ملائیشیا کی حکومت نے کہا ہے وہ 10 برس قبل پراسرار طور پر لاپتہ ہونے والے مسافر طیارے کی تلاش دوبارہ شروع کرنے جا رہی ہے۔
ملائیشیا کی حکومت نے کہا ہے کہ وہ 10 برس قبل پراسرار طور پر لاپتہ ہونے والے مسافر طیارے کی تلاش دوبارہ شروع کرنے جا رہی ہے۔
ملائیشین ایئرلائنز کی فلائٹ ایم ایچ 370 مارچ 2014 میں اس وقت لاپتہ ہو گئی تھی جب وہ 239 افراد کے ساتھ کوالالمپور سے بیجنگ جا رہی تھی۔ بوئنگ 777 کا ملبہ ڈھونڈنے کے لیے کاوشیں برسوں جاری رہیں لیکن کوئی کامیابی نہیں ہوئی۔
جمعے کے روز ملائیشیا کے وزیر ٹرانسپورٹ انتھونی لوک نے کہا کہ کابینہ نے جہاز کی تلاش کے لیے امریکہ میں قائم سمندری تحقیقات کی کمپنی ’اوشین انفینیٹی‘ کے ساتھ 70 ملین ڈالر کا معاہدہ کیا ہے۔
’نو فائنڈ، نو فیس‘ کی پالیسی کے تحت اس کمپنی کو صرف اس صورت میں پیسے ملیں گے جب وہ طیارے کا ملبہ ڈھونڈ لیں گے۔
واضح رہے کہ سنہ 2018 میں بھی ’اوشن انفینیٹی‘ نامی کمپنی کی جانب سے ان ہی شرائط کے تحت تلاش کا کام شروع کیا گیا تھا تاہم تین ماہ بعد انھیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
اس سے قبل سنہ 150 ملین ڈالر کے عوض ایک ایسی ملٹی نیشنل کوشش سنہ 2017 میں ختم ہوئی تھی، جو دو برس سے جہاز کا ملبہ ڈھونڈنے کی کوشش کر رہی تھی۔
اگرچہ حکومت نے ’اصولی طور پر‘ اوشن انفینیٹی کی پیشکش کو قبول کر لیا ہے تاہم وزیر ٹرانسپورٹ لوک نے کہا ہے کہ اس معاہدے کی مخصوص شرائط پر بات چیت ابھی جاری ہے اور انھیں آئندہ سال حتمی شکل دی جائے گی۔
طیارے کے تلاش کے اس نئے مشن میں جنوبی بحرہند میں 15,000 مربع کلومیٹر کے علاقے میں تلاش کی جائے گی۔
وزیر ٹرانسپورٹ لوک کے مطابق ’ہم امید کرتے ہیں کہ اس بار مثبت نتائج حاصل ہوں گے‘ تاکہ اس سے متاثرہ خاندانوں کو صبر آ جائے۔
بی بی سی نے اس جہاز میں سوار مسافروں کے اہلخانہ سے بات کر کے اپنی ایک تحریر رواں برس مارچ میں شائع کی تھی، اسے ذیل میں دوبارہ پیش کیا جا رہا ہے۔
گذشتہ ایک دہائی سے، دو الفاظ نے لی ایرو کو پریشان کر رکھا ہے، وہ الفاظ ہیں ’رابطہ منقطع ہو گیا۔‘
یہ بات ملائیشیا ایئرلائنز نے انھیں اس وقت بتائی تھی جب پرواز ایم ایچ 370 لاپتہ ہو گئی تھی اور اس میں ان کے بیٹے ینلن سوار تھے۔
’برسوں سے میں پوچھ رہا ہوں کہ ’رابطہ منقطع ہونے‘ سے آپ کا کیا مطلب ہے؟ مجھے ایسا لگتا ہے کہ اگر آپ کا کسی سے رابطہ منقطع ہو جاتا ہے تو آپ کو ان کے ساتھ دوبارہ رابطہ قائم کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔‘
