پاکستان کے شہر ملتان میں نشتر ہسپتال کے ڈائلیسز سینٹر میں رجسٹرڈ 200 میں سے 25 مریضوں میں ایچ آئی وی کی موجودگی کی تشخیص ہوئی ہے۔ اگر تیکنیکی طور پر ڈائلیسز مشین کے ذریعے وائرس کا پھیلاؤ ممکن نہیں تھا تو کیا اس سے متاثر ہونے والے مریض یہ وائرس ہسپتال کے باہر سے لے کر آئے یا ڈائلیسز سینٹر کے اندر ہی سے یہ اُن کے جسم میں داخل ہوا تھا؟
یہ معاملہ رواں برس اکتوبر میں اُس وقت شروع ہوا جب سکریننگ کے دوران ایک مریض میں ایچ آئی وی کی تشخیص ہوئی۔
ڈاکٹروں کے لیے یہ لازمی طور پر تشویش کی بات تھی کیونکہ اگر یہ وائرس اُن کے ڈائلیسز سینٹر میں آ سکتا تھا تو یہ بھی ہو سکتا تھا کہ وہ صرف ایک مریض تک محدود نہ رہا ہو۔
پاکستان کے شہر ملتان کے سب سے بڑے پبلک ہسپتال نشتر کے ڈائلیسز سینٹر میں 200 سے زیادہ مریض رجسٹرڈ ہیں۔ ڈائلیسز سینٹر کے سربراہ ڈاکٹر نے ایچ آئی وی کی اس تشخیص کو چھپا لیا کیونکہ قواعد کے مطابق انھیں فوری طور پر اس کی اطلاع متعلقہ محکموں کو دینا تھی۔
انھوں نے سکریننگ کے مزید نتائج کا انتظار کیا۔ چند ہی دن میں لگ بھگ سات مریضوں میں ایچ آئی وی کی موجودگی کی تصدیق ہو گئی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ وائرس صرف ایک مریض تک محدود نہیں تھا۔
ڈائلیسز سینٹر سے ان مریضوں کو ایچ آئی وی کے علاج کے لیے صوبائی ایڈز کنٹرول پروگرام کے دفتر بھیجا جانے لگا۔ اس وقت تک مقامی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو اس معاملے کی خبر مل چکی تھی۔
ابتدا میں یہ جب خبریں مقامی اخبارات اور ٹی وی چینلز پر آنا شروع ہوئیں تو مریضوں کے بلڈ کی سکریننگ کے مزید نتائج آنے کا سلسلہ جاری تھا۔ یہ عمل مکمل ہونے پر ڈائلیسز سینٹر کے تمام مریضوں میں سے 25 میں ایچ آئی وی تشخیص ہو چکی تھی۔
ان میں لگ بھگ آدھی تعداد خواتین کی ہے۔ اب مقامی ٹی وی چینلز نے اس معاملے کو نشر کرنا شروع کیا۔ اس پر صوبائی حکومت متحرک ہوئی۔ وزیر اعلٰی پنجاب مریم نواز خود نشتر ہسپتال ملتان پہنچ گئیں، ابتدائی انکوائری ہوئی اور نشتر ہسپتال کے چند بڑے عہدیداروں کو معطل کر دیا گیا۔
صوبائی حکومت نے بتایا کہ ان افسران کی ’غفلت‘ کی وجہ سے ایچ آئی وی ڈائلیسز سینٹر کے مریضوں میں پھیلا۔ تاہم اس ضمن میں کی گئی انکوائری رپورٹ کو پبلک نہیں کیا گیا اور یہ پوری طرح واضح نہیں کیا گیا کہ اس غفلت کی نوعیت کیا تھی۔
یہ بھی واضح نہیں تھا کہ اس انفیکشن کا سورس کیا تھا یعنی مریضوں کو وائرس کہاں سے لگا۔ کیا وہ ایچ آئی وی وائرس ہسپتال کے باہر سے لے کر آئے یا ڈائلیسز سینٹر کے اندر ہی سے یہ اُن کے جسم میں داخل ہوا تھا؟
