انڈیا میں تنہا رہنے والی خواتین پر کی گئی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ 'جو خواتین معاشرے کے روایتی ڈھانچے کے خلاف کوئی بھی کام کرتی ہیں انھیں مایوس، نادان، نامکمل اور سماجی تانے بانے سے الگ سمجھا جاتا ہے۔'
برصغیر ہندو پاک کے سماجی نظام میں شادی بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ شادی کرنا مردوں اور عورتوں کی زندگی کا ایک اہم مقصد تصور کیا جاتا ہے۔
یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ مردوں کے مقابلے خواتین کو شادی کے لیے زیادہ دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
انڈیا میں بغیر شادی کے تنہا رہنے والی خواتین پر کی گئی ایک تحقیق کے مطابق تنہا رہنے والی خواتین کی تعداد 7.14 کروڑ ہے جو کہ انڈیا میں خواتین کی کل تعداد کا 12 فیصد حصہ ہے۔
اکیڈمیا جریدے میں شائع ہونے والی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ سنہ 2001 میں یہ تعداد 5.12 کروڑ تھی۔ اس طرح اگر دیکھا جائے تو دس سالوں میں 39 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ لیکن، معاشرے میں تنہا رہنے والی خواتین کو سماجی طور پر برا سمجھا جاتا ہے۔
تو یہ معاشرہ ایک خاص عمر کے بعد غیر شادی شدہ رہنے والے لوگوں اور خاص کر خواتین کو کس نظر سے دیکھتا ہے؟ ایسی خواتین کو کس قسم کے سماجی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟
تنہا رہنے اور اکیلے پن میں کیا فرق ہے؟
40 سالہ جیوتی شنگے کہتی ہیں کہ 'یہ معاشرہ شادی نہ کرنے کو گناہ سمجھتا ہے۔' وہ پوچھتی ہیں کہ 'صرف میرے شادی نہ کرنے کی وجہ سے وہ میری مالی حیثیت، تعلیم اور ہنر کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور میرے ساتھ مجرمانہ سلوک کرتے ہیں، ان کو ایسا کرنے کا حق کس نے دیا؟'
جیوتی انڈیا کے معروف شہر ممبئی کی رہنے والی ہے۔ اس وقت وہ شمالی ریاست اتراکھنڈ کے چکراتا قصبے میں اپنا گیسٹ ہاؤس اور کیفے چلاتی ہیں۔
انھوں نے کہا: 'میں نے ان تمام مسائل کا سامنا کیا ہے اور اب بھی کر رہی ہوں جن کا سامنا انڈیا میں سب سے زیادہ غیر شادی شدہ خواتین کو ہوتا ہے۔'
انھوں نے مزید کہا: 'جب میں کچھ سال پہلے دہلی میں کام کر رہی تھی تو مجھے رہنے کے لیے گھر نہیں مل رہا تھا۔'
جیوتی نے کہا: 'ایک مکان مالک نے مجھ سے براہ راست کہا کہ ہم غیر شادی شدہ مردوں کو تو گھر دے دیتے ہیں، لیکن ہم غیر شادی شدہ عورتوں پر بھروسہ نہیں کر سکتے۔
'یہ کہنے کے بعد وہ کس طرح ہنس رہا تھا میں وہ نہیں بھول سکتی۔ اس وقت میں ایک نامور نجی آئی ٹی کمپنی میں اچھی تنخواہ پر کام کر رہی تھی۔'
جیوتی کہتی ہیں کہ گھر کی تلاش کے دوران انھیں جو برے تجربات ہوئے اس نے انھیں اپنا گیسٹ ہاؤس شروع کرنے کی ترغیب دی۔
اب بھی بہت سے لوگ ان سے اس طرح کے سوالات پوچھتے ہیں کہ 'تم شادی کب کرو گی؟ اس طرح جینے سے تمہیں کیا ملے گا؟، کیا تم میں کوئی کمی ہے؟' وہ کہتی ہیں کہ وہ ان سوالات کو سنجیدگی سے نہیں لیتیں۔
جیوتی نے کہا: 'میں اپنی ذاتی زندگی پر توجہ دے رہی ہوں۔ میں ہمالیہ کے قریب واقع ایک خوبصورت شہر چکراتہ میں پر سکون زندگی گزار رہی ہوں۔ میں جلد ہی ایک نیا ہوٹل شروع کرنے جا رہی ہوں۔
'لیکن، جو مجھ سے سوال کرتے ہیں وہ یہ نہیں سمجھتے۔ وہ بس یہ سمجھتے ہیں کہ غیر شادی شدہ عورت تو عورت ہوتی ہی نہیں ہے۔'
مطالعہ کیا کہتا ہے؟
