تاریخ کی کتابوں میں بتایا گیا ہے کہ محمود غزنوی نے گجرات میں سومناتھ کے مندر کو لوٹا۔ محمود غزنوی کے ساتھ جنگ کے دوران ہزاروں ہندو جنگ میں مارے گئے۔ سومنات کے مندر پر کیسے قبضہ کیا گیا اور اس نے یہاں سے کتنا خزانہ لوٹا؟
لگ بھگ ایک ہزار سال قبل محمود غزنوی نے سومنات پر حملہ کیا، وہاں پر واقع مندر کو تباہ کر دیا اور وہاں سے ملنے والے مال اسباب کو سمیٹ کر وہ واپس اپنے وطن کو لوٹ گئے۔اس ایک حملے نے برصغیر پاک و ہند کی تاریخ پر ان گنت نقوش چھوڑے ہیں۔ یہ تحریر پہلی مرتبہ بی بی سی پر 14 مارچ 2024 کو شائع ہوئی تھی جسے قارئین کی دلچسپی کے پیش نظر دوبارہ شائع کیا جا رہا ہے۔
تاریخ کی متعدد کتابوں میں بتایا گیا ہے کہ محمود غزنوی نے گجرات میں سومناتھ کے مندر کو لوٹا تھا اور انڈیا پر کیے گئے ان کے حملوں کے دوران ہزاروں ہندو ان کی فوج کے ہاتھوں مارے گئے۔یہ کہانی سومنات کے مندر پر محمود غزنوی کے حملے اور یہاں سے لوٹے گئے خزانے کے بارے میں ہے۔
یہ گجرات کے سولنکی حکمرانوں کے لیے تباہی کا وقت تھا۔ سوراشٹرا کے ساحل پر واقع سومناتھ مندر کی وجہ سے اسے گجرات کی گورجر سلطنت کا مذہبی دارالحکومت سمجھا جاتا تھا۔
سومناتھ کا مندر
سومناتھ مندر کی چھت افریقہ سے برآمد کیے گئےپتھروں کے 56 ستونوں پر ٹکی ہوئی تھی۔
مندر کے اوپر 14 سنہری گنبد تھے جو دھوپ میں چمکتے تھے اور دور سے نظر آتے تھے۔ مندر کے اندر نصب ’شیو لِنگا‘ کی اونچائی لگ بھگ سات بالشت تھی، جسے خوبصورت نقش و نگار سے سجایا گیا تھا اور ہیروں سے جڑا ایک تاج اس کی چکا چوند میں مزید اضافہ کرتا تھا۔
سونے کی ایک موٹی زنجیر شیولنگ پر چڑھانے کے لیے استعمال ہوتی تھی جبکہ مندر کے قریب جواہرات، سونے اور چاندی کی موتیوں سے بھرا ایک توشہ خانہ تھا۔
گربھا گرہ کے قریب چھت پر بھگوان شیو کی کئی سونے اور چاندی کی مورتیاں رکھی گئی تھیں۔
ڈاکٹر محمد ناظم نے اپنی کتاب ’لائف اینڈ ٹائمز آف محمود غزنی‘ میں اس زمانے کی زندگی کے علاوہ بھی بہت سی باتیں بیان کی ہیں۔
غزنی کا شہر سلطان محمود کی جائے پیدائش ہے جو موجودہ افغانستان کے شمال مشرقی حصے میں واقع ہے۔ اپنے آبائی شہر کی اسی نسبت کے باعث انھیں محمود غزنوی کہا جاتا ہے۔
ڈاکٹر ناظم نے البیرونی اور ابن جعفر جیسے متعدد مسلم علما کا حوالہ دیا تاکہ یہ بیان کیا جا سکے کہ محمود غزنوی کے ہاتھوں لوٹ مار سے پہلے سومناتھ مندر کیسا لگتا تھا۔
سومناتھ مندر کی اہمیت
شمبھو پرساد دیسائی نے اپنی کتاب ’پربھاس یانے سومناتھ‘ میں سومناتھ مندر کو بیان کیا ہے۔
سومناتھ مندر میں 56 لکڑی کے ستون بھی تھے۔ مرکز میں ایک مورتی (شیو لِنگا) رکھی گئی تھی۔ پورا مرکزی حصہ چراغوں سے روشن رہتا تھا۔‘
’مورتی کو سونے کی زنجیروں اور موتیوں سے سجایا گیا تھا۔ مندر میں بہت سے بت تھے، جن میں قیمتی پتھر جڑے ہوئے تھے۔ سومناتھ کا مجسمہ ہندوستان کا بہترین مجسمہ تھا۔
’تجسم پر یقین رکھنے والے ہندوؤں کا ماننا تھا کہ روح جسم کو چھوڑ کر سومناتھ آتی ہے اور پوجا کرتی ہے۔ عقیدت مند یہاں اپنا قیمتی سامان اور مال و اسباب بطور نذرانہ پیش کرتے۔ کئی ہزار گاؤں مندر کی دیکھ بھال کرتے تھے۔‘
