پنجاب میں ہیلتھ ایمرجنسی: تمام تر اقدامات کے باوجود حکومت سموگ کے مسئلے پر قابو پانے میں اب تک ناکام کیوں ہے؟

پنجاب میں سموگ کی بگڑتی صورتحال کے پیش نظر صوبائی دارالحکومت لاہور اور ملتان میں ہیلتھ ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے۔ بی بی سی نے ماہرین سے بات کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ پنجاب میں سموگ کی کیا وجوہات ہیں، اس کی روک تھام کے لیے اٹھائے گئے حکومتی اقدامات کیا کافی ہیں اور کچھ شہروں میں فضائی آلودگی ہونے کے باوجود سموگ خطرناک کیوں نہیں بنتی؟
لاہور سموگ
Getty Images

پاکستان کے صوبے پنجاب کے مختلف شہر گذشتہ دو ہفتوں سے زائد عرصے سے سموگ کی زد میں ہیں۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں ماحولیاتی آلودگی کا یہ مسئلہ ایک سنگین بحران کی شکل اختیار کر گیا ہے۔

پنجاب میں سموگ کی بگڑتی صورتحال کے پیش نظر صوبائی دارالحکومت لاہور اور ملتان میں ہیلتھ ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے۔

لاہور میں نیوز کانفرنس کے دوران سینیئر وزیر پنجاب مریم اورنگزیب نے اس اہم فیصلے کا اعلان کیا اور کہا کہ لاہور اور ملتان میں جمعے، ہفتے اور اتوار کو مکمل لاک ڈاؤن لگا دیں گے۔

پنجاب کے مختلف شہریوں جن میں لاہور اور ملتان سہرفہرست ہیں وہاں رواں ماہ ائیر کوالٹی انڈیکس متعدد مرتبہ ایک ہزار سے اوپر گیا۔

یاد رہے کہ جب یہ نمبر 300 سے اوپر جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ماحول چرند پرند و انسانوں کی صحت کے لیے خطرناک ہو گیا ہے۔

پاکستانی حکام اس ماحولیاتی بحران سے نمٹنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں اور اس ضمنمیں دو ہفتوں کے دوران مختلف اقدامات بھی اٹھائے گئے ہیں۔

متاثرہ شہروں سمیت صوبے میں سکول بند ہیں، ملازمین سے کہا گیا ہے کہ وہ گھروں سے کام کریں اور لوگوں سے درخواست کی جا رہی ہے کہ وہ اپنے گھروں سے بلا ضرورت باہر نہ نکلیں۔

یہ تمام اقدامات صوبائی حکومت کے ’گرین لاک ڈاؤن‘ کے تحت کیے جا رہے ہیں اور جن مقامات پر فضائی آلودگی زیادہ ہے وہاں رکشہ، بڑی گاڑیاں اور موٹر سائیکلوں کی پارکنگ پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ لاہور ہائی کورٹ کی ہدایات کے مطابقروزانہ رات آٹھ بجے شہر بھر میں بازار اور اتوار کو پورے دن تمام مارکیٹس بند رکھی گئی ہیں۔ شہر میں 17 نومبر تک تمام پارکس اور چڑیا گھر بھی بند ہیں۔

سموگ
Getty Images

لاہور اور ملتان میں لاک ڈاؤن کا حکومتی فیصلہ

پنجاب کے سینیئر وزیر مریم اورنگزیب نے جمعے کو لاہور میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ سموگ کی بگڑتی صورتحال پر لاہور اور ملتان میں ہیلتھ ایمرجنسی نافذ کی جا رہی ہے اور ہیلتھ ڈیسک، ہسپتالوں میں سٹاف کی چھٹیاں منسوخ اور محکموں کو ادویات وافر کرنے کی ہدایت کردی گئی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سموگ انڈیا اور پاکستان کا مشترکہ مسئلہ ہے، دونوں ممالک کو اکٹھا بیٹھنا پڑے گا۔ ’یہ سیاسی نہیں بلکہ ماحول کا معاملہ ہے کیونکہ زندگیوں کا معاملہ ہے۔ سموگ موت ہے۔‘

مریم اورنگزیب نے کہا کہ کورونا پر احتیاطی تدابیر اختیار کیں، اسی طرح سموگ پر احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ہوں گی، نو نومبر کو ایئر کوالٹی انڈیکس 660، 10 نومبر کو 539، 11 کو 816 اور 14 نومبر کو ایک ہزار سے زیادہ رہا۔