کیا سینٹر میں انفیکشن کنٹرول کے طریقوں پر عملدرآمد نہیں ہو رہ تھا یا پھر ایک مشین میں وائرس پہنچ جانے کے بعد یہ وہاں سے دوسرے مریضوں میں منتقل ہوا؟ اور اگر ایسا ہوا تو سینٹر انتظامیہ کو اس کا علم کیوں نہیں ہو پایا؟
نشتر ہسپتال کے ڈائلیسز سینٹر کے ڈاکڑ اور انتظامیہ کے افراد نے اس تاثر کی تردید کی۔ ہسپتال کے ڈاکٹروں نے حکومتی انکوائری کو ’یکطرفہ اور عجلت میں کی گئی تحقیقات‘ قرار دے کر اس کے خلاف احتجاج کیا اور او پی ڈیز کو علامتی طور پر بند رکھا گیا۔
اگر نشتر کے ڈاکٹروں کا موقف درست تھا تو سوال یہ ہے کہ وائرس ڈائلیسز سینٹر کے 25 مریضوں میں کیسے پہنچ گیا۔
اور اگر سینٹر کے عملے اور انتظامیہ سے انفیکشن کنٹرول کے طریقوں پر عملدرآمد کرنے میں کوتاہی ہو رہی تھی تو پھر سوال یہ بھی ہے کہ حکومت بروقت اس کو چیک کرنے میں کیوں ناکام رہی؟
بی بی سی نے ان سوالوں کے کھوج میں نشتر ہسپتال کے ڈائلیسز سینٹر کے اندر تک رسائی حاصل کی ہے۔ ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ ایچ آئی وی ڈائلیسز سینٹر میں کیسے پہنچا اور مریضوں میں کیسے پھیلا؟
ایچ آئی وی کیا ہے اور پھیلتا کیسے ہے؟
ایچ آئی وی اور ایڈز میں واضح فرق ہے۔ ایچ آئی وی کو ہیومن امیونو ڈیفیشنسی وائرس کہا جاتا ہے جو انسانی جسم کے مدافعاتی نظام کر نشانہ بناتا ہے۔ یہ متاثرہ شخص کے سوائل یہ فلوئیڈز سے آگے پھیلتا ہے جیسا کہ خون، ماں کا دودھ، اعضائے مخصوصہ سے خارج ہونے والے فلوئیڈز وغیرہ۔
یعنی سادہ الفاظ میں یہ غیر محفوظ انتقالِ خون کے مخلتف طریقوں، غیر محفوظ جنسی تعلقات سے پھیل سکتا ہے جیسا کہ بلڈ بینکوں سے لیا گیا غیر مصدقہ خون، سوئیوں اور سرنجوں کا ایک سے زیادہ مرتبہ استعمال یا پھر ماں سے بچے میں منتقل ہو سکتا ہے۔
تو کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ نشتر ہسپتال کے ڈائلیسز سینٹر میں رجسٹرڈ مریضوں میں غیر محفوظ انتقالِ خون یا سوئیوں اور سرنجوں وغیرہ کے ایک زیادہ مرتبہ استعمال کی وجہ سے ایچ آئی وی منتقل ہوا؟
اس کے لیے ہم نے پہلے یہ دیکھنے کی کوشش کی کہ نشتر ہسپتال میں ڈائلیسز کرنے کا طریقہ کار کیا ہے اور یہاں انفیکشن کنٹرول کا طریقہ کار کتنے موثر طریقے سے کام کر رہا ہے۔
نشتر میں ڈائلیسز کیسے ہوتا ہے؟
نشتر ہسپتال کے ڈائلیسز سینٹر کے دو بڑے ہالز ہیں۔ ان میں چاروں اطراف دیواروں کے ساتھ ڈائلیسز بیڈز لگائے ہیں اور درمیان میں نرسنگ سٹیشن بنا ہوا ہے۔ ڈائلیسز بیڈز کو مختلف کیٹیگریز میں تقسیم کیا گیا ہے۔