بیجنگ کے جنوب میں واقع ایک گاؤں سے تعلق رکھنے والے کسان وہ اور ان کی اہلیہ لیو شوانگ فینگ ہوا بازی کی تاریخ کے سب سے بڑے اور پُراسرار حادثے کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
8 مارچ 2014 کی رات کوالالمپور سے بیجنگ جانے والی معمول کی پرواز میں ایک گھنٹے سے بھی کم وقت میں پائلٹ نے ملائیشین ایئر ٹریفک کنٹرول کو گڈ نائٹ کہا۔ بوئنگ 777 طیارہ 227 مسافروں اور عملے کے 12 ارکان کو لے کر ویتنام کی فضائی حدود میں داخل ہونے والا تھا۔
اس کے بعد اس نے اچانک سمت بدل لی، اور جہاز کا تمام الیکٹرانک اور مواصلات کا نظام دُنیا سے کٹ گیا۔ اس نے پہلے ملائیشیا کے اوپر اور پھر دور دراز جنوبی بحر ہند میں اس وقت تک پرواز جاری رکھی جب تک اطلاعات کے مطابق اس کا ایندھن ختم نہیں ہوگیا۔
اب تک کا سب سے بڑا اور مہنگا ترین سرچ آپریشن چار سال تک جاری رہا لیکن لاپتہ طیارے کا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔ ہزاروں سمندری ماہرین، ایروناٹیکل انجینیئرز اور پرائیویٹ جاسوسوں نے لاپتہ پرواز کے ٹوٹے پھوٹے اعداد و شمار کا جائزہ لیا ہے اور یہ اندازہ لگانے کی کوشش کی ہے کہ اس جہاز کا سفر کہاں ختم ہوا۔
جہاز میں سوار افراد کے اہل خانہ کے لیے یہ 10 سال سے ناقابل برداشت غم اور صدمہ ہے، وہ تلاش جاری رکھنے اور یہ جاننے کے لیے اب بھی جدوجہد کر رہے ہیں کہ ایم ایچ 370 کے ساتھ کیا ہوا اور کیوں ہوا۔
لی ایرو نے اس لاپتہ جہاز کی تلاش میں اب بھی ایک مہم جاری رکھی ہوئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنی بچت یورپ اور ایشیا اور مڈغاسکر کے ساحلوں پر سفر کرنے کے لیے خرچ کر دی ہے جہاں لاپتہ طیارے کا کچھ ملبہ ملا ہے۔
انھوں نے کہا کہ وہ اُس ساحلی ریت کو اپنے ہاتھوں میں لے کر محسوس کرنا چاہتے تھے کہ جہاں شاید اُن کا بیٹا بہہ کر آیا ہو۔ انھیں یاد ہے کہ انھوں نے بحر ہند کے کنارے اُسی ریت پر کھڑے ہو کر چیختے ہوئے ینلن (اپنے بیٹے) سے یہ کہا تھا کہ وہ انھیں گھر لے جانے کے لیے آئے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کے ’میں اپنے بیٹے کو ڈھونڈنے کے لیے اس دنیا کے ختم ہونے تک یہ سفر کرتا رہوں گا۔‘
یہ جوڑا، جو اب 70 سال کا ہونے کو ہے، چین کے صوبے ہیبی کے ایک دیہی حصے میں رہتے ہیں۔ ان کی آمدنی کا زیادہ تر حصہ اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے خرچ ہوتا تھا، اور ان کے پاس سفر کرنے کے لیے کبھی پیسے نہیں تھے۔
یانلن اپنے گاؤں میں یونیورسٹی جانے والا پہلے فرد تھے، اور بیرون ملک ملازمت حاصل کرنے والے بھی پہلے جو ملائیشیا میں ٹیلی کام کمپنی میں کام کرتے تھے۔
وہ ویزہ اپوائنٹمنٹ کے لیے چین واپس آ رہے تھے جب فلائٹ لاپتہ ہو گئی۔ لی کہتے ہیں کہ ’یہ واقعہ پیش آنے سے پہلے، ہم کبھی قریبی شہر ہانڈان بھی نہیں گئے تھے۔‘
