’گرل فرینڈ مجھے مارتی، باتھ روم نہ جانے دیتی اور فرش پر بغیر کمبل کے سونے پر مجبور کرتی تھی‘

مردوں کے ساتھ گھریلو تشدد کے واقعات اتنے بھی کم نہیں ہیں جتنا کہ لوگ سمجھتے ہیں بلکہ ہر چھ یا سات میں سے ایک مرد کو زندگی میں کبھی نہ کبھی اس کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
لندن میں
BBC
لندن دورے کے دوران سارہ نے گیرتھ کو مہنگے تحائف خریدنے پر مجبور کیا

انھیں لاتیں اور گھونسے پڑتے تھے۔ فرش پر سونے پر مجبور کیا جاتا تھا۔ حتٰی کہ بعض اوقات باتھ روم جانے کی اجازت بھی نہیں ملتی تھی۔ اپنی گرل فرینڈ کے ہاتھوں بدسلوکی کا شکار برطانیہ کے 41 برس کے گیرتھ جونز اپنی کہانی دوسرے متاثرین کو بتانا چاہتے ہیں۔

ان خاتون سے وہ جولائی 2021 میں آن لائن ملے تھے۔ اس کے بعد کئی ماہ تک انھیں جذباتی اور جسمانی اذیت کا سامنا رہا، جس کے اثرات ختم ہونے میں سال سے زیادہ کا عرصہ لگا۔

جونز کی مدد کرنے والی چیریٹی ’دی مینکائنڈ انیشی اِیٹو‘ کا کہنا ہے کہ مردوں کے ساتھ گھریلو تشدد کے واقعات اتنے بھی کم نہیں جتنا کہ لوگ سمجھتے ہیں بلکہ ہر چھ یا سات میں سے ایک مرد کو زندگی میں کبھی نہ کبھی اس کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

جونز کی سابقہ گرل فرینڈ کا نام سارہ رِگبی ہے۔ اس سال کے اوائل میں 41 برس کی سارہ کو جبری رویہ اختیار کرنے کے جرم میں 20 ماہ قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ انھوں نے اپنے جرم کا اعتراف کیا تھا۔

اس جرم کی تحقیق کرنے والی افسر سوفی وارڈ نے بتایا کہ رِگبی کو متاثرہ شخص (جونز) پر مکمل ’غلبہ‘ حاصل تھا۔

انھوں نے کہا کہ ’بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ صرف خواتین ہی جبر کا شکار ہوتی ہیں لیکن جیسا کہ اس کیس سے پتہ چلتا ہے، ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا۔‘

جونز نے بتایا کہ نو مہینے پر محیط اس تعلق کے دوران انھیں دوستوں سے نہیں ملنے دیا گیا اور وہ اپنے 50 ہزار ڈالر سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔

انھیں روز گالیاں پڑتیں اور وہ بغیر اجازت کے گھر کا باتھ روم یا غسل خانہ استعمال نہیں کر سکتے تھے۔

کھانا بھی پورا نہیں ملتا تھا جس کی وجہ سے دو ماہ کے اندر ان کا وزن 28 کلو کم ہو گیا۔ سارہ نے انھیں کئی بار دھمکایا کہ اگر کسی سے بدسلوکی کا ذکر کیا تو وہ پولیس میں رپورٹ کریں گی کہ انھوں نے ان پر ہاتھ اٹھایا۔

گیرتھ
BBC
گیرتھ کا کہنا ہے کہ انھیں زندگی کو معمول پر لانے میں بڑا وقت لگا

گیرتھ نے بی بی سی کو بتایا کہ صرف چار ماہ کی دوستی کے بعد ہی وہ اپنا گھر چھوڑ کر سارہ کے گھر چلے گئے۔ یہ ہی وہ وقت تھا جب بدسلوکی کا آغاز ہوا۔

سارہ نے اس تمام مدت کی قیمت وصول کی جو گیرتھ نے ان کے ساتھ گزاری تھی، جس میں 900 ڈالر ماہانہ کرایہ اور تمام بل شامل تھے مگر سارہ انھیں گھر کی چابی نہیں دیتی تھیں اور نہ ہی سارہ کے بغیر ان کو گھر میں رہنے کی اجازت تھی۔