انڈیا میں تنہا رہنے والی خواتین پر کی گئی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ 'جو خواتین معاشرے کے روایتی ڈھانچے کے خلاف کوئی بھی کام کرتی ہیں انھیں مایوس، نادان، نامکمل اور سماجی تانے بانے سے الگ سمجھا جاتا ہے۔'
اس تحقیق میں 35 سال سے زیادہ عمر کی خواتین کی چار اقسام کی نشاندہی کی گئی، جنھیں 'اکیلی رہنے والی خواتین' کے نام سے جانا جاتا ہے۔
- وہ خواتین جن کا شوہر نہ رہا
- مطلقہ خواتین
- غیر شادی شدہ خواتین
- شوہروں سے علیحدہ رہنے والی خواتین
اس تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اگرچہ تنہا رہنے والی خواتین زندگی کے حوالے سے زیادہ مثبت نظریہ رکھتی ہیں اور مالی طور پر خوشحال ہوتی ہیں لیکن وہ زندگی میں شکست خوردہ سمجھی جاتی ہیں۔
جیوتی کہتی ہیں: 'معاشرے میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ جو لوگ اکیلے رہتے ہیں وہ ناخوش ہوتے ہیں۔ بہت سے لوگوں نے مجھے یہ بتایا ہے۔'
وہ کہتی ہیں کہ تنہا رہنے اور اکیلے پن کے ساتھ جینے میں فرق ہے۔
انھوں نے کہا: 'ممبئی میں میری ایک بڑی فیملی ہے، جس میں میرے والد، بھائی، بھابھی اور ان کے بچے۔ میں کسی بھی خاندانی تقریب میں شرکت سے کبھی محروم نہیں ہوتی۔
'اسی طرح چکراتا میں بھی میرے بہت سے دوست ہیں۔ میں اکیلی نہیں ہوں۔ میں خوش ہوں اور اپنی زندگی تسلی بخش انداز میں گزار رہی ہوں۔
'زندگی میں خالی پن'
لیکن جنوبی ریاست تمل ناڈو میں کوئمبٹور کے رہنے والے 43 سالہ ونود کمار (نام بدلا ہوا) اس معاملے پر مختلف رائے رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: 'میں خاندانی تقریبات سے حتی الامکان بچنے کی کوشش کرتا ہوں۔ کیونکہ میں رشتہ داروں کے سوالوں کا جواب نہیں دے سکتا۔ وہ شادی نہ کرنے کو ایک بڑا جرم سمجھتے ہیں۔'
ونود کہتے ہیں: 'میں اس بات کا بہت خیال رکھتا ہوں کہ مجھے کبھی بخار یا صحت سے متعلق کوئی مسئلہ نہ ہو۔ یہاں تک کہ اگر میں بیمار پڑ جاؤں تو میں کسی کو بتانے سے گریز کرتا ہوں۔'
'اگر میں ان سے کہوں تو وہ مجھے مشورہ دیں گے کہ مجھے جلد از جلد شادی کرلینی چاہیے۔'
ونود بتاتے ہیں کہ اگرچہ ان کے دل میں شادی کرنے کی خواہش بھی ہو تو بھی ان سے ایسے سوالات پوچھ لیے جاتے ہیں جو ان میں احساس کمتری پیدا کرتے ہیں۔
ان سے اس طرح کے سوال پوچھے جاتے ہیں کہ 'شادی کے بعد کیا کرو گے؟'، 'بچوں کے لیے پیسے کیسے بچاؤ گے؟'، 'لڑکی کیسے ملے گی؟' وغیرہ۔
وہ کہتے ہیں: 'میں سب کو جواب دے دے کر تھک چکا ہوں، میں نے محسوس کیا ہے کہ جو لوگ سوال کرتے ہیں اور مشورہ دیتے ہیں وہ ہمارے لیے کچھ نہیں کریں گے۔
'اس لیے میں ایسے لوگوں سے ملنے سے گریز کرتا ہوں۔ میں کچھ نہیں کر سکتا، لیکن مجھے زندگی میں ایک قسم کا خالی پن محسوس ہوتا ہے۔'
سائنس میگزین 'نیچر' میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ جو لوگ غیر شادی شدہ ہیں وہ شادی شدہ افراد کی نسبت زیادہ ذہنی تناؤ کا شکار ہوتے ہیں۔
اس کے لیے سات ممالک کے ایک لاکھ چھ ہزار 556 رضاکاروں پر ایک مطالعہ کیا گیا۔
ان ممالک میں امریکہ، برطانیہ، میکسیکو، آئرلینڈ، کوریا، چین اور انڈونیشیا شامل تھے۔
اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ طلاق یافتہ افراد میں ڈپریشن کا شکار ہونے کا امکان 99 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔
یہ معاشرہ تنہا رہنے والوں کو کس نظر سے دیکھتا ہے؟