اب تجربہ کار مسافر، وہ دوسرے خاندانوں کے ساتھ 10ویں سالگرہ کے موقع پر ملائیشیا واپس آئے۔
یانلن فلائٹ میں سوار 153 چینی مسافروں میں سے ایک تھے۔ ان کے والدین تقریباً 40 چینی خاندانوں میں شامل ہیں جنھوں نے ملائیشیا کی حکومت کی جانب سے تصفیہ کی ادائیگیوں سے انکار کر دیا ہے، اور چین میں ایئر لائن، ہوائی جہاز بنانے والی کمپنی اور دیگر فریقوں کے خلاف قانونی مقدمات دائر کر رکھے ہیں۔
10 سال کے دوران متاثرین کی زندگیاں رواں دواں ہیں، پھر بھی وہ اپنے آپ کو لاپتہ طیارے کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے محسوس کرتے ہیں۔
گریس ناتھن برطانیہ میں قانون کے آخری امتحانات دے رہی تھی جب ایم ایچ 370 غائب ہو گئی۔ ان کی والدہ بھی اسی لاپتہ ہو جانے والی پرواز پر سوار تھیں۔ آج وہ ملائیشیا میں اپنی پریکٹس جاری رکھے ہوئے ہیں اور ایک بیرسٹر ہیں، اور دو چھوٹے بچوں کی ماں ہیں۔
کوالالمپور میں اس حادثے کی یاد میں، انھوں نے اپنی والدہ کی تصویر کو اپنی شادی کے موقع پر بھی تھاما ہوا تھا اور جب وہ دو مرتبہ مشکل حمل سے گزریں تو اُس وقت بھی اُنھوں نے اپنی والدہ کی کو بڑی شدت سے محسوس کیا۔
ڈسپلے پر ہوائی جہاز کے چند ٹوٹے ہوئے ٹکڑے تھے، جو اس سے برآمد ہونے والا واحد جسمانی ثبوت ہے۔ جہاز کے ’پر‘ کے کچھ حصے تھے، جو زیادہ وقت تک سمندر میں رہنے کی وجہ سے زنگ آلود ہو چُکے تھےگ۔
ہجوم میں بلین گبسن بھی تھا، جنھیں ایم ایچ 370 کے ٹکڑے کسی اور سے زیادہ ملے۔
ایم ایچ 370 میں سوار افراد میں سے ایک گبسن کو ایک شوقیہ مہم جوئی کے طور پر بیان کیا جا سکتا ہے۔ وہ انڈیانا جونز کے انداز میں کپڑے پہنتے ہیں اور کیلیفورنیا میں اپنے خاندانی گھر کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی کو دنیا کے ہر ملک کا دورہ کرنے کے لیے استعمالل کرتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’جب میں نے اس جہاز کے حادثے کے حوالے سے ہونے والی ایک تقریب میں شرکت کی تو مجھے معلوم ہوا کہ تیرتے ملبے کے لیے ساحل کی لکیروں کی کوئی منظم تلاش نہیں کی گئی تھی۔ وہ پانی کے اندر تلاش کرنے کے بعد لاکھوں ڈالر خرچ کر رہے تھے۔ اور میں نے سوچا، ٹھیک ہے، شاید اس جہاز کا پہلا ٹکڑا ساحل پر چہل قدمی کرنے والے کسی فرد کو ملے گا۔ اور چونکہ کوئی بھی ایسا نہیں کر رہا تھا، اس لیے میں نے سوچا کہ میں خود یہ کر سکتا ہوں۔‘
اُن کا کہنا ہے کہ انھوں نے ایک سال تک میانمار سے مالدیپ تک ساحلوں پر اپنی تلاش جاری رکھی، اس سے پہلے کہ انھیں جہاز کا پہلا ٹکڑا موزمبیق کے ساحل سے ملا۔
