پاکستان میں انٹرنیٹ پر بلا روک ٹوک رسائی کے لیے استعمال کیے جانے والے ’غیر قانونی‘ ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک (وی پی این) کے خلاف نہ صرف کریک ڈاؤن جاری ہے بلکہ اب ملک کے جید علما نے انھیں ’غیر شرعی‘ بھی قرار دے دیا ہے۔
پاکستان میں انٹرنیٹ پر بلا روک ٹوک رسائی کے لیے استعمال کیے جانے والے ’غیر قانونی‘ ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک (وی پی این) کے خلاف نہ صرف کریک ڈاؤن جاری ہے بلکہ اب ملک میں اسلامی نظریاتی کونسل نے انھیں ’غیر شرعی‘ بھی قرار دے دیا ہے۔
کئی لوگوں کے لیے یہ بات دلچسپ تھی کہ جب اسلامی نظریاتی کونسل نے ’ممنوع ویب سائٹس تک رسائی کے لیے‘ وی پی این کے استعمال کو ’غیر شرعی‘ قرار دیا تو یہ خبر سرکاری چینل پی ٹی وی نے ایکس پر بھی شیئر کی جسے اب حذف کر دیا گیا ہے۔
ملک میں رواں برس فروری سے ایکس تک رسائی پر پابندی ہے اور وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے ستمبر کے دوران اس کی وجہ ’قومی سلامتی‘ بتائی تھی تاہم خود عطار تارڑ سے لے کر وزیراعظم شہباز شریف، حکومتی وزرا اور اپوزیشن کے سیاستدانوں تک سبھی بذریعہ وی پی این ایکس پر بلا ناغہ پوسٹ کرتے نظر آتے ہیں۔
مگر پاکستان میں جب جب کوئی وزیر یا حکومتی عہدیدار حتیٰ کہ وزیر اعظم شہباز شریف، ٹویٹ کرتے ہیں تو صارفین بھی ان سے سوال کیے بنا نہیں رہتے کہ بندش کے باوجود اُن کا ایکس اکاؤنٹ اب تک کیسے چل رہا ہے؟
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے مطابق ملک میں کاروبار، آئی ٹی کمپنیوں اور فری لانسرز کے لیے 30 نومبر تک وی پی این کی رجسٹریشن کا عمل جاری ہے۔
پی ٹی اے نے 13 نومبر کو ایک بیان میں کہا تھا کہ وی پی این رجسٹریشن سے متعلق فریم ورک پر سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی گئی ہے جس کا مقصد ’قومی سلامتی کے تحفظ کو یقینی بناتے ہوئے ایک محفوظ، رسائی کے قابل اور تابع دار ڈیجیٹل ماحول تشکیل دینا ہے۔‘
پاکستان میں وی پی این کو ’غیر شرعی‘ کیوں قرار دیا گیا؟
پاکستان میں قانون سازی پر رائے دینے والے آئینی ادارے اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنے اعلامیے میں کہا ہے کہ ’ممنوع ویب سائٹس کے لیے‘ وی پی این کا استعمال ’غیر شرعی‘ ہے۔
جمعے کو ایک بیان میں اسلامی نظریاتی کونسل نے ’غیر قانونی‘ وی پی این بند کرنے کی حکومتی کوششوں کا دفاع کیا اور کہا کہ حکومت ’برائی اور برائی تک پہنچانے والے تمام اقدامات کا انسداد کرے۔‘
اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ علامہ ڈاکٹر راغب نعیمی نے اس پریس ریلیز میں کہا کہ وی پی این کا استعمال ’جس سے غیر اخلاقی یا غیر قانونی امور تک رسائی مقصود ہو، شرعاً ممنوع ہے۔‘
جمعے کو ایک خط میں وزارتِ داخلہ نے پی ٹی اے کو یہ حکم دیا تھا کہ غیر قانونی وی پی این کو بلاک کیا جائے کیونکہ ’دہشت گرد اپنی شناخت چھپانے اور مواد پھیلانے کے لیے انھیں استعمال کر رہے ہیں۔‘
وزارتِ داخلہ نے مزید کہا کہ وی پی این کے ذریعے ملک میں ’فحش ویب سائٹس اور توہین آمین مواد تک رسائی حاصل کی جا رہی ہے‘ لہذا پاکستان بھر میں ’غیر قانونی وی پی این بلاک کیے جائیں۔۔۔ پی ٹی اے 30 نومبر تک وی پی این کی رجسٹریشن کا عمل مکمل کرے۔‘