شمبھو پرساد دیسائی اپنی کتاب میں مزید لکھتے ہیں کہ ’یہ مندر بہت پُرکشش اور قیمتی پتھروں سے بنا تھا۔ ہزاروں برہمن یہاں پر رکھے ہوئے بتوں کو پوجنے اور یاتریوں کو پوجا کروانے کے لیے یہاں رہتے تھے۔ 300 حجام یاتریوں کے سر منڈوانے کے لیے یہاں ٹھہرتے تھے۔‘
مؤرخ رتنمنی راؤ بھیم راؤ، جنھوں نے سومناتھ مندر کی تعمیر نو کے دوران ابتدائی تحقیق کی تھی، نے اس موضوع پرایک کتاب بھی لکھی ہے۔
گیارہویں صدی کے آغاز تک سومناتھ اور اس کی جائیداد کی شہرت پورے ہندوستان میں پھیل چکی تھی۔ اس لیے سلطان محمود نے اپنی توجہ سومناتھ کی شہرت اور دولت پر مرکوز کی۔
سلطنت کا عروج
یہ وہ وقت تھا جب دنیا کی سرحدوں کا فیصلہ تلوار کے زور پر ہوتا تھا۔ غزنی کے میدان میں محمود اور ان کے بھائی کی فوجیں آپس میں ٹکرائیں۔
اس جنگ میں محمود کو فتح حاصل ہوئی۔ اسی شام اسے تاج پہنایا گیا اور سلطان کا لقب دیا گیا۔ وہ یہ لقب پانے والے پہلے شخص تھے۔
سلطنت حاصل کرنے کے بعد سلطان نے اپنی سلطنت کی حدود وسطی ایشیا سے جنوب میں سندھ تک بڑھانے کا فیصلہ کیا اور ہندوستان کے کئی علاقوں کو فتح کر لیا اور اس دوران کئی مندروں کو تباہ کر دیا گیا۔
سومناتھ کا سفر
محمود کی سوانح کے مطابق اس وقت ہندوؤں میں یہ افواہ پھیلی ہوئی تھی کہ سومناتھ بھگوان اُن سے ناراض ہیں۔ اس لیے انھوں نے محمود کو بھیجا ہے کہ وہ انھیں سزا دے اور ہیکل کو تباہ کرے۔ جب محمود کو اس بات کا علم ہوا تو اس نے سومناتھ پر چڑھنے کا فیصلہ کیا۔
پھر محمود نے اپنے 30,000 گھڑ سواروں کے ساتھ 18 اکتوبر 1025 کو سومناتھ پر حملہ کیا۔
تاہم تاریخ کی کتابوں میں ہمیں اس فوج کی تعداد میں فرق ملتا ہے۔ رتنمنی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ 30,000 سپاہی جبکہ 54,000 غلام اور مزدور اس فوج کا حصہ تھے۔
عرب مؤرخ علی ابن العدیر کے مطابق محمود نے غزنی سے سوراشٹر کے ساحل تک 1420 کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا اور وہ 6 جنوری 1026 کو گجرات پہنچے۔
سومنات پر محمود کا قبضہ
محمود نے غزنی سے سومنات تک کا سفر بہت تیزی سے مکمل کیا۔ شمبھو پرساد دیسائی نے اپنی کتاب ’پربھاس یانے سومناتھ‘ میں اس سفر کے حالات بیان کیے ہیں۔
وہ لکھتے ہیں کہ موڈھیرا نامی علاقے میں پہنچ کر محمود کو اپنے پہلے بڑے چیلنج کا سامنا کرنا پڑا جب 20 ہزار فوجیوں کے ایک لشکر نے اُن پر حملہ کیا۔
ڈاکٹر ناظم نے اپنی کتاب ’لائف اینڈ ٹائمز آف محمود غزنی‘ میں لکھا ہے کہ اس جنگ میں سلطان محمود کو فتح نصیب ہوئی۔
شمبھو پرساد دیسائی عرب مؤرخ العابن العدیر کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ محمود نے موڈھیرا کی جنگ جیت لی اور اس سے محمود کے لیے سومناتھ پر حملہ کرنا آسان ہو گیا۔
پربھاس سومناتھ کی کتاب کے مطابق، لوگوں کا ماننا تھا کہ ’سومنات کے دیوتا بہت طاقتور ہیں اور انھیں مشکل وقت میں اجنبی حملہ آوروں سے بچائیں گے اور دشمنوں کو تباہ کریں گے۔‘
ڈاکٹر ناظم کے مطابق اس وقت سمندر کے کنارے پر ایک بہت بڑی دیوار تھی اور بڑی تعداد میں برہمن اس دیوار پر جمع تھے۔
رتنمنی راؤ کے مطابق جنگ کے دوران کئی مسلمان فوجی مارے گئے اور دوسرے دن بھی ایسا ہی ہوا۔ محمود کے سپاہی دوسرے دن بھی مندر کے قلعہ کی دیوار پر نہ چڑھ سکے۔
ڈاکٹر ناظم کے مطابق ’سات جنوری کی صبح، لوگوں نے محمود کی افواج کے حملے کا سامنا کیا اور پیچھے ہٹ گئے۔ اس کے بعد محمود کے سپاہی قلعہ میں پہنچ گئے۔‘
