وہ مبینہ چینی سائبر حملے جن میں ٹرمپ کے فون تک کو نشانہ بنایا گیا

امریکی حکام کا کہنا ہے کہ وہ ہیکرز جو امریکہ کی بڑی مواصلاتی کمپنیوں اور اداروں کی سکیورٹی توڑنے کے ذمہ ان کا تعلق چین کی حکومت سے ہے۔ تازہ ترین ہیکنگ سے متعلق پیر کے روز اعلان ہوا جب امریکی وزارت خزانہ میں 'بڑے پیمانے پر مداخلت' کی گئی۔ امریکی حکام نے اسے ’بڑا واقعہ‘ قرار دیا ہے۔
چین
Getty Images

امریکی حکام کا کہنا ہے کہ وہ ہیکرز جو امریکہ کی بڑی مواصلاتی کمپنیوں اور اداروں کو نشانہ بنا رہے ہیں، ان کا تعلق چین کی حکومت سے ہے۔

ہیکنگ کے ایک تازہ ترین واقعے میں امریکی وزارت خزانہ کو نشانہ بنایا گیا جسے امریکی حکام ’بڑا واقعہ‘ قرار دے رہے ہیں۔

حکام کا کہنا ہے کہ ہیکرز ملازمین کے ورک سٹیشن اور اہم دستاویزات تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے تاہم چین نے ان واقعات میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔

امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کے خلاف یہ تازہ ترین سائبر حملے حالیہ مہینوں میں سامنے آئے ہیں۔

ان سائبر حملوں میں ہیک کیا ہوا؟

امریکی وزارت خزانہ میں ہیکنگ کے واقعے کے بعد اکتوبر میں دو اہم امریکی صدارتی مہمات کو ہدف بنایا گیا۔

ایف بی آئی اور سائبر سکیورٹی اینڈ انفراسٹرکچر سکیورٹی ایجنسی (سی آئی ایس اے) کا کہنا ہے کہ وائٹ ہاؤس کی مہمات کو ہدف بنانے والے کرداروں کا تعلق ’عوامی جمہوریہ چین‘ سے ہے۔

ستمبر میں ایسی خبریں بھی سامنے آئی تھیں کہ بڑی مواصلاتی کمپنیوں کی سکیورٹی کے خلاف ایک باضابطہ آپریشن کیا گیا۔

وائٹ ہاؤس نے حالیہ دنوں میں یہ کہا ہے کہ کم از کم نو کمپنیوں کو ہیک کیا گیا، جن میں ٹیلی کام کی بڑی کمپنی اے ٹی اینڈ ٹی اور ویریزون بھی شامل ہیں۔

گذشتہ برس مارچ میں سات چینی شہریوں پر یہ فرد جرم عائد کی گئی تھی کہ وہ کم از کم 14 برس تک چین کے غیر ملکی ناقدین، کاروبار اور سیاستدانوں کے خلاف ہیکنگ کا ایک آپریشن چلا رہے تھے۔

ہیکنگ کے یہ آپریشن، جنھیں مغربی ممالک چین سے منسلک کرتے ہیں، نے برطانوی الیکشن کمیشن سمیت برطانیہ اور نیوزی لینڈ کی پارلیمنٹ کو بھی ہدف بنایا۔

امریکہ
Reuters

ہیکرز کون ہیں؟

اگرچہ ابھی تک ہیکرز کے بارے میں تمام تفصیلات عام نہیں کی گئی ہیں تاہم امریکی حکام کا کہنا ہے کہ یہ ہیکنگ مختلف گروہوں نے علیحدہ علیحدہ کی ہیں اور ان تمام کا تعلق چین سے ہے۔

ان ہیکنگ گروپس کو سکیورٹی ادارے مختلف عرف سے پکارتے ہیں۔ وہ گروپ جو ٹیلی کام کمپنیوں کی ہیکنگ میں ملوث تھے انھیں ’سالٹ ٹائیفون‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ مائیکروسوفٹ کے محققین نے ان ہیکرز کو یہ نام دیا۔

دیگر کمپنیوں نے ان ہیکرز کو ’فیمس سپیرو‘، ’گھوسٹ امپرر‘ اور ’ارتھ اسٹائر‘ کا نام دیا۔

’سالٹ ٹائیفون‘ کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ مواصلاتی کمپنیوں کی ہیکنگ میں ملوث ہے۔ اس کے علاوہ ایک علیحدہ گروپ ’وولٹ ٹائیفون‘ کے نام سے جانا جاتا ہے جو نظام درہم برہم کرنے کے لیے اپنے ممکنہ حملوں سے اداروں کے اہم انفراسٹرکچر کو ہدف بناتا ہے۔

وہ چینی شہری جن پر ہیکنگ کے سلسلے میں فرد جرم عائد کی گئی، انھیں امریکی محکمہ انصاف نے ’زیرکونیم‘ یا ’ججمنٹ پانڈا‘ آپریشن سے منسلک قرار دیا۔

برطانیہ کے نیشنل سائبر سکیورٹی سینٹر کا کہنا ہے کہ ان آپریشنز کے ذریعے ہی سنہ 2021 میں برطانوی ارکان پارلیمنٹ کی ای میلز کو بھی ہدف بنایا گیا تھا۔

ہیکنگ میں کیا کچھ چرایا گیا؟

ہیکنگ کے تازہ ترین واقعے میں بظاہر طاقتور شخصیات کو ہدف بنایا گیا تاکہ ان سے ڈیٹا جمع کر کے چین کی حکومت کو دیا جا سکے۔