دوسری طرف ایمنسٹی ٹیک نے ایکس پر ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستان میں ’غیر قانونی‘ یا ’غیر رجسٹرڈ شدہ‘ وی پی این پر پابندی ’رازداری کے حق کے عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ یہ شہریوں کی معلومات تک رسائی میں رکاوٹ ہے اور اس سے اظہار رائے کی آزادی محدود ہو گی۔‘
اس کا کہنا ہے کہ پاکستان کی وزارت داخلہ نے اس فیصلے کے لیے ’دہشت گردی کو غیر واضح جواز بنایا جس سے انٹرنیٹ پر مواد کو کنٹرول کرنے کی حکومتی طاقت کا بے دریغ استعمال ظاہر ہوتا ہے۔‘
وی پی این کیا ہے اور پاکستان میں اس کا استعمال کیوں بڑھا؟
وی پی این دراصل ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک ہے جو عام طور پر انٹرنیٹ کے محفوظ استعمال کے لیے کام آتے ہیں۔
وی پی این ہماری شناخت اور مقام چھپا لیتا ہے۔ یوں صارفین ایسی ویب سائٹس اور مواد تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں جن پر ملک میں پابندی عائد ہے۔
رواں برس فروری کے عام انتخابات کے دوران انٹرنیٹ کی بندش اور ایکس تک محدود رسائی کی وجہ میں ملک میں وی پی اینز کا استعمال بڑھ گیا ہے۔
مارچ میں وی پی این کی سروسز فراہم کرنے والی سوئس کمپنی پروٹون نے بتایا تھا کہ پاکستان میں گذشتہ ایک سال کے اندر وی پی این کے استعمال میں ’چھ ہزار فیصد‘ اضافہ ہوا ہے۔
وی پی اینز بنانے والی دوسری کمپنیوں نے بھی پاکستانی صارفین بڑھنے کی نشاندہی کی ہے۔
تاہم حالیہ کچھ میہنوں سے ملک میں سلو انٹرنیٹ کی شکایات بھی سامنے آئی ہیں۔ پاکستان کی ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی اس حوالے سے خاموش ہے اور تاحال اس بارے میں کوئی آفیشل جواب موجود نہیں ہے لیکن ٹیلی کام کمپنی کے ایک افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا تھا کہ ’ریاستی اداروں کی جانب سے انٹرنیٹ فائر وال لگائی گئی ہے جس کی وجہ سے سوشل میڈیا ایپلیکیشنز چلانے میں مسئلہ آ رہا ہے۔‘
اور خیال کیا جاتا ہے کہ اسی باعث وی پی اینز کا استعمال بڑھا ہے۔
’پاکستان میں وی پی این حرام‘
ویسے تو پاکستان میں ایکس تک رسائی ممکن نہیں مگر ہم نے صارفین، اور حکومتی عہدیداران، کی طرح وی پی این استعمال کرتے ہوئے یہ دیکھنا چاہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے بیان پر کیا ردعمل آیا ہے۔
کئی صارفین نے وی پی این کو ’غیر شرعی‘ قرار دینے پر حیرت ظاہر کی۔
ناصر ادیب نامی صارف نے اسلامی نظریاتی کونسل کے بیان سے مختلف رائے اپنائی۔ انھوں نے طنز کرتے ہوئے وی پی این کو ایک ’نیاز‘ قرار دیا جو ’سب خوشی خوشی تقسیم کرتے ہیں اور طلب والوں تک پہنچ جاتی ہے۔ جوں جوں زیادہ تقسیم ہوتی جاتی ہے، برکت پڑتی جاتی ہے اور پورا ملک فیض یاب ہو جاتا ہے۔‘
یہ بات اس حد تک تو درست ہے کہ جب سے پی ٹی اے نے ملک میں بعض وی پی این بلاک کیے ہیں تب سے صارفین ایک دوسرے کو ایسے وی پی این کے بارے میں بتا رہے ہیں جو اب بھی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
کچھ روز قبل ہم بھی ایک روز شاپنگ کرنے گئے اور وہاں سے ایک دوست کو تصویریں بھیجنے کے قابل ہوئے تو سیلز مین نے آ کر پوچھا ’آپ کون سا وی پی این استعمال کر رہے ہیں مجھے بھی اس کا نام بتا دیں؟‘
صارف محمد تقی نے مشورہ دیا کہ ’ویسے تو جس کمپیوٹر پر اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنا فتویٰ جاری کیا ہے وہ بھی فسق و فجور کی جستجو میں استعمال ہوتا ہے۔ لگے ہاتھوں اس پر بھی پابندی لگا دیں۔‘