مصنف راج سنگیتن کا کہنا ہے کہ ہمارے معاشرے کے پاس ان مسائل کا کوئی جواب نہیں ہے جن کا سامنا تنہا رہنے والے لوگوں کو کرنا پڑتا ہے۔
انھوں نے کچھ کتابیں لکھی ہیں۔ ان میں 'دی الٹیمیٹ ہیروز'، لو اینڈ سم کویشنز' اور 'دی چوکٹٹن دیسم' شامل ہیں۔
وہ کہتے ہیں: 'یہاں کوئی بھی ان لوگوں کی جنسی ضروریات کے بارے میں بات نہیں کرتا جو معاشرے میں اکیلے رہتے ہیں، یا جو طلاق یافتہ ہیں یا جو اپنا ساتھی کھو چکے ہیں۔'
'ہر کوئی آپ کو ایک ہی حل 'شادی کرو' بتاتا ہے۔ درحقیقت یہ معاشرہ محتاط ہے کہ مرد اور عورت کے درمیان شادی کے علاوہ کوئی اور رشتہ نہ ہو۔
مصنف راج سنگیتن کا کہنا ہے کہ صرف اس وجہ سے کہ کسی کو شادی یا اس کے ارد گرد کی ذمہ داریاں اور پابندیاں پسند نہیں ہے، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کسی کو کسی ساتھی کی ضرورت نہیں ہے یا اسے ساتھی نہیں چاہیے۔'
ان کا کہنا ہے کہ 'گاؤں کے ساتھ ساتھ شہر میں بھی ایک روایت ہے، جس میں اگر اکیلی رہنے والی عورت کسی مرد سے بات کرتی ہے تو اسے مختلف نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔'
ان کا کہنا ہے کہ 'ایک شخص جس نے کئی ذاتی وجوہات کی بنا پر شادی نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو اسے اس معاشرے میں دوستی، محبت یا جنسی ضروریات کی بنیاد پر کسی سے جڑنے کا موقع نہیں ملتا۔'
راج سنگیتن کا کہنا ہے کہ ضروری نہیں کہ عورت یا مرد کا تنہا رہ جانا ان کی اپنی غلطی ہو۔
ممکن ہے کہ انھوں نے یہ فیصلہ خاندانی ذمہ داریوں یا کسی اور قسم کے سماجی دباؤ کی وجہ سے لیا ہو۔
وہ کہتے ہیں: 'بہت سے لوگ خاندانی دباؤ کی وجہ سے شادی نہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔
'جب تک ان کے خاندانی حالات کچھ مستحکم ہوتے ہیں، وہ اس معاشرے کی طرف سے مقرر کردہ شادی کی عمر سے گزر چکے ہوتے ہیں۔ یہ معاشرہ ان کی ضروریات کا خیال نہیں رکھتا۔'
راج سنگیتن کا کہنا ہے کہ معاشرے میں تنہا رہنے کے خواہشمند لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔
اگر معاشرے کی طرف سے انھیں نظر انداز کیا جائے یا ایک داغ سمجھا جائے تو یہ صورت حال انھیں شدید ذہنی دباؤ میں دھکیل سکتی ہے یا وہ کئی بے ضابطگیوں میں گھر سکتے ہیں۔
سماجی دباؤ کے اثرات
ماہر نفسیات پورنا چندریکا کہتی ہیں کہ 'جو لوگ اکیلے رہتے ہیں اور ان کے والدین کو ہر روز بار بار یاد دلایا جاتا ہے کہ 'آپ اس معاشرے کا حصہ نہیں ہیں۔' اس سے ان میں احساس جرم پیدا ہو سکتا ہے۔'
پورنا چندریکا بتاتی ہیں کہ کچھ والدین نے مجھے بتایا: 'انھیں بہت سارے مشورے ملتے رہتے ہیں۔ جیسے اس مندر میں جائیں، وہ علاج کریں، انھیں کسی ماہر نفسیات کے پاس لے جائیں۔
'پھر کچھ والدین اپنے بچوں کو میرے پاس لاتے ہیں، تاکہ پتہ چل سکے کہ ان کے بچوں کو کوئی ذہنی مسئلہ تو نہیں ہے۔ دراصل، یہ سب صرف اس خوف کی وجہ سے ہے کہ 'میرا پڑوسی کیا سوچے گا؟'
وہ کہتی ہیں کہ انھوں نے ایسے لوگوں کو ذہنی صحت کے متعلق مشورہ فراہم کیا ہے جو سماجی دباؤ کی وجہ سے عجلت میں شادی کرنے اور غلط ساتھی کے ساتھ رہنے پر مجبور تھے۔
پورنا چندریکا کا کہنا ہے کہ 'غیر شادی شدہ رہنا ہر ایک کا ذاتی حق ہے۔
'ہمارے معاشرے میں ایک قسم کی توہم پرستی کافی عرصے سے چلی آ رہی ہے اور وہ یہ ہے 'شادی کرو، سب کچھ بدل جائے گا۔' جب تک یہ تصور نہیں بدلتا، کچھ نہیں بدلے گا۔'