انھوں نے لاہور اور ملتان میں سموگ لاک ڈاؤن کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ شہری موٹر سائیکل پر ایمرجنسی کے علاوہ باہر نہ نکلیں اور ماسک کا استعمال کریں، ملتان و لاہور میں سکول کالجز اور یونیورسٹیز کو آن لائن کر رہے ہیں، پنجاب بھر سے ایک ماہ کے دوران ڈیڑھ لاکھ لوگ سموگ کا شکار ہوکر ہسپتالوں میں پہنچے ہیں، ڈی ٹاکس مہم کے نام سے سموگ کے خاتمے کے لیے مہم شروع کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ لاہور اور ملتان میں جمعہ، ہفتہ اور اتوار کو مکمل لاک ڈاؤن لگا دیں گے، بدھ تک ڈیٹا دیکھیں گے۔

سینئر صوبائی وزیر نے عوام سے حکومتی اقدامات پر عمل نہ کرنے کا شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ ٹریفک پر کوئی کمی نہیں آرہی، جن ملکوں نے سموگ کے خلاف لڑائی لڑی وہاں ہر شعبے نے حکومتی اقدامات سے تعاون کیا گیا، لیکن ادھر تو ماسک پہننے کے لیے تقسیم کرنا پڑتا ہے، ریسٹورنٹس کو شام چار بجے تک کا وقت دیا ہے، اس کے بعد رات 8 بجے تک ٹیک اوے کی اجازت ہو گی۔

مریم اورنگزیب نے کہا کہ شہری بچوں کے ساتھ بغیر ماسک کے گھوم پھر رہے تھے، لاہور میں سموگ سے ایک ہفتے میں سات ہزار 165 لوگ متاثر ہوئے، ملتان اور لاہور میں 16 نومبر بروز سنیچر سے اگلے اتوار تک تعمیرات پر پابندی لگا رہے ہیں، لوگوں کو سمجھ نہیں آرہی سموگ موت کا سبب بن سکتی ہے سموگ صحت کے بحران میں تبدیل ہو چکی ہے۔‘

بی بی سی نے ماہرین سے بات کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ پنجاب میں سموگ کی کیا وجوہات ہیں، اس کی روک تھام کے لیے اٹھائے گئے حکومتی اقدامات کیا کافی ہیں اور کچھ شہروں میں فضائی آلودگی ہونے کے باوجود سموگ خطرناک کیوں نہیں بنتی؟

سموگ
Getty Images

کیا سموگ سے نمٹنے کے حکومتی اقدامات کافی ہیں؟

پاکستان کے کنسورشم فار ڈویلپمنٹ پالیسی ریسرچ کے مطابق پاکستان کے جی ڈی پی میں پانچویں نمبر پر زراعت کا شعبہ ہے۔ پنجاب میں زراعت پر انحصار کیا جاتا ہے اورگندم اگانے کے لیے ہر سال اکتوبر اور جنوری کے درمیان چاول کی فصل کی 85 لاکھ ٹن باقیات میں سے کم از کم 36 لاکھ سے 50 لاکھ ٹن باقیات کو کھیتوں کو صاف کرنے کے لیے جلا دیا جاتا ہے۔

پاکستان اور انڈین پنجاب کے دیہی علاقوں میں اگلی فصل کے لیے کھیتوں کو تیار کرنے کا سب سے تیز اور سستا طریقہ فصلوں کی باقیات کو جلانا ہے۔

2018 میں فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کی جانب سے ایک فضائی آلودگی سے متعلق ایک جامع تحقیقی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں فضائی آلودگی کے اخراج کا 20 فیصد فصلوں کو جلانے سے منسوب ہے جبکہ فضائی آلودگی میں سب سے زیادہ حصہ ٹرانسپورٹ اور ایندھن کے جلنے سے پیدا ہونے والی گیسز کی وجہ سے ہے۔

یاد رہے کہ حال میں پاکستان کے وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف کا ایک بیان سامنے آیا ہے جس میں انھوں نے پنجاب حکومت پر تنقید کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا ہے کہ صوبے میں سموگ کی اصلی وجہ فصلوں کی باقیات جلانا نہیں بلکہ ٹرانسپورٹ سے پیدا ہونے والا دھواں ہے۔

ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر اپنی ٹویٹ میں انھوں نے پنجاب حکومت کے محکمہ ’اربن یونٹ‘ کی شائع کردہ 2023 کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیا ہے جس کہ مطابق لاہور میں سموگ کی سب سے بڑی وجہ گاڑیوں اور ٹرکوں سے نکلنے والے دھوئیں کو قرار دیا گیا جبکہ صنعتوں سے خارج ہونے والے دھوئیں کو دوسری بڑی وجہ بتایا گیا تھا۔

انھوں نے اپنی ٹویٹ میں لکھا تھا کہ ’فصلوں کی باقیات تو موہنجوداڑو کے وقت سے جلائی جا رہی ہیں۔ ہمارے صدا کے اصل حکمران یعنی انتظامیہ اور بیوروکریسی نے ہمیں ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا ہوا ہے کہ بڑی وجہ فصلیں جلانا ہے اور سموگ انڈین پنجاب سے پاکستان آتی ہے۔‘