جو پرزے ملے تھے وہ سب ایم ایچ 370 کے غائب ہوئے، مشرقی افریقہ کے مختلف ساحلوں پر ملنے والے یہ پُرزے 16 ماہ یا اس سے زیادہ عرصے بعد دریافت ہوئے۔
اس معاملے کی تحقیق اور تفتیش کرنے والے سابق سربراہ اسلم خان نے بتایا کہ انھوں نے لاپتہ ہو جانے والے جہاز کی شناخت کیسے کی۔ کچھ حصوں پر سیریل نمبر کو مینوفیکچرر کے پاس موجود ریکارڈز سے ملایا گیا تاکہ اس بات کی تصدیق کی جا سکے کہ وہ ملائیشیا ایئر لائنز بوئنگ سے آئے تھے۔
دوسروں پر اسٹینسل کے نشانات میں استعمال ہونے والے مخصوص فونٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس سے آئے ہیں۔ بحر ہند میں اب تک کوئی اور بوئنگ 777 گر کر تباہ نہیں ہوا۔
جب تک کہ فلیپرون نہیں مل گیا، ہوائی جہاز کے پلٹنے کا واحد ثبوت ملائیشیا اور تھائی لینڈ کے فوجی ریڈار سے حاصل کردہ ڈیٹا تھا، جس نے طیارے کو جزیرہ نما مالائی کے اوپر مغرب کی طرف پرواز کرتے دیکھا۔
پھر ایک برطانوی کمپنی، انمارسیٹ نے اپنے ایک سیٹلائٹ اور ایم ایچ 370 کے درمیان ہر گھنٹے میں ’ہینڈ شیک‘ کی ایک سیریز کا پتہ لگایا جب وہ جنوب کی طرف جاتا تھا۔ ہوائی جہاز پر دیگر تمام مواصلات کو بند کر دیا گیا تھا۔
اس ویرل ڈیٹا کا استعمال ہوائی جہاز اور سیٹلائٹ کے درمیان فاصلے کو ہر گھنٹے میں سرکلر آرکس کی ایک سیریز کے ساتھ مثلث پانے کے بعد دیکھا گیا تھا، جس سے اُس جگہ کے بارے میں کچھ شواہد ملتے ہیں کہ جہاں جہاز کریش ہوا تھا۔
26 ممالک کے 60 بحری جہازوں اور 50 ہوائی جہازوں پر مشتمل یہ تلاش مارچ 2014 سے جنوری 2017 تک جاری رہی۔ اسے 2018 کے اوائل میں اوشین انفینٹی نامی ایک نجی امریکی کمپنی نے پانچ ماہ کے لیے دوبارہ شروع کیا، جس میں سمندری تہہ کو سکین کرنے کے لیے پانی کے اندر ڈرون کا استعمال کیا گیا۔
معلومات کی کمی نے ایم ایچ 370 پر کیا ہوا، اس کے اغوا ہونے سے لے کر روس، یا شاید ڈیاگو گارسیا کے جزیرے پر واقع امریکی ایئربیس پر، اسے گولی مار دیے جانے کے بارے میں، بہت سے نظریات کو ہوا دی ہے۔
فرانسیسی صحافی فلورنس ڈی چانگی نے ڈسپلے پر ایم ایچ 370 کے ٹکڑوں کو جب دیکھا تو بڑبڑا کر بولے ’یہ کیا بہودگی ہے۔‘
چانگی نے اس معاملہ کا باریک بینی سے مطالعہ کرنے کے بعد کتاب لکھی ہے، جو ایم ایچ 370 پر شائع ہونے والی 100 سے زیادہ کتابوں میں سے ایک ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ طیارہ مڑ کر جنوب میں چلا گیا یہ سارا مفروضہ جعلی ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ جو ملبہ ملا ہے وہ ایم ایچ 370 کا نہیں ہے۔ وہ جہاز میں موجود کارگو پر سوالات اٹھاتی ہیں، اور اپنی کتاب میں بتاتی ہیں کہ اس کارگو کی وجہ سے اسے جنوبی بحیرہ چین کے اوپر امریکی طیارے نے مار گرایا ہو گا۔
