’آنکھیں بند کر لو، جو کہا جا رہا ہے کرتے رہو‘: وہ یہودی جنھیں گیس چیمبرز میں کام کرنے پر مجبور کیا گیا

آشوٹز-برکیناؤ جیسے نازی جرمنی کے قائم کیے گئے قتل عام کے کیمپوں میں یہودی قیدیوں کی ایک خصوصی یونٹ تعینات تھی جنھیں سونڈرکمانڈوز کہا جاتا تھا۔ انھیں ساتھی یہودیوں کو گیس چیمبروں تک لے جانے، اور لاشوں کو ہٹانے اور جلانے کا کام سونپا گیا تھا۔
ہنگری سے آنے والے یہودیوں میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل تھے
Getty Images
جنگ کے دوران کم از کم 13 لاکھ افراد کو آشوٹز برکیناؤ کے حراستی کیمپ میں بھیجا گیا، جن میں سے تقریباً 90 فیصد یہودی تھے

انتباہ: اس تحریر کے کُچھ حصے بعض قارئین کے لیے تکلیف کا باعث ہو سکتے ہیں۔

انھیں سونڈرکمانڈوز کہا جاتا تھا اور وہ نازیوں کی جانب سے قائم کردہ 16 ممالک کے یہودی قیدیوں پر مشتمل ایک سپیشل یونٹ کا حصہ تھے جنھیں ہولوکاسٹ کے دوران آشوٹز لایا گیا تھا جہاں وہ جان لیوا مشینوں پر کام کیا کرتے تھے۔

یہ نہ جرمن شہری تھے اور نہ ان کے اتحادی۔

داریو گبائی بھی ان سونڈر کمانڈوز میں سے ایک تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میں قبرستان میں کام کرتا تھا۔‘

داریو گبائی آشوٹز کے سابق حراستی کیمپ کے ان قیدیوں میں شامل تھے جو نازیوں کے ’فائنل سولیوشن‘ کے عینی شاہدین میں سے ایک تھے۔ ’فائنل سولیوشن‘ در اصل یورپ سے یہودیوں کو ختم کرنے کا نازی منصوبہ تھا جس کے نتیجے میں 60 لاکھ یہودی قتل ہوئے۔

داریو گبائی
Getty Images
داریو گبائی نے نومبر 2018 میں یو ایس سی شواہ فاؤنڈیشن میں اپنی آزمائشوں کے بارے میں بات کی

آشوٹز-برکیناؤ کمپلیکس انسانی تاریخ کی سب سے بڑی اجتماعی مقتل گاہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق وہاں 11 لاکھ لوگ موت کے گھاٹ اتار دیے گئے تھے، جن میں 90 فیصد سے زیادہ یہودی تھے۔ یہ پوری دوسری جنگ عظیم کے دوران برطانیہ اور امریکہ میں ہونے والی مشترکہ اموات سے زیادہ ہے۔

آشوٹز- برکیناؤ کو بالآخر سوویت فوجیوں نے 27 جنوری 1947 کو آزاد کروایا تھا۔ اس دن کو اب ہولوکاسٹ دن کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔

بالوں کا کاٹنا

ہولوکاسٹ کی شکار خواتین کے بال
Getty Images
آشوٹز برکیناؤ کے ریاستی عجائب گھر میں قتل ہونے والی خواتین سے جمع کیے گئے بالوں کی نمائش

سونڈرکمانڈو یونٹ کے ارکان کو قتل کے عمل میں مدد کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ در اصل ہٹلر کا ایلیٹ نیم فوجی یونٹ ایس ایس حقیقتاً قتل و غارت گری کا کام کرتا تھا اورسونڈر کمانڈوز ان کی مدد کرتے تھے۔

سونڈرکمانڈوز کو لاشوں کو جلانے سے پہلے ان کے سونے کے دانتوں کو نکالنے اور پوشیدہ قیمتی سامان کی تلاشی کا کام دیا گیا تھا۔

