تفتیش کار اس حادثے کی مختلف زاویوں سے تحقیقات کر رہے ہیں۔ ایک سب سے بڑا سوال جو اس وقت تفتیش کاروں کے سامنے ہے وہ یہ ہے کہ رن وے کے اتنے نزدیک بنی کانکریٹ کی دیوار کا مقصد کیا تھا۔
جنوبی کوریا کے حکام کا کہنا کہ گذشتہ ماہ حادثے کا شکار ہونے والی جیجو ایئر کے طیارے کے فلائٹ ڈیٹا اور کاک پٹ وائس ریکارڈرز نے حادثے سے چار منٹ قبل ہی ریکارڈنگ کرنا بند کر دی تھی۔
گذشتہ ماہ پیش آنے والے حادثے میں 179 افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ صرف دو فلائٹ اٹینڈنٹس ہی زندہ بچ پائے تھے۔ یہ جنوبی کوریا کی سرزمین پر پیش آنے والا سب سے ہلاکت خیز فضائی حادثہ تھا۔
تحقیقات کرنے والوں کو امید تھی کہ ریکارڈرز پر موجود ڈیٹا سے انھیں حادثے سے قبل کے لمحات کے بارے میں جاننے میں مدد ملے گی۔
جنوبی کوریا کی وزارت ٹرانسپورٹ کا کہنا ہے کہ وہ اب اس بات کا جائزہ لیں گے کہ ایئر کریش سے چار منٹ قبل فلائٹ ریکارڈر اور کاک پٹ وائس ریکارڈر نے کام کرنا کیوں بند کر دیا تھا۔
وزارت کا کہنا ہے کہ ابتدائی طور پر ریکارڈرز کی جنوبی کوریا میں ہی جانچ کی گئی تاہم جب اس کا کچھ ڈیٹا نہ مل پایا تو اس کی مزید جانچ کے لیے دونوں بلیک باکسز کو امریکہ بھیجا گیا۔
29 دسمبر کو تھائی لینڈ کے بینکاک ایئر پورٹ سے پرواز کرنے والی جیجو ایئر کی فلائیٹ 7C2216 نے جنوبی کوریا کے موان انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر کریش لینڈنگ کی جس کے نتیجے میں جہاز رن وے سے پھسل کر دیوار سے جا ٹکرایا۔
جنوبی کوریا کی وزارت ٹرانسپورٹ کے ایک سابق تحقیقاتی افسر سم جائی ڈونگ نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ جہاز کے دونوں بلیک باکس پر آخری چار منٹوں کا ڈیٹا نہ ہونا کافی حیران کن ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ آخری لمحات میں جہاز کو بجلی کی فراہمی بشمول تمام بیک اپس کے منقطع ہو گئی جو کہ ایک غیر معمولی بات ہے۔‘
جنوبی کوریا کے حکام کا کہنا ہے کہ تحقیقات کے لیے دستیاب دیگر تمام ڈیٹا استعمال کرتے ہوئے اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ اس معاملے کی شفاف اور آزادانہ تحقیقات ہوں اور اس کے نتائج سے متاثرین کے خاندانوں کو آگاہ رکھا جائے گا۔
حادثے میں ہلاک ہونے والے چند افراد کے ورثا کا کہنا ہے وزارتِ ٹرانسپورٹ کو ان تحقیقات کی قیادت نہیں کرنی چاہیے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ حادثے کی تحقیقات ایسے آزاد ماہرین کی نگرانی میں کروائی جائیں جنھیں ورثا نے منتخب کیا ہے۔
رن وے سے محض 250 میٹر دور کنکریٹ کی دیوار کیوں بنائی گئی؟
اس حادثے کے حوالے سے کئی سوالات کے جوبات اب بھی واضح نہیں۔ تفتیش کار اس بات کی تحقیق کر رہے ہیں کہ پرندے کے جہاز سے ٹکرانے یا موسمی حالات کا اس حادثے میں کیا کردار ہے۔
اس کے علاوہ اس امر کی بھی جانچ کی جا رہی ہے کہ جب طیارہ کے رن وے سے ٹکرانے کے وقت اس کا لینڈنگ گیئر غیر فعال کیوں تھا۔
تاہم اس وقت تفتیش کاروں کے سامنے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ رن وے کے اتنے نزدیک کنکریٹ کی دیوار کا مقصد کیا تھا۔
حادثے کے وقت کی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اترتے وقت طیارے کے لینڈنگ گیئر نہیں کھلتے جس کے باعث جہاز پیٹ کے بل رن وے سے ٹکرایا اور پھسلتا ہوا رن وے کے نزدیک ایک دیوار سے جا ٹکرایا۔
اس ٹکراؤ کے نتیجے میں جہاز میں آگ بھرک اٹھی۔
ماہرین سوال کرتے ہیں کہ رن وے سے محض 250 میٹر کی دوری پر کانکریٹ کی دیوار کیوں بنائی گئی؟
ہوابازی کے مار ڈیوڈ ایئرماؤنٹ کا کہنا ہے کہ اگر یہ دیوار موجود نہ ہوتی تو شاید تمام مسافر آج زندہ ہوتے۔
حادثے سے قبل پائلٹ نے جہاز کی لینڈنگ منسوخ کرنے کی اجازت مانگی۔ تاہم کچھ ہی دیر بعد پرندے کے ٹکرانے کی وجہ سے مخالف سمت سے لینڈنگ کی۔
اترتے وقت بظاہر جہاز کے لینڈنگ گیئر اور پہیے نہیں کھلے اور جہاز تقریباً 2800 میٹر رن وے پر پھسلتا ہوا گیا۔
ڈیوڈ کا کہنا ہے کہ پائلٹ نے پروں کا توازن برقرار رکھتے ہوئے اچھی لینڈنگ کی۔ ان کے مطابق لینڈنگ کے دوران اس بات کو یقینی بنانے کی بھی کوشش کی گئی کہ جہاز کی ناک (اگلا حصہ) زیادہ اونچا نہ ہو تاکہ اس کی کی دم الگ الگ نہ ہو جائے۔
ان کا کہنا تھا جہاز بنا کسی بڑے نقصان کے رن وے پر پھسلتا ہوا چلا گیا۔
ڈیوڈ کا کہنا ہے کہ حادثے میں ہونے والی اموات کی وجہ جہاز کی کریش لینڈنگ نہیں بلکہ رن وے کے اتنے نزدیک دیوار سے ٹکرانا ہے۔
جرمن ایئر لائن لفتھانزا کے پائلٹ کرسچن بیکرٹ کہتے ہیں کہ عام طور پر رن وے کے اختتام پر کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی ہے اور ایسی جگہ پر کانکریٹ کی دیوار ہونا ایک غیر معمولی بات ہے۔
جنوبی کوریا کی یونہاپ نیوز کے مطابق کانکریٹ سے بنے اس سٹرکچر میں نیوی گیشن سسٹم نصب تھا جو جہازوں کو لینڈنگ میں مدد فراہم کرتا ہے۔
چار میٹر اونچی اس دیوار کا نچلا حصہ مٹی میں دبا ہوا تھا جب کہ اوپری حصے کو کھلا رکھا گیا تھا تا کہ نیوی گیشن سسٹم صحیح سے کام کر سکے۔
وزارت ٹرانسپورٹ کا کہنا ہے کہ دنیا کے کئی ہوئی اڈوں پر اس طرح کی کانکریٹ کی تعمیرات کی جاتی ہیں جن میں آلات نصب ہوتے ہیں۔
تاہم حکام کا کہنا ہے کہ وہ اس بات کی تحقیقات کر رہے ہیں کہ آیا اس دیوار کی تعمیر میں کانکریٹ کی جگہ ایسا مٹیریئل استعمال کیا جانا چاہیے تھا جو بیرونی ٹکر کے نتیجے میں آرام سے ٹوٹ جاتی تاکہ نقصان کم سے کم ہوتا۔
کرس کنگز ووڈ کو 48 سال کا جہاز اڑانے کا تجربہ ہے۔ وہ حادثے کا شکار ہونے والے بوئنگ 800-737 ماڈل کا طیارہ بھی اڑانے کا تجربہ رکھتے ہیں۔ وہ بھی اس بات سے متفق ہیں کہ اگر رن وے کے نزدیک دیوار نہیں ہوتی تو صورتحال یکسر مختلف ہو سکتی تھی۔
کنگز ووڈ نے بی بی سی کو بتایا کہ رن وے سے ایک مخصوص دوری تک رکھے جانے والی رکاوٹیں ایسے مٹیریئل سے بنائی جاتی ہیں جو کسی جہاز سے ٹکرانے کی صورت میں آسانی سے ٹوٹ جائیں۔
ان کے مطابق رن وے کے نزدیک ایسے ٹھوس مٹیریئل سے تعمیر ایک غیر معمولی بات ہے۔
'میری سمجھ کے مطابق جہاز بہت تیزی سے پھسل رہا تھا۔ اور شاید رن وے پر کافی آگے اترا تھا تب ہی یہ پھسلتا ہوا رن وے سے باہر تک نکل آیا۔'
ان کے مطابق ان سب چیزوں کی تحقیقات ہونی چاہیے۔
کنگز ووڈ کہتے ہیں کہ ہوائی جہازوں کی پرواز بہتر بنانے کے لیے انھیں ہلکا پھلکا بنایا جاتا ہے۔
ان کے مطابق ہوائی جہاز بنا لینڈنگ گیئر کے زمین سے ٹکرنے کے لیے ڈیزائن نہیں کیے جاتے۔
کنگز ووڈ کہتے ہیں، 'جہاز کا ایندھن اس کے پروں میں ہوتا ہے اسی لیے پروں کو نقصان پہنچنے کی صورت میں آتشزدگی کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔'
کنگز ووڈ کا کہنا ہے کہ اگر جانچ میں پتا چلاکہ یہ رن وے ہوابازی کی صنعت کے معیار کے تمام تقاضوں کو پورا نہیں اترتا تو یہ کافی حیرت انگیز بات ہو گی۔
ان کے خیال میں اگر کسی بھی بڑے بین الاقوامی ہوائی اڈے کے رن وے کا معائنہ کیا جائے تو شاید ایسی ہی کئی خطر ناک رکاوٹیں نظر آئیں۔
دوسری جانب ہوابازی کی ماہر سیلی گیتھن کہتی ہیں کہ یہ دیکھنا بھی اہم ہے کہ کیا پائلٹ کو معلوم تھا کہ رن وے کے اختتام پر کانکریٹ کی بنی ایسی کوئی رکاوٹ موجود ہے؟
ان کا کہنا ہے کہ بلیک باکس کی جانچ سے یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ آیا پائلٹ کو لینڈنگ کی سمت تبدیل کرنے کے متعلق کنٹرول ٹاور سے کوئی حکم ملا تھا یا نہیں۔
'ابھی بہت سے سوالات باقی ہیں۔'