اہم سوال یہ ہے کہ ساحل پر سونا کہاں سے آتا ہے؟ اور اس سے متعلق ماہی گیر اور ماہرین کیا کہتے ہیں؟
رواں سال دو دسمبر کو جب بی بی سی کی ایک ٹیم نے انڈین ریاست آندھرا پردیش کے اُپپاڈا ساحل کا دورہ کیا تو انھوں نے بہت سے لوگوں کو ساحلِ سمندر پر ریت کو چھانتے ہوئے دیکھا۔
اِسی دوران وہاں موجود لوگوں میں سے ایک شخص چلایا ’مجھے سونا مل گیا ہے۔‘ یہ آواز سُنتے ہی ریت چھاننے والے تمام افراد کے ہاتھ مزید تیزی سے چلنے لگے۔
ان افراد کے علاوہ ساحل پر ایک اور منظر بڑے پیمانے پر تباہی کا تھا۔ ساحل سے کچھ دور درجنوں منہدم مکانات کے آثار بھی دیکھے جا سکتے تھے۔
ریت چھانتے یہ افراد دراصل ماہی گیر ہیں اور وہ سونا تلاش کر رہے ہیں۔
عام طور پر یہاں ایسا دیکھا گیا ہے کہ کسی طوفان کے آنے کے بعد مقامی لوگ ساحل پر سونا تلاش کرنے میں لگ جاتے ہیں۔ 30 نومبر کو ایک سمندری طوفان ’فنگل‘ اس ساحل سے ٹکرایا تھا اور یہاں سے مقامی افراد وہی کام کر رہے تھے جو وہ عموماً کسی طوفان کے ساحل سے ٹکرانے کے بعد کرتے ہیں، یعنی ساحل پر آنے والی ریت سے سونے کے ذرات کی تلاش۔
کسی بھی طوفان کے بعد ساحل سمندر کے ساتھ ساتھ ریت چھاننے کا یہ منظر عام دیکھا جا سکتا ہے۔
مگر اہم سوال یہ ہے کہ ساحل پر موجود اس ریت میں سونا کہاں سے آتا ہے؟ اور اس سے متعلق ماہی گیر اور ماہرین کیا کہتے ہیں؟
ساحل پر سونا
سمندری طوفان کے بعد بہت سے مقامی ماہی گیر اور عام افراد ’اپپاڈا‘ ساحل پر مستعدی سے ریت کو چھانتے نظر آتے ہیں۔
یہ افراد گروپ بنا کر ریت میں سونا تلاش کرتے ہیں اور سارا سارا دن ساحل پر اسی کام میں مصروف گزارتے ہیں۔
جب انھیں ریت کے ذرات میں کوئی چمکدار ذرہ نظر آتا ہے تو وہ فوراً اس کا جائزہ لیتے ہیں اور گروپ میں موجود سربراہ تصدیق کرتا ہے کہ آیا چمکنے والی یہ چیز سونا ہے بھی یا نہیں۔
ان افراد میں اُپلراجو نامی ایک مقامی ماہی گیر بھی ہیں اور ان کے مطابق ماضی میں انھیں ساحل سے کئی دفعہ سونے کے ذرات مل چکے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ ’یہاں (ساحل سے) سونا قدیم زمانے سے ملتا چلا آ رہا ہے۔ سونے کی تلاش ہمارے دادا دادی کے زمانے میں بھی ہو رہی تھی۔ جب ماہی گیری کا موسم نہیں ہوتا ہے تو یہ کام ہمارے خاندان کی آمدنی کا ذریعہ ہوتا ہے۔‘
انھوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’سونا سفید ریت میں نہیں پایا جاتا۔ ہم کالی ریت میں سونا تلاش کرتے ہیں جو طوفانوں کے دوران سمندر کی تہوں سے نکل کر ساحل پر اکٹھی ہو جاتی ہے۔ سفید ریت میں سونے کے ذرات ہوں بھی تو وہ نظر نہیں آتے۔ اگر کالی ریت چھانی جائے تو سونے کے چمکدار دانے واضح نظر آتے ہیں۔‘
