پیڈل: پاکستان میں تیزی سے مقبول ہونے والا منفرد کھیل جو سرمایہ کاروں کے لیے ’منافع بخش‘ اور سیکھنے میں ’آسان‘ ہے

پیڈل جسے کچھ ممالک میں پیڈل ٹینس بھی کہا جاتا ہے کی تاریخ زیادہ پرانی نہیں ہے لیکن آج اسے 130 سے زیادہ ممالک میں تین کروڑ سے زیادہ لوگ کھیلتے ہیں۔
padel
BBC

اسلام آباد سمیت پاکستان کے دیگر بڑے شہروں میں ایک ایسا کھیل تیزی سے مقبولیت حاصل کر رہا ہے جسے دو مختلف کھیلوں کا مرکب کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔

شام کو کہیں فلڈ لائٹس سے روشن جگہ دیکھنے پر عموماً یہی گمان ہوتا ہے کہ یہاں یا تو کرکٹ کھیلی جا رہی ہو گی یا فٹبال لیکن ایک ایسے کھیل اسلام آباد، لاہور اور کراچی میں اپنی جگہ بنا لی ہے جو بالخصوص نوجوانوں کے لیے پرکشش کھیل بنتا جا رہا ہے۔

یہاں بات 'پیڈل' کی ہو رہی ہے جس میں آپ کو ٹینس اور سکواش دونوں کی ہی جھلک نظر آتی ہے لیکن یہ کھیلنے میں قدرے آسان ہے۔

شاید میری طرح آپ بھی اس کھیل کے بارے میں پہلی مرتبہ سن رہے ہوں لیکن اسلام آباد میں پیڈل کورٹس میں جا کر مجھے معلوم ہوا کہ لڑکے اور لڑکیاں اس کھیل میں کتنی دلچسپی رکھتے ہیں۔

پیڈل جسے کچھ ممالک میں پیڈل ٹینس بھی کہا جاتا ہے کی تاریخ زیادہ پرانی نہیں ہے لیکن آج اسے 130 سے زیادہ ممالک میں تین کروڑ سے زیادہ لوگ کھیلتے ہیں۔

کھیلنے والوں کی فہرست میں رافیل نڈال، نوواک جوکووچ اور فٹ بالر لیونل میسی سمیت کھیلوں کے متعدد ستارے موجود ہیں۔

تاہم ان کورٹس میں پہنچنے پر معلوم ہوا کہ کورٹ میں ایک گھنٹہ کھیلنے کی فیس سات ہزار روپے اور اگر آپ اپنے ریکٹس بھی خریدنا چاہتے ہیں تو ان کی قیمت 25 ہزار روپے سے شروع ہوتی ہے۔

تو ذہن میں یہی سوال آیا کہ ایک ایسا کھیل جو عام لوگوں کی پہنچ میں ہی نہیں اس کے بارے میں ماہرین یہ کیوں کہہ رہے کہ یہ ملک میں 'جنگل کی آگ کی طرح' پھیل رہا ہے اور یہ منافع بخش بھی ہے؟

ان سوالات کے جاننے سے پہلے اس کھیل کی دلچسپ تاریخ پر نظر دوڑا لیتے ہیں۔

ronaldo padel
Getty Images

پیڈل کی تاریخ کیا ہے؟

سال 1969 تھا، میکسیکو میں ایک رئیس جوڑا انریکے کورکوئرا اور ان کی اہلیہ ویوی اینا ساحلی شہر آکاپلکو کے پوش مضافات میں اپنی نئی رہائش گاہ پر چھٹیاں گزار رہے تھے۔

وقت گزارنے کے لیے جوڑے نے دیوار پر گیند مارنا شروع کی، یہ اس کھیل کا ابتدائی ورژن تھا۔ ویوی اینا کو یہ کھیل اتنا پسند آیا کہ انھوں نے اپنے شوہر کو صاف صاف کہہ دیا کہ یا تو وہ اس کھیل کے لیے ایک کورٹ بنوائیں یا وہ واپس آرجنٹینا چلی جائیں گیں۔

انریکے نے ان کی بات مان لی اور سیمنٹ کا ایک کورٹ بنوایا جو 10 میٹر چوڑا اور 20 میٹر لمبا تھا۔

اس کے علاوہ انھوں نے اس کے گرد باڑ لگوا دی تاکہ گیند بار بار کورٹ سے باہر نہ جائے۔

1960 اور 1970 کی دہائی میں چھٹیاں گزارنے کے لیے اکاپولکو شہر ہالی وڈ ستاروں کا پسندیدہ مرکز تھا۔ مانا جاتا ہے کہ یہاں سے اس کھیل کی مقبولیت بڑھنے لگی۔

امریکی سفارتکار ہنری کسنجر کے علاوہ مختلف بڑی شخصیات نے یہ کھیل کھیلا اور آنے والے سالوں میں یہ کھیل سپین اور آرجنٹینا پہنچا جہاں یہ بے حد مقبول ہوا۔