ہم نے دیکھا کہ زیادہ تر بیڈز ہیپاٹائیٹس سی کے مریضوں کے لیے مختص ہیں۔ کچھ بیڈز ہیپاٹائیٹس بی کے مریضوں کے لیے اور کچھ ان مریضوں کے لیے مختص ہیں جن کا ہیپاٹائیٹس کا رزلٹ نیگیٹو آ چکا ہے۔
ایک طرف پردے کی پارٹیشن کر کے اب ایچ آئی وی کے مریضوں کے لیے الگ بیڈز لگائے گئے ہیں۔ لگ بھگ 20، 25 بستروں میں صرف دو یا تین بستر ہی ایسے ہیں جو مکمل طور پر صحت مند مریضوں کے لیے مخصوص ہیں۔
نرسنگ سٹیشن اور ہالز کی دیواروں پر مریضوں اور عملے کے لیے حفاظتی اقدامات کے حوالے سے ہدایات درج ہیں۔ سٹیشن کے ایک طرف ہاتھ دھونے کے لیے بیسن لگا ہے اور صابن وغیرہ دستیاب ہے۔
اس سینٹر میں ان لوگوں کا ڈائلیسز ہوتا ہے جو یہاں رجسٹرڈ ہوتے ہیں۔ رجسٹر ہونے کے لیے پہلے مریض کے ابتدائی ٹیسٹ کیے جاتے ہیں جن میں یہ تسلی کی جاتی ہے کہ اسے کسی قسم کا انفیکشن تو نہیں ہے۔
اس کے بعد ان کا فسٹولا بنتا ہے اور اس کے بعد ان کی ضرورت کے مطابق ہفتے میں دو یا تین بار ڈائلیسز کے لیے انھیں شیڈول دے دیا جاتا ہے جس میں ان کا ڈائلیسز کروانے کا دن اور وقت مقرر کر دیا جاتا ہے۔ اس طرح اس سینٹر میں لگ بھگ دو سو سے زیادہ مریض رجسٹرڈ ہیں۔
ہر بستر کے ساتھ ہی ڈائلیسز مشین لگی ہے۔ ہر ڈائلیسز کے لیے اس مشین کے ساتھ ایک نیا ڈائیلائزر اور ٹیوبوں کا ایک سسٹم نصب کرنا ہوتا ہے جس کو مریض کے جسم کے ساتھ سوئیوں کی مدد سے جوڑ دیا جاتا ہے۔
اس طرح جب مشین چلتی ہے تو خون مریض کے جسم سے نکل کر اس ڈائیلائیزر سے صاف ہو کر دوبارہ اس کے جسم میں داخل ہوتا رہتا ہے۔ ساتھ ہی اس کے جسم سے فاضل پانی کا اخراج ہوتا رہتا ہے۔
اب یہاں اگر ڈائیلائیزر، سوئیوں اور ٹیوبوں کے اس نیٹ ورک کو ایک سے زیادہ بار استعمال کیا جائے، مشینوں کو ڈس انفیکٹ نہ کیا جائے تو انفیکشن ایک مریض سے دوسرے میں پھیلنے کے امکانات ہو سکتے ہیں۔
پنجاب ہیلتھ کمیشن کی تحقیقات کے مطابق سینٹر میں کیا ہوا؟
پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن وہ ادارہ ہے جو اس معاملے کی تحقیقات کر رہا ہے۔ اس کی ہی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ کی بنیاد پر صوبائی حکومت نے نشتر ہسپتال کی انتظامیہ کے خلاف کارروائی کی۔
ہم نے ہیلتھ کیئر کمیشن کے متعلقہ حکام سے اس حوالے سے آن ریکارڈ بات کرنے کی درخواست کی تاہم انھوں نے معذرت کر لی۔ تاہم ہیلتھ کیئر کمیشن کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اپنی ابتدائی تحقیقات کے کچھ نکات ہمارے ساتھ شیئر کیے۔
اس رپورٍٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈائلیسز سینٹر میں مریضوں کی ابتدائی سکریننگ نہیں ہو رہی تھی۔ ان کی ایچ آئی وی اور ہیپاٹائیٹس کی متواتر سکریننگ بھی نہیں ہو رہی تھی۔