سونے کے باریک ذرات کا کاروبار
اپلراجو بتاتے ہیں کہ ’جب ماہی گیری کا سیزن نہیں ہوتا تو بیکار بیٹھنے کے بجائے ساحل سے سونے کی تلاش کا کام کرتے ہیں۔لیکن میں نے آج تک ایک دن میں اس کام سے تین سے چار سو روپے سے زیادہ نہیں کمائے ہیں۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ’میں جو سونے کے باریک ذرات ڈھونڈتا ہوں، انھیں کاغذ میں لپیٹ کر سنار کی دکان پر لے جاتا ہوں جو اِن ذرات کے عوض مجھے تین، چار سو روپے دیتے ہیں۔‘
اپپاڈا میں ایک سونے کی دکان کے مالک نے کہا کہ ’بعض اوقات کچھ لوگوں کو سونے کی ڈلی بھی مل جاتی ہے۔ اُس روز سونے کی قیمت جو بھی ہو وہ قیمت ہم سونا لانے والے کو ادا کرتے ہیں، لیکن اکثر یہ طے کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ وہ جو کچھ لے کر آئے ہیں وہ سونا ہے بھی یا نہیں۔ لیکن ہم جانچ پرکھ کے بعد اُس کی صحیح قیمت ادا کرتے ہیں۔‘
’ناصرف سونے کے ذرات بلکہ زیورات بھی‘
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اُپپاڈا کے ساحل پر نہ صرف سونے کے ذرات، ڈلیاں بلکہ بعض اوقات زیورات کے ٹکڑے بھی ملتے ہیں۔
بی بی سی نے اُس دن اس علاقے کا دورہ کیا جس دن ستیش نے انھیں سونے کے زیور کا ایک چھوٹا ٹکڑا دکھایا جو اُن کے مطابق انھیں اسی ساحل سے ملا تھا۔
انھوں نے اسے ایک چھوٹی سے ڈبیا میں چھپا رکھا تھا۔ انھوں نے اس بارے میں بی بی سی سے تفصیلی بات کی۔
انھوں نے کہا کہ ساحل سمندر پر تلاش کرنے والے ہر شخص کو سونا نہیں ملتا۔ ’میں جانتا ہوں کہ آج جو سونے کا ٹکڑا مجھے ملا ہے اس کی قیمت 1500 سے 2000 روپے ہے۔ ایک بار جب طوفان کا اثر کم ہو جائے گا تو پھر یہاں کچھ نہیں ملے گا۔ ماضی میں ہمارے ماہی گیروں کے یہاں سے باقاعدہ سونے کے زیور تک مل جاتے تھے۔‘
یہ دعویٰ کرنے والے ستیش کی قمیض کی جیب میں تانبے اور لوہے کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بھی تھے۔
جب ان سے اس بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ انھیں یہ ٹکڑے بھی ساحل ہی سے ملے ہیں اور ’اگر آپ انھیں بیچتے ہیں تو اس سے بھی کافی رقم کما سکتے ہیں۔‘
’ہمارے بزرگ کہتے ہیں کہ سینکڑوں سال پہلے اس علاقے میں ساحل پر شاہی قلعہ اور بڑے بڑے گاؤں آباد تھے، یہاں ایک مشہور مندر بھی تھا، جو بعدازاں سمندر برد ہو گئے۔ طوفانوں کی وجہ سے سمندر اور اس میں جو سونا تھا وہ دھیرے دھیرے باہر آ رہا ہے، جو سونے کے ذرات اور اشیا ہمیں مل رہی ہیں انھیں دیکھ کر ہمارے بزرگوں کی باتیں سچ لگتی ہیں۔‘
