پنجاب کی وزارتِ ماحولیات کے مطابق پاکستان میں تیار کردہ ٹیکنالوجی کی مدد سے مصنوعی بارش کا پہلا تجربہ جہلم، گوجر خان، چکوال اور تلہ گنگ میں ’کلاؤڈ سیڈنگ‘ کے ذریعے کیا گیا۔ اس کے سبب جہلم اور گوجر خان میں چند گھنٹوں کے لیے بارش ہوئی تھی۔
پاکستان کے صوبہ پنجاب کی حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ انھوں نے کچھ شہروں پر ملک میں ہی تیار کردہ ٹیکنالوجی کی مدد سے مصنوعی بارش برسادی ہے۔
صوبہ پنجاب کے متعدد علاقے خصوصاً دارالحکومت لاہور گذشتہ کئی ہفتوں سے شدید سموگ کی لپیٹ میں ہیں جس کے سبب حکومت نے وہاں ’گرین لاک ڈاؤن‘ بھی نافذ کر رکھا ہے۔
پنجاب میں سموگ کی بگڑتی صورتحال کے پیش نظر صوبائی دارالحکومت لاہور اور ملتان میں ہیلتھ ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے۔
پنجاب کے مختلف شہریوں جن میں لاہور اور ملتان سہرفہرست ہیں وہاں رواں ماہ ائیر کوالٹی انڈیکس متعدد مرتبہ ایک ہزار سے اوپر گیا۔
یاد رہے کہ جب یہ نمبر 300 سے اوپر جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ماحول چرند پرند و انسانوں کی صحت کے لیے خطرناک ہو گیا ہے۔
پاکستانی حکام اس ماحولیاتی بحران سے نمٹنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں اور اس ضمن میں دو ہفتوں کے دوران مختلف اقدامات بھی اٹھائے گئے ہیں۔
متاثرہ شہروں سمیت صوبے میں سکول بند ہیں، ملازمین سے کہا گیا ہے کہ وہ گھروں سے کام کریں اور لوگوں سے درخواست کی جا رہی ہے کہ وہ اپنے گھروں سے بلا ضرورت باہر نہ نکلیں۔
پنجاب کی وزارتِ ماحولیات کے مطابق پاکستان میں تیار کردہ ٹیکنالوجی کی مدد سے مصنوعی بارش کا پہلا تجربہ جہلم، گوجر خان، چکوال اور تلہ گنگ میں ’کلاؤڈ سیڈنگ‘ کے ذریعے کیا گیا۔ اس کے سبب جہلم اور گوجر خان میں چند گھنٹوں کے لیے بارش ہوئی تھی۔
’کلاؤڈ سیڈنگ‘ ایک ایسی تکنیک ہے جس سے بادلوں کے بخارات کو بارش میں تبدیل کرنے کی رفتار بڑھائی جاتی ہے اور موسم میں یہ مصنوعی تبدیلی لانے کے لیے نمک کا استعمال کیا جاتا ہے۔
پنجاب کی وزارتِ ماحولیات کے مطابقابتدائی طور پر یہ تجربہ لاہور میں کیا جانا تھا مگر وہاں پر بادل اس حالت میں نہیں تھے کہ وہاں مصنوعی بارش برسائی جا سکتی۔
وزارت کے مطابق بادلوں کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے جہلم اور گوجر خان میں مصنوعی بارش برسائی گئی۔
دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ دیگر علاقوں میں کی گئی ’کلاوڈ سیڈنگ‘ کے اثرات لاہور میں بھی بارش کی صورت میں برآمد ہونے کے قوی امکانات ہیں، جس کے نتیجے میںسموگ میں کمی لانے میں بڑی مدد ملے گی۔
محکمہماحولیات پنجاب کے مطابق مصنوعی بارش برسانے کے تجربے میں پاکستانی فوج کے ادارے سٹریٹجک پلانز ڈویژن (ایس پی ڈی)، آرمی ایوی ایشن، سپارکو اور ماحولیاتی تحفظ کے ادارے ای پی اے نے بھی پنجاب حکومت کے ساتھ تعاون کیا ہے۔
پہلا تجربہ کیسے ہوا؟
پنجاب کی وزارت ماحولیات کے اس منصوبے پر کام کرنے والے نعمان یونس نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ اس ٹیکنالوجی کو حاصل کرنے کے لیے پوری منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ اس کا آغاز اس وقت ہوا جب گذشتہ برس سموگ کی ابتدا ہوئی اور لاہور میں دبئی کے موسمیاتی ماہرین کے تعاون سے بارش برسائی گئی۔
نعمان یوسف کے مطابق گذشتہ برس دبئی سے آنے والے چھ ماہرین، سول ایوی ایشن، ایس ڈی پی، سپارکو، محکمہ موسمیات اور دیگر اداروں نے ملک کر ایک ٹیم تشکیل دی تھی جس کا اجلاس ایک ہفتے میں ایک بار ضرور ہوتا تھا۔
وزارتِ ماحولیات کے عہدیدار نے مصنوعی بارش کے عمل کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ کلاؤڈسیڈنگ کے لیے بادلوں کا نیچے ہونا اور زیادہ ہونا ضروری ہوتا ہے۔ اس دوران ہوا میں نمی کے تناسب اور گرمی و سردی جیسے عوامل کا بھی مناسب ہونا لازمی ہوتا ہے۔
گذشتہ برس کے بعد سے اب تک محکمہ موسمیات ہر ہفتہ یہ پیش گوئی کرتا تھا کہ کلاؤڈ سیڈنگ کی بھی جا سکتی ہے یا نہیں۔
نعمان یونس کا کہنا تھا کہ گذشتہ سالتقریباً ڈیڑھ ماہ بعد 16دسمبر کو ایسی صورتحال ملی تھی کہ وہ مصنوعی بارش کرسکیں، جس سے سموگ کسی حد تک کنٹرول ہوئی تھی۔
ان کا کہناتھا کہ ’اس موقع پر پنجاب حکومت نے فوج کے ادارے ایس ڈی پی سے درخواست کی کہ وہ مقامی طور پرمصنوعی بارش برسانے والی ٹیکنالوجی تیار کریں۔ اس پر وہ سات، آٹھ ماہ تک تجربات کرتے رہے اور اب ہم اس قابل ہوئے ہیں کہ خود ہی یہ کامیاب تجربہ کرسکیں۔‘
مصنوعی بارش برسانے کے لیے کون سی ٹیکنالوجی استعمال کی گئی؟
نعمان یونس کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال دبئی کی ٹیم نے لاہور میں فلیئر ٹیکنالوجی کے ذریعے مصنوعی بارش برسائی تھی جبکہ ’ہم نے سالٹ واٹر ٹیکنالوجی استعمال کی ہے، جس میں سوڈیم کلورائیڈ اور سلور آئیوڈائیڈ سے اپنا سالٹ تیار کیا۔ اسکو جہاز کے ذریعے بادلوں پر چھڑکا گیا۔‘
’ویسے اگر پہلے سے بارش کے 20 فیصد امکانات ہوں تو اس چھڑکاؤ کی مدد سے یہ امکانات 50 یا 60 فیصد تک چلے جاتے ہیں۔‘
نعمان یونس کے مطابق اس ٹیکنالوجی کا ٹرائل رواں برس اپریل میں راولپنڈی کی طرف کیا گیا تھا اور اس کے لیے ایس ڈی پی کے سیسنا جہاز کا استعمال کیا گیا تھا۔
حکومت پنجاب نے مصنوعی بارش سے متعلق معاملات پر نظر رکھنے کے لیے ایک مانیٹرنگ اینڈ مینجمنٹ سیل بھی تشکیل دے رکھا ہے جو کہ کلاؤڈ سیڈنگ کے دن اور وقت کا تعین کرتا ہے۔
وزارت ماحولیات کے عہدیدار کے مطابق اس وقت لاہور کے موسم اور آب ہوا کو مانیٹر کیا جارہا ہے۔
’جب بھی بادلوں کی صورتحال ایسی ہوئی جس میں مصنوعی بارش برسانا ممکن ہو سکے تو وہاں بھی تجربہ کیا جائے گا۔‘
’کلاؤڈ سیڈنگ‘ کیا ہے اور کیسے کی جاتی ہے؟
کلاؤڈ سیڈنگ ایک ایسی تکنیک ہے جس سے بادلوں کے بخارات کو بارش میں تبدیل کرنے کی رفتار بڑھائی جاتی ہے اور موسم میں یہ مصنوعی تبدیلی لانے کے لیے نمک کا استعمال کیا جاتا ہے۔
سب سے پہلے سیٹلائٹ ڈیٹا کی مدد سے ایسے بادلوں کی نشاندہی کی جاتی ہے جو ممکنہ طور پر شدید بارش کا باعث بن سکیں۔
خصوصی جہاز کی پرواز وہاں کی جاتی ہے جہاں بادلوں سے ٹربیلنس پیدا ہوتی ہے۔ وہاں پہنچ کر ایسے کیمیائی مادے خارج کیے جاتے ہیں جن سے چین ری ایکشن ہو۔ اس سے بادل غیر مستحکم ہوتا ہے اور جہاز کو فوراً وہاں سے باہر نکالنا پڑتا ہے۔
طیاروں یا دیگر ڈیوائسز کی مدد سے بادلوں پر نمک (سلوور آئیوڈائیڈ یا کلورائیڈ) کے چھڑکاؤ سے بادلوں میں آئس کرسٹل بنتے ہیں۔ بادلوں میں موجود نمی ان آئس کرسٹلز کو بارش میں بدل دیتی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق اوسط چار گھنٹوں کی پرواز کے دوران 24 کلاؤڈز کو ’سیڈ‘ کیا جا سکتا ہے۔
ماہرین کی رائے میں ہلکی پھلکی بارش بھی فضائی آلودگی میں کمی کا باعث بن سکتی ہے۔ مگر یہ ضروری نہیں کہ یہ طریقہ ہمیشہ کارگر ثابت ہو۔
فضائی آلودگی اور صحت کے محقق پولاش مکھرجی کا کہنا ہے کہ اس کے لیے ضروری ہے کہ ماحولیاتی حالات آپ کے اہداف کے عین مطابق ہوں۔
انھوں نے کہا کہ ’بادلوں میں نمی کی بالکل ٹھیک مقدار ہونی چاہیے تاکہ آئس کرسٹل بن سکیں۔‘ انھوں نے دلی کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اس میں ہوا کی رفتار جیسے عوامل بھی اہم ہوتے ہیں جن میں سال کے اس حصے کے دوران کافی رد و بدل آتا رہتا ہے۔
انڈیا میں اس کا پہلا تجربہ 1952 میں کیا گیا تھا۔ 1960 کی دہائی کے دوران امریکی فوج نے ویتنام کے علاقوں میں فوجی سامان کی ترسیل روکنے کے لیے متنازع طور پر یہ تکنیک استعمال کی تھی۔
چین، متحدہ عرب امارات اور بعض انڈین ریاستیں قحط جیسی صورتوں میں بھی کلاؤڈ سیڈنگ کی آزمائش کرتی ہیں۔