یعنی قواعد کے مطابق سال میں ایک مرتبہ یا کسی قسم کے شکوک و شہبات پر مریضوں کے ایچ آئی وی، ہیپاٹائیٹس بی اور سی کے ٹیسٹ ہونا لازمی ہوتے ہیں۔ تاہم رپورٹ کے مطابق ایسا باقاعدگی سے نہیں ہو رہا تھا۔
ہیلتھ کیئر کمیشن کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’ڈائلیسز سینٹر میں انفیکشن کنٹرول اور پریوینشن کا طریقہ کار ناقص اور ناکافی ہے۔‘
ڈائلیسز مشینوں کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انفیکٹڈ اور نان انفیکٹڈ مریضوں کے لیے مشینیں الگ کرنے کا طریقہ کار بھی ناقص تھا جبکہ متاثرہ مریضوں کا ڈائلیسز نارمل مریضوں کے لیے مخصوص مریضوں کی مشینوں پر ہو رہا تھا۔
’مشینوں کی متواتر حفاظتی دیکھ بھال نہیں رہی تھی اور ہر ڈائلیسز سیشن کے آخر میں مشین کو اس کے خود کار نظام کے ذریعے ڈس انفیکٹ کیے جانے کا ریکارڈ دستیاب نہیں تھا۔‘
ہیلتھ کیئر کمیشن کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مریضوں کی کسی کوالیفائیڈ نیفرالوجسٹ یا گردوں کے ماہر ڈاکٹر کی طرف سے نگرانی نہیں ہو رہی تھی۔ ’کوئی کوالیفائیڈ ڈائلیسز نرسیں اور ڈائلیسز ٹیکنیشن موجود نہیں تھے۔‘
ان کی رپورٹ کہتی ہے کہ سینٹر میں مریضوں کے ریکارڈ رکھنے میں کوتاہی تھی اور مشینوں اور فلوئیڈز کے کانفارمٹی سرٹیفیکٹس موجود نہیں تھے۔
’مشین کے ذریعے وائرس پھیلنا تکنیکی طور پر ممکن نہیں‘
نشتر ہسپتال کے ایک ڈاکٹر نے کارروائی کے خوف سے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی سے بات کی۔ انھوں نے دعوٰی کیا کہ ان کے ہسپتال اور اس کے ڈائلیسز سینٹر میں انفیکشن کنٹرول کے طریقوٍں پر پوری طرح عمل کیا جاتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اس کے لیے ہسپتال کے تمام تر عملے کو باقاعدہ طور پر تربیت دی جاتی ہے جسے ہر کچھ عرصے کے بعد دہرایا جاتا ہے۔ ’اس لیے اس بات کا امکان نہیں ہے کہ نشتر کے ڈائلیسز سینٹر میں سرنجوں یا سوئیوں کا ایک سے زیادہ مرتبہ یا دوبارہ استعمال ہو رہا ہو۔‘
ڈائلیسز مشینوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ان کے پاس جو مشنیں موجود ہیں وہ اچھی کمپنی کی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ڈائلیسز مشین کے ذریعے وائرس پھیلنا تکنیکی طور پر ممکن نہیں ہے۔