ضیا تنولی نے لکھا ’کاش ہم مذہب کی سیاسی خرید و فروخت بند کر سکیں ایک زمانے میں اے سی کو اسلام میں حرام قرار دینے کا فتوی جاری ہوا اس موقف کے ساتھ کہ اے سی جنت جیسی ٹھنڈی ہوا دیتا ہے یہ انگریز کی اسلام کے خلاف سازش ہے اس لیے اس پر پابندی عائد کی جائے آج وی پی این کے فتوی نے جہالت کے دور کی یاد تازہ کر دی۔‘
سرور باری نے لکھا ’تاریخ میں لاؤڈ سپیکر اور پرنٹنگ پریس کے خلاف ملاؤں نے فتوے دیے اور آج وی پی این پر۔ یہ رویہ اس وقت بھی زوال کا باعث بنا اور آج بھی۔‘
ڈیجیٹل حقوق کے لیے آواز اٹھانے والی فریحہ عزیز کے مطابق سوال تو یہ ہے کہ ’انھیں کیسے معلوم کہ یہ سب (ممنوع مواد) تک رسائی وی پی این کے ذریعے حاصل کی جا رہی ہے۔ یہ دعوے غلط ہیں۔‘
ڈیجیٹل رائٹس کے لیے آواز اٹھانے والے اسامہ خلجی نے اس فتوے پر کڑی تنقید کرتے ہوئے لکھا ’وزارت داخلہ کی طرف سے وی پی این پر پابندی کا نوٹیفکیشن پاکستان میں حکومت کا ایک اور مضحکہ خیز اقدام ہے جو اس تاثر کو مستحکم کرتا ہے کہ اس حکومت کو آئی ٹی انڈسٹری یا فری لانسرز کے کام کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ معیشت واضح طور پر مسلم لیگ ن کی حکومت کی ترجیح نہیں ہے۔‘
https://twitter.com/cyalm/status/1857421749303840999
سابق وزیر برائے انفارمیشن و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے پابندی کے حوالے سے ایکس پر اپنا ردِعمل دیتے ہوئے اسے ’ایک بدقسمت فیصلہ‘ قرار دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اس طرح کے غیر ضروری فتوؤں سے پاکستان میں سائنس و ٹیکنالوجی کے لیے سپیس مزید کم ہو گی۔‘
ان کا مزید کہنا ہے کہ ’اس سے ملک میں سائنس و ٹیکنالوجی کو شدید دھچکا پہنچا ہے، اسلامی نظریاتی کونسل اس فتوے کو فوری واپس لے اور سائنس و ٹیکنالوجی اور ریسرچ پر کوئی بات کرتے احتیاط کریں کیونکہ یہ انتظامی مسائل ہیں اور انتظامیہ کو اسے حل کرنے دینا چاہیے۔ اسے مذہبی بحث کا حصہ بنانے سے سائنس و ٹیکنالوجی کی سپیس مزید کم ہو گی۔‘
تاہم ان کے اس بیان پر کچھ سوشل میڈیا صارفین انھیں ان کے دور کی بھی یاد کرواتے نظر آئے۔ یاد رہے فواد چوہدری سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر پابندیوں کے حامی رہے ہیں۔ ایک ٹویٹ میں انھوں نے یہاں تک کہا تھا کہ ’سوشل میڈیا ریگولیشن عوامی مفاد میں ہیں۔ آپ نے امریکہ و برطانیہ کی ریگولیشنز پر تو کبھی تنقید نہیں کی مگر پاکستان میں آپ کو زیرو پابندیاں چاہییں؟‘
مظہر نامی ایک صارف نے وی پی این پر پابندی کے حکومتی اقدام کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستانی حکومت مفت وی پی این بلاک کر رہی ہے۔ اکثر ممالک میں انھیں قومی سلامتی کی خاطر بلاک کیا جاتا ہے۔‘
مگر ایک دوسرے صارف نے انھیں یاد کرانا چاہا کہ ’بھائی سعودی عرب اور دبئی میں (بھی) وی پی این بین ہے، پر ہم پھر بھی استعمال کرتے ہیں۔‘
صحافی سیریل المائدہ یہ بھی پوچھتے نظر آئے کہ ’یہ فتویٰ غیر مسلموں پر بھی لاگو ہو گا یا نہیں؟‘
ایک اور صارف نے لکھا ’پاکستان میں جو حالات چل رہے، اسلامی نظریاتی کونسل نے وی پی این کے استعمال کے بعد اگلا فتویٰ عقل کے استعمال کے خلاف دے دینا ہے۔‘