انھوں نے بتایا کہ ’اگر کوئی بات اس کی مرضی کے خلاف ہو جاتی تو سزا کے طور پر وہ مجھے فرش پر بغیر کمبل کے سونے پر مجبور کرتی تھی۔

’مجھے ٹوائلٹ یا شاور استعمال کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ میں کسی قریب واقع سپر مارکیٹ، ریستوران یا پب میں جاتا تھا۔ وہ جب گھر سے باہر ہوتی تو مجھے بھی باہر رہنا پڑتا تھا۔‘

سارہ انھیں دوستوں اور فیملی سے بھی ملنے نہیں دیتی تھیں۔

انھوں نے بتایا کہ ایک مرتبہ جب وہ لندن گئے تھے تو سارہ نے انھیں ایک مہنگا ڈیزائنر بیگ خریدنے پر مجبور کیا۔

گیرتھ اور سارہ
BBC
گیرتھ جونز اور سارہ رِگبی پہلی بار ڈیٹِنگ ایپ پر ملے تھے

تقریباً پانچ مہینے بعد جب برداشت کی حد ختم ہو گئی تو تو انھوں نے مینکائنڈ اینیشی ایٹو سے رابطہ کر کے پوری صورتحال بتائی۔

اس ادارے نے تصدیق کی کہ ان کے ساتھ روا رکھا جانے والا برتاؤ بدسلوکی کے زمرے میں آتا ہے۔

گیرتھ نے بتایا کہ ’تب میں نے اس تعلق کو توڑنے کا فیصلہ کیا۔‘

ان کی والدہ ڈیئن ڈیبنز کا کہنا تھا کہ اس فیصلے پر تمام خاندان والوں نے گیرتھ کو سراہا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے یقین نہیں آتا کہ ایک انسان دوسرے انسان کو اس قدر بدسلوکی کا نشانہ بنا سکتا ہے۔‘

مین کائنڈ اِنیشی ایٹیو کے چیئرمین مارک بروکس کا کہنا ہے کہ گیرتھ نے اپنی کہانی بیان کر کے بڑی جرات کا مظاہرہ کیا کیونکہ ایسے معاملات پرلوگ زیادہ بات نہیں کرتے۔

مارک بروکس نے اپنی کہانی سنانے پر گیرتھ کی بہادری کی تعریف کی اور کہا کہ مردوں کے اوپر ہونے والےگھریلو تشدد کے تجربے کے بارے میں اکثر بات ہی نہیں ہوتی۔

وہ کہتے ہیں کہ گھریلو تشدد کا شکار ہونے والے مردوں کے بارے میں بہت زیادہ معلومات بھی نہیں۔

ان کے مطابق ’کیونکہ مردوں کے اوپر گھریلو تشدد سے متعلق آگاہی نہیں ہوتی۔یہاں تک کے مردوں کے درمیان بھی اس پر بات نہیں ہوتی کہ مرد بھی گھریلو تشدد کا نشانہ بن سکتے ہیں۔‘

گیرتھ اور ان کی ماں دونوں پرامید ہیں کہ انھیں مستقبل میں پیارو محبت ملے گا تاہم انھوں نے وضاحت کی کہ وہ ابھی اس کے لیے تیار نہیں۔

جب گیرتھ نے اپنی گرل فرینڈ کو چھوڑا تو ان کے پاس اپنے جسم پر موجود کپڑوں کے علاوہ اور کچھ نہ تھا۔

گیرتھ کو سب کچھ نئے سرے سے شروع کرنا پڑا۔ مالی مستحکم ہونا، ایک نیا گھر بنانا تھا اور نئی دوستیاں مگر اس میں کہیں بھی اس محنتکا ذکر موجود نہیں جو انھیں خود کو بحال کرنے کے لیے مسلسل کرنا پڑی۔

’اس نے ایک طویل عرصے تک میرے اعتماد کو متاثر کیا، مسلسل بدسلوکی اور تشدد کی وجہ سے میری خود اعتمادی کو ٹھیس پہنچی تھی۔ مجھے تھیراپی میں جانا پڑا۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’مرد اپنے اوپر ہونے والی بدسلوکی کے بارے میں اگر بات کریں تو عموماً ان کو اچھا نہیں سمجھا جاتا اور ان پر انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں تاہم اس رویے کو تبدیل کرنے کی کوشش میں ہی میں نے اپنی کہانی دنیا کے سامنے پیش کی۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.