’میرے پاس ماں ہے‘: وہ فلم جس کی کہانی کے پیچھے بالی وڈ کی مشہور جوڑی کا دکھ چھپا ہے

1975 کی فلم دیوار نے نہ صرف امیتابھ بچن کے ’اینگری ینگ مین‘ امیج کو مستحکم کیا بلکہ آنے والی دہائیوں کے لیے وہ ایک سانچہ بھی بن گئی۔
امیتابھ بچن
Getty Images
امیتابھ بچن

فلمی پردے پر دو بھائی آمنے سامنے ہیں، ایک پولیس والا ہے، دوسرا سمگلر۔ زندگی کے ہاتھوں بڑا بھائی مجرم بن جاتا ہے جس کے ہاتھ پر بچپن میں ایک ٹیٹو بنا دیا جاتا ہے: ’غدار کا بیٹا۔‘

اگر آپ کے ذہن میں 50 سال قبل جنوری کے آخری ہفتے میں سنہ 1975 میں ریلیز ہونے والی فلم ’دیوار‘ کی تصویر ابھر رہی ہے تو آپ بالکل غلط نہیں اور اگر دیکھا جائے تو بلکہ صحیح بھی نہیں۔

یہ سین ہانگ کانگ میں کینٹونیز (چین کی ایک زبان) میں بنی فلم ’ٹو برادرز‘ کا ہے جو دیوار کا ری میک تھا۔

سنہ 1979 میں ریلیز ہونے والی فلم ’ٹو برادرز‘ میں چینی ثقافت کے مطابق کچھ تبدیلیاں کی گئی تھیں۔ مثال کے طور پر امیتابھ کے بیج نمبر 786 کے بجائے ٹو برادرز میں ہیرو بیج نمبر 838 پہنتے ہیں جو چینی سال ’ايئر آف دی ہارس‘ کی علامت ہے۔

’میں آج بھی پھینکے ہوئے پیسے نہیں اٹھاتا‘ اور ’میرا باپ چور ہے‘ جیسے سین بھی اس چینی فلم میں موجود ہیں۔

1975 کی فلم دیوار نے نہ صرف امیتابھ بچن کے ’اینگری ینگ مین‘ امیج کو مستحکم کیا بلکہ آنے والی دہائیوں کے لیے وہ ایک سانچہ بھی بن گئی۔

تمل، تیلگو، ملیالم میں بنی دیوار

دیوار کو انڈیا میں تمل (رجنی کانت)، تیلگو (این ٹی راما راؤ) اور ملیالم (مموتی) زبانوں میں دوبارہ بنایا گیا تھا۔

دیوار کی کامیابی کے بعد 80 کی دہائی میں ترکی میں ایک فلم بھی بنائی گئی جو دیوار میں دو بھائیوں کی کہانی سے متاثر تھی۔ تاہم ہر زبان کی فلم میں اپنے اپنے انداز میں تبدیلیاں کی گئیں۔

دیوار کو ریلیز ہوئے 50 سال ہو چکے ہیں لیکن آج بھیفلموں اور عام زندگی میں کہیں نہ کہیں نظر آتی ہے۔ سنہ 2009 میں جب میوزک ڈائریکٹر اے آر رحمان نے آسکر ایوارڈ جیتا تو وہ سٹیج پر گئے اور کہا ’میرے پاس ماں ہے۔‘

چار الفاظ کا ایک چھوٹا سا جملہ۔۔۔ یہ 1975 کی فلم دیوار کا ایک مکالمہ ہے، لیکن سینیما اور معاشرے میں اس کی اہمیت اس سے کہیں زیادہ ہے۔

اس حوالے سے صحافی ونے لال نے اپنے مضمون ’دیوار: دی فٹ پاتھ، سٹی اینڈ دی اینگری ینگ مین‘ میں لکھا تھا: ’آپ شاید یہ سوچ سکتے ہیں کہ دیوار پرانی ہو گئی ہے، لیکن یہ واضح ہے کہ بدلتے ثقافتی ماحول، بدلتی ہوئی سینیما کی زبان اور اس کے باوجود بدلے ہوئے سیاسی ماحول نے دیوار کی شناخت میں ایک ذرہ بھی کمی نہیں کی۔‘

’آخری بار والدہ کو کفن میں دیکھا‘

دیوار ایک ماں (نروپا رائے) اور بچے (امیتابھ بچن) کے رشتے کی بھی کہانی ہے۔ ایک ایسے بچے کی کہانی جس کے لیے ماں ہی سب کچھ ہے۔

