لاہور میں سموگ: پنجاب حکومت کا ’گرین لاک ڈاؤن‘ اور انڈیا سے ’ماحولیاتی سفارت کاری‘ کا منصوبہ

مقامی سطح پر فضائی آلودگی کے مضر اثرات سے لوگوں کو محفوظ رکھنے اور ’اے کیو آئی‘ کو نیچے لانے کے لیے پنجاب کی صوبائی حکومت نے لاہور کے کم از کم دس علاقوں میں ’گرین رنگ‘ قائم کرنے یا ’گرین لاک ڈاون‘ لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔دوسری جانب وزیر اعلٰی مریم نواز نے کہا ہے کہ سموگ کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے وہ انڈیا کے ساتھ ’کلائمٹ ڈپلومیسی‘ چاہتی ہیں۔
لاہور میں آلودگی
Getty Images
لاہور میں فضائی آلودگی یا سموگ کی سطح خطرناک حد تک زیادہ ہے اور پیر کے روز یہ ریکارڈ 700 اے کیو آئی سے تجاوز کر گئی تھی

پاکستان کا شہر لاہور گذشتہ چند روز سے مسلسل دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں سرِفہرست یا پھر پہلے تین شہروں میں شمار ہو رہا ہے۔

شہر میں فضائی آلودگی یا سموگ کی سطح خطرناک حد تک زیادہ ہے اور پیر کے روز یہ ریکارڈ 700 اے کیو آئی سے تجاوز کر گئی تھی۔

اس سے قبل لاہور میں فضائی آلودگی کی سطح اس حد تک کبھی نہیں بڑھی۔

بدھ کے روز فضائی آلودگی کو ناپنے والا انڈیکس یعنی اے کیو آئی نیچے گر کر 200 کے لگ بھگ آ گیا تھا تاہم حکام کے مطابق اس کے دوبارہ بڑھنے کے امکانات موجود ہیں۔ حکام اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ سموگ کو بنانے والے عناصر فضا میں جوں کے توں موجود ہیں۔

پنجاب حکومت کے مطابق دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ لاہور کو متاثر کرنے والی سموگ کا ایک بڑا حصہ انڈیا کی طرف سے آ رہا ہے۔

مقامی سطح پر فضائی آلودگی کے مضر اثرات سے لوگوں کو محفوظ رکھنے اور اے کیو آئی کو نیچے لانے کے لیے پنجاب کی صوبائی حکومت نے لاہور کے کم از کم 10 علاقوں میں ’گرین لاک ڈاؤن‘ لگانے کا اعلان کیا ہے۔

حکومت کی طرف سے جاری ایک نوٹیفیکیشن میں کہا گیا ہے کہ گرین لاک ڈاؤن کے علاقوں میں ’چنگ چی‘ رکشوں اور بھاری ٹریفک کے داخلے پر پابندی ہو گی، سرکاری اور نجی اداروں کی بڑی موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں کی پارکنگز کو ان علاقوں سے نکالا جائے گا جبکہ دفاتر میں ’ہائبرڈ ورکنگ‘ یعنی گھر سے کام کے اصول جیسے اقدامات شامل ہوں گے۔

پنجاب حکومت کا یہ بھی کہنا ہے کہ لاہور اور پنجاب کے چند دوسرے شہروں میں کم از کم 30 فیصد حصہ اس سموگ پر مشتمل ہے جو انڈیا کے پنجاب کی طرف سے ہواؤں کے ذریعے پاکستان میں داخل ہو رہی ہے جو کہ ایک سالانہ رجحان ہے۔

پاکستان کے صوبہ پنجاب کی وزیر اعلٰی مریم نواز نے کہا ہے کہ سموگ کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے وہ انڈیا کے ساتھ ’کلائمٹ ڈپلومیسی‘ یعنی ماحولیاتی سفارت کاری چاہتی ہیں اور اس سلسلے میں وہ انڈین پنجاب میں اپنے ہم منصب یعنی وزیر اعلٰی کو خط لکھنے کا بھی سوچ رہی ہیں۔

’ماحولیاتی سفارت کاری‘ کیا ہے؟

لاہور میں سموگ
Getty Images
پنجاب حکومت کے مطابق لاہور اور پنجاب کے چند دوسرے شہروں میں 30 فیصد سموگ انڈین پنجاب سے آنے والی ہواؤں کے ذریعے پاکستان میں داخل ہو رہی ہے