تاہم، ملائیشیا اور انمارسیٹ کی طرف سے پیش کردہ ریڈار اور سیٹلائٹ کے اعداد و شمار کو قبول کر لیا جاتا ہے اور زیادہ تر ماہرین ایسا کرتے ہیں، اور یہ کہ ہوائی جہاز جنوب کی طرف پرواز کرتا رہا، تو اس کی صرف ایک قابل فہم وضاحت یہ ہے کہ کسی نے اسے جان بوجھ کر اُس جانب لے کر جانے کا فیصلہ کیا۔
یہ بھی پڑھیے
بی بی سی کی ایک نئی دستاویزی فلم ’وائے پلینز وینش‘ میں، دو فرانسیسی ایرو سپیس ماہرین، ایک تجربہ کار پائلٹ، نے ملائیشیا کے ائیر ٹریفک کنٹرول کے ساتھ آخری رابطے کے فوراً بعد، بحیرہ جنوبی چین کے اوپر بنائے گئے بوئنگ 777 کے روٹ کو دوبارہ بنانے کے لیے فلائٹ سمیلیٹر کا استعمال کیا ہے۔ انھوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ یہ صرف ایک ہنر مند اور تجربہ کار پائلٹ ہی کر سکتا تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ بالکل اسی طرح کیا گیا تھا جبایم ایچ 370 ملائیشیا سے ویتنام کی فضائی حدود کی طرف بڑھ رہا تھا، ان کے لیے یہ بتاتا ہے کہ پائلٹ اس چال کو چھپانے کی کوشش کر رہا تھا۔ اور یہ کہ وہ جانتا تھا کہ یہ کچھ وقت ہو گا جب ویتنامی ایئر ٹریفک کنٹرول نے اطلاع دی کہ ان کا ابھی تک ہوائی جہاز سے رابطہ نہیں ہوا ہے۔
اس کے علاوہ اور بھی تھیوریز اس حادثے کے اطراف گھومتی ہیں کہ جہاز میں موجود ہر شخص کو ہائپوکسیا، آکسیجن کی کمی، ایک ناقابل برداشت ذہنی دباؤ کے بعد، یا یہ کہ اچانک تباہ کن آگ یا دھماکے نے رابطے کو ہمیشہ کے لیے منقطع کر دیا اور پائلٹوں کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔
اس کے باوجود یہ خیال کہ پائلٹوں میں سے ایک نے جان بوجھ کر جہاز اور اس کے تمام مسافروں کو موت کی جانب لے جانے کا فیصلہ کیا۔
اس حادثے سے جُڑی اس طرح کی تمام قیاس آرائیوں نے اس جہاز میں سوار مسافروں کے خاندانوں یا لواحقین کو شدید ذہنی صدمہ اور نقصان پہنچایا۔
ایم ایچ 370 پر انفلائٹ سپروائزر پیٹرک گومز کی اہلیہ، جیکیٹا گونزالیز کہتی ہیں کہ ’میں اپنے بدترین دشمن سے یہ خواہش نہیں کروں گی۔‘
ملائیشیا کی حکومت کو شروع سے ہی خاندانوں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ سب سے پہلے ابتدائی ردعمل کے الجھن سے نمٹنے کے لیے، ایم ایچ 370 کے فوجی ریڈار سے باخبر رہنے پر تیزی سے کام کرنے میں ناکامی جیسی غلطیوں کے ساتھ اور بعد میں، 2018 کے وسط میںاوشن انفینیٹی کی طرف سے آخری آپریشن ختم ہونے کے بعد، اس آپریشن کو جاری رکھنے سے متعلق اجازت دینے میں اس کی ظاہری ہچکچاہٹ کی وجہ سے۔