’جیسے ہی فوج نے قلعے پر قبضہ کیا۔ سومناتھ کے لوگ مندر پہنچے اور وہاں سومناتھ کی مورتی کی حفاظت کے لیے دعا کی۔ پھر ہندوؤں نے محمود کی فوج پر حملہ کیا۔ شام کو انھوں نے محمود غزنوی کی فوجوں کو بھگا دیا اور قلعہ کا قبضہ واگزار کروا لیا۔‘
کتنی رقم لوٹی گئی؟
تیسرے دن محمود غزنوی کی فوج نے قلعے پر دو حملے کیے۔
رتنمنی راؤ لکھتے ہیں کہ محمود غزنوی اس جنگ کو جلد ختم کر کے غزنی واپس جانا چاہتے تھے۔
’محمود نے اپنی فوج کے ایک چھوٹے دستے کو قلعے میں رہنے کو کہا۔ دوسروں کو حکم دیا گیا کہ وہ ارد گرد کے علاقوں سے آنے والے فوجیوں کو قلعہ میں داخل ہونے سے روکیں۔‘
اسی دوران جب محمود کو معلوم ہوا کہ بھیم دیو اپنی فوج کے ساتھ حملہ کرنے آ رہے ہیں تو وہ خود وہاں پہنچ گئے۔
بھیم دیو اور محمود کے درمیان زبردست جنگ ہوئی۔ بھیم دیو بھاگ گئے اور محمود جنگ کے بعد سومناتھ واپس آئے اور قلعے کو تباہ کر دیا۔
ابن العدیل کے مطابق ’سومنات کو بچانے کی اس کوشش میں کم از کم 50,000 یاتری اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ سومناتھ کا خزانہ لوٹنے کے بعد محمود نے سب کچھ جلانے کا حکم دیا۔‘
علی ابن العدیل کے مطابق سلطان نے لوٹ مار سے تقریباً 20 لاکھ مہریں حاصل کیں۔ کتاب ’لائف اینڈ ٹائمز آف محمود غزنی‘ کے مطابق سلطان کو اپنے دور میں ہونے والی کل لوٹ مار کا صرف پانچواں حصہ ملا تھا۔
ایک مہر کا اوسط وزن 4.2 گرام تھا اور اگر رقم کا حساب لگایا جائے تو اس کی قیمت آج کے 105 کروڑ 43 لاکھ انڈین روپے بنتی ہے۔
یہ ذکر کرنا بے جا نہ ہو گا کہ یہ اندازہ اس کتاب میں 1931 میں لگایا گیا تھا۔
لوٹا ہوا مال لے کر کیسے واپس لوٹے؟
ہارلوڈ ولبرفورس ’ہسٹری آف کاٹھیوار فرام اینٹیکویٹی‘ میں لکھتے ہیں کہ اس وقت سومناتھ یا سوراشٹر میں کوئی دوسرا بادشاہ نہیں تھا جو محمود سے لڑ سکے۔
چنانچہ سومناتھ میں خزانہ لوٹنے کے بعد محمود کوئی وقت ضائع نہیں کرنا چاہتے تھے اور اسے جلد از جلد باہر نکالنا چاہتے تھے۔
پربھاس سومناتھ کے مطابق محمود نے سومناتھ پر حملہ کر کے ہندو بادشاہوں کو حیران کر دیا تھا۔
مالوا کے بادشاہ بھوجا پرمار، سمبھروا کے وشال دیو چوہان اور پٹن کے بھیما سولنکی نے محمود پر جوابی حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا ہوا تھا چنانچہ محمود کے پاس غزنی واپسی کے صرف تین راستے تھے۔
مالوا کے راستے میں بادشاہ بھوجا تیار بیٹھے تھے۔ جب کہ وشال دیو ماؤنٹ ابو میں بیٹھے ہوئے تھے۔ بھیم کی فوجیں محمود کو کچھ میں روکنا چاہتی تھیں۔
البتہ محمود ان تینوں سے زیادہ عقلمند تھے۔ انھوں نے صحرائی راستے کا انتخاب کیا۔ محمود کو ان کے جاسوس ان بادشاہوں کی سرگرمیوں کے بارے میں مسلسل آگاہ کر رہے تھے۔
پربھاس سومناتھ کے مطابق محمود نے صحرا کے راستے کچھ سے سندھ تک کا سفر کیا۔
بھیم دیو تینوں بادشاہوں میں سب سے کم طاقتور تھے۔ ان کی سلطنت محمود کے راستے میں پڑی۔ یہ جانتے ہوئے کہ لوٹ مار کے ساتھ غزنی واپس آنا آسان نہیں ہو گا محمود نے بھیم دیو کے قلعے پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
’لائف اینڈ ٹائمز آف محمود آف غزنی‘ کے مطابق محمود بھیم دیو کو قتل کرنے کے بعد وہ کچھ سے سندھ چلے گئے۔