دیوار کی کہانی مشہور بالی وڈ سکرپٹ رائٹر کی جوڑی سلیم جاوید کے قلم سے نکلی۔ ان کی فلموں میں ماں کے تعلق سے تانا بانا ہوتا ہے، اب چاہے وہ ترشول ہو یا دیوار۔

جاوید اختر اینگری ینگ مین نامی سیریز میں اس کی وجہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں: ’میں آٹھ سال کا تھا جب میری والدہ فوت ہو گئیں۔ آخری بار میں نے انھیں کفن میں دیکھا تھا۔ میں مہینوں خواب میں وہی کفن دیکھتا تھا۔ آج میں 76 سال کا ہوں، مجھے وہ عورت یاد آتی ہے جب وہ 36 سال کی تھی۔‘

ایمیزون کی سیریز ’اینگری ینگ مین‘ میں سلیم خان کا کہنا ہے کہ ’میں پانچ سے نو سال کی عمر تک اپنی والدہ سے کبھی نہیں ملا، انھیں ٹی بی تھی، ایک بار میں کھیل رہا تھا تو میری والدہ نے دور سے میری طرف اشارہ کرکے پوچھا کہ یہ بچہ کون ہے۔ جب انھیں معلوم ہوا کہ میں ان کا بیٹا ہوں تو بہت روئی تھیں۔ میں آج بھی انھیں یاد کرتا ہوں تو آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔‘

’تو اتنا امیر نہیں ہوا کہ اپنی ماں کو خرید سکے۔۔۔‘

دیوار کی ایک خاص بات یہ ہے کہ دیگر کئی فلموں کی طرح اس فلم میں بھی ماں جسمانی اور مالی طور پر کمزور تو ہو سکتی ہے لیکن وہ ذہنی طور پر بے بس نہیں ہے۔ وہ اپنے دونوں بیٹوں سے بہت پیار کرتی ہے لیکن اس کی محبت اس کے اصولوں سے بڑی نہیں ہے۔

دیوار کے ایک مشہور سین میں نروپا رائے اپنے سمگلر بیٹے وجے کا گھر چھوڑ کر اپنے پولیس افسر بیٹے روی (ششی کپور) کے ساتھ رہنے جاتی ہے۔ وہ ششی کپور سے کہتی ہے: ’میں نے ہمیشہ وجے (امیتابھ بچن) سے زیادہ پیار کیا ہے لیکن میری محبت اندھی نہیں ہے۔‘

جب امیر وجے اپنی ماں کو روکنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ یہ کہنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتی کہ ’تو اتنا امیر نہیں ہوا کہ اپنی ماں کو خرید سکے۔۔۔ تم نے اپنی ماں کے ماتھے پر کیسے لکھا کہ اس کا بیٹا چور ہے؟‘

پھر ششی کپور کہتے ہیں: ’یہ سچائی تمہارے اور میرے بیچ ایک دیوار ہے، بھائی۔‘

دیوار بنانے والے یش چوپڑا کو آج شاید رومانس کا بادشاہ کہا جائے لیکن اس وقت یش چوپڑا نے سلیم اور جاوید کی لکھی ہوئی کہانی کا انتخاب کیا تھا جس میں رومانس نہیں بلکہ زندگی کی تلخ سچائیاں تھیں۔

فلم میں جب دونوں بھائی ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوتے ہیں تو ششی کپور کہتے ہیں کہ ’بھائی، جب تک یہ دیوار ہے ہم ایک چھت کے نیچے نہیں رہ سکتے۔‘

سلیم جاوید یعنی سلیم خان اور جاوید اختر نے مل کر کئی یادگار فلمیں لکھیں ہیں
Getty Images
سلیم جاوید یعنی سلیم خان اور جاوید اختر نے مل کر کئی یادگار فلمیں لکھیں ہیں

’میرا باپ چور ہے‘

جب دو بھائی، ایک پولیس افسر اور ایک سمگلر، آخری بار ملتے ہیں، تو ان کے درمیان صرف بچپن کی یادیں رہ جاتی ہیں۔

جب دونوں گھر سے دور ایک پل کے نیچے ملتے ہیں تو ششی کپور کہتے ہیں: ’آج جب ہمارے درمیان تمام پل ٹوٹ چکے ہیں، صرف یہ پل رہ گیا ہے۔ یہ پل جس کے نیچے ہم نے اپنا بچپن گزارا ہے۔‘

