہم اپنا گھر سمجھتے تھے، وہاں ایک بچی کے ساتھ ریپ ہوا۔ اور یہ لوگ اپنا جرم چھپانے کے لیے لڑکوں کو مار رہے ہیں اور طلبہ کو دھکے دے رہے ہیں مگر ایسے یہ ظلم نہیں چھپے گا۔‘

اس موقع پر موجود ایک اور طالبہ دعویٰ کرتی ہیں کہ ’ہم احتجاج اس لیے کر رہے ہیں کیونکہ ہمارے کالج میں ریپ ہوا ہے بچی کا۔ یہ ریپ گارڈ اور وین والے ڈرائیور نے کیا۔ کالج والے کہہ رہے ہیں کہ ایسا کچھ نہیں ہوا مگر کچھ کالج کی لڑکیاں ہیں جنھوں نے خود ایمبولینس ک کالج میں دیکھا اور ایمبولینس میں اس لڑکی کو دیکھا، جسے ہسپتال لے جایا جا رہا تھا۔‘

جبکہ اسی طرح ایک اور طالبہ کالج وین کے ڈرائیور کے بجائے کہتی ہیں کہ ’یہ سب کچھ بیسمنٹ میں دو گارڈز نے کیا۔‘

احتجاج کرنے والے طلبہ کی ویڈیوز میں کیے گئے دعوے اور الزامات اپنی جگہ لیکن پولیس کے مطابق تاحال کسی بھی طالبہ نے بطور عینی شاہد یا مبینہ طور پر ریپ کا نشانہ بننے والی لڑکی کی شناخت کے حوالے سے تفتیشی حکام سے رابطہ نہیں کیا اور اس ضمن میں پنجاب پولیس نے منگل کی دوپہر ایک مرتبہ پھر اپیل کی کہ جو بھی شخص اس کیس کے بارے میں کچھ جانتا ہے وہ پولیس سے رابطہ کرے اور معلومات فراہم کرے۔ پولیس نے کہا ہے کہ معلومات فراہم کرنے والے کا نام صیغہ راز میں رکھا جائے گا۔

لاہور احتجاج
Getty Images

کالج کی انتظامیہ کا مؤقف کیا ہے؟

’پنجاب کالج‘ کے ڈائریکٹر آغا طاہر اعجاز کا کہنا ہے کہ انھوں نے کالج کے سی سی ٹی وی کیمروں کی ویڈیو دیکھی ہے لیکن انھیں اس واقعے سے متعلق کوئی شواہد نہیں ملے۔

’ہم خود بیشتر پولیس اسٹیشنز گئے مگر وہاں بھی کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا، ہم نے تمام طالبات کے گھروں میں کالز کی جو چھٹی پر تھیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ رابطہ کرنے پر معلوم ہوا کہ کسی طالبہ نے بیماری اور کسی نے شادی کے باعث چھٹی لی ہوئی تھی۔

’پنجاب کالج‘ کے ڈائریکٹر کا اپنے بیان میں مزید کہنا تھا کہ احتجاج کرنے والے طلبہ نے کیمرے کی ریکارڈنگ مانگی تھی لیکن وہ تمام ریکارڈنگ پولیس کے پاس ہے۔

انھوں نے تصدیق کی کہ پولیس چھٹی پر گئے گارڈ کو پوچھ گچھ کے لیے بُلایا تھا اور وہ ابھی بھی حراست میں ہے۔

’گارڈ کو پکڑنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر اس کا ذکر کیا گیا تھا۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’سویٹر پہنی طالبات اور اساتذہ کی ویڈیوز وائرل کر کے کہا گیا کہ بچی کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ کیا لاہور کا موسم ایسا ہے کہ طالبات نے سویٹرز پہنے ہوں؟‘

سی سی ٹی وی فوٹیج کا معاملہ

سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی اطلاعات میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ کالج انتظامیہ نے ریپ کے مبینہ واقعے کے بعد سی سی ٹی وی فوٹیج اور دیگر شواہد مٹا دیے تھے تاکہ اس معاملے کو دبایا جا سکے۔