سنہ 1991 میں اس کھیل کا پہلا بین الاقوامی ٹورنامنٹ 'کورکوئرا کپ' منعقد ہوا اور اس سے اگلے سال سپین میں پہلا ورلڈ کپ منعقد ہوا۔

برطانیہ کی لان ٹینس اسوسی ایشن کے مطابق پیڈل ’دنیا میں سب سے زیادہ تیزی سے مقبول ہوتا کھیل‘ ہے۔

پیڈل میں سکورنگ کا طریقہ ٹینس کی طرح ہی ہے لیکن اس کا کورٹ ٹینس کا ایک تہائی ہے۔ سکواش کی طرح اس کا کورٹ بند ہوتا ہے اور کھلاڑی شیشے کی دیوار پر گیند لگنے پر اسے دوبارہ اپنے حریف کی کورٹ میں پھینک سکتے ہیں۔

یہ زیادہ تر ڈبلز فارمیٹ میں کھیلا جاتا ہے یعنی دو کھلاڑیوں کی ایک ٹیم ہوتی ہے۔

اس کے ریکٹس پر تاریں نہیں ہوتیں جبکہ اس کی گیند ٹینس بال سے چھوٹی اور ہلکی ہوتی ہیں۔

padel
BBC

’باری مشکل سے آتی ہے‘

نگین کوثر ایک ڈینٹسٹ ہیں اور وہ مختلف کھیل کھیلتی ہیں۔ پیڈل کورٹس جانے پر میری ان سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے بتایا کہ وہ یہاں دوسری مرتبہ پیڈل کھیلنے آئی ہیں اور اس سے پہلے وہ بیرون ملک پیڈل کھیل چکی ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ ’یہ بہت آسان کھیل ہے اور بہت مزہ آتا ہے۔ ٹینس ایک مشکل اور ٹیکنیکل کھیل ہے۔ اس کے لیے سٹیمنا چاہیے ہوتا ہے اور لمبے عرصے تک آپ کو سیکھنا پڑتا ہے اس حساب سے یہ بہت آسان کھیل ہے۔‘

نگین کوثر نے بتایا کہ نئے کھلاڑیوں کے لیے ٹینس اور سکواش سے مقابلہ کیا جائے تو پیڈل سیکھنا آسان ہے۔

یہیں ہماری ملاقات لیلیٰ ملک سے بھی ہوئی جو ایک گالفر ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ وہ بھی دوسری دفعہ یہاں پیڈل کھیلنے کے لیے آئی ہیں۔

ان کا ماننا ہے کہ اس کھیل کا پاکستان میں مستقبل روشن ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’کافی لڑکیاں بھی اسے کھیلتی ہیں یہاں پر آ کر، یہاں بہت سلاٹس بک ہوتے ہیں ہمیں بہت مشکل سے سلاٹ ملتا ہے۔

انھوں نے مزید بتایا کہ ’میں سکواش اور ٹینس بھی کھیلتی رہی ہوں یہ دونوں کا ایک بہترین کامبینیشن ہے اور بہت آسان ہے۔‘

لیلیٰ کی بھی یہی رائے ہے کہ کسی بھی نئے کھلاڑی کے لیے اسے کھیلنا اور سیکھنا آسان ہے۔

جب ان سے فیس کے زیادہ ہونے کے متعلق بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ ’اگر آپ شوقین ہیں تو آپ پیسے لگاتے ہیں، لوگ کھانے کے شوقین ہوتے ہیں تو وہ کھانے پر لگاتے ہیں ہم کھیل کے شوقین ہیں تو ہم اس پر لگاتے ہیں۔ ہم لوگ افورڈ کر سکتے ہیں۔‘

padel
BBC

پاکستان میں پیڈل ’ایک منافع بخش کاروبار‘

پاکستان پیڈل اسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری مامون قریشی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان میں کمرشل سطح پر پیڈل کا آغاز کراچی میں جون 2023 میں ہوا۔

مامون کے مطابق 'اس وقت پاکستان میں صورتحال یہ ہے کہ کراچی میں پیڈل کے 50 سے زیادہ کورٹ ہیں، لاہور میں 40 سے زیادہ جبکہ اسلام آباد میں چھ سے سات کورٹس کھل چکے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ 'پاکستان میں رسپانس کافی اچھا رہا ہے اور یہ کھیل جنگل کی آگ کی طرح پھیل رہا ہے اور کورٹس تیزی سے کھلتے جا رہے ہیں۔'

کھیلوں کے ماہر سپورٹس مینجمنٹ کنسلٹنٹ شاہ رخ سہیل نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ 'اس کھیل میں مقبول ہونے کا بہت پوٹینشل ہے۔ دو تین سالوں میں بہت سے کورٹس کا آغاز ہوا ہے اور میرے اندازے کے مطابق یہ پاکستان میں 37 سے 40 کروڑ روپے کی مارکیٹ بن گئی ہے۔'