دیوار کو دیکھ کر ہندی فلموں کے کئی پرتشدد مناظر ذہن میں آتے ہیں، جن میں زبردست خونریزی اور تشدد ہوتا ہے۔ لیکن دیوار میں دل کو چھو لینے والا ایک منظر ہے جس میں تشدد جسمانی نہیں بلکہ جذباتی ہے۔

یہاں ہم اسی منظر کی بات کر رہے ہیں جب لوگ ایک چھوٹے بچے کو اس کے باپ کے بھاگنے کے بعد گھیر لیتے ہیں اور اس کے بازو پر لکھتے ہیں کہ ’میرا باپ چور ہے۔‘

دیوار جنوری کے آخری ہفتے میں سنہ 1975 میں ریلیز ہوئی اور چند ماہ بعد انڈیا میں ایمرجنسی کا اعلان کر دیا گیا۔ بے روزگاری، نظام کے خلاف غصہ اور دیوار میں دکھائی گئی بغاوت، اتفاق سے آنے والے دنوں میں وہ حقیقی زندگی میں سکرین کے باہر بھی سڑکوں پر نظر آنے لگی۔

دیوار فلم گلشن رائے نے بنوائی تھی۔ گلشن رائے نے اس فلم کے لیے راجیش کھنہ کو سائن کیا تھا لیکن سلیم اور جاوید امیتابھ بچن کو کاسٹ کرنا چاہتے تھے۔

دیوار میں ایک منظر ہے جہاں وجے اپنے والد کے جنازے میں پہنچتا ہے۔

اس سین میں وجے اپنے دائیں ہاتھ کے بجائے اپنے بائیں ہاتھ سے آخری رسومات انجام دیتا ہے۔ ایسے وقت میں جیسے ہی وہ اپنا ہاتھ آگے بڑھاتا ہے تو اس کے بازو پر ’میرا باپ چور ہے‘ لکھا نظر آتا ہے۔ یہ منظر دراصل امیتابھ بچن نے خود تجویز کیا تھا۔

فلم کی مقبولیت اتنی زیادہ ہو گئی کہ ریلیز ہونے کے بعد لوگوں میں بیج نمبر 786 کی طرز پر کار نمبر 786 حاصل کرنے کی دوڑ لگ گئی۔

دیوار کو سات ایوارڈز ملے لیکن امیتابھ کو نہیں

فلم میں پروین بابی اور نیتو سنگھ نے بھی کام کیا تھا۔ پروین بابی کو جس انداز میں دکھایا گیا وہ اس دور کی فلموں سے بالکل مختلف تھا۔ اس میں پروین بابی ایک سیکس ورکر کے کردار میں تھیں، جو سگریٹ اور شراب پیتی ہیں۔

دیوار کی خوبصورتی یہ تھی کہ پروین بابی کے کردار کو نہ تو اخلاقیات کے نقطہ نظر سے کمتر روشنی میں دکھایا گیا اور نہ ہی جدیدیت کے کسی پیمانے پر مبالغہ آرائی کی گئی۔

بحث ادھوری رہے گی اگر ہم فلم میں ملک راج داوڑ (افتخار) اور سامنت (مدن پوری) کی بات نہ کریں۔

ویسے تو فلم شعلے اور دیوار کی شوٹنگ ایک ساتھ ہوئی تھی۔

امیتابھ بچن نے ٹوئٹر پر لکھا تھا کہ دیوار کے کلائمکس سین کی شوٹنگ پوری رات اور صبح 6 بجے تک ممبئی میں چلتی تھی اور وہاں سے وہ شعلے کے لیے بنگلور کے لیے فلائٹ لیتے تھے۔

دیوار کو سات فلم فیئر ایوارڈز دیئے گئے لیکن امیتابھ بچن کو اس سال بہترین اداکار کا ایوارڈ نہیں ملا۔ سنجیو کمار کو آندھی اور شعلے کے لیے نامزد کیا گیا تھا اور انھیں یہ ایوارڈ آندھی کے لیے ملا۔

دیوار میں دو بھائیوں کی لڑائی میں امیتابھ بچن نے ششی کپور سے پوچھا: ’میرے پاس کار ہے، بنگلہ ہے، بینک بیلنس ہے، تمہارے پاس کیا ہے؟‘

سب کچھ ہوتے ہوئے بھی کچھ نہ ہونا شاید دیوار کے ہیرو کا المیہ ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.