گبائی کو مقتول خواتین کے بال کاٹنے اور انھیں جمع کرنے کا خاص کام سونپا گيا تھا۔

کئی دہائیوں بعد انھوں نے یو ایس سی شواہ فاؤنڈیشن میں اپنے تجربات کو بیان کیا ہے۔ یہ فاؤنڈیشن ہولوکاسٹ سے بچ جانے والوں کے انٹرویو کے لیے وقف امریکی تنظیم ہے۔

گبائی نے یاد کرتے ہوئے کہا کہ ’میں اپنے آپ سے کہتا تھا کہ میں کیسے زندہ بچوں گا؟ خدا کہاں ہے؟‘

پولینڈ کے ایک شخص نے انھیں ہمت رکھنے کی ترغیب دی اور انھوں نے اس شخص کے مشورے کو سنجیدگی سے لیا۔

’میں نے اپنے آپ سے کہا کہ میں ایک روبوٹ ہوں۔۔۔ آنکھیں بند کرو اور جو بھی کہا جا رہا ہے بغیر زیادہ پوچھے کرو۔‘

شواہد

گیڈون گریف آشوٹز میں
Gideon Greif
1993 میں اسرائیلی سونڈرکمانڈو گیڈون گریف اور ان کے خاندان کے افراد کو آشوٹز برکیناؤ لے جایا گيا اور وہاں ان کی ذاتی شہادتیں ریکارڈ کیں

سنہ 1980 کی دہائی میں اسرائیل میں مقیم ہولوکاسٹ کے تاریخ دان پروفیسر گیڈون گریف نے سونڈرکمانڈوز کے بارے میں تحقیق شروع کی تھی۔

ڈاکٹر گریف نے ان کے بارے میں اپنی پہلی کتاب ’وی ویپٹ وداؤٹ ٹیئر‘ یعنی ’ہم بغیر آنسو کے روتے رہے‘ میں 31 سونڈرکمانڈوز کے تجربات کو دستاویزی شکل دی تھی۔

ڈاکٹر گریف کے ذریعے منظرِ عام پر آنے والے سونڈرکمانڈوز میں سے ایک یاکوف بھی تھے جو داریو گبائی کے بھائی تھے۔

یاکوف نے اپنے دو کزنز کو گیس چیمبر میں آتے دیکھا تھا۔ انھوں نے ان سے کہا کہ وہ اس جگہ کے قریب بیٹھ جائیں جہاں سے گیس چھوڑی جاتی ہے تاکہ انھیں فوری اور بے درد موت ملے۔

انھوں نے بعد میں ڈاکٹر گریف کو بتایا تھا کہ انھوں نے اس خیال سے یہ ہدایت دی تھی کہ ’وہ زیادہ تکلیف نہ اٹھائيں۔‘

یہودی خواتین موت سے قبل
The State Museum Auschwitz-Birkenau
سونڈرکمانڈو یونٹ کی طرف سے لی گئی تین خفیہ تصاویر میں سے ایک میں یہودی خواتین کو کپڑے اتار کر گیس چیمبر کی طرف ہانکتے ہوئے دکھایا گیا ہے

جوزف ساکر 1986 میں ڈاکٹر گریف سے ملنے والے پہلے سونڈرکمانڈو تھے۔ جوزف ساکر کو اکثر اس جگہ پر تعینات کیا جاتا تھا جہاں خواتین کو کپڑے اتارنے کے لیے کہا جاتا تھا۔

ساکر نے بتایا کہ ایسے مواقع پر’میں اپنا سر دوسری طرف موڑ لیتا تھا اور اس بات کو یقینی بناتا تھا کہ وہ زیادہ شرمندہ نہ ہوں۔‘

شاول چاسن کو گیس چیمبر میں مرنے والوں کی لاشیں نکال کر لفٹوں میں رکھنی پڑتی تھیں اور وہ انھیں قبرستان لے جاتے تھے۔ انھوں نے ڈاکٹر گریف کو بتایا کہ کس طرح انھوں نے ہمیشہ اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی کہ لاشوں کو گیس چیمبروں کے فرش پر گندگی اور ملبے پر نہ گھسیٹا جائے۔