انھوں نے مزید بتایا ان کے اندازے کے مطابق کہ ’کمرشل سپورٹس فیسیلیٹی کی مارکیٹ میں فٹ بال اب دوسرے نمبر پر چلی گئی ہے جو کہ 32 سے 35 کروڑ روپے کی مارکیٹ ہے۔‘

شاہ رخ کا کہنا تھا کہ 'پیڈل کورٹس ایک سے ڈیڑھ کروڑ میں بن جاتے ہیں اور اس کا ریوینیو بھی بہت اچھا ہوتا ہے۔ آپ تقریباً ایک سے ڈیڑھ سال کے اندر پیسے بھی ریکوور کر لیتے ہیں۔'

مصطفیٰ مرزا اسلام آباد کے پیڈل کلب کے بانی ہیں جسے کا آغاز دو ماہ قبل ہوا تھا۔ یہ وہی کورٹ ہیں جہاں میں نے پہلی دفعہ اس کھیل کو دیکھا۔

انھوں نے بتایا کہ پیڈل کورٹ کا سیٹ اپ ڈھائی سے تین کروڑ تک کا ہو جاتا ہے لیکن وہ ابھی تک کے اعداد و شمار سے مطمئن ہیں۔

وہ کہتے ہیں ’یہ ایک منافع بخش کاروبار ہے لیکن یہ اتنا آسان نہیں ہے۔ اسے بنانا شاید آسان ہے لیکن اسے چلانا بہت مشکل ہے۔‘

جیسے کہ اس تحریر کی ابتدا میں آپ کو بتایا تھا کہ اسلام آباد میں ایک پیڈل کورٹ میں ایک گھنٹہ کھیلنے کی فیس سات ہزار روپے ہے۔

اسے چار لوگ کھیلتے ہیں تو اگر ان پر اسے تقسیم کیا جائے تو ہر کھلاڑی کو 1750 روپے دینے ہوتے ہیں۔

مصطفیٰ مرزا کے پیڈل کورٹس میں بھی فیس اتنی ہی ہے اور انھوں نے مجھے بتایا کہ رات گئے تک اس کی بکنگ ہوتی ہے۔

اسلام آباد کی سردیوں کی راتوں میں بھی جیسے ہی ایک گھنٹہ مکمل ہوتا اگلے سلاٹ کے کھلاڑی فوراً کورٹ میں داخل ہو کر اپنا میچ شروع کر دیتے۔

padel
BBC

کیا پیڈل پاکستان میں ترقی کرسکے گا؟

مختلف کھلاڑیوں اور ماہرین سے بات کرنے کے بعد یہ بات بار بار سامنے آ رہی تھی کہ اس کھیل کو سیکھنا آسان ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ ایسا کھیل جو عام شہری کی پہنچ سے دور ہے وہ ترقی کیسے کرے گا؟

مامون قریشی سے جب اس کھیل کے مہنگے ہونے کی بات کی تو انھوں نے کہا کہ ’ابھی مسئلہ یہ ہے کہ یہ ایک مہنگا کھیل ہے۔ کورٹ کا فریم، ٹرف، گلاس سب چیزیں کافی مہنگی ہوتی ہیں اور فلڈ لائٹس کے باعث بھی فیس مہنگی رکھی جاتی ہے۔

انھوں نے مزید کہا ’پیڈل ایک سوشل کھیل ہے گولف کی طرح، پیڈل ایک برانڈ بھی ہے آپ ایک کمیونٹی کا حصہ بن جاتے ہیں اور گالف کی طرح ہر کوئی اسے نہیں کھیلتا۔‘

شاہ رخ سہیل کہتے ہیں ’ہر کھیل کی اپنی ٹارگٹ آڈیئنس ہوتی ہے۔ سات ہزار کا مطلب ہے کہ یہ ایک بڑے پیمانے پر کھیلا جانے والا کھیل نہیں بنے گا۔ اس کے بیریئر ٹو اینٹری ہائی ہیں۔

’صرف اس لیے نہیں کہ سات ہزار کی بکنگ ہے بلکہ اس کا اپنا سامان اگر آپ خود بھی خریدیں تو اچھا ریکٹ 25 ہزار سے شروع ہوتا ہے اور لاکھوں میں بھی جاتا ہے۔ تو ہر کوئی یہ نہیں کھیلے گا۔ ایک مخصوص طبقے تک یہ کھیل رہے گا لیکن کیونکہ پاکستان کی آبادی 25 کروڑ ہے تو وہ مخصوص طبقہ بھی بڑا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’میرے خیال سے پیڈل اتنا دلچسپ کھیل ہے کہ اگر اس کو آپ سٹرکچر کر کے کمرشلی چلائیں گے تو اس سے اس کی ترقی میں بھی بہت فائدہ ہو گا اور اسے کمرشلائز بھی کیا جا سکے گا۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.