ان کے مطابق ایک تو مشین ڈس انفیکشن کے خود کار نظام کے ذریعے ایچ آئی وی، ہیپاٹائیٹس سی اور بی کے وائرسز کو ’آرام سے مار دیتی ہے۔‘ دوسرا وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک غلط فہمی ہے کہ ڈائلیسز کے دوران مریض کا خون مشین کے اندر جاتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ڈائلیسز کے دوران مریض کا خون مشین کے ساتھ جڑے ڈائلائیزر اور ٹیوبوں سے صاف ہو کر دوبار جسم میں واپس چلا جاتا ہے اور ڈائلیسز مکمل ہونے کے بعد اس مکمل نظام کو اتار کر ضائع کر دیا جاتا ہے۔
’ایک نہیں سال میں دو بار ٹیسٹ ہوتے ہیں‘
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ سینٹر میں صرف رجسٹرڈ مریضوں کا ڈائلیسز ہوتا ہے جن کو ابتدائی سکریننگ کرنے کے بعد رجسٹر کیا جاتا ہے۔
’انٹرنیشنل گائیڈلائنز یہ ہے کہ ڈائلیسز مریضوں کے سال میں ایک مرتبہ ٹیسٹ ہونا ضروری ہے۔ جبکہ نشتر میں حکام کی طرف سے سال میں دو مرتبہ یہ ٹیسٹ کرنے کی ہدایات ہیں۔ اس لیے ان مریضوں کے ایک نہیں سال میں دو مرتبہ ٹیسٹ ہوتے ہیں۔‘
نشتر ہسپتال کے ڈاکٹر کے مطابق اسی سکریننگ پروٹوکول کے دوران ہی مریضوں میں ایچ آئی وی کی تشخیص ہوئی۔ وہ کہتے ہیں کہ ڈائلیسز سینٹر میں ہیلتھ کیئر کمیشن کے ترتیب کردہ تمام تر انفیکشن کنٹرول کے طریقوں پر پوری طرح عمل ہو رہا تھا۔
اگر یہ سب کچھ ہو رہا تھا تو پھر سوال یہ ہے کہ سینٹر کے 25 مریضوں میں وائرس کیسے پہنچ گیا؟
وہ کہتے ہیں کہ وہ خود بھی اور دیگر حکومتی ادارے بھی اسی کا کھوج لگا رہے ہیں۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں ایسا ہو سکتا ہے کہ مریض وائرس ہسپتال کے باہر سے لے کر آئے ہوں۔ ان کا اشارہ پرائیویٹ ڈائلیسز سینٹرز اور لیبارٹریز وغیرہ کی طرف ہے۔
پرائیویٹ ڈائلیسز اور انتقالِ خون
ڈائلیسز کے مریضوں کو باقاعدگی سے جسم میں خون کی کمی کا سامنا رہتا ہے جس کے لے انھیں خون لگوانا پڑتا ہے۔ نشتر ہسپتال کے اندر موجود بلڈ بینک کا انتظام ایک تھرڈ پارٹی یعنی ’انڈس فاؤنڈیشن‘ کے پاس ہے۔
ان کا بلڈ لینے اور دینے کا طریقہ کافی شفاف ہے۔ ان سے بلڈ لینے کے مریض کو کسی بھی خون کی قسم کا ڈونر دینا ہوتا ہے۔ اس طرح بلڈ بینک میں جانے والا تمام خون ٹیسٹ وغیرہ کر کے رکھا جاتا ہے۔ اور وہی خون پھر مریضوں کو ان کی ضرورت کے مطابق دیا جاتا ہے۔
نشتر ہسپتال کے باہر تاہم ایک بہت بڑی تعداد میں پرائیویٹ بلڈ بینک، ڈائلیسز سینٹر، لیبارٹریز، ہسپتال اور کلینکس موجود ہیں۔
اگر آپ تھوڑی دیر نشتر کے باہر کھڑے ہوں تو آپ کو بہت سے ایسے مناظر دیکھنے کو مل جاتے ہیں جہاں لوگ اپنی مدد آپ کے تحت ہسپتال کے سٹریچر پر مریضوں کو ڈال کر ان پرائیویٹ لبارٹریز کی طرف مختلف قسم کے ٹیسٹ کروانے کے لیے جاتے نظر آتے ہیں۔