پاکستان کے صوبہ پنجاب میں فضائی آلودگی یا سموگ کی روک تھام کے لیے ذمہ دار اداروں کے حکام کا دعویٰ ہے کہ گزشتہ کئی برسوں کا ریکارڈ اور اس کا موازنہ یہ بتاتا ہے کہ سال کے ان دنوں میں لاہور اور اس کے گردونواح میں بننے والی سموگ کا ایک اچھا خاصا حصہ انڈین پنجاب کی طرف سے پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔

پنجاب کی وزارتِ ماحولیات کے سیکرٹری راجہ جہانگیر انور نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پنجاب حکومت کے پاس امریکی خلائی ایجنسی ’ناسا‘ کا سیٹلائٹ ڈیٹا اور محکمہ موسمیات کے اعداد و شمار اور معلومات کی بنیاد پر شواہد موجود ہیں۔

اس کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ’ہواؤں کا مشرقی کاریڈور انڈین پنجاب میں بننے والی فضائی آلودگی کا ایک بڑا حصہ پاکستان کی طرف لے آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب ہوائیں اس کے مخالف چل رہی ہوتی ہیں تو لاہور میں اے کیو آئی کم ہو کر 200 کے قریب آ جاتا ہے۔‘

خیال رہے کہ فضائی آلودگی کی یہ سطح بھی انسانی صحت کے لیے نقصان دہ تصور کی جاتی ہے۔

راجہ جہانگیر انور کا کہنا ہے کہ وزیراعلٰی پنجاب اور پنجاب حکومت سموگ کے مسئلے پر انڈیا سے جو ماحولیاتی سفارت کاری چاہتی ہے وہ پنجاب کی پالیسی کے مطابق ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں خاص طور پنجاب کے دونوں حصوں میں آلودگی کا باعث بننے والے عوامل اور زرعی عادات ایک جیسی ہیں۔

’انڈین پنجاب میں بھی مڈھی کو اسی طرح جلایا جاتا ہے جیسے ہماری طرف ہوتا ہے، وہاں بھی ٹریفک کے ایسے ہی مسائل ہیں جیسے ہمارے پاس ہیں۔ اسی لیے آپ نے دیکھا ہو گا کہ کبھی لاہور تو کبھی دلی دنیا کا سب سے زیادہ آلودہ شہر ہوتا ہے۔‘

لاہور میں حکام اس مشترکہ مسئلے کے حل پر انڈیا سے بات چیت کرنے کی تجویز دے رہے ہیں۔ خیال رہے کہ ماضی میں بھی پاکستانی پنجاب میں حکام اس معاملے پر انڈیا سے بات چیت کرنے کی تجویز دیتے رہے ہیں تاہم اس میں کوئی پیش رفت نہیں ہو پائی۔

’گرین لاک ڈاؤن‘

لاہور میں آلودگی
Getty Images

پنجاب حکومت نے بدھ کے روز ایک نوٹیفیکیشن جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ لاہور میں ایسے علاقوں کی نشاندہی کی گئی ہے جہاں فضائی آلودگی سب سے زیادہ ہے اور ان علاقوں میں ’گرین لاک ڈاؤن‘ لگایا جا رہا ہے۔

نوٹیفیکیشن کے مطابق پہلے مرحلے میں یہ سب سے زیادہ آلودہ علاقے شملہ پہاڑی سے شروع ہو گا۔

شملہ پہاڑی کے ایک کلومیٹر کے دائرے کے اندر ہر قسم کے تعمیراتی کام، چنگ چی رکشوں کے داخلے، کمرشل جینریٹرز کے استعمال، رات 8 بجے کے بعد بار بی کیو پر مکمل پابندی ہو گی۔

اس کے ساتھ تمام شادی ہال رات دس بجے بند ہو جائیں گے اور ہوٹل اور ریستورانوں میں کچن میں کوئلے، لکڑی یا چارکول کی مدد سے کھانے پکانے پر مکمل پابندی ہو گی۔

نوٹیفیکیشن میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 4 اکتوبر سے ’ہاٹ سپاٹ‘ قرار دیے جانے والے علاقوں میں تمام سرکاری اور نجی اداروں میں 50 فیصد ملازمین کو گھر سے کام کروانے کی پالیسی پر عمل کیا جائے گا۔