پاکستان ایئر کوالٹی انیشی ایٹو کے بانی عابد عمر کا کہنا ہے کہ ہوا میں آلودہ گیسز کا اخراج ہمیشہ سے ہے اور رہے گا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’پوری دنیا میں اسی قسم کی گاڑیاں استعمال ہوتی ہیں۔ یہی صنعتیں ہیں اور انھی اینٹوں سے مکان اور عمارتیں تعمیر کی جاتی ہیں۔ آپ امریکہ کے شہر لاس اینجلس کی مثال لے لیں۔ اسے ایک زمانے میں اسے ’دی سموگ سٹی‘ کہا جاتا تھا۔ میکسیکو کے شہر میکسیکو سٹی کو دیکھ لیں بلکہ حال میں چین میں بیجنگ کو دیکھیں۔‘

عابد عمر نے کہا کہ ان شہروں میں حکومتوں نے ٹھوس اقدامات لیے اور سموگ کیوں پیدا ہوتا ہے اس کی وجہ پر غور کیا۔

سموگ
Getty Images

’ہم کانفرنس اور ورکشاپ کر کے سمجھتے ہیں ہمارا کام ہو گیا‘

پنجاب حکومت کے ’سموگ مٹیگیشن پلان‘ یعنی سموگ سے نمٹنے کے منصوبے پر تنقید کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’گاڑیوں اور ٹرکوں کی آمد و رفت پر پابندی لگانا یا تُکا لگا کر ان کے اخراج کے نظام کو چیک کرنے سے کچھ نہیں ہو گا۔ کیونکہ لوگ جرمانہ بھر دیتے ہیں یا دوسرے طریقے نکال لیتے ہیں۔ خراب گاڑیوں سے مضر صحت دھوئیں کا اخراج بند نہیں ہوتا۔‘

انجینیئر ارشد عباسی اسلام آباد کے سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ میں پانی اور توانائی کے مشیر ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’سموگ مٹیگیشن پلان ردعمل کے طور پر پیش کیا گیا ہے جبکہ اس مسئلے پر ایک طویل عرصے سے بات ہو رہی ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’ورلڈ بینک جیسے اداروں اور تنظیموں سے پنجاب حکومت کو ماحولیاتی آلودگی سے نمٹنے کے لیے عطیہ دیا گیا لیکن یہاں ہم کانفرنس اور ورکشاپ کر کے سمجھتے ہیں ہمارا کام ہو گیا۔‘

عابد عمر نے ورلڈ بینک کی جانب سے پنجاب حکومت کو 2018 میں فضائی آلودگی سے نمٹنے کے لیے عطیہ کیے ہوئے فنڈز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ ’اس میں کہا گیا تھا کہ لاہور میں 30 ایئر کوالٹی مانیٹر نصب کیے جائیں گے۔ تاہم تا حال صرف چار ایسے مانیٹر لگائے گئے ہیں جن میں سے صرف دو درست طور پر کام کر رہے ہیں۔‘

انجینیئر ارشد عباسی جو توانائی کے شعبہ سے 32 سال سے منسلک ہیں نے کہا کہ ’صنعتیں بند کروانے سے مسئلہ حل نہیں ہو گا بلکہ ان میں استعمال ہونے والا ایندھن بدلنا ہو گا جس کے دیگر متبادل موجود ہیں۔ اس کے علاوہ شمسی توانائی کا بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔‘

لاہور سموگ
Getty Images

کراچی جیسے شہروں میں سموگ کیوں نہیں ہوتی؟

سموگ کیوں ہوتی ہے اور کراچی جیسے شہر میں فضائی آلودگی پنجاب سے کم کیسے ہے اس پر روشنی ڈالتے ہوئے ماہرین نے کہا کہ یہ ایک قدرتی عمل ہے جسے ’تھرمل اِنورژن‘ کہتے ہیں۔

اس بارے میں بات کرتے ہوئے انجینیئر ارشد عباسی کہتے ہیں کہ جب درجہ حرارت زیادہ ہوتا ہے تو آلودہ گیسز آسمان میں اوپر کی طرف اڑ جاتی ہیں جبکہ جب درجہ حرارت نیچے گرتا ہے تو یہ گیسز زمین پر ہی رہ جاتی ہیں۔

عابد عمر نے بتایا کہ ’کراچی میں کیونکہ سمندر کی طرف سے ہوا چلتی ہے اور وہاں کا موسم گرم رہتا ہے تو وہاں فضائی آلودگی ہونے کے باوجود سموگ کی سطح اس طرح نہیں ہوتی جیسے پنجاب میں ہوتی ہے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.