اس بات کو مزید تقویت اس وقت ملی جب پیر کو پنجاب کابینہ میں سکول ایجوکیشن کے وزیر سکندر حیات سے منسوب ایک ایسا بیان سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگا جس میں مبینہ طور پر کہا گیا تھا کہ کالج سے گذشتہ چند روز کی سی سی ٹی وی فوٹیج نہیں ملی۔

اس بیان کی تصدیق کے لیے بی بی سی نے صوبائی وزیر سے رابطہ کیا تاہم ان کی جانب سے کوئی جواب نہیں ملا۔ اس سلسلے میں لاہور پولیس کا کہنا ہے کہ ایسی خبروں میں کوئی صداقت نہیں کہ سی سی ٹی وی فوٹیج کو ضائع کرنے کی کوشش کی گئی۔

لاہور پولیس کے ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ پولیس نے کالج کی گذشتہ ایک ماہ کی تمام سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کر لی ہے جو اس وقت تحقیقات کا حصہ ہے۔

اے ایس پی ڈیفینس شہربانو نقوی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کے پاس ایسے کوئی شواہد نہیں جو اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوں کہ واقعے کو دبانے کے لیے شواہد کو مٹانے کی کوشش کی گئی ہو۔

ان کے مطابق ’پولیس کے پاس تمام تر سی سی ٹی وی فوٹیج موجود ہے جو کہ پبلک سکروٹنی کے لیے بھی موجود ہے۔‘

تحقیقات کہاں تک پہنچی ہیں؟

پنجاب کی وزیراعلٰی مریم نواز نے اس معاملے پر ایک سات رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے جس کی سربراہی چیف سیکریٹری پنجاب کر رہے ہیں اور وہ اپنی تحقیقات مکمل کرنے کے بعد رپورٹ 48 گھنٹے میں پیش کرے گی۔

پولیس نے پنجاب کالج کے ایک گارڈ کو حراست میں تو لیا ہے تاہم اس معاملے کا کوئی مقدمہ تاحال درج نہیں کیا گیا اور لاہور کے ڈی آئی جی آپریشنز فیصل کامران نے پیر کو صحافیوں سے بات چیت میں کہا تھا کہ پولیس ریپ کے معاملے میں اپنی مدعیت میں مقدمہ تو درج کر سکتی ہے لیکن جب تک متاثرہ فرد کا علم نہیں ہو جاتا مقدمہ کس بنیاد پر درج کیا جائے؟

اس گفتگو میں انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ پولیس جب تحقیقات کے لیے کالج گئی تو وہاں ایک ایسے گارڈ کے بارے میں علم ہوا جو چند دن سے غائب تھا اور پھر اس کے بارے میں معلومات جمع کر کے اسے سرگودھا سے حراست میں لیا گیا۔

اے ایس پی ڈیفینس شہربانو نقوی کے مطابق لوگوں کے پاس ایک سے زیادہ ایسے پلیٹ فارمز موجود ہیں جہاں وہ مکمل راز داری کے ساتھ اپنی شکایت پولیس تک پہنچا سکتے ہیں تاہم ایسے کسی پورٹل سے بھی کوئی شکایت سامنے نہیں آئی۔

انھوں نے یہ بھی بتایا کہ پنجاب کالج معاملے کی تحقیقات کو آگے بڑھانے کے لیے فیڈرل انویسٹیگیشن ایجنسی کے سائبر کرائم ونگ کو بھی تحقیقات کرنے والے اداروں میں شامل کر لیا گیا ہے۔

’وہ اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ یہ معاملہ سوشل میڈیا پر کیسے اور کہاں سے شروع ہوا اور کس طرح اتنا زیادہ پھیل گیا کہ بات پر تشدد مظاہروں تک آ گئی۔‘

دوسری جانب ایف آئی اے نے تصدیق کی ہے کہ انھوں نے کالج کے پرنسپل کی درخواست پر معاملے کی تحقیقات کے لیے سات رُکنی کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔

ایک بیان میں ایف آئی اے کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ’تحقیقاتی ٹیم سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ڈِس انفارمیشن پھیلانے اور امن و امان کی صورتحال پیدا کرنے کے جرم میں ملوث عناصر کی شناخت کرے گی۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.