امریکی اتحادی سعودی عرب، اسرائیل کے بجائے تہران کے قریب کیوں آ رہا ہے؟

گذشتہ ایک ماہ میں ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے درمیان دو ملاقاتیں ہو چکی ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی تاریخ کو دیکھتے ہوئے یہ پیش رفت غیر معمولی ہے اور حالیہ دنوں کے واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں روایتی حریف اب فاصلے مٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
getty
Getty Images

سعودی عرب اور ایران مشرق وسطیٰ کے اہم ممالک ہیں اور عالم اسلام کی قیادت کے لیے حریف بھی مانے جاتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ کے ان دو بااثر ممالک یعنی سنی اکثریتی سعودی عرب اور شیعہ اکثریتی ایران کے درمیان تعلقات پیچیدہ اور کشیدہ نوعیت کے رہے ہیں۔

مذہبی، سیاسی اور علاقائی وجوہات ان دونوں ممالک کے تعلقات کو متاثر کرتی ہیں۔ لیکن مارچ 2023 میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان چین کی ثالثی اور پھر اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان گذشتہ سال 7 اکتوبر کے واقعات کے بعد ایران اور سعودی عرب کے تعلقات میں بہت کچھ بدل گیا ہے۔

حالیہ دنوں کے واقعات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ دونوں روایتی حریف اب فاصلے مٹانے اور ایک ساتھ نظر آنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

گذشتہ ایک ماہ کے اندر ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے درمیان دو ملاقاتیں ہو چکی ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی تاریخ کو دیکھتے ہوئے یہ پیش رفت غیر معمولی ہے۔

ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے بدھ کے روز بغیر کسی ہچکچاہٹ کے واضح طور پر کہا کہ ’علاقائی سطح پر بات چیت کوئی آپشن نہیں بلکہ ضرورت ہے۔‘

ایرانی وزیر خارجہ نے سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں عرب ممالک کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے بعد ایکس پر لکھا کہ ’مشترکہ خدشات اور مشترکہ مفادات ہیں۔ ہم سب خطے کو درپیش بڑے بحرانوں کا سامنا کرنے میں تعاون اور ہم آہنگی کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔ ایک آپشن نہیں بلکہ ضرورت ہے، ہم سب نے اس پر اتفاق کیا ہے۔‘

اسی دوران گذشتہ پیر کو ریاض میں اسلامی ممالک کی غیر معمولی اور ہنگامی کانفرنس کے بعد ایران کے نائب صدر محمد رضا عارف نے سعودی ولی عہد سے ملاقات کی ہے۔

اس ملاقات کے دوران محمد رضا عارف نے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو دورہ ایران کی دعوت بھی دی اور کہا کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی ترقی کے لیے کھلنے والا نیا راستہ ایک ’ناقابل واپسی راستہ‘ ہے۔

Saudi Iran
Getty Images

سعودی ولی عہد سے ملاقات کے بعد ایرانی نائب صدر نے یہ بھی کہا کہ ایران اور سعودی عرب کے تعلقات میں بہتری سے نہ صرف یہ دونوں ممالک اور مشرق وسطیٰ متاثر ہوں گے بلکہ اس سے خطے کے اسلامی ممالک کے درمیان بھائی چارہ بھی بڑھے گا۔

ایرانی نائب صدر نے یہ بھی کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان سیاسی تعلقات میں بہتری کے بعد اقتصادی، ثقافتی، سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں بھی تعاون بڑھے گا۔

ساتھ ہی ایرانی نائب صدر سے ملاقات کے بعد سعودی ولی عہد نے یہ بھی کہا تھا کہ ایران کے ساتھ تعلقات بہتر کرنا سعودی عرب کے مفاد میں ہے۔

ریاض میں عرب ممالک کی کانفرنس سے ایک روز قبل یعنی گذشتہ اتوار کو سعودی ولی عہد نے ایرانی صدر سے فون پر بات بھی کی تھی۔ تاہم ایرانی صدر نے اپنے مصروف شیڈول کی وجہ سے ریاض میں منعقدہ کانفرنس میں شرکت نہیں کی۔

ایران کے سرکاری میڈیا کے مطابق اس فون کال کے دوران ایرانی صدر نے سعودی ولی عہد سے کہا کہ انھیں امید ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات مزید بہتر ہوں گے۔

ایرانی میڈیا کے مطابق صدر مسعود پیزیشکیان سے فون پر بات کرتے ہوئے سعودی ولی عہد نے کہا کہ ایران اور سعودی عرب کے تعلقات اس وقت تاریخی موڑ پر ہیں اور انھیں امید ہے کہ وہ بلند ترین سطح پر پہنچ جائیں گے۔