تو سونے کے زیورات کہاں سے آتے ہیں؟
حالیہ طوفان سے ساحل پر ہونے والے کٹاؤ کے نتیجے میں اپپاڈا کے کنارے 30 سے 40 مکانات منہدم ہوئے ہیں۔
ساحل پر موجود ایک ماہی گیر خاندان کی خاتون نے ہمیں بتایا کہ ’جب ہم چھوٹے تھے، تو اپپاڈا کا یہ ساحل اب جہاں ہے وہاں سے دو، تین کلومیٹر دور تھا۔ طوفان آتے رہتے ہیں اور سمندر دھیرے دھیرے پورے پورے گاؤں کو نگل جاتا ہے۔ ہمارے اپنے گاؤں کے کئی گھر وقت کے ساتھ ساتھ سمندر برد ہو چکے ہیں۔‘
ایک خاتون ماہی گیر راجیہ لکشمی نے کہا کہ ’جیسا کہ ہم سُنتے آئے ہیں، یہاں اس ساحل کے قریب ماضی میں بہت سے بڑے مندر تھے اور ان میں سونے کے بہت سے قیمتی زیورات تھے۔ جب میں لوگوں کو یہاں سونا تلاش کرتے دیکھتی ہوں تو یہ سچ لگتا ہے۔‘
’طوفان کے دوران کوئی کسی کی نہیں سُنتا‘
اس گاؤں کے عمائدین، پولیس اور دیگر حکام مقامی افراد اور ماہی گیروں کو طوفان کے دوران ساحل سمندر پر نہ جانے کی تنبیہ کرتے ہیں۔ لیکن یہ گاؤں والے بظاہر کسی کی نہیں سُنتے۔
جیسے ہی کم دباؤ یا طوفان کے قریب آنے کے آثار نظر آتے ہیں، سمندر میں لہریں تیز اور اونچی ہو جاتی ہیں۔ اور یہی وہ وقت ہوتا ہے جب مقامی لوگ چھلنیاں لے کر سونا تلاش کرنے کے لیے ساحل سمندر کا رُخ کرتے ہیں اور اس کام کے لیے اپنی جانیں خطرے میں ڈالتے ہیں۔
ماہی گیر لکشمیّا کہتے ہیں کہ ’تین سال پہلے ایسے ہی ایک سمندری طوفان کے بعد ہمارے گاؤں کے ایک لڑکے کو سونے کی ڈلی ملی تھی جس کی قیمت 40 ہزار روپے لگی تھی۔ تاہم ہر کوئی اتنا خوش نصیب نہیں ہوتا۔ اگر آپ سارا دن تلاش کریں گے تو آپ کو دو سے تین سونے کے ذرات ملیں گے جس سے آپ کو بمشکل 300 روپے ملیں گے۔‘
اس دن لکشمیا دو گھنٹے تک سونا تلاش کرتے رہے لیکن اُن کے ہاتھ کچھ نہیں لگا۔ اور پھر وہ مایوس ہو کر گھر چلے گئے۔
لکشمیا نے بی بی سی کو بتایا کہ ’مجھے آج نہیں کچھ ملا، لیکن میں کل پھر تلاش کروں گا۔ کئی سال تک یہ کام کرنے کے بعد، مجھے ایک دن ایک ہزار روپے مالیت کا سونے کا ایک ٹکڑا ملا تھا۔‘
آندھرا یونیورسٹی میں ارضیات کے پروفیسر اے یوگندھر راؤ نے کہا کہ ’جب کوئی طوفان آتا ہے تو جو مکانات اس سے بہہ جاتے ہیں تو اس میں جو سونے کی اشیا ہوتی ہیں وہ بھی بہہ جاتی ہیں۔ اگر ایسی چیزیں لہروں کی وجہ سے ساحل پر آ جاتی ہیں تو ایسا ہونا عین ممکن ہے۔ سونے کے ذرات کا ساحل پر پایا جانا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔‘