ہولی اس وقت فقط 16 برس کی تھیں جب کسی نے ان سے کہا کہ کیا وہ سیکس کر سکتی ہیں۔ انھیں یہ سننے کو اس لیے ملا کیونکہ وہ معذور ہیں۔
ہولی اس وقت فقط 16 برس کی تھیں جب کسی نے ان سے کہا کہ کیا وہ سیکس کر سکتی ہیں۔ انھیں یہ سننے کو اس لیے ملا کیونکہ وہ معذور ہیں۔
اس کے بعد سے ان سے بہت سے سوالات بھی پوچھے گئے جیسا کہ ان سے پوچھ گیا کہ کیا وہ سیکس کے لیے ویل چیئر پر ہی رہیں گی۔
وہ کہتی ہیں کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ مجھ پر کوئی احسان کر رہے ہیں بالکل اس طرح جیسے وہ میرے لیے کوئی قربانی دے رہے ہیں۔
’بدترین چیز تو یہ ہے کہ اب نہ میں اس پر حیران ہوتی ہوں اور نہ ہی اب مجھے غصہ آتا ہے۔‘
ہولی جو کہ اب 26 برس کی ہو چکی ہیں، ایک دائمی تکلیف میں مبتلا ہیں۔ انھیں ہائیپرموبیلٹی سینڈروم ہے۔
وہ ان مغدور خواتین میں سے ایک ہیں جنھوں نے جنسی تعلقات اور ڈیٹنگ کے معاملے میں منفی دقیانوسی تصورات اور خیالات کو چیلنج کرنے پر بات کی ہے۔
ہولی گریڈر کہتی ہیں کہ یہ اہم تھا کہ ایسے لوگ جو معذور ہیں ان کے لیے خوشگوار رومانوی تعلقات کی نمائندگی کی جائے۔
انھوں نے اپنے شوہر کے ساتھ ڈیٹ کرنا لڑکپن کے دور میں شروع کیا۔ وہ دونوں نو سال تک ساتھ رہے اور رواں برس کے آغاز میں انھوں نے شادی کی۔
وہ کہتی ہیں کہ ’اکثر میڈیا پر معذور افراد کی تکلیف دہ زندگی دکھائی جاتی ہے۔ ہم تو بس ایک غمگین کہانی ہیں۔‘
وہ مزید کہتی ہیں کہ ان کے شوہر نے ہمیشہ ان کو سپورٹ کیا لیکن دوسروں کی جانب سے انھیں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’جب ابتدا میں ہم ساتھ رہنے لگے تو لوگوں نے مجھے کہا کہ اگر تمہاری صحت خراب ہونے لگی تو وہ تمھیں چھوڑ دے گا۔‘
’شاید وہ تمھیں بوجھ سمجھے یا اسے تمھیں سنبھالنے پر مشکل ہو۔‘
وہ کہتی ہیں کہ لوگ ان کے بارے میں سکول میں بھی ایسی باتیں کرتے تھے اور اکثر یہ سب ان کے منھ پر کیا جاتا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’جب وہیل چیئر استعمال کرنے والوں کی بات ہو تو بنا کسی شک کے پہلا سوال یہی ہوتا تھا کہ کیا مذکورہ شخص سیکس کر سکتا ہے۔‘
ہولی کہتی ہیں کہ ’ان کی کلاس میں موجود لڑکے ذاتی نوعیت کے اور مداخلت پر مبنی سوالات کرتے تھے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’مجھ سے سوال پوچھے گئے جیسے کہ کیا آپ صرف وہیل چیئر پر ہی سیکس کر سکتی ہیں؟ کیا آپ کے جوڑ اپنی جگہ سے ہٹ جائیں گے؟ کیا میں آپ کے ساتھ کسی بھی طریقے سے جنسی تعلق قائم کرنا چاہوں تو کیا یہ ہو پائے گا؟‘
ہولی کہتی ہیں کہ ’سوشل میڈیا پر لوگ انھیں سیکس کے متعلق پیغام بھجواتے تھے اور یہ ایک ایسی آفر کے طور پر ہوتا تھا کہ جیسے انھیں یہ محسوس کروایا جائے کہ وہ ’خوش قسمت‘ ہیں۔
ہولی چاہتی ہیں کہ معذور افراد کی میڈیا میں بہتر ترجمانی ہونی چاہیے۔ اس میں وہ سیکس ایجوکیشن پر حال ہی میں سامنے آنے والے ایک پروگرام کے کردار آزق گڈونکو ایک اچھی مثال سمجھتی ہیں۔
جب نکولا کی بینائی گئی تو اس وقت ان کے بوائے فرینڈ تھے لیکن اس واقعے کے بعد ان کے تعلقات ختم ہو گیا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’مجھ سے ایسے برتاؤ کیا گیا جیسے کہ میں ایک بوجھ ہوں۔ لوگ کہتے تھے کہ تم اس کی کیئر کرنے والے نہیں بن سکتے لیکن مجھے کو کسی کی توجہ کی ضرورت نہیں تھی۔‘