ان علاقوں میں دھواں چھوڑنے والی بھاری اور چھوٹی گاڑیوں کے داخلے پر پابندی ہو گی اور سٹی ٹریفک پولیس اس حوالے سے پالیسی ترتیت دے کر اس پر عملدرآمد کروائے گی۔

ان علاقوں میں گاڑیوں کی پارکنگ کی اجازت بھی ٹریفک پولیس کی پالیسی کے مطابق ہو گی جبکہ ہر قسم کے تجاوزات کو ختم کیا جائے گا۔

لاہور میں فضائی آلودگی کے جن ہاٹ سپاٹس کا تعین کیا گیا ہے ان میں ڈیوس روڈ، ایجرٹن روڈ، ڈیورنڈ روڈ، کشمیر روڈ، ایبٹ روڈ پر شملہ پہاڑی سے گلستان سینما تک کا علاقہ، ایمپریس روڈ پر شملہ پہاڑی سے ریلوے ہیڈ کوارٹرز تک کا علاقہ اور کوئین میری روڈ پر ڈیورنڈ روڈ سے علامہ اقبال روڈ اور گرد و نواح کے علاقے شامل ہیں۔

’گرین رنگ‘ کا حکومتی منصوبہ

پنجاب کی وزارتِ ماحولیات کے سیکرٹری راجہ جہانگیر انور نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’گرین رنگ‘ کے منصوبے میں زیادہ آلودگی والے ہاٹ سپاٹس کی نشاندہی کر کے وہاں گرین لاک ڈاؤن کے نفاذ جیسے اقدام شامل ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ ان علاقوں میں درخت اور میاواکی جنگل وغیرہ لگانے جیسے اقدامات شامل ہیں۔ بتدریج یہ اقدامات لاہور کے دیگر علاقوں تک بڑھائے جائیں گے۔

انھوں نے بتایا کہ ’حکومت نے ان علاقوں کی نشاندہی کی جہاں اے کیو آئی بہت زیادہ آ رہا تھا۔ پھر ہم نے اس کی وجوہات معلوم کی تو پتہ چلا کہ ان علاقوں میں ٹریفک بہت زیادہ ہے کیونکہ یہاں سرکاری اور نجی دفاتر بہت بڑی تعداد میں موجود ہیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ شملہ پہاڑی کے علاقے میں نادرا کا ایک 24 گھنٹے کھلا رہنے والا دفتر ہے جس کی پارکنگ میں یومیہ 16 ہزار کے قریب موٹر سائیکلیں پارک ہوتی ہیں۔ اسی طرح اس علاقے میں نجی اور سرکاری دفاتر کی بڑی بڑی عمارتیں ہیں جہاں کمرشل جینریٹرز کا استعمال کیا جاتا ہے۔

راجہ جہانگیر انور کے مطابق گرین رنگ کے تحت ایسے تمام علاقے جن کو ہاٹ سپاٹ قرار دیا گیا ہے وہاں سے آلودگی پھیلانے والے عناصر کو ختم کیا جائے گا۔

ان کا کہنا ہے کہ شملہ پہاڑی کے ایک کلومیٹر کے دائرے کے علاقے میں بڑے گملوں میں درخت لگا کر رکھے جائیں گے جبکہ ریڈیو پاکستان، پاکستان ٹیلی ویژن اور دیگر سرکاری اداروں مِیں میاواکی جنگل لگائے جائیں گے۔

ان کے مطابق میاواکی جنگل ایک کنال جگہ میں باآسانی لگائے جا سکتے ہیں۔

’سموگ کے مسئلے کا حل قانون سازی اور کمیونٹی کے اشتراک سے ممکن‘

پنجاب کے شہر لاہور میں سموگ شروع ہوئی تو ساتھ ہی سوشل میڈیا پر صارفین نے بھی ایک بار پھر آواز اٹھانا شروع کی۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر کئی صارفین نے اس حوالے سے سموگ سے پہلے اور بعد کی تصاویر شیئر کیں اور لکھا کہ اس آلودگی کے خاتمے کے لیے دیرپا اور پائیدار حکمت عملی کی شدید ضرورت ہے