دیگر شخصیات کے علاوہ انھوں نے امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ، امریکی نو منتخب نائب صدر جے ڈی وینس اور ان شخصیات کے فون کو بھی ہدف بنایا، جو امریکہ کی نائب صدر کملا ہیرس کی مہم میں کام کر رہے تھے۔

ان ہیکرز نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے وائر ٹیپس سے متعلقہ فون نمبرز کے ایک ایسے ڈیٹا بیس تک بھی رسائی حاصل کی، جس سے یہ بھی پتا چلایا جا سکتا ہے کہ کون سے غیرملکی جاسوسوں کی نگرانی کی جا رہی ہے۔

ٹیلی کام کمپنیوں کو ہدف بنا کر ان ہیکرز نے ہو سکتا ہے کہ لاکھوں امریکی شہریوں کا ڈیٹا چرا لیا ہو۔

یونیورسٹی آف میری لینڈ میں بالٹی مور کاؤنٹی سائبر سکیورٹی انسٹی ٹیوٹ کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر رچرڈ فورنو کا کہنا ہے کہ ’چین مختلف اہداف کو نشانہ بنانے کی کوشش کرتا آیا ہے۔‘

ان کے مطابق ابھی تک جو معلومات حاصل ہوئی ہیں یہ بہت ہی عمومی نوعیت کی ہیں۔‘

امریکی حکام کتنے پریشان ہیں؟

امریکہ کی دونوں جماعتوں کے اراکین پارلیمنٹ نے ان حملوں پر تحفظات کا اظہار کیا۔ ڈیموکریٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر مارک وارنر نے سالٹ ٹائیفون کی سرگرمیوں کو ’ٹیلی کام ہیک کی تاریخ کا انتہائی بُرا واقعہ قرار دیا۔‘

ٹرمپ نے برینڈن کر کو فیڈرل کمیونیکیشنز کمیشن کے سربراہ کے لیے نامزد کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہیکنگ سے متعلق ایک انٹیلیجنس بریفنگ ’بہت ہی زیادہ تشویشناک ہے۔‘

انھوں نے سی این بی سی کو بتایا کہ ’جو اطلاعات میں نے سنی ہیں اس کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ مجھے اپنا فون ہی توڑ دینا چاہیے۔‘

ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کرسٹوفر ورے کا کہنا ہے کہ ’سالٹ ٹائیفون کی طرف سے ٹیلی کام کمپنیوں کو ہیک کرنے والی سرگرمی چین کی طرف سے تاریخ کی بہت بڑی سائبر جاسوسی کی مہم ہے۔‘

انھوں نے پہلے یہ کہا تھا کہ چین کا ہیک کرنے والا پروگرام دیگر ممالک کے مشترکہ نظام سے بھی بہت بڑا ہے۔

ہیکنگ
Getty Images

مغربی اتحادی اس معاملے کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟

امریکی حکام نے چین کی ایک بڑی مواصلاتی کمپنی کی ذیلی تنظیم ’چائنہ ٹیلی کام امریکاز‘ کو خبردار کیا ہے یہ امریکہ کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔

کمپنی کو ان الزامات کا جواب دینے کے لیے 30 دن کا وقت دیا گیا، بصورت دیگر اس پر پابندی عائد کی جائے گی۔

مئی میں برطانیہ نے دو اشخاص اور ووہان شیوروزی سائنس اور ٹیکنالوجی کمپنی لمیٹڈ پر یہ کہتے ہوئے پابندی عائد کی کہ ان کا تعلق چین سے وابستہ گروہ ’ججمنٹ پانڈا‘ سے ہے۔

ٹرمپ کے قومی سلامتی کے مشیر مائیک والٹز نے اپنا منصب سبنھالنے سے قبل ہی یہ واضح اعلان کر دیا ہے کہ غیر ملکی ہیکرز کو ہر صورت اپنے کیے کی بھاری قیمت چکانی ہوگی۔

یو ایم بی سی سائبر سکیورٹی انسٹیٹیوٹ کے رچرڈ فورنو کا کہنا ہے کہ یہ ہیکنگ ممکنہ طور پر کئی برس سے جاری تھی۔

ان کے مطابق چین اپنی جاسوسی اور انٹیلیجنس آپریشن کے لیے بہت روایتی اور تزویراتی انداز سے آگے بڑھتا ہے جبکہ اس کے برعکس امریکہ فوری ردعمل کا راستہ اختیار کرتا ہے اور یہ فوری اور واضح نتائج میں دلچسپی رکھتا ہے۔

چین کا اس بارے میں کیا مؤقف ہے؟

چین کے دفتر خارجہ کے ترجمان ماؤ ننگ نے ایک نیوز بریفنگ میں کہا کہ یہ الزامات سراسر بے بنیاد ہیں۔

انھوں نے کہا کہ چین ہر قسم کی ہیکنگ کے خلاف ہے اور چین سختی سے ان الزامات کی تردید کرتا ہے جس کا مقصدمحض سیاسی مقاصد کے لیے بیجنگ کو ہدف بنانا ہے۔

چین کے سفارتخانے کے ایک ترجمان نے کہا کہ ’امریکہ کو سائبر سکیورٹی کے نام پر چین کے خلاف نفرت انگیز مہمروکنے کی ضرورت ہے اور امریکہ کو چین سے متعلق نام نہاد ہیکنگ کے خطرات سے متعلق ہر قسم کی غلط معلومات کی ترسیل کو روکنا ہو گا۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.