اب ان کے بوائے فرینڈ بینائی سے محروم ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ اگرچہ ہم دونوں دیکھ نہیں سکتے لیکن شہر میں اپنے راستے پر گھومتے ہیں یا پھر ڈیٹ پر جاتے ہیں۔ ہمیں کوئی رکاوٹ نہیں۔
نکولا کہتی ہیں کہ جب لوگ ان میں دلچسپی لیتے ہیں تو انھیں محسوس ہوتا ہے کہ ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ سوشل میڈیا پر لوگ ڈیٹ کا کہتے ہیں لیکن جب میں انھیں بتاتی ہوں کہ میں دیکھنے سے محروم ہوں تو ان کی توجہ بھٹک جاتی ہے یا پھر ان کے برتاؤ میں تبدیلی آ جاتی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’آپ کے ساتھ ایسا رویہ اختیار کیا جاتا ہے کہ جیسے آپ پر احسان کیا جا رہا ہے۔ یہ آپ کو بالکل اچھا نہیں لگتا۔‘
نکولا کہتی ہیں کہ ’لوگ ہمیں دھوکا دیتے ہیں۔ میں چاہتی ہوں کہ میں اس امتیازی رویے کو ختم کروں۔ میں بھرپور اور خوشگوار زندگی گزار رہی ہوں۔‘
نکولا کی عمر 38 برس ہے۔ ان کا تعلق کائرفلی سے ہے اور وہ قوت بصارت سے محروم ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’جو چیز لوگ بہت زیادہ پوچھتے ہیں وہ یہ ہے کہ آپ سیکس کیسے کرتی ہیں؟ وہ کہتی ہیں، یہ سننا آپ کے لیے حیرت کا باعث ہوتا ہے، یہ بہت ذاتی نوعیت کا سوال ہے۔‘
نکولا کو ایک آٹو امیون بیماری میں مبتلا ہیں جس کا نام نیورومائلیٹس آپٹیکا ہے۔ 15 سال پہلے ان کی ایک آنکھ سے بینائی ختم ہو گئی تھی اور دوسری آنکھ سے پانچ برس قبل نظر آنا بند ہو گیا تھا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’بہت سے لوگ بینائی نہ ہونے کی وجہ سے رکاوٹیں دیکھتے ہیں اور میں یقنی طور پر ان کو توڑنے کی کوشش کر رہی ہوں۔‘
نکولا کے مشاغل میں پیڈل بورڈنگ اور سیرو سیاحت شامل ہے۔ ان کا اگلا سفر ہانگ کانگ کا ہے۔
کیٹ واٹکن کہتی ہیں کہ معذور افراد کا حق ہے کہ وہ اپنی جنسی شناخت کا پتہ چلائیں اور کسی بھی دوسرے انسان کی طرح اپنے تعلقات استوار کریں۔
وہ ویلز میں معذور افراد سے متعلق پروجیکٹ سے منسلک ہیں۔
وہ سوال کرتی ہیں کہ سیکس اور تعلقات معذور افراد کے لیے ایک ممنوع چیز کیوں ہے؟
وہ کہتی ہیں کہ ہمارے پاس کھانے کے قابل ہونے کے علاوہ اور سروس پر چھت کے علاوہ اور بھی بہت کچھ ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’اپنی زندگی کو گزارنا اور خود سے لطف اندوز ہونا زندگی کا صرف ایک حصہ ہے، اور یہ معذور لوگوں کے لیے کافی نمایاں نہیں ہوتا ہے۔‘
کیٹ نے کہا کہ یہ مثالیں سن کر کہ لوگ کس طریقے سےمعذور خواتین کو پیغام دیتے ہیں ’افسوسناک طور پر عام ہو گیا ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ سیکس ٹوائز اور دیگر سہولیات لوگوں کو یہ اعتماد دینے میں مددگار ہو سکتے ہیں کہ وہ مرکزی سیکس سائٹس اور مذکورہ دکانوں پر کیا دیکھناچاہتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ آپ کو اپنےجسم کے حوالے سے مطمئن ہونا ہو گا اور اپنے جسم کو سمجھنا ہوگا، تاکہ آپ دوسروں کو بتا سکیں کہ یہ کیسے کام کرتا ہے۔ خود سے محبت بھی واقعی اہم ہے۔