کراچی: جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے مذاکرات کے حوالے سے ہمیں اعتماد میں نہیں لیا۔ عوام کو ثمرات ملیں گے تو ثابت ہو گا کہ معیشت بہتر ہوئی۔
جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں علم نہیں کہ پی ٹی آئی والے کیا کر رہے ہیں۔ بلکہ انہوں نے تو مذاکرات کے حوالے سے ہمیں اعتماد میں نہیں لیا۔
بلوچستان کے انتخابات پر انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے ایک حلقے کے انتخاب میں صرف 2 فیصد ووٹوں کی نادرا سے تصدیق ہوئی۔ اب ایسے انتخابات پر کون اعتماد کرے گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا انتخابات صحیح ہوئے ہیں؟۔
انہوں نے کہا کہ مدت پوری کرنے کی بات الگ، جائز اور ناجائز کی بات الگ ہوتی ہے۔ مدتیں تو مارشل لا بھی پورا کرلیتی ہیں۔
معیشت پر گفتگو کرتے ہوئے سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ کہا جا رہا ہے کہ معیشت میں بہتری آئی ہے۔ لیکن صرف معاشی اشاریوں سے کام نہیں چلتا۔ بلکہ معیشت کی بہتری کے حوالے سے حقائق سامنے آنے چاہئیں۔ اور عوام کو ثمرات ملیں گے تو ثابت ہو گا کہ معیشت بہتر ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جمہوریت اور آئین پر سمجھوتہ کرنے والے سیاستدانوں سے شکایت ہے۔ کیونکہ جمہوریت اور آئین کا مذاق اُڑانے پر کیا لوگ تنقید نہیں کریں گے۔ تمام معاملات قومی اتفاق رائے سے حل ہونے چاہئیں۔
یہ بھی پڑھیں: بانی پی ٹی آئی این آر او کیلئے جھک گئے ہیں، عظمیٰ بخاری
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ وزیر داخلہ محسن نقوی سے ملاقات ہوتی رہتی ہے۔ اور ضروری نہیں کہ محسن نقوی سے ہر ملاقات سیاسی ہو۔ ملک کا نظام بہتر کرنے کے لیے ایک جگہ ٹھہرنا ہو گا۔
مدارس سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مدارس سیاسی مداخلت کو تسلیم کرتے ہیں اور نہ ہی کریں گے۔ مدارس کے معاملے پر صوبے قانون سازی میں تاخیر کیوں کر رہے ہیں؟۔ اور صوبوں کے درمیان اعتماد کا فقدان ملک کے لیے مفید نہیں۔
انہوں نے کہا کہ خالد مقبول صدیقی نے میرے گھر آکر مدارس ایکٹ کو سمجھنے کی کوشش کی۔ اور خالد مقبول صدیقی وزیر تعلیم ضرور ہیں لیکن میرے گھر میں وہ زیرتعلیم ہیں۔ پارلیمنٹ کی سطح پر مدارس کی رجسٹریشن کے لیے قانون سازی ہو چکی ہے اور صدارتی آرڈیننس کے ذریعے مدارس رجسٹریشن میں ریلیف دیا گیا۔
سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ حکومت نے کچھ مدارس کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے اقدامات کیے۔ تاہم جب قومی سطح پر قانون بن چکا ہے تو پھر صوبائی سطح پر عملدرآمد کیا جائے۔