ایک اور سونڈرکمانڈو نے بتایا کہ کس طرح انھوں نے پولینڈ کے برہنہ بچوں کے ایک گروپ کو یہودیوں کی مناجات ’شیما یسرائیل‘ گاتے سنا اور وہ گاتے ہوئے مکمل نظم و ضبط کے ساتھ گیس چیمبر میں داخل ہوئے۔

سلگتے گڑھے

ہولوکاسٹ کے شکار لوگوں کو ایک کھلے گڑھے میں جلایا گيا
The State Museum Auschwitz-Birkenau
ایک کھلے گڑھے میں لاشوں کو جلانے کی ایک خفیہ تصویر

اسرائیل کے ہولوکاسٹ کی یادگار یاد واشم میں درج ہے کہ مئی 1944 میں ہنگری کے یہودیوں کی جلاوطنی شروع ہونے کے بعد کس طرح ہلاکتیں بڑھیں۔ اس کے مطابق ’صرف آٹھ ہفتوں میں، تقریباً 4,24,000 یہودیوں کو آشوٹز-برکیناؤ کے لیے جلاوطن کر دیا گیا۔‘

ہلاکتوں کی شرح قبرستان میں موجود گنجائش سے کہیں زیادہ تھی۔ لیکن قبرستان کا انچارج جرمن افسر اوٹو مول بے لگام تھا اور اس نے سونڈرکمانڈو کو مزید آگ کے گڑھے کھودنے کا حکم دیا۔

سونڈرکمانڈو کی طرف سے لی گئی ایک خفیہ تصویر میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ لاشوں کو ایک کھلی جگہ گڑھے میں جلایا جا رہا ہے۔ اس نے بعد میں اس بارے میں قیمتی شواہد فراہم کیے کہ کیمپ میں کیا ہوا تھا۔

ناکام بغاوت

سونڈرکمانڈو کو باقی قیدیوں کے مقابلے میں نسبتاً زیادہ خوراک اور رہنے کے بہتر حالات دیے گئے تھے۔ بقیہ قیدیوں کو تو صرف پانی والا سوپ ملتا تھا۔

پھر بھی انھیں ان کی ملازمت نے بہت کم تحفظ فراہم کیا۔ نازی تقریباً ہر چھ ماہ بعد سونڈرکمانڈو کے ارکان کو بھی مار ڈالتے تھے اور نئے لوگ لاتے تھے۔

نازیوں نے ان کے دلوں میں خوف پیدا کرنے کے لیے بہت سی سزائیں دیں جن میں گولی مارنا، آگ میں پھینکنا، تشدد کا نشانہ بنانا، مارنا پیٹنا اور گرل پر برہنہ لیٹانا شامل تھا۔

ڈاکٹر گریف کہتے ہیں کہ ’وہ مسلسل صدمے کی حالت میں رہتے تھے۔ انھوں نے روزانہ ہزاروں یہودیوں کو قتل ہوتے دیکھا۔ زندہ رہنا ان کے لیے ایک بڑا چیلنج تھا۔‘

انھیں بھی الگ رکھا جاتا تھا اور ہر وقت ان کی نگرانی کی جاتی تھی۔ اس کے باوجود انھوں نے ایک موقعے پر بغاوت کی کوشش کی جسے سونڈرکمانڈو بغاوت کے نام سے جانا جاتا ہے۔

ڈاکٹر گریف کہتے ہیں کہ ’سنیچر سات اکتوبر 1944 کی بغاوت کی منصوبہ بندی میں دو بھائی شامل تھے۔ یہ ایک یہودی بغاوت تھی۔ یہ جرات کی داستان ہے۔ اسے سنہری حروف میں لکھا جانا چاہیے۔‘

اس دن سونڈرکمانڈو یونٹ کے کچھ قیدیوں نے پتھروں سے اپنے ایس ایس گارڈز پر حملہ کر دیا اور ایک قبرستان میں آگ لگا دی۔ اس بغاوت کو تیزی سے کچل دیا گيا اور 451 سونڈر کمانڈوز کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔

آشوٹز کے قبرستان
Getty Images
عام طور پر آشوٹز کے قبرستان کے تندوروں میں چار سے پانچ لاشوں کو ایک ساتھ جلایا جاتا تھا

مظالم کو دستاویزی شکل دینا

مارسل ندجاری جیسے کئی دوسرے سونڈرکمانڈوز نے کاغذوں کے ٹکڑوں پر پیغام لکھ کر اپنا غصہ ریکارڈ کیا تھا۔

ندجاری نے نومبر 1944 میں لکھا کہ ’میں غمزدہ نہیں ہوں کہ میں مر جاؤں گا، لیکن مجھے دکھ اس بات کا ہے کہ جیسا میں بدلہ لینا چاہتا ہوں ویسا بدلہ نہیں لے پاؤں گا۔‘

ان کے اس پیغام کے مطابق ہر بالغ زندہ جلا دیے جانے والے شخصکی راکھ کا وزن تقریباً 640 گرام تھا۔

اس کے بعد یونانی یہودی نے اپنا 13 صفحات پر مشتمل نسخہ تھرمس فلاسک میں چھپا دیا، جسے اوپر سے پلاسٹک سے بند کر دیا گیا تھا۔

ندجاری اور دیگر کی طرف سے چھوڑے گئے پیغامات برسوں بعد برآمد ہوئے ہیں اور بڑی محنت سے اس کی وضاحت کی گئی ہے۔ یہ اب آشوٹز کے سکرولز یا پُلندے کے نام سے مشہور ہیں۔

انصاف

ہولوکاسٹ مورخ ڈاکٹر گيڈین گریف
Gideon Greif
ڈاکٹر گریف کا کہنا ہے کہ سونڈرکمانڈو یونٹ مجرم اور شکار کے درمیان کے فرق کو دھندلا کرنے کے لیے بنایا گیا تھا

بہر حال 100 کے قریب سونڈرکمانڈوز جنگ کی تباہ کاریوں سے بچنے میں کامیاب رہے۔ ان میں سے بعض نے جنگی جرائم کے مقدمات میں فعال کردار ادا کیا۔

ہنریک ٹوبر نے ایس ایس کمانڈر اوٹو مول کے خلاف گواہی دی۔

ٹوبر نے ایک امریکی ملٹری ٹریبونل کی طرف سے قائم کردہ مقدمے کی سماعت کے دوران یاد کرتے ہوئے کہا کہ ’متعدد مواقع پر مول نے لوگوں کو زندہ جلتے گڑھوں میں پھینکا تھا۔‘

آخر کار مول کو ’ڈیتھ مارچ‘ میں ان کے کردار کی وجہ سے سزا سنائی گئی اور پھانسی دی گئی۔

اس کے باوجود بہت سے مجرموں کو کبھی سزا نہیں دی گئی۔ بی بی سی اور پی بی ایس کی دستاویزی سیریز ’آشوٹز‘ کے مطابق آشوٹز کے تقریباً 7,000 عملے میں سے تقریباً صرف 800 کو قانون کا سامنا کرنا پڑا۔

ڈاکٹر گریف نے مشتبہ نازی مجرموں کے خلاف یورپی عدالتوں میں گواہی دی ہے، جہاں مشتبہ نازیوں پر اب بھی مقدمہ چل رہا ہے۔

گبائی بالآخر لاس اینجلس چلے گئے اور سنہ 2020 میں وہیں انتقال کر گئے۔ 2015 میں انھوں نے کیمپ کی آزادی کی 70 ویں سالگرہ کے موقع پر آشوٹز کا دورہ کیا تھا۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کس چیز نے انھیں زندہ رکھا۔

’میں (خود سے) کہتا کہ یہ جنگ ایک دن ختم ہونے والی ہے اور اس کے ختم ہونے تک مجھے زندہ رہنا ہے تاکہ میں دنیا کو اس کی روداد سناؤں گا۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.