اتوار کو ہی سعودی عرب کے آرمی چیف جنرل فائز بن حمیت الراولی تہران پہنچے تھے اور ایرانی آرمی چیف میجر جنرل محمد باقری سے ملاقات کی۔

اس ملاقات میں دونوں ممالک نے دفاعی شعبے میں تعاون پر تبادلہ خیال کیا۔

Iran
Getty Images

سعودی اور ایران کے تعلقات

سعودی عرب اور ایران کے درمیان نسلی بنیادوں پر براہ راست تقسیم ہے۔ سعودی عرب سنی اکثریتی ملک ہے اور اسلام کا مرکز ہے، جب کہ ایران میں شیعہ اکثریت میں ہیں اور یہ شیعہ اسلام کا مرکز ہے۔ اسی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان تاریخی طور پر نظریاتی اختلاف رہا ہے۔

سعودی عرب اور ایران کے درمیان مسلم دنیا کی نمائندگی پر بھی دشمنی رہی ہے۔ سنہ 1979 میں ایران میں اسلامی انقلاب برپا ہوا جس کے بعد سعودیہ اور ایران کے درمیان کشیدگی میں بھی مزید اضافہ ہوا۔

تاہم تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ایران اور سعودی عرب کی دشمنی کی وجہ مذہبی نظریات یا فرقہ وارانہ تقسیم نہیں بلکہ علاقائی وجوہات ہیں۔

بین الاقوامی امور کے ماہر مدثر خان کا کہنا ہے کہ ’ایک عام خیال ہے کہ ان دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی اس لیے ہے کیونکہ سعودی عرب سنی ہے اور ایران شیعہ ہے۔ سعودی اور ایران ایک دوسرے کے حریف ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک ملک شیعہ ہے اور دوسرا سنی۔ لیکن ان کے درمیان کشیدگی اور دشمنی عالمی سیاست کی وجہ سے ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ ضروری نہیں ہے کہ ان میں سے ایک ملک دوسرے ملک کے مفادات کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے، لیکن یہ ضروری ہے کہ نہ تو ایران چاہتا ہے کہ سعودی بہت زیادہ بااثر بن جائے اور نہ ہی سعودی عرب یہ چاہتا ہے کہ ایران مشرق وسطیٰ میں سب سے زیادہ طاقتور ہو۔ یہ مشرق وسطیٰ میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان کشیدگی کی بنیادی وجہ رہی ہے۔‘

حالیہ برسوں میں ایران اور سعودی عرب کے مفادات کے درمیان ٹکراؤ واضح ہو چکا ہے۔ ایران یمن میں حوثی باغیوں کی حمایت کرتا ہے جب کہ سعودی عرب حوثیوں کے خلاف لڑ رہا ہے۔

ایران کے ساتھ تعلقات میں بہتری لا کر سعودی عرب حوثیوں کے ساتھ جنگ بندی اور یمن تنازع کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ حوثی باغی سعودی عرب کے تیل اور گیس کے وسائل کے لیے بھی خطرہ ہیں۔

دونوں ممالک کے تعلقات پر امریکہ کا بھی اثر ہے۔ امریکہ ایران کی بڑھتی ہوئی طاقت کو ایک خطرے کے طور پر دیکھتا ہے اور سعودی عرب اپنی سلامتی کے لیے زیادہ تر امریکہ پر انحصار کرتا رہا ہے۔

لیکن حالیہ برسوں میں سعودی عرب نے سلامتی کے لیے امریکہ پر انحصار کم کرنے کی کوششیں کی ہیں۔ سال 2030 کے لیے سعودی عرب کے مقرر کردہ اہداف میں علاقائی استحکام اور سلامتی سرفہرست ہے۔

ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا خیال ہے کہ صرف علاقائی استحکام ہی مشرق وسطیٰ میں اقتصادی ترقی کا باعث بنے گا۔

مارچ 2023 میں چین نے سعودی عرب اور ایران کے درمیان ثالثی کرنے اور دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات بحال کرنے کا اعلان کیا تھا۔ حالیہ برسوں میں ایران نے روس کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مضبوط کیا ہے۔ اس سے یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے علاوہ چین اور روس جیسی عالمی طاقتوں کی مداخلت بھی بڑھ رہی ہے۔

Trump
Getty Images

عرب بمقابلہ اسرائیل سے ایران بمقابلہ عرب

عالمی سیاست کے ابتدائی دور میں مشرق وسطیٰ کی سیاست عرب بمقابلہ اسرائیل تھی۔ سنہ 1948، 1967 اور 1973 کی جنگیں عرب اور اسرائیل کے درمیان تھیں۔

لیکن پچھلے پندرہ بیس برس میں غیر عرب ممالک بھی مشرق وسطیٰ خصوصاً ایران اور ترکی میں اثر انداز ہوئے ہیں اور مشرق وسطیٰ میں ایران کے اثر و رسوخ میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