نشتر ہسپتال کے ڈاکٹر کے مطابق ڈائلیسز کے مریضوں کو کیونکہ بہت زیادہ مرتبہ خون کی کمی کا سامنا ہوتا ہے اور خون لگوانا پڑتا ہے تو ان کو ڈونر ملنا بند ہو جاتے ہیں۔ ’ایسی صورت میں وہ پرائیویٹ لیبارٹریز اور بلڈ بینکوں سے خون کی بوتلیں خرید کر لگوا لیتے ہیں۔‘
وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ بعض اوقات ڈائلیسز کے مریض اگر اپنے دو سیشنز کے درمیان پانی زیادہ پی لیں تو انھیں فوری ڈائلیسز کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔ اس صورت میں انھیں نشتر کے باہر پرائیویٹ ڈائلیسز سینٹرز جانا پڑتا ہے۔
’اور پھر سینٹر میں آ کر وہ نہیں بتاتے کہ انھوں نے باہر سے ڈائلیسز کروایا ہے، اس لیے سینٹر کے عملے کو پتہ نہیں چلتا اور وہ ان کا دوبارہ ڈائلیسز کرنے سے پہلے ان کے ٹیسٹ نہیں کر پاتے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ان ڈائلیسز سینٹرز اور بلڈ بینکوں میں انفیکشن کنٹرول کے طریقوں پر کتنا عمل ہوتا ہے اس حوالے سے انھیں شکوک و شبہات ہیں۔
’ہم نے کبھی نشتر کے باہر سے خون نہیں لگوایا‘
بی بی سی نے ان تمام سوالوں پر نشتر کے ڈائلیسز سینٹر میں رجسٹرد چند مریضوں سے بات کی اور ان میں وہ مریض بھی شامل تھے جن میں حال ہی مین ایچ آئی وی کی تصدیق ہوئی ہے۔
ہیپاٹائیٹس سی کے شکار ایک مریض نے یہ اعتراف کیا انھوں نے ایک مرتبہ ڈائلیسز سینٹر کے باہر سے پرائیویٹ سینٹر سے ڈائلیسز کروایا تھا۔ تاہم حالیہ سکریننگ میں اس مریض میں ایچ آئی وی کی تصدیق نہیں ہوئی۔
انھوں نے یہ بھی بتایا کہ انھیں سال میں کئی بار خون لگوانے کی ضرورت پڑتی ہے۔ تاہم ان کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے کبھی نشتر کے باہر سے پرائیوٹ جگہ سے خون خرید کر نہیں لگوایا۔ وہ کہتے ہیں کہ انھیں خون نشتر ہی کے بلڈ بینک سے لگتا ہے جو ڈائلیسز سینٹر ہی میں بستر پر ان کو لگایا جاتا ہے۔
حال ہی میں جن مریضوں میں ایچ آئی وی کی تصدیق ہوئی ہے ان میں لگ بھگ آدھی تعداد خواتین کی ہے۔ ایک متاثرہ خاتون نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا ’ہم نے کبھی نشتر کے باہر سے خون نہیں لگوایا اور نہ ہی کبھی باہر سے ڈائلیسز کروایا ہے۔‘
ان کو سات، آٹھ برس قبل ایک پیچیدگی کی وجہ زندگی بھر کے لیے ڈائلیسز پر منتقل ہونا پڑا۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ گذشتہ لگ بھگ پانچ برسوں سے نشتر ہی کے ڈائلیسز سینٹر سے ڈائلیسز کروا رہی ہیں۔
’میں اپنی پانی کی ان ٹیک ایسی رکھتی ہوں کہ مجھے سیشنز کے دوران پیاس نہیں لگتی اور میں زیادہ پانی نہیں پیتی۔ اس وقت پانی زیادہ پی لیتی ہوں جب میں نے ڈائلیسز کروانا ہو اور اگر زیادہ پی لوں تو زیادہ نکلوا بھی لیتی ہوں۔‘