ایکس پر اپنے پیغام میں صارف شمس الاسلام خان نامی صارف نے لکھا کہ ’سموگ صرف انڈیا اور پاکستان کا مسئلہ نہیں ہے۔ دنیا کے کئی ممالک سموگ سے متاثر ہیں۔ کہیں زہریلی سموگ گرم موسم میں تو کہیں سرد موسم میں شدید ہوجاتی ہے۔‘

انھوں نے مزید لکھا کہ ’مسئلے کا حل قانون سازی اور کمیونٹی کے اشتراک سے ممکن ہے۔ چنگ چی پیٹرول سے چلتی اور غریب آدمی کی سواری ہے۔ اس پر پابندی سموگ کا حل نہیں۔‘

سجاد مصطفی نامی صارف نے ایکس پر لکھا کہ ’کیا حکومت نے سموگ کا تدارک کرنے کے لیے کوئی لیب ٹیسٹ کیے کہ سموگ ہو کیوں رھی ھے اور اس میں کون کون سے عوامل کار فرما ہیں؟ اگر ایسی کوئی رپورٹس آج تک تیار ہوئی ہیں تو ان کا سائنسی نتیجہ عوام کی آگاہی کے لیے عام کیا جائے.‘

پنجاب حکومت کے گرین لاک ڈاؤن کے اعلان کا جہاں سموگ سے ستائے بیشتر شہریوں نے خیر مقدم کیا وہیں بعض صارفین نے انڈیا کے حکام کو خط لکھنے کے منصوبے کو آڑے ہاتھوں لیا۔

ایکس پر ایک صرف نے لکھا کہ ’انڈین وزیراعلی پنجاب نے کب کا سموگ کے خلاف ایکشن لے لینا تھا مگر وہ بھی ابھی تک مریم کے خط کے انتظار میں ہی ٹال مٹول کر رہے ہیں۔‘

انھوں نے مزید لکھا کہ ’باقی یقیناً جب دونوں وزرا اعلی مل کر سموگ پہ خط و کتابت کریں گے تو سموگ ختم ہو یا نہ ہو، عوام یقیناً بہت قریب آ جائے گی۔‘

اے کیو آئی انڈیکس کیا ہے؟

ماہرین کے مطابق ایے کیو آئی یا ’ایئر کواٹی انڈیکس‘ فضا میں آلودگی کے تناسب کو ناپنے کا ایک آلہ ہے جس کی مدد سے یہ بتایا جا سکتا ہے کہ کسی جگہ کی فضا کتنی صاف یا آلودہ ہے۔

اس کا اندازہ اے کیو آئی ناپنے والے میٹر کے ذریعے کیے جاتا ہے جو اس علاقے میں نصب ہوتا ہے۔

مختلف ممالک میں اس کو جانچنے کا طریقہ کار یا آلات مختلف ہو سکتے ہیں تاہم عالمی سطح پر قائم کردہ معیار کے مطابق ایے کیو آئی کو کل چھ کیٹیگریز میں تقسیم کیا گیا ہے۔

ان کیٹیگریز کے مطابق:

  • صفر سے 50 تک اے کیو آئی کو صاف ستھری فضا مانا جاتا ہے جس سے کسی انسان کی صحت کو کوئی خطرہ نہیں۔
  • 51 سے 100 تک بھی اے کیو آئی قابلِ قبول ہوتا ہے
  • تاہم 101 سے 150 تک جانے کی صورت میں ایسے افراد کو خطرہ ہو سکتا ہے جو پہلے سے بیمار یا کمزور ہوں۔
  • اے کیو آئی 151 سے تجاوز کرتا ہے تو یہ خطرہ عام لوگوں تک بڑھ جاتا ہے
  • جب اے کیو آئی 201 اور 300 کے درمیان ہوتا ہے تو ایسی فضا کو انسانوں کے لیے انتہائی غیر صحت مند تصور کیا جاتا ہے

اس کیٹیگری کو ’ہیلتھ الرٹ‘ میں شمار کیا جاتا ہے جس کا مطلب ہے کہ ہر ایک کے لیے صحت کے خطرات ہوں گے۔

اور جب یہ 300 سے تجاوز کر جائے تو فضا ’انتہائی خطرناک‘ تصور ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں ایمرجنسی صورتحال کی ہیلتھ وارننگ جاری کی جاتی ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.