ایران اپنی طاقت اور حمایت یافتہ گروہوں کے ذریعے براہ راست مشرق وسطیٰ میں اپنے اثر و رسوخ کا دائرہ بڑھا رہا ہے۔ ایران اس وقت مشرق وسطیٰ کی ایک بڑی طاقت ہے۔

امریکہ کی ڈیلاویئر یونیورسٹی کے پروفیسر اور بین الاقوامی امور کے ماہر مقتدر خان کہتے ہیں کہ ’اس کا اثر یہ ہوا کہ مشرق وسطیٰ کے عرب ممالک نے ایران کو بڑا خطرہ سمجھنا شروع کر دیا اور عرب ممالک نے اس کے ساتھ اپنے تعلقات بدل لیے اور اسی کے نتیجے میں اسرائیل کے ساتھ ابراہیم معاہدہ ہوا۔‘

ان کے مطابق امریکہ کی ثالثی میں اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان طے پانے والے معاہدوں کا مقصد اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا تھا۔ متحدہ عرب امارات اور بحرین 2020 میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحال کرنے والے پہلے عرب ممالک بن گئے۔

بعد ازاں سوڈان اور مراکش نے بھی ان معاہدوں میں شمولیت اختیار کی اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحال کر لیے۔ ان معاہدوں کے بعد عرب ممالک میں اسرائیل کے سفارت خانے کھل گئے اور براہ راست پروازیں شروع ہو گئیں۔ کئی دیگر شعبوں میں بھی تعاون بڑھانے کی کوششیں کی گئیں۔

ابراہیم معاہدے کا واضح پیغام یہ تھا کہ مشرق وسطیٰ میں ایران اسرائیل سے بڑا خطرہ ہے۔

Israel
Getty Images

غزہ پر اسرائیلی حملوں کے بعد کی صورتحال

لیکن اب 7 اکتوبر کے واقعات کے بعد یہ صورتحال بھی بدل گئی ہے۔ سعودی عرب جو امریکہ کی ثالثی سے اسرائیل کے ساتھ معاہدہ کرنے جا رہا تھا اس نے ابھی تک اسرائیل کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں کیا۔

یاد رہے گذشتہ برس 7 اکتوبر 2023 کو حماس نے اسرائیل پر حملہ کر کے 1200 سے زیادہ اسرائیلیوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ اس کے بعد اسرائیل نے غزہ میں بڑی فوجی مہم شروع کی اور گذشتہ 13 ماہ کے دوراناسرائیلی حملوں میں 43 ہزار سے زائد فلسطینی ہلاک اور لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں اور اب یہ لڑائی لبنان تک پہنچ گئی ہے۔

حالیہ چند مہینوں میں پہلی بار اسرائیل نے ایران پر بھی براہ راست حملے کیے اور ایران نے اسرائیل پر میزائل حملوں کا جواب دیا۔ اسرائیل اور ایران کے درمیان کشیدگی بھی اپنے عروج پر ہے اور اس کے فوجی تصادم تک پہنچنے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ 7 اکتوبر کے حملوں نے اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان معمول پر آنے والے تعلقات کو پٹڑی سے اتار دیا ہے اور سعودی عرب کو ایران کے قریب آنے کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔

مقتدر خان کا کہنا ہے کہ ’ایران کو تنہا کرنے کے لیے اسرائیل اور امریکہ چاہتے ہیں کہ اسرائیل سعودی عرب کے ساتھ معاہدہ کرے۔ لیکن اگر سعودی عرب ایران کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر کر لے اور ایران کو اپنے لیے خطرہ سمجھنا چھوڑ دے تو سعودی عرب کو اسرائیل کے سامنے جھکنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔‘

اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان معاہدوں کی ثالثی کرنے والے ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ امریکی صدر منتخب ہو گئے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس سے مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر بھی اثر پڑے گا۔

مقتدر خان کا کہنا ہے کہ ’ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکہ کے صدر بننے کے بعد سعودی عرب پر اسرائیل کے ساتھ معاہدہ کرنے کے لیے دباؤ ہو گا۔ ایسی صورت حال میں یا تو سعودی عرب اس دباؤ کو نظر انداز کر سکتا ہے یا معاہدے کے لیے اپنے مطالبات کو بڑھا سکتا ہے۔‘

’لیکن مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورتحال میں یہاں ایران اور سعودی عرب کے تعلقات سب سے اہم ہیں، اگر ایران اور سعودی عرب کے تعلقات خراب ہوئے تو سعودی عرب فلسطینیوں کا مسئلہ چھوڑ دے گا اور پھر جلد یا بدیر اسرائیل کے ساتھ کوئی معاہدہ کر لے گا۔‘