انھوں نے بتایا کہ انھیں کچھ عرصہ قبل ایک ہی بار تین سے چار بوتلیں خون لگوانے کی ضرورت پڑی تھی تاہم وہ انھوں نے نشتر کے اندر ہی سے لگوایا تھا۔ ’ڈائلیسز سینٹر کے اندر ہی وہ خون کے سیمپل لے جاتے ہیں اور پھر سینٹر کے اندر ہی بستر پر خون لگ جاتا ہے۔‘
وہ کہتی ہیں انھیں اچھی طرح یاد ہے کہ انھوں نے کبھی کسی پرائیویٹ لیبارٹری وغیرہ سے ٹیسٹ نہیں کروائے یا استعمال شدہ سرنج سے انجیکشن وغیرہ نہیں لگوایا۔ ان میں ایچ آئی وی تشخیص ہونے کے بعد ان کے خاوند اور بچوں کے بھی ٹیسٹ کیے گئے ہیں۔
ان کا چھوٍٹا بیٹا نو سال کا ہے۔ ان سب میں ایچ آئی وی کی تشخیص نہیں ہوئی۔
یہاں ایک مرتنہ پھر اس سوال پر واپس آتے ہیں کہ اگر نشتر ہسپتال کے ڈاکٹروں کے مطابق ان کے سینٹر میں تمام تر ہدایات پر مکمل عمل ہو رہا تھا تو ان خاتون اور ان جیسے دوسرے افراد میں ایچ آئی وی کیسے پہنچا؟
’ممکنہ طور پر کوئی پروٹوکول مریض آیا۔۔۔ چیک نہیں ہوا‘
پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن کے اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ نشتر ہسپتال ملتان کے ڈائلیسز سینٹر میں ایچ آئی وی کے پھیلاؤ کا معاملہ سینٹر میں سوئیوں یا سرنجوں کے دوبارہ استعمال کا نہیں ہے۔
’یہاں ہوا یہ کہ ممکنہ طور پر کوئی پروٹوکول مریض آیا۔ یعنی کوئی ایسا مریض جس کو کسی بااثر شخصیت یا جان پہچان کے کسی شخص نے سینٹر پر بھیجا اور کہا کہ وہ بالکل ٹھیک ہے اسے ٹیسٹ کی ضرورت نہیں ہے آپ بس اس کا ڈائلیسز کر دیں۔ اس لیے اسے چیک نہیں کیا گیا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ممکنہ طور پر اس طرح ایسے مریضوں کی ابتدائی سکریننگ نہ ہونے کی وجہ سے وائرس نشتر ہسپتال کے ڈائلیسز میں داخل ہوا۔
ان کا کہنا ہے کہ اس کے بعد کیونکہ سینٹر میں انفیکشن کنٹرول اور مشینوں کے استعمال کے درست طریقہ کار میں کوتاہی ہو رہی تھی تو وائرس سینٹر کے اندر مریضوں میں پھیلا۔
تاہم یہاں سوال یہ بھی ہے کہ اگر نشتر ہسپتال کے ڈائلیسز سینٹر میں مبینہ طور پر کوتاہی ہو رہی تھی تو صوبائی حکومت اس کو چیک کرنے اور درست کروانے میں ناکام کیوں ہوئی؟ اس طرح کا واقعہ ہونے سے پہلے اس کو درست کیوں نہیں کیا گیا؟
کیا ایسا کرنے کا کوئی نظام موجود ہے اور اگر ہے تو وہ کام کیوں نہیں کر رہا؟ اور کیا حکومت اس انفیکشن سورس تلاش کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
یہ اور اس طرح کے دیگر سوالوں کے جوابات جاننے کے لیے ہم نے پنجاب کے صوبائی وزیر صحت سلمان رفیق کو رابطہ کیا اور سوال بھجوائے تاہم انھوں نے جواب نہیں دیا۔