نجی طور پر کچھ ملائیشیا کے حکام تسلیم کرتے ہیں کہ حکومت مزید اقدامات کے لیے کودشش کر سکتی تھی۔ اس میں سے کچھ کی وضاحت ملک حالیہ برسوں میں غیر معمولی سیاسی بحران کے دور سے گزر رہی ہے۔ پھر وبائی امراض، ایک ایسا بڑا انتظامی امور کا فقدان کے جس کی وجہ سے متاثرہ خاندانوں کو ان کی سالانہ یادگاری تقریب منعقد کرنے سے بھی روک دیا گیا۔
خیال رہے کہ اوشن انفینیٹی نے 2018 میں، 112,000 کلومیٹر کے علاقے کو سکین کیا تھا۔ اگرچہ، اس میں کچھ انتہائی چیلنجنگ خطّے شامل تھے، جیسے گہرے پانی کے اندر گھاٹیاں، اور یہ ممکن ہے کہ اس سے ہوائی جہاز کو ڈھونڈنے میں مُشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہو۔
ریٹائرڈ برطانوی ایرو اسپیس آئی ٹی ماہر رچرڈ گوڈفری، جنھیں اس حادثہ کی تحقیق کے لیے اس آپریشن میں شامل کیا گیا ، کا کہنا ہے کہ اب تک طیارے کی کھوج کے لیے بہت چھوٹے سرچ ایریا کی نشاندہی کی ہے، جس میں ہیم ریڈیو کے شائقین کی طرف سے معمول کے مطابق کی جانے والی شارٹ ویو ریڈیو ٹیسٹ ٹرانسمیشنز کے جدید تجزیے کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس سے ڈرونز کو زیادہ توجہ مرکوز کرنے کی اجازت ملنی چاہیے، جس سے ایک ہی علاقے میں کئی گزرے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’دنیا بھر میں مچھیروں کے ایک بہت بڑے جال کا تصور کریں، جو ریڈیو سگنلز سے بھرا ہوا ہے۔ جب بھی کوئی طیارہ اس جال سے گزرتا ہے تو اس جال میں ایک سوراخ ہو جاتا ہے۔
’یہ مجھے بتاتا ہے کہ ایک طیارہ کہاں ہے؟ اور وہ ایک خاص وقت پر کہاں تھا۔ جنوبی بحر ہند میں ایم ایچ 370 کی پرواز کے چھ گھنٹے کے دوران میں نے وقت کے 95 مختلف مقامات پر ریڈیو سگنلز میں 313 بے ضابطگیوں کو تلاش کیا ہے۔ اس سے آپ کو پرواز کا ایک بہت زیادہ بہتر راستہ ملتا ہے، اور حادثے کے مقام کا درست تعین کرنے میں بھی مدد ملتی ہے۔‘
رچرڈ کے طریقہ کار کو فی الحال یونیورسٹی آف لیورپول میں آزمایا جا رہا ہے، جو اس سال کے آخر میں اس بات کا تعین کرنے کی توقع رکھتی ہے کہ یہ کتنا درست ہے۔
گونزالیز کہتی ہیں کہ ’میں صرف یہ چاہتی ہوں کہ ہوائی جہاز مل جائے، کم از کم تب میں اپنے شوہر کو سکون سے آرام کرنے دوں گی۔‘
یادگاری تقریب میں ایک بڑا بورڈ لگایا گیا تھا، جس پر لوگ امید، ہمدردی یا غم کے پیغامات لکھ سکتے تھے۔
لی نے بڑے بڑے چینی حروف میں یانلن کو پیغام لکھنے کے لیے گھٹنے ٹیک دیے، اور پھر اسے دیکھتے ہوئے روتے ہوئے بیٹھ گئے۔
انھوں نے لکھا ’بیٹا، دس سال ہو گئے تمہاری والدہ اور والد یہاں ہیں تمہیں گھر واپس لانے کے لیے 3 مارچ 2024۔‘
اسی بارے میں