ان کے مطابق ’حالیہ آثار ایسے ہیں کہ سعودی عرب اور ایران قریب آ رہے ہیں۔ مثال کے طور پر پچھلے سال سعودی عرب اور ایران نے چین کے ذریعے سفارتی تعلقات بحال کیے تھے۔ دونوں ممالک کی فوجوں نے مشترکہ مشقیں بھی کی ہیں۔‘

گذشتہ پیر کو سعودی دارالحکومت ریاض میں مشرق وسطیٰ کی صورتحال کے حوالے سے عرب ممالک کی ہنگامی کانفرنس میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے اسرائیل کے لیے انتہائی سخت زبان استعمال کی اور کہا کہ اسرائیل نسل کشی کر رہا ہے۔

مقتدر خان کا کہنا ہے کہ ’محمد بن سلمان کی زبان میں یہ سختی ایران کے ساتھ بہتر تعلقات کی وجہ سے ہے۔ اگر سعودی عرب کے ایران کے ساتھ تعلقات بہتر ہوتے ہیں تو اس کا براہ راست اثر اسرائیل کے ساتھ معاہدے پر پڑے گا اور اس کا اثر مشرق وسطیٰ پر بھی پڑے گا۔‘

Saudi
Getty Images

ایران اور سعودی عرب کیوں قریب آرہے ہیں؟

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ایران اور سعودی دونوں کی مجبوری ہے کہ وہ اپنے اختلافات کو دور کریں اور اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کریں۔

پروفیسر مدثر خان کا کہنا ہے کہ ’کسی حد تک دونوں ممالک اپنے تعلقات کو بہتر بنانا چاہتے ہیں لیکن اب جو پیش رفت ہو رہی ہے وہ اس بات کا براہ راست اشارہ ہے کہ سعودی عرب اور ایران ایک دوسرے کے ساتھ روابط بڑھانا چاہتے ہیں اور اس کی براہ راست وجہ مشرق وسطیٰ کے موجودہ حالات ہیں۔‘

ان کے مطابق تاہم سعودی عرب کو بہت احتیاط سے آگے بڑھنا ہو گا کیونکہ سعودی عرب کسی فوجی تنازع میں براہ راست ملوث ہونے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا۔

مدثر خان کا کہنا ہے کہ ’اگر سعودی اور ایران کے درمیان بات چیت فوجی تنازع تک پہنچ جاتی ہے تو سعودی عرب اس تنازع میں براہ راست ملوث نہیں ہونا چاہے گا۔ کیونکہ ایران اور اسرائیل دونوں فوجی طاقتیں ہیں لیکن سعودی عرب فوجی طاقت نہیں ہے۔ سعودی کے پاس سیاسی اور معاشی طاقت ضرور ہے لیکن اس کے پاس اتنی طاقتور فوج نہیں ہے۔

ان کے مطابق سعودی ایسی صورتحال میں نہیں رہنا چاہتا کہ اس کی اپنی سلامتی خطرے میں ہو اور اسے بیرونی قوتوں پر انحصار کرنا پڑے۔

سعودی عرب مشرق وسطیٰ کی بدلتی صورتحال کے درمیان اپنی سلامتی کے حوالے سے بھی پریشان ہے اور اب اس معاملے میں خود مختار بننا چاہتا ہے۔

مدثر خان کا کہنا ہے کہ ’سعودی عرب کے رہنما سمجھ چکے ہیں کہ اگرچہ امریکہ ہتھیار اور دیگر ٹیکنالوجی فراہم کرتا ہے لیکن جب بات سلامتی کی ہو تو وہ مکمل طور پر امریکہ پر انحصار نہیں کر سکتے۔ یمن میں حوثیوں کے ساتھ تنازع کے دوران جب سعودی عرب کی تیل کی پائپ لائنوں پر حملہ کیا گیا تو اس دوران وہ اس بات کو بہتر طور پر سمجھ پایا ہے۔‘

مشرق وسطیٰ کی بدلتی ہوئی صورت حال کے درمیان اگر سعودیہ اور ایران کے تعلقات مزید مضبوط ہوتے ہیں تو کوئی تعجب کی بات نہیں ہو گی۔

تاہم جہاں ایران براہ راست اسرائیل کے خلاف جارحانہ رویہ رکھتا ہے، وہیں سعودی عریب ایسی صورت حال سے گریز کرنا چاہے گا۔

مدثر خان کا کہنا ہے کہ ’اسرائیل اور ایران کے درمیان فوجی تنازع کی صورت میں سعودی عرب یہ واضح کرنا چاہے گا کہ وہ اس تنازع میں کسی فریق کے ساتھ نہیں ہے۔ سعودی عرب اس تنازع سے دور